• 19 اپریل, 2024

سیرت و سوانح حضرت سید ولی اللہ شاہ محدث دہلویؒ مجدد دوازدہم

نسب نامہ و ولادت

حضرت ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلویؒ کے والد کا نام شاہ عبد الرحیم تھا۔شاہ عبدالرحیم کی طبیعت سپہ گری کی طرف مائل نہ ہوئی۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا مشغلہ زیادہ پسند آیا ،اس لئے تلوار کی بجائے قلم سنبھالا اور اس سے خلق خدا کی خدمت کی۔اُن کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ تھا اور وہ اپنا بیشتر وقت مذہبی کتابوں کے مطالعہ ہی میں صرف کیا کرتے تھے۔ شاہ عبدالرحیم ایک متقی، عالم اور صوفی تھے۔ جب شہنشاہ عالمگیر کے دربار کے بعض علماء فتاویٰ عالمگیری کی تدوین کر رہے تھے جو بڑی ضخیم کتاب ہے تو آپ بھی اس کام میں حصہ لینے لگے اور کچھ عرصے تک ان علماء کی معاونت کی۔ شاہ عبدالرحیم نے ہندوستان میں دینی علم کی روشنی پھیلانے کے لئے مدرسہ رحیمیہ کے نام سے ایک درسگاہ بھی قائم کی جس میں آپ خود بھی طلباء کو درس دیتے تھے۔ جو طلباء آپ سے کسب علم کرتے تھے اُن پر، آپ کے خلوص اور مذہبی شغف کی وجہ سے آپ کی تعلیم کا بڑا گہرا اثر پڑتا تھا۔آپ کی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ مغلوں کے دربار کی ابتر حالت دیکھ کر آپ نے جو پیشگوئیاں کیں ان میں سے بہت سی صحیح نکلیں۔

(شاہ ولی اللہ صفحہ12 تا 14)

آپ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے ایک صاحبزادہ صلاح الدین تولد ہوئے جبکہ دوسری شادی بڑی عمر میں شیخ محمد پھلتی صاحب کی صاحبزادی سے کی، ان کے بطن سے دو صاحبزادے شاہ ولی اللہ اور شاہ اہل اللہ تولد ہوئے۔

(شاہ ولی اللہ کی قرآنی فکر کا مطالعہ صفحہ42)

حضرت سید ولی اللہ شاہ کا نسب نامہ والد ماجد کی طرف سے تو حضرت عمربن خطابؓ تک پہنچتا ہے اور والدہ محترمہ کی طرف سے سیدنا موسیٰ کاظمؒ سے جا کر ملتا ہے۔ اس لحاظ سے آپ نجیب الطرفین ہیں۔ آپؒ کا نسب نامہ اس طرح ہے۔

فقیر ولی اللہ بن الشیخ عبد الرحیم بن الشہیدوجیہ الدین بن معظم بن منصور بن محمد بن قوام الدین عرف قاضی قازن بن قاضی قاسم بن قاضی کبیرالدین عرف قاضی بدہ بن عبد الملک بن قطب الدین بن کمال الدین بن شمس الدین مفتی بن شیر ملک بن محمد عطاء ملک بن ابو الفتح ملک بن محمد عمرحاکم ملک بن عادل ملک بن فاروق بن جرجیس بن احمد بن محمدشہریار بن عثمان بن ہامان بن ہمایوں بن قریش بن سلیمان بن عفان بن عبداللہ بن محمد بن عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما۔

(شاہ ولی اللہ ؒاور ان کے تجدیدی کارنامے،صفحہ45،46)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ نے ہمارے خاندان سے پہلوں کو بھی امیر بنایا۔ حضرت مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی، فرید الدین شکر گنج میرے خاندان کے لوگ ہیں اور اب پھر بھی اس نے وعدہ کیا ہے کہ میں تیری اولاد پر فضل کروں گا۔‘‘

(خطبات نور صفحہ420)

حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ شوال 1114ہجری بمطابق فروری 1703ء، چہارشنبہ، طلوع آفتاب کے وقت موضع پھلت ضلع مظفرنگر (بھارت) میں پیدا ہوئے۔

(اردو دائرۂ معارف اسلامیہ جلد 13 صفحہ40)

آپ ؒ کا ذاتی نام ولی اللہ ابو الفیاض قطب الدین احمد بن معظم العمری الدہلوی تھا۔

(اردو دائرۂ معارف اسلامیہ ۔ جلد 23 صفحہ 39)

آپؒ کی پیدائش سے پیشتر شاہ عبدالرحیم کو اشارہ ہوا تھا کہ مولود کا نام قطب الدین احمد رکھنا ۔ولادت پر والد صاحب نے قطب الدین احمد کے علاوہ ولی اللہ کو بھی نام کا جزو بنایا۔

(اردو دائرۂ معارف اسلامیہ جلد 23 صفحہ39)

محمد مسعود عالم قاسمی صاحب لکھتے ہیں۔
’’شاہ صاحب کا مشہور نام ولی اللہ بن عبد الرحیم ہے اور اسی نام سے اپنی بیشتر کتابوں میں اپنے آپ کو شاہ صاحب نے موسوم کیا ہے۔ تاہم ان کی بعض تالیفات سے کئی اور ناموں کی نشاندہی ہوتی ہے مثلاً عبداللہ احمد اور قطب الدین۔ مگر ان ناموں سے وہ معروف نہیں ہوئے بعض تذکرہ نگار حضرات لکھتے ہیں کہ احمد نام، ابوالفیاض کنیت، ولی اللہ عرف، بشارتی نام قطب الدین اور تاریخی نام عظیم الدین مشہور ہے۔ لیکن شاہ صاحب کی بعض دوسری صراحتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قطب الدین احمد ایک ہی نام ہے۔‘‘

(شاہ ولی اللہ کی قرآنی فکر کا مطالعہ صفحہ 39)

تربیت و ابتدائی تعلیم اور شادی

جس زمانہ میں اس فخر خاندان اور فرید عصرکی ولادت ہوئی اُس وقت حضرت شیخ عبدالرحیم گو اعلیٰ درجہ کے دولتمند اورصاحب اقتدار نہ تھے لیکن پھر بھی متوسط درجہ کی حالت رکھتے تھے ۔ حضر ت شاہ ولی اللہؒ کی بڑے اہتمام سے پرورش ہوئی اور عمر کے ابتدائی حصہ میں اعلیٰ درجہ کی تربیت ہوئی جو کہ تعلیم کا لازمی جزو ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اپنی طالب علمی کا ابتدائی زمانہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم ہی کی نگرانی اور تربیت میں رہ کر گزارا۔ انہوں نے آپ کو قرآن مجید اور حدیث شریف کی مکمل ترین تعلیم دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ جب آپ کی عمر پانچ سال ہوئی تو آپ کو مکتب میں بٹھا دیا گیا ۔ ساتویں سال والد ماجد نے نماز روزہ شروع کرایا ۔ اسی سال کے آخرمیں قرآن کریم ختم (حفظ) کر کے فارسی اور عربی کی تعلیم شروع کی۔

(اردو دائرۂ معارف اسلامیہ جلد23 صفحہ40)

دس سال کی عمر میں شرح ملا جامی پڑھ لی اور مطالعہ کتب کی استعداد پیدا ہوگئی۔

(شاہ ولی اللہؒ اور ان کے تجدیدی کارنامے۔ص48)

اس کے بعد آپ کو علم منطق کی کتابیں پڑھائی گئیں۔حضرت شاہ ولی اللہؒ نے تیرہ سال کی عمر میں علوم مذکورہ میں کمال حاصل کر لیا تھا اور اس چھوٹی عمر میں فنون مذکورہ میں ارباب کمال میں شمار ہوتے تھے۔

جب آپ کی عمر چودہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد صاحب نے آپ کی شادی کرنے کا ارادہ کیا اور شاہ عبد الرحیم نے یہ سارا کام نہایت مستعدی اور جلدی سے کر دیا۔ سسرال والوں نے کچھ وقت اور مہلت طلب کی تو شاہ عبدالرحیم نے انہیں کہا کہ اس عجلت کا بھی ایک خاص سبب ہے جو بعد میں آپ سب پر ہویدا ہو جائے گا۔ اس پر وہ فوراً شادی پر آمادہ ہو گئے۔ اور اپنی بیٹی حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے نکاح میں دے دی۔ نکاح کے کچھ دن بعد لڑکی کی والدہ کی وفات ہو گئی اور چند دن بعد لڑکی کی نانی کا انتقال ہو گیا ۔ان اموات کو ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ والدہ کی وفات کے تھوڑے ہی عرصے بعد آپ کے والد صاحب بھی اس دار فانی سے رحلت فرما گئے۔ یہ تھا وہ مخفی بھید جس کی وجہ سے شاہ عبدالرحیم صاحب نے اپنے بلند اقبال صاحبزادے کی شادی میں عجلت کی تھی ۔ اس چھوٹی سی عمر میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کو ایک کے بعدایک غم، صدمہ اور مصیبت پہنچی جسے آپ نے نہایت صبر سے برداشت کیا اور بڑے ہی استقلال اور جوانمردی سے اس کا مقابلہ کیا۔

آپ نے عمر کے پندرھویں سال میں جب قدم رکھا تھا تو تفسیر بیضاویؒ کا ایک بڑا حصہ اپنے والد بزرگوار سے پڑھ لیا تھا اور انہوں نے آپ کوان تمام متعارفہ علوم و فنون کے عروج تک پہنچا دیا تھا جو ان دنوں اور ان شہروں میں رائج اورعلماء و فضلاء کے درس میں داخل تھے۔ آپؒ نے علم تصوف میں کمال حاصل کیا اوراس فن میں نہایت تبحر کے ساتھ وہ قیمتی اورآبدارموتی تالیف وتصنیف کے سلسلہ میں پروئے کہ جس سے آپ کے علم تصوف کی چمک دُور دُور تک پھیل گئی۔

مسندمدرسہ رحیمیہ

حضرت ولی اللہ شاہ محدث دہلویؒ کی عمر 17سال کی تھی کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اب مدرسہ رحیمیہ کی مسند خالی تھی۔ اس خالی مسند پر حضرت شاہ صاحبؒ بیٹھے اور بارہ سال تک کتب دینیہ اور معقولات کے درس میں مشغول رہے۔

(شاہ ولی اللہؒ اور ان کے تجدیدی کارنامے صفحہ51)

حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ بیشتر اوقات مطالعہ کتب، تعلیم و تربیت، تصنیف اور ذکر و فکر میں بسر کرتے ۔اپنے منصبی فرائض سے کبھی غافل نہ ہوتے، نظم و ضبط اور وقت کی پابندی کا خیال رکھتے، اشراق کے بعد بیٹھتے تو دوپہر تک مسلسل بیٹھے رہتے اور دینی کام میں مشغول رہتے۔ گویا آپ کی زندگی ایک مستعد، منظم اور محنتی شخصیت کا نمونہ تھی۔

شخصیت وکردار

آج بھی اُمت مسلمہ آپ کو ’’حکیم الامت‘‘ اور ’’مجددملت‘‘ کے القاب سے یاد کرتی ہے۔ آپ کے خارق عادت علمی کارناموں اور غیرمعمولی ذہانت و دینی خدماتِ جلیلہ کو دیکھ کر آپ کے ہمعصر علماء و فضلاء نے بھی بڑی قدرو منزلت سے آپ کاذکر کیا ہے۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ کسی مسئلہ کو مقلد انہ نظر سے نہ دیکھتے بلکہ کتاب و سنت پر پیش کرتے اور پھر فقہ حنفیہ کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی اس کی تحقیق کرتے، جب ہر طرح اُسے ٹھیک پاتے تو قبول فرما لیتے ورنہ متروک قرار دیتے۔ گویا آپ ہر معاملہ پر ایک محقق کی حیثیت سے نظر ڈالتے تھے۔ کسی خاص مذہب کی جانبداری اور دیگر مذاہب سے عناد آپ کاطریقہ نہ تھا۔ جس مذہب کی کسی مسئلہ میں تائید فرماتے تو دلائل کی بنا پر اور مخالفت بھی بر بنائے دلیل۔اس تائید و مخالفت میں کوئی عصبیت اور جانبداری کارفرما نہ ہوتی۔ بہت سے مسائل ہیں جن میں آپ نے مسلک حنفی کی پیروی اختیار کی ہےاور بعض امور ایسے ہیں جن میں دیگر مذاہب کو ترجیح دی ہے اور انہی کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ بعض مقامات پر آپ نے دونوں مذاہب میں جمع کیا ہے لیکن جہاں یہ بات ناممکن نظر آئی وہاں جس کو اَقْرَبُ اِلَی السُّنَّةِ اور صحیح ترپایا اسے ہی اختیار کیا۔

حضرت شاہ ولی اللہ و دیگر دو بزرگوں کا ایک مشہور قصہ

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’دہلی کے تین بزرگوں کا قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص کے پاس مشتبہ مال تھا وہ ایک بزرگ کے پاس لے گیا کہ آپ اسے لے لیں ۔ تو انہوں نے کہا کہ توبہ توبہ میں اسے نہیں لے سکتا۔ دوسرے کے پاس گیا تو اس بزرگ نے بھی انکار کیا مگر جب وہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لے گیا تو آپ نے رکھ لیا۔ اسے شک پڑا کہ شاہ صاحب کی نیت (نعوذ باللہ) خراب ہے وہ پہلے بزرگ کے پاس گیا اور یہ واقعہ بیان کیا کہ اس نے کہا۔ سنو ایک گھڑا پانی ہو۔ اس میں ایک قطرہ پیشاب کا پڑ جائے تو کل پانی پلید ہو گا یا پاک؟ اس نے جواب دیا۔ ناپاک۔ تب اس بزرگ نے فرمایا ۔ اگر ایک قطرہ سمندر کے پانی میں پڑ جائے تو وہ پانی پاک ہے یا پلید؟ اس نے کہا وہ تو پلید نہیں ہو گا۔ فرمایا یہی مثال میری اور شاہ ولی اللہ کی ہے۔ میں تو گھڑے کی مانند ہوں اس لئے مشتبہ مال سے بچتا ہوں۔ وہ سمندر ہیں ان کی اس میں بدنامی نہیں ۔ وہ اسے لے کر اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں گے یا اور مناسب کارروائی کریں گے۔ پھر وہ شخص دوسرے بزرگ کے پاس گیا اور ان سے شاہ صاحب والا واقعہ بیان کیا اس بزرگ نے بھی ایسی ہی مثال دی اور شاہ صاحب کی بریت کی۔ تب وہ خود شاہ صاحب کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ مجھے شبہ پڑ گیا ہے آپ نے وہ مشتبہ مال کیوں قبول کیا حالانکہ ان دو بزرگوں نے قبول نہیں کیا۔ فرمایا بھائی میلے کپڑے والے پر کوئی دھبہ پڑ جائے تو کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ سفید لباس والے ہوئے ان کو تو ذرا دھبہ گوارا نہ تھا اس لئے میں نے رکھ لیا انہوں نے انکار کر دیا۔ دیکھو ان بزرگوں کی نیک نیتی کہ سب نے حسن ظن سے کام لیا۔ جھگڑا پیدا ہوا نہ کوئی فتنہ اٹھا۔ اس شخص کا ایمان بھی سلامت رہا۔

(جماعت قادیان کو نصائح، انوارالعلوم جلد 4 صفحہ 23-24)

تحریر و تقریر اور شعری ذوق

ایک مصنف کی حیثیت سے حضرت ولی اللہ شاہ کا درجہ نہایت بلند ہے۔ آپ نے مروجہ طرزنگارش کو وسعت بخشی اور اس قابل کر دیا کہ وہ لفظی بناوٹوں اور بیجا ثقالت کی پابندیوں سے آزاد ہو کر حکیمانہ خیالات اور علمی مضامین کو بطریق احسن پیش کر سکے۔ باوجود عجمی اور ہندوستانی ہونے کے آپ نے عربی فصاحت و بلاغت کا بے نظیر نمونہ پیش کیا جس کی عظمت و کمال کا اعتراف اہلِ زبان نے بھی کیا ہے۔ آپ کی یہ صفت خاص تمام فا ضلوں کو تسلیم ہے کہ بڑے بڑے مضامین کو نہایت مختصر اور جامع الفاظ میں اس خوبصورتی سے ادا کرتے کہ مضمون کا اصلی اثراور زور پورا قائم رہتا۔ آپؒ جادوبیان مقرر تھے۔ مناظروں اور علمی مجلسوں میں بر جستہ جواب دیتے اور آدابِ مجلس کو ملحوظ رکھتے تھے۔

حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ اگرچہ فطری طور پر شاعر نہ تھے لیکن بعض اوقات جب قلبی واردات اور باطنی احساسات سے مضطرب ہوتے تو دلی تاثرات و جذبات کسی نہ کسی صورت سے کلامِ موزوں بن کر دل کی گہرائی سے نوک زبان پر آہی جاتے۔ عربی میں آپ کے نعتیہ قصائد اور فارسی میں کچھ غزلیں اور رباعیاں ملتی ہیں جو تمام تر آپ کے قلبی التہاب اور سوزو گدازکا عکس ہیں۔ آپ کوفی البدیہہ شعر گوئی پر قدرت حاصل تھی۔ آپؒ کےنعتیہ قصائد پر مشتمل ایک مجموعہ ’’اطیب النغم فی مدح سید العرب و العجم‘‘ کے نام سے ہے۔

رؤیت رسول ﷺ

حضرت شاہ ولی اللہ ؒ اپنے مشاہدات میں بیان فرماتے ہیں۔
’’مجھ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں میں سے یہ نعمت بھی عطا فرمائی کہ مجھے تو فیق دی حج بیت اللہ اور زیارتِ رسول ﷺ کی ۔ اور اس سے بڑھ کر یہ نعمت عطا ہوئی کہ میرا حج معرفت اور مشاہدہ کے ساتھ ہوا۔‘‘

(مقدمہ فیوض الحرمین)

کشفِ صحیح سے آنحضرت ﷺ کی صحبت حاصل ہونے کے متعلق ملفوظات میں درج ہے کہ
ذکر آیا کہ شاہ ولی اﷲ صاحب نے لکھا ہے کہ میں بھی تابعین میں سے ہوں کیونکہ ایک جن نے زمانہ نبی کریم ﷺ کا پایا تھا میں نے اس سے ملاقات کی۔ (حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے) فرمایا۔ اس سے بہتر کشفِ صحیح ہے جو بیداری کا حکم رکھتا ہے جو لوگ بذریعہ کشفِ صحیح آنحضرت ﷺ کی صُحبت حاصل کرتے ہیں وہ اصحاب میں سے ہیں۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ297)

اخلاق و عادات

محمد مسعود عالم قاسمی صاحب لکھتے ہیں۔
’’شاہ صاحب بچپن ہی سے ذہین اور محنتی ہونے کے ساتھ سنجیدہ باوقار اور نیک طینت تھے سادگی اور نفاست پسند ہونے کے ساتھ نازک طبع اور منکسر المزاج بھی تھے، فضول خرچی اور لغو کاموں سے دور رہتے تھے۔ دراصل شاہ صاحب کی زندگی پر ان کے والد کی شخصیت اور ان کی تعلیم و تربیت کا گہرا اثر تھا، شاہ صاحب کے والد استاذ، پیر، مربی سب کچھ وہی تھے، اس تاثر کا اظہار شاہ صاحب ان لفظوں میں کرتے ہیں ‘‘کسی باپ، کسی استاذ اور کسی مرشد کو میں نے نہیں دیکھا جو اپنے بیٹے اور شاگرد کے معاملہ میں اس قدر شفقت کا رویہ رکھتا ہو جو کہ اس فقیر کے ساتھ حضرت والد کا ہے۔‘‘

(شاہ ولی اللہ کی قرآنی فکر کا مطالعہ صفحہ47)

حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ کے بچپن کا زمانہ جیسا پیارا اور دلفریب تھا ویسا ہی جوانی کا عا لم نہایت دلفریب تھا اور یہ کریم الطبع نو جوان اس وقت بھی خلق مجسم تھا، جس کے عام اخلاق، ذاتی خو بیوں نے ایک عالم کو اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔جس کی شریفانہ چال، مہذبانہ طرزو روش نے تمام لوگوں کے دلوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ آپ کی کہولت کا زمانہ بچپن اور جوانی کے دونوں زمانوں سے زیا دہ مبارک تھا۔جو قوت اور علامت روی اس وقت تھی۔ وہی اب بھی ہے بلکہ تجربہ کی شان و شوکت اور پختہ کاری کی سرپرستی نے اس وقت اسے اور بھی چمکا دیا ۔ جو عجز و انکسار اور متواضعانہ اخلاق عالم شباب میں تھے وہی اس بڑ ھا پے کی حالت میں موجود ہیں۔

حضرت ولی اللہ شاہ صاحب ہر روز نیا جوڑا پہنتے خواہ دھلا ہوا ہوتا یا نیا ۔حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ ایک دفعہ جمعہ کے دن اچھا سا جبہ پہن کر مسجد میں آئے۔ اب اگر کوئی شخص ایسا پیدا ہو جو یہ کہے کہ اچھے کپڑے نہ پہننا فقیروں کی علامت ہے تو ہم اسے اس حدیث کا حوالہ دے کر بتا سکتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جمعہ کے دن نہایت تعہد سے صفائی کرتے اور اعلیٰ اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے بلکہ آپ صفائی کا انتہا تعہد رکھتے کہ بعض صوفیا نے جیسے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی گزرے ہیں یہ طریق اختیار کیا ہوا تھا کہ وہ ہرروز نیا جوڑا کپڑوں کا پہنتے خواہ وہ دھلا ہو ا ہوتا اور خواہ بالکل نیا ہوتا۔‘‘

(انوار العلوم جلد 14صفحہ 553)

عشق قرآن کریم

حضرت ولی اللہ شاہؒ کو قرآن کریم سے شغف اور تعلق عہد طفولیت ہی سے تھا۔ آپؒ قرآن کریم سے اپنی وابستگی کو اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت تصور کرتے تھے اور اس قدر اسے اہمیت دیتے تھے کہ گویا وہ ان کا حاصل زندگی ہو۔ اسی لئے باربار انہوں نے اس نعمت کے تحدث کو ضروری سمجھا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔

’’حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے متعلق ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ بادشاہ ان سے ملنے کیلئے آیا وہ کھڑے ہو گئے اور بادشاہ سے ملے اور پھر بیٹھ گئے پھر وزیر ملنے کیلئے آیا تو وہ اسی طرح بیٹھے رہے کھڑے نہیں ہوئے۔ اس کے بعد بادشاہ کا پہریدار آیا تو پھر وہ کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہونے کے بعد بیٹھ گئے جب یہ لوگ چلے گئے تو کسی نے کہا آپ نے یہ کیا کیا کہ جب بادشاہ آیا تو آپ اس کے اعزا ز کیلئے کھڑے ہو گئے۔ وزیر آیا تو کھڑے نہ ہوئے لیکن پہریدار آیا تو پھر کھڑے ہو گئے۔ ا نہوں نے فرمایا بادشاہ کے آنے پر میں اس لئے کھڑا ہوا تھا کہ بادشاہ کی اطاعت کا حکم ہے۔ وزیر کے آنے پر میں اس لئے کھڑا نہیں ہوا کہ وزیر کی اطاعت کا حکم نہیں۔ اس کے بعد پہریدار آیا تو میں پھر کھڑا ہو گیا مگر اس لئے کہ وہ حافظ قرآن تھا۔ اب دیکھو پہریدار ایک ادنیٰ ملازم تھا لیکن چونکہ شاہ ولی اللہ کے محبوب کا کلام اس نے یاد کیا ہوا تھا اس لئے باوجود چھوٹا ہونے کے آپ اس کے آنے پر کھڑے ہو گئے۔ یہی بات حضرت مسیح بیان فرماتے ہیں کہ اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھے بھی عزیز سمجھتے اور میری مخالفت نہ کرتے۔ اسی نقطہ نگاہ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باوجود اس کے کہ آپ کا رتبہ بہت بڑا تھا فرمایا کہ

خاکم نثار کوچہ آل محمدؐ است

(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ210)

تربیت رسولﷺ

حضرت ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلویؒ فرماتے ہیں۔
’’سَلَکَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ بِنَفْسِہٖ وَ رَبَّانِیْ بِیَدِہٖ فَاَنَا اُوَیْسِیَّة وَ تَلْمِیْذَہ بِلَا وَاسَطٍ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ وَذٰلِکَ انَّہٗ اَرَانِی ﷺ رُوْحَہُ الْمُکَرَّمَةُ فَعَرَفَنِی بِھَا‘‘ ترجمہ: مجھے خود رسول اللہ ﷺ نے سالک بنایا اور آپ نے خود میری تربیت فرمائی لہٰذا میں کسی واسطے کے بغیر رسول اللہ ﷺ کا شاگرد ہوں اور اویسی ہوں اور یہ بات اس بناء پر ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی روح مکرمہ مجھے دکھلائی اور اس سے مجھے عارف بنایا۔

(فیوض الحرمین صفحہ126)

دعوی مجددیت

ترجمہ از عربی: ‘‘جب مجھ پر حکمت کا دائرہ مکمل ہو گیا تو اللہ تعالی نے مجھے مجددیت کی پوشاک پہنادی۔

(تفہیمات الہٰیہ،جلد2 ص133)

حضرت ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلویؒ فرماتے ہیں۔
’’رَأَ یْتُنِیْ فِی الْمنَامِ قَائِمَ الزَّمَانٖ اَعْنِیْ بِذٰلِکَ اَنَّ اللّٰہَ اِذَا اَرَادَشَیْئًا مِنْ نّظَامِ الْخَیْرِ جَعَلَنِیْ کَالْجَارِحَةِ لِاِتْمَامِ مُرَادِہٖ‘‘ ترجمہ: میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں قائم الزماں ہو چکا ہوں جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب بھلائی کے کسی نظام کو قائم فرمانا چاہا تو مجھے اس مقصد کی تکمیل کے لئے واسطہ بنایا۔

(فیوض الحرمین صفحہ89)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’فَانْظُرْ اَیُّہَا الْعَزِیْزُ۔۔کَانَ اللّٰہُ مَعَکَ۔ إِنَّ ھذَا الْقَائِل بِتَأثِیْرِ النّجُوْمِ عَالِمٌ رَبَّانِیٌّ مِنْ عُلَمَاءِ الْہِنْدِ، وَکَانَ ھُوَ مُجَدِّد زَمَانِہٖ، وَفَضَائِلُہٗ متبَیِّنَةفِیْ ھذِہِ الدِّیَارِ، وَھُوَ إِمَامٌ فِیْ أَعْیُنِ الْکِبَارِ وَالصِّغَارِ، وَلَا یَخْتَلِفُ فِیْ عُلو شَاْنہ اَحَدٌ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘

(حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد7 صفحہ291)

ترجمہ : پس اے عزیز! غور کر۔ اللہ تیرے ساتھ ہو کہ ستاروں کی تاثیرات کا قائل یہ شخص علماء ہند میں سے ایک عالم ربانی ہے جو اپنے زمانے کا مجدد تھا۔ جس کے فضائل اس ملک میں ظاہر وباہر ہیں اور وہ بڑوں اور چھوٹوں کی نگاہ میں امام ہے اور مومنوں میں سے کوئی بھی ان کی بلند شان میں اختلاف نہیں رکھتا۔

خدمات

حضرت ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی ؒ جامع کمالات شخصیت کے حامل تھے۔ اس لئے ان کی خدمات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے اور مختلف سمتوں میں پھیلا ہوا ہے۔آپؒ اگر ایک طرف سماجی مصلح کی حیثیت سے سامنے آئے، تو دوسری طرف ایک عظیم سیاسی مبصر کے طور پر ابھرے۔ ایک طرف وہ معاشی اصلاحات کے داعی ہیں تو دوسری طرف علوم و فنون کی تشکیل نو کے مبلغ نظر آتے ہیں۔ایک طرف وہ ملک کے ہرطبقہ کو اس کے منصبی فرائض یاد دلاتے ہیں اور دوسری طرف روحانی پیشوا اور باطنی امراض کے معالج دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔

’’روحانی آبادی کی کمی کی وجہ سے مولوی محمد قاسم صاحب نانوتویؒ نے دیکھ لیا تھا کہ یہاں اب روحانی نسل جاری کرنی چاہئے تاکہ یہ علاقہ اسلام اور روحانیت کے نور سے منور ہو جائے۔ چنانچہ انہوں نے بڑا کام کیا ۔ جیسے ان کے پیر حضرت سید احمد صاحب بریلوی ؒ نے بڑا کام کیا تھا اور جیسے ان کے ساتھی حضرت اسماعیل صاحب شہید ؒ کے بزرگ اعلیٰ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے بڑا کام کیا تھا۔ یہ سارے کے سارے لوگ اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ ہیں درحقیقت ہر زمانہ کا فرستادہ اور خدا تعالیٰ کا مقرب بند ہ اپنے زمانہ کے لئے اسوۂ حسنہ ہوتا ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 2۔صفحہ402)

حضرت ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی ؒ کا وجود مسلمانوں کے لئے ابر رحمت بن کر ظاہر ہوا ۔وہ زمانہ مسلمانوں کے لیے بحیثیت قوم تلاطم کا زمانہ تھا ۔نہایت ناگفتہ بہ حالات تھے ۔ان حالات میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کو خدا تعالی کی طرف سے مسلمانان ہندکی قوت کی بحالی اور ان میں دینی روح پیداکرنے کی اہم ذمہ داری سونپی گئی ۔اس فرض کو آپ نے ایسے احسن رنگ میں نبھایا کہ آپ کا کردار تاریخ میں ایک اہم باب کا رنگ رکھتا ہے ۔ اپنے زمانہ کی سیاسی تاریخ میں آپ کا وجود روشنی کے مینار کی طرح نظر آتا ہے۔مرہٹوں اور سکھوں کے فتنوں کے باعث اور انگریز کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ریشہ دوانیوں کے اثر سے مسلمان حکمران پریشان تھے۔اور انحطاط کی طرف چاروناچاررواں تھے۔ قوم کی یہ ناگفتہ بہ حالت آپ کی طبیعت پر بہت اثر انداز ہوئی۔آپ کے دلی درد کو عالم الغیب نے قبول فرمایا اور قوم کی گری ہوئی حالت اور مصائب پیش آمدہ کے اور اس کے مداوا کے متعلق ایک رویا میں آپ کو بعض امور دکھائے۔یہ رویا آپ کی کتاب فیوض الحرمین میں درج ہے۔ یہ خواب حضرت ولی اللہ شاہ صاحب ؒکی تحریک اور تاریخ زندگی کی ایک بنا ہے۔اس سے متاثر ہوکر اور اس میں موجود اشارہ الہی کے تحت آپ نے مسلمانوں کو منظم کرنے اور ان کو علم دین سے مزین کرنے کا پختہ اور وسیع الاثر پروگرام بنایا۔

افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی،حضرت ولی اللہ شاہؒ اور دیگر دردمند ہندی مسلمانوں کی استدعا پر مسلمانوں کی معاند طاقتوں کی سرکوبی کے لئے ہندوستان آیا۔ چنانچہ احمد شاہ ابدالی ہندوستان آیا اور کئی ایک معرکوں سے فتح یاب ہوتا ہوا آخر پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو شکست دی۔احمد شاہ ابدالی کے ہندوستان میں آمد سے آپؒ کی خواب میں مذکورہ کوائف اتم رنگ میں ظہور پذیر ہوئے۔ آپؒ نے دینی علوم کے درس و تدریس کے ساتھ، نظام حکومت کی تشکیل پر قلم اٹھایا تو ایک مکمل خاکہ پیش کیا ،اس ضمن میں آپ نے دو امور بطوراساس بیان فرمائے۔

اول:۔ علمی و عملی اصلاح کے لئے قرآن کریم کے علم اور اس کی حکمتوں کو ذہنوں میں مستحضر کر کے انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا جائے۔

دوئم:۔اقتصادی تفاوت کو کم سے کم کیا جائے۔کیونکہ اس تفاوت سے بدامنی، بے چینی اور نظام میں بے بنیادی پیدا ہوتی ہے۔

آپ کے پیش کردہ نظام کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ اس کی پشت پر قرآن کریم کا ضابطۂ حیات تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’ہندوستان میں بہت بڑا اثر حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ اور حضرت سید احمد صاحبؒ بریلوی کے طریق تبلیغ کا ہوا ہے۔ حضرت سید احمد صاحبؒ درحقیقت حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ دہلوی کے علمی طور پر شاگرد ہی تھے اور اِن دونوں بزرگوں نے جس طریق سے کامیابی حاصل کی وہ یہی تھا کہ انہوں نے درس جاری کر دیئے جن میں جوق درجوق لوگوں نے شامل ہونا شروع کر دیا اور اِس طرح سارے ہندوستان میں اِن کے شاگرد پھیل گئے۔ پہلے ایک شخص اِن سے تعلیم لے کر نکلا، پھر دوسرا شخص نکلا، پھر تیسرا شخص نکلا یہاں تک کہ انہوں نے درسوں کے ذریعہ سب جگہ اپنے عقائد پھیلا دیئے۔‘‘

(انوار العلوم جلد17 صفحہ298)

علم قرآن کی اشاعت

قرآن کریم انسانوں کی ہدایت کا دائمی سرچشمہ ہے اور مسلمانوں کی اصلاح و تربیت اور ان کی علمی و فکری ترقی قرآن مجید ہی کے فہم و تدبر اور اس کے مطابق زندگی گزار نے سے وابستہ ہے۔ اس لئے حضرت ولی اللہ شاہ صاحب ؒنے اپنی تو جہ قرآن شریف اور علوم قرآن کی تعلیم و ترویج پر زیادہ صرف کی۔ حضرت ولی اللہ شاہؒ کے زمانہ میں قرآن مجید یقیناً پڑھا جاتا تھا۔ دینی درسگاہوں میں جلالین، کشاف اور مدارک التنزیل جیسی تفسیریں داخل نصاب بھی تھیں مگر اس کے باوجود یہ کہنا بالکل درست ہے کہ مسلمانوں کی علوم قرآن سے جذباتی وا بستگی ان میں علمی اور فکری پختگی پیدا کرنے کی بجائے جمودو تعطل کی نذر ہو کر رہ گئی تھی۔ نظریاتی طور پر تو قرآن کریم دین و شریعت کا پہلا سرچشمہ تسلیم کیا جاتا تھا مگر مسائل و احکام میں فقہی جمود اور بحث و استدلال میں صرف فلسفیانہ موشگافیاں پائی جاتی تھیں۔ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن شریف کا سمجھنا اور اس پر غور کرنا علماء کاکام ہے اور ان کے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کر لیا کریں۔ قرآن حکیم کے درس و تدریس کے ماحول میں بھی قرآن فہمی سے زیادہ تفسیر خوانی پر توجہ صرف ہوتی تھی۔ حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے سمجھنے کیلئے جن مقدمات کی ضرورت ہے ان کو بقدر ضرورت ہی پڑھا جائے اور سمجھا جائے، یہ نہیں کہ ان مقدمات کو مستقل درجہ دے دیا جائے۔

(التفہیمات جلد اول صفحہ215)

حضرت ولی اللہ شاہ محدث دہلوی ؒ کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید اور علم قرآن کی اشاعت ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے زمانے میں حکومت ہند کی سرکاری زبان فارسی تھی اور اس کو قبول عام حاصل تھا۔ کلام اللہ کو عام فہم بنانے کے لئے اس کا مروج زبان میں ترجمہ کیا جانا ضروری تھا۔ گو حالات نا مساعد تھے اور اس کا م کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ نے نتائج سے بے پروا ہ ہو کر کلام اللہ کا ترجمہ سلیس اور متعارف فارسی زبان میں کیااور بعض مقامات پر مختصر شرح بھی لکھ دی،جوفتح الرحمٰن کے نام سے مشہور ہے۔ آپؒ نے قرآن کریم کا ترجمہ فارسی میں کیا اور لفظوں کی رعایت سے ایسا مطلب خیز ترجمہ کیا کہ عام لوگوں کو کلام الہی کا سمجھنا آسان ہو گیا۔اس ترجمہ کو ایک خاص مقام حاصل ہوا۔ یہ ترجمہ بین السطور میں تحریر ہو کر پورے ہندوستان میں شہرت حاصل کر گیا۔

اس ترجمہ کا مقصد صرف یہ تھا کہ لوگ قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوں، اس کو پڑھیں،سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی درست کریں۔ حضرت ولی اللہ شاہ ؒنے علوم قرآن کی اشاعت اسی عزم اور اعتماد کے ساتھ کی اور اس موضوع پر ایک نہایت جامع کتاب الفوز الکبیر فی اصول التفسیر لکھی، نیز فتح الخبیر اور مقدمہ فی قوانین الترجمہ بھی ضبط قلم کیا۔انبیائی قصوں پر ایک اور اصولی نوعیت کی کتاب تاویل الاحادیث لکھی۔ فوزالکبیر،فتح الخبیر اور تاویل الاحادیث ایسے عمدہ رسالے تھے جنہوں نے بڑی بڑی تفاسیر کے مطالعہ سے شائقین کو مستغنی کر دیا۔

جس زمانہ میں آپ نے قرآن کریم کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا اوراس کی اشاعت ہوئی تو متعصب مولویوں کے حلقوں میں بھی ایک تہلکہ مچ گیا، وہ آپ کی مخالفت کرنے لگے اور یہودی علماء کے مثیل ہو گئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔

’’اب بعض لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ پھر بھی آج کل کے مولوی ہیں اور اگر یہ اشرارالناس ہیں تو پھر ان کی بات قابل اعتبار نہیں کسی بزرگ کی بات کرو تو اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ سے بزرگ ترین اور کون ہو سکتا ہے ۔ نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ قیامت تک پیدا ہو سکے گا۔ آپؐ انسان کامل اور نبیوں کے سردار تھے آپؐ کی کس کس بات کا تم انکار کرتے چلے جاؤ گے اور اگر تم نے صرف بعد کے بزرگوں کی باتیں ماننی ہیں تو پھر وہ بھی سن لو! حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒنے علماء کو یہودی علماء کا مثیل قرار دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’اگر نمونہ یہود خواہی کہ بینی علماء سوء کہ طالب دنیا باشد………تماشا کن کانھم ھم‘‘

(الفوز الکبیر مع فتح الخبیر فی اصول التفسیر باب اول صفحہ10)

اگر تم یہود کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہو، وہ یہودی علماء جو مدتوں پہلے ختم ہو چکے ہیں تو پھر ان علماء کو دیکھو جو آج کل علماء سوء ہیں اور یہ دنیا کے طلب گار ہوچکے ہیں۔

(خطبات طاہر جلد4 صفحہ274)

ناسخ و منسوخ

مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرہ:107) ترجمہ : جو آیت بھی ہم منسوخ کر دیں یا اُسے بھلا دیں، اُس سے بہتر یا اُس جیسی ضرور لے آتے ہیں۔ کیا تُو نہیں جانتا کہ اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے؟

اس آیت میں عمومًا مفسرین غلطی کھاتے ہیں جو یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ جو آیت اللہ نے قرآن کریم میں اتاری ہے وہ منسوخ بھی ہو سکتی ہے اور ہم اس سے بہتر آیت لا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ناسخ منسوخ کا بہت لمبا جھگڑا چل پڑا۔ مفسرین نے تقریبًا پانچ سو آیت کو ناسخ اور پانچ سو آیات کو منسوخ قرار دے دیا۔ ا مام سیوطیؒ نے منسوخ آیات میں کمی کی اور انہیں انیس (19) بتایا لیکن حضرت ولی اللہ شاہ صاحب ؒ نے ان میں سے چودہ آیتوں کا حل بتلا دیا اور باقی پانچ آیات ان سے حل نہ ہو سکیں۔ وہ پانچ آیات درج ذیل ہیں۔

  1. كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ (البقرہ:181)
  2. إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ (الأَنْفال:66)
  3. لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ (الأحزاب:53)
  4. إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا (المجادلہ:13)
  5. قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا (المزمل:3)

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نسخ کو ایک اجتہادی امر سمجھتے ہیں ۔

(التفہیمات الہیہ جلد2 صفحہ173)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’کلام الہٰی کے بارہ میں مسلمانوں کا ایک عقیدہ اسلام کے لئے سخت نقصان کا موجب ہو رہا تھا۔ تعجب کی بات ہے کہ قرآن کریم پر ایمان لانے کے مدعی ایک ایسا عقیدہ رکھتے تھے کہ جس کی بناء پر دشمن کو قرآن کریم پر ہر قسم کے اعتراضات کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔ یعنی وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قرآن کریم میں بہت سی آیات موجود ہیں مگر دراصل وہ منسوخ ہیں۔غور کرو! یہ کتنا بڑا ظلم ہو رہا تھا بعض نے ایسی آیات کی تعداد گیارہ سو، بعض نے سات سو، بعض نے چھ سو، بعض نے چار سو اور اسی طرح مختلف لوگوں نے مختلف بیان کی ہیں اور شاہ ولی اللہ صاحب نے لکھا کہ ایسی آیات صرف پانچ ہیں۔ ایسی آیات کے متعلق عقل سے ہی استدلال کیا جاتا ہے اور سوچو کہ اس سبب سے دشمن کو اعتراض کا کتنا موقع مل سکتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ یقینی طور پر تو کسی کو معلوم نہیں کہ کون سی آیات منسوخ ہیں اس لئے قرآن کریم کا اعتبار ہی کیا ہو سکتا ہے ممکن ہے جو آیت تم صداقت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہو وہ منسوخ ہو چکی ہو۔ لیکن حضرت مرزا صاحب نے آ کر اس یقین کے ساتھ اس عقیدہ کی تردید کی کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب بن گئی۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 13 صفحہ431)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں ۔
’’قرآن کریم کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے وقت تک یہ ساری ناسخ و منسوخ آیات حل ہو چکی تھیں سوائے پانچ کے اور حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام کی برکت سے یہ پانچ آیات بھی حل ہو گئیں۔ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں۔ یہاں آیت سے مراد پہلی شریعتیں ہیں جب بھی وہ منسوخ ہوئیں یا بھلا دی گئیں تو ویسی ہی یا ان سے بہتر نازل کر دی گئیں۔‘‘

(حاشیہ،ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ،ص30، البقرہ:107)

شرک و بدعت کی تردید اور سنت نبویؐ کی ترویج

عام وخاص پیر پرستی اور تقلید میں مقید اور صد ہا قسم کے توہمات میں گرفتارتھے کہ اس اثنا میں خدا تعا لیٰ نے شرک اور بدعت کی تردید اور سنت نبویﷺ کی ترویج کے واسطے حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کو کھڑا کیا۔انہوں نے قرآن وحدیث کی اشا عت میں خوب کوشش کی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔

’’اسلام پر شرک کی گھٹائیں چھا رہی تھیں اور رسوم اور بدعا ت کا کوئی ٹھکانا نہ رہا تھا ۔ خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑک رہی تھی اور تمام اسلامی ممالک میں اسلامی محبت سے پُردل فکر و اندوہ کا شکار ہو رہے تھے تب خدا تعالیٰ کی غیرت نے مختلف ممالک میں مختلف لوگ مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے پیدا کئے۔ ہندوستان میں شاہ ولی اللہ صاحب پیدا ہوئے۔‘‘

(حج بیت اللہ اور فتنہ حجاز، انوارالعلوم جلد9 صفحہ72)

حدیث

قرآن وسنت کے بعد ہدایت کا تیسرا سرچشمہ حدیث رسول اللہ ﷺ ہے۔ آپؒ نے علم حدیث کی درس و تدریس اور اشاعت میں بھی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔

مسائل فقہ

قرآن ،سنت اور حدیث کے بعد اسلام کا دارو مدار فقہ پر ہے ۔آپؒ نے اس حوالہ سے بھی مجددِ وقت ہونے کا حق ادا کیا۔ آپؒ نے رسالہ انصاف فی بیان سبب الاختلاف اور عقدالمجید فی احکام الاجتہادوالتقلیدمیں اس امر کو نہایت وضاحت سے بیان کیا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ تامہ کی موجودگی میں اقوال فقہاء اور استبداد متقلدین کی کیا وقعت ہو سکتی ہے۔ آپؒ نے،مسائل فقہ کی تحقیقات،مذاہب اربعہ یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، مذاہب صحابہؓ و تابعین اور اقوال جمیع فقہاء محدّثین سے کر کے، فقہ، حدیث و مصالح احکام کو ایسی عمدگی اور خوش اسلوبی سے بیان کیا کہ ان سے پیشتر کے مصنفین کویہ بات کم نصیب ہوئی ہے۔ کتاب حجۃ اللہ البالغہ ان کے اس کمال پر شاہد ہے ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں۔
’’میں نے جب سے ہوش سنبھالی ہے صوفیاء، فقہاء، محدثین اور فلاسفر ہر چہار سے مجھے بہت محبت رہی۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے کیونکہ وہ اپنی کتب میں چاروں کے جامع ہوتے ہیں۔‘‘

(بدر 2؍اکتوبر1913ء بحوالہ روزنامہ الفضل 10۔اگست 2009ء)

تصوف

آپؒ نے،عقائد تصوف اور سلوک میں محققانہ تقریریں کی ہیں اور خیالات عالیہ کو طلبہ کی سہولت اور مسائل کی تبیین میں عبارات مختصرہ اور اشارات لطیفہ کے ذریعہ سے اس طرح ادا کیا ہے کہ ان کے زمانہ میں دوسرے مصنف کو کم میسر ہوا۔ آپ ؒ کی وفات کے بعد، آپؒ کے شاگردوں اور صاحبزادوں نے آپ کی تحریک کو جاری رکھا۔

تصانیف

آپ ؒ کی تصانیف بے شمار ہیں۔ بعض مورخین دوسو سے زائد بیان کرتے ہیں۔ مصنف ‘‘حیاتِ ولی’’ حافظ محمد رحیم بخش صاحب مرحوم نے ان کی تعداداکیاون بتائی ہے لیکن آگے لکھا ہے کہ آپ کی تالیفات کے سلسلہ میں اور بھی بہت سی کتابیں ہیں جو قدیم کتب خانوں میں موجود ہیں،مگر ہم نے صرف انہی کتابوں کا ذکر کیا ہے جو مطبوع ہو کر شرق سے غرب تک نہایت وقعت کے ساتھ مشہور ہو چکی ہیں۔ آپ نے ہر فن پر قلم اٹھایا ہے اور اس میں سے نئے نکات اور نادر مضامین بیان کئے ہیں۔ قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت، فلسفہ، تصوف، سیاسیات، اقتصادیات وغیرہ تمام موضوعات پر اب بھی آپ کی بہت سی کتب ملتی ہیں۔ آپؒ نے یہ تمام کام قلیل مدت میں انجام دیا ہے اور نہایت پُر آشوب اور پُر فتن زمانہ میں آپ کی منزلتِ علمی اور کمالِ فن کا یہ ایک واضح ثبوت ہے۔

کفر کا فتوٰی

حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ کا جب ستارہ کمال فلک اقبال پر پہنچا تو آپ کے اوج چشم کو دیکھ کر کئی حاسد اور دشمن پیدا ہو گئے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔

’’عجیب بات یہ ہے کہ جتنے اہل اللہ گذرے ان میں کوئی بھی تکفیر سے نہیں بچا۔ کیسے کیسے مقدس اور صاحب برکات تھے۔ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ان پر بھی قریباً دوسو علماء وقت نے کفر کا فتویٰ لکھا تھا ابن جوزی جو محدث وقت تھا اس نے ان کی تکفیر کی نسبت ایک خطرناک کتاب تالیف کی اور اس کانام تلبیس ابلیس رکھا۔ سنا گیا ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا۔ یہ تو کفر بھی مبارک ہے جو ہمیشہ اولیاء اور خداتعالیٰ کے مقدس لوگوں کے حصہ میں ہی آتا رہا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ611)

عقائد

وفات مسیحؑ: حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’شاہ ولی اﷲ صاحب کی الفوز الکبیر میں بھی یہی لکھا ہے کہ مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ اور میں جانتا ہوں کہ شاہ ولی اﷲ صاحب بڑے پایہ کے محدث اور فقیہ اور عالم فاضل تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ527)

خاتم النبیین ﷺ: ’’خُتِمَ بِہِ النَّبِیُّوْنَ اَیْ لَا یُوْجَدُ بَعْدَہٗ مَنْ یَّامُرَہُ اللّٰہُ بِالتَّشْرِیْعِ عَلَی النَّاسِ‘‘ ترجمہ: ختم نبوت کے معنی ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد ایسا شخص نہیں آئے گا جسے اللہ شریعت کے احکام دے کر بھیجے۔

(تفہیمات الہیہ صفحہ85 ،تفہیم نمبر55)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہی۔
’’حضرت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی بھی جو بارہویں صدی ہجری کے آخر میں گزرے ہیں فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ کو جو خاتم النبیّٖن کہا گیا ہے اِس کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شخص دُنیا میں ایسا نہیں ہو گا جس کو خدا تعالیٰ نئی شریعت دے کر لوگوں کی طرف بھیجے۔‘‘

(انوار العلوم جلد23 صفحہ308)

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ فرماتے ہیں۔
’’پچھلے دنوں میں نے ایک خطبہ جمعہ میں بتایا تھا کہ مقام محمدیت عرشِ رب کریم ہے اور عرشِ ربِّ کریم کے بعد کسی شئی کا تصور ہی ممکن نہیں ہے گویا آپ کے بعد کسی نبی کے آنے کا سوال ہی نہیں ہے کیونکہ اس ارفع روحانی مقام کے بعد کوئی رفعت ممکن ہی نہیں لیکن جو ساتویں آسمان پر حضرت نبی اکرم ﷺ کی بشارت اور آپ کی سچی پیروی اور آپ کے فیض سے مستفیض ہو کر پہنچا یعنی مہدی معہود وہ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد نہیں ہے وَرے ہے ۔وہ آپ کے آخری ہونے میں روک نہیں ہے اگر کسی وقت ملک دشمن عناصر نے اس حلف نامہ کو وجہ فساد بنا کر ملک میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کی تو اُس وقت دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ حقیقت کیا ہے؟ شنید ہے کہ ملک دشمن عناصر یہ کہہ کر بھی ملک میں شور مچائیں گے اور فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ شیعہ حضرات صدر اور وزیراعظم نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے خلاف حضرت ولی اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’تفہیمات الہٰیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ اپنے اماموں کو انبیاء سے بالا درجہ دیتے ہیں۔ اس واسطے وہ ختم نبوت کے منکر ہیں۔ حضرت ولی اللہ شاہؒ کے ذہن میں غالباً یہی ہو گا کہ چونکہ آنحضرت ﷺ کے مصدق ہر نبی کا مقام زیادہ سے زیادہ ساتواں آسمان ہے اس سے اوپر نہیں۔ اس سے اوپر عرشِ ربِّ کریم پر مقام محمدیت ہے اور جس میں آنحضرت ﷺ کی ذات و صفات منفرد ہے اس لئے اگر شیعہ صاحبان اپنے اماموں کا درجہ ساتویں آسمان سے اوپر بتاتے ہیں تو وہ گویا ختم نبوت کے منکر ہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔‘‘

(خطبات ناصر جلد5 صفحہ126)

وحی الہٰی: حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’مکھی کی وحی اب تک منقطع نہیں ہوئی تو انسانوں پر جو وحی ہوتی ہے وہ کیسے منقطع ہو سکتی ہے۔ ہاں یہ فرق ہے کہ ال کی خصوصیت سے اس وحی شریعت کوالگ کیا جاوے ورنہ یوں تو ہمیشہ ایسے لوگ اسلام میں ہوتے رہے ہیں اور ہو تے رہیں گے جن پر وحی کا نزول ہو۔ حضرت مجددالف ثانی اور شاہ ولی اللہ صاحب بھی اس وحی کے قائل ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ417)

مسیح موعودؑو امام مہدیؑ: حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’اسی طرح ہماری کتب کے مطابق بھی بعثت مسیح کا یہی زمانہ ہے۔حجج الکرامہ والے نے لکھا ہے کہ کُل اہل کشوف اسی طرف گئے ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی کے لیے چودھویں صدی مقرر ہے۔شاہ ولی اﷲ صاحب نے بھی اسی زمانہ کے لیے اُسے چراغ الدین کہا ہے۔غرضیکہ ہر ایک بزرگ نے جو زمانہ مقرر کیا ہے وہ چودھویں صدی سے آگے نہیں گیا۔ اگر چہ ان میں کچھ اختلاف ہے۔ چودھویں صدی میں لطیف اشارہ اس طرف تھا کہ دین اسلام چودھویں رات کے چاند کی طرح اس زمانہ میں چمک اٹھے گا۔ جس طرح چاند کا کمال چودھویں رات کو ہوتا ہے۔ اسی طرح اسلام کا کمال کل دنیا میں چودھویں صدی میں ظاہر ہوگا۔ تیرھویں صدی کی تاریکی ان لوگوں میں ضرب المثل ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس صدی کے علماء سے بھیڑیوں نے بھی نجات مانگی تھی۔ یہ لوگ چودھویں صدی کے منتظر تھے، لیکن جب صدی آگئی تو اپنی بد بختی کے باعث انکار کر گئے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ27)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جن کی وفات 1176 ہجری میں ہوئی فرماتے ہیں کہ میرے ربّ نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب ہے اور مہدی ظاہر ہونے کو ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اسی طرح (یہ بات ان کی کتاب تفہیمات الہٰیہ میں چھپی ہوئی ہے) آپ نے امام مہدی کی تاریخ ظہور لفظ چراغ دین میں بیان فرمائی ہے جس کے حروف ابجد 1268 بنتے ہیں‘‘۔

(حجج الکرامہ صفحہ 394)

(خطبات مسرور جلد4 ص67)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’تو یہ تو ان ساری باتوں سے ثابت ہو گیا کہ ظہور کا زمانہ وہی تھا جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں نہ کہ وہ جس کی آجکل کے علماء تشریح کرتے ہیں کہ ابھی اتنے سو سال پڑے ہیں یا اتنے سوسال پڑے ہیں۔ ان باتوں سے جو مَیں نے مختلف ائمہ کی پڑھی ہیں اور شاہ ولی اللہ کا اقتباس، اس سے ہم نے دیکھ لیا کہ ان سب نے مسیح و مہدی کے آنے کا وقت 12 ویں صدی کے بعد کا کوئی زمانہ بتایا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ 19 ویں صدی میں یا 20 ویں صدی میں یا فلاں وقت میں آنا ہے۔ ہر جگہ 12 ویں صدی کا ذکر ہے۔ اور جب 12 ویں صدی کا ذکر ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ کم و بیش اسی زمانے میں مبعوث ہونا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جو 12 ویں صدی کے مجدد تھے انہوں نے تو اور بھی معین کر دیا ہے یعنی 1268۔ اور یہ کم و بیش وہی زمانہ بنتا ہے جس زمانے میں مسیح موعود کے ظہور کی توقع کی جا رہی تھی۔

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آیت وَاٰ خَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ:4) کے حوالے سے ایک اور نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس کے اعداد 1275 بنتے ہیں یعنی جس شخص نے آخرین کو پہلوں سے ملانا ہے یا ملانا تھا اُس کو اسی زمانے میں ہونا چاہئے تھا جس کے بارے میں سب توقع کر رہے تھے اور جس کی ضرورت بھی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہی وہ سال بنتے ہیں جب مَیں روحانی لحاظ سے اپنی بلوغت کی عمر کو تھا اور اللہ تعالیٰ مجھے تیار کر رہا تھا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ69)

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے مطابق بعثت مسیح کے لئے علامت صغری اور علامت کبری پوری ہو چکی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔

’’ہاں بعض کا حق ہے کہ یہ اعتراض کریں کے مسیح کو اس زمانے سے کیا خصوصیت حاصل ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ قرآن شریف نے اسرائیلی اور اسمٰعیلی دو سلسلوں میں خلافت کی مماثلت کا کھلا کھلا اشارہ کیا ہے۔ جیسے اس آیت سے ظاہر ہے۔ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النور:56) اسرائیلی سلسلہ کا آخری خلیفہ جو چودھویں صدی پر بعد حضرت موسی آیا، وہ مسیح ناصری تھا۔ مقابل میں ضرور تھا کہ اس امت کا مسیح بھی چودھویں صدی کہ سرپہ آوے۔ علاوہ ازیں اہل کشف نے اسی صدی کو بعثت مسیح کا زمانہ قرار دیا جیسے شاہ ولی اللہ صاحب وغیرہ اہلحدیث کا اتفاق ہو چکا ہے کہ علامت صغریٰ اور علامت کبریٰ ایک حد تک پوری ہو چکی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ3)

چودھویں صدی کے مجددکو حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کا سلام کہنا: حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’آپ لوگ اگر سچ پر ہیں تو سب مل کر دعا کریں کہ مسیح ابن مریم جلد آسمان سے اُترتے دکھائی دیں اگر آپ حق پر ہیں تو یہ دُعا قبول ہوجائے گی۔ کیونکہ اہل حق کی دُعا مُبطلین کے مقابل پر قبول ہوجایا کرتی ہے لیکن آپ یقیناً سمجھیں کہ یہ دُعا ہرگز قبول نہیں ہوگی کیونکہ آپ غلطی پر ہیں مسیح تو آچُکا لیکن آپ نے اُس کو شناخت نہیں کیا اب یہ امید موہوم آپ کی ہرگز پوری نہیں ہوگی یہ زمانہ گزر جائے گا اور کوئی ان میں سے مسیح کو اُترتے نہیں دیکھے گا۔ حالانکہ تیرھویں صدی کے اکثر علماء چودہویں صدی میں اُس کا ظہور معین کرگئے ہیں اور بعض تو چودھویں صدی والوں کو بطور وصیّت یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ اگر اُن کا زمانہ پاؤ تو ہمارا السلام علیکم اُنہیں کہو۔ شاہ ولی اللہ صاحب رئیس المحدّثین بھی انہیں میں سے ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ179)

حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ مسیح موعود اسم جامع محمدی کی شرح، آپ کا سچا عکس ہو گا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔

’’حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جن کانام بڑے احترام کے ساتھ اسی کتابچہ (قادیانیت، عالم اسلام کے لئے سنگین خطرہ) میں درج ہے جو جماعت کے خلاف شائع کیا گیا ہے اور ان کو سند قرار دیا گیا ہے اور ایک ایسے عظیم الشان فلسفی کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو امت مسلمہ کے مصالح کو خوب سمجھتا ہو یہی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں۔ حُقّ لَہ اَن یَّنعَکِسَ فِیہ اَنوَارُسَیِّد المُرسَلِین ﷺ یَزعَمُ العَامةُ اَنَّہ اِذَا نزلَ فِی الارضِ کانَ وَاحِداًمنَ الامة۔ کَلابل ھوَ شرح لِلاسمِ الجَامِعِ المُحَمَّدِی وّ نسخَتِہ متَنَسخَة مِنہ وَ شتَان بَینَہ وَ بَینَ اَحَد منَ الامة۔ (الخیرالکثیر۔الملقب بہ خزائن الحکمۃ صفحہ78) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ بھی یہ پیشگوئی فرماتے ہیں اور آنے والے امام مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ ’’یعنی مسیح موعود اس بات کا حق دار ہے کہ اس میں سیدالمرسلین ﷺ کے انوار منعکس ہوں۔ عام لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب مسیح موعود نازل ہوگا تو محض امتی فرد ہوگا ایسا ہر گز نہیں بلکہ وہ اسم جامع محمدی ﷺ کی شرح آپ ؐ کا سچا عکس (True Copy) ہوگا ۔ پس کہاں وہ اور کہاں محض ایک امتی‘‘ پھر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں۔ ’’تَارَۃ اخرٰی بِاَنَّ تَشتَبِکُ بِحَقِیقَةرَجُل مِن آلِہ اَوِ المُتَوَسِّلِینَ اِلَیہِ کَمَا وَقَعَ لِنَبِیِّنَا ﷺ بِالنسبَة اِلی ظُھُورِ المَھدِی‘‘ (تفہیمات الہٰیہ جلد2 صفحہ198) یعنی بروز حقیقی کی ایک قسم یہ ہے کہ کبھی ایک شخص کی حقیقت میں اس کی آل یا اس کے متوسلین داخل ہوجاتے ہیں جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ کے مہدی سے تعلق میں اس طرح کی بروزی حقیقت وقوع پذیر ہوگی۔‘‘

(خطبات طاہر جلد چہارم صفحہ310)

معراج نبوی ﷺ: حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’مخالف مولوی ہماری مخالفت میں معراج کی حدیث پیش کرتے ہیں حالانکہ حضرت عائشہؓ کا مذہب تھا کہ جو کوئی کہتاہے کہ آنحضرت ﷺ مع جسم عنصری آسمان پر گئے وہ آنحضرت ﷺ پر تہمت لگاتا ہے۔ اسی طرح اور ائمہ اور اصحاب کرام ؓ کا بھی یہی مذہب رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک نورانی جسم کے ساتھ آسمان پر گئے نہ اس جسم کے ساتھ۔ ایسا ہی شاہ ولی اللہ صاحب کا بھی مذہب تھا۔ اور شاہ عبدالعزیز بھی یہی لکھتے ہیں کہ اس جسم کے ساتھ آسمان پر جانا نہیں ہوتا بلکہ ایک اور نورانی جسم ملتا ہے جس سے کہ انسان آسمان پر جاتاہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ31)

مامور کے معنی: حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’میرے نزدیک مامور کے معنی نبی کے ہی ہیں اور بزرگوں نے بھی مامور کے یہی معنے لئے ہیں۔ چنانچہ محی الدین ؒ ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں اور شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے حجۃ البالغہ میں یہی معنے لئے ہیں۔‘‘

(حقیقۃ الرؤیا، انوار العلوم جلد 4صفحہ123)

حدیث مجددین: حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’یہ تو ضروری ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے۔ بعض لوگ اس بات کو سن کر پھر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جبکہ ہر صدی پر مجدد آتا ہے تو تیرہ صدیوں کے مجدّدوں کے نام بتاؤ۔ مَیں اس کا پہلا جواب یہ دیتا ہوں کہ اُن مجددوں کے نام بتانا میرا کام نہیں یہ سوال آنحضرت ﷺ سے کرو۔ جنہوں نے فرمایا ہے کہ ہر صدی پر مجدد آنا ہے اس حدیث کو تمام اکابرنے تسلیم کر لیا ہے ۔شاہ ولی اللہ صاحب بھی اس کو مانتے ہیں کہ یہ حدیث آنحضرت ﷺ کی طرف سے ہے اور حدیث کی کتابیں جوموجود ہیں ان میں یہ حدیث پائی جاتی ہے کسی نے کبھی اس کوپھینک نہ دیا اور نہ کہا کہ یہ حدیث نکال دینی چاہیے۔‘‘

(ملفوظات۔ جلد سوم صفحہ86)

حضرت ولی اللہ شاہ اور سارے دوسرے بزرگ آیات بینات تھے :

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہو ئے جو لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰیَاتٍ مُّبَیِّنٰت ٍ کے ذریعہ اسلام کی روشنی کو ظاہر کرتے رہے۔ چنانچہ ابتدائی زمانہ میں حضرت جنید بغدادی ؒ ہوئے، حضرت سیّد عبدالقادر صاحب جیلانیؒ ہوئے، شبلی ؒ ہوئے، ابراہیم ادھم ؒ ہوئے، ابن تیمیہ ؒ ہوئے، ابن قیم ؒ ہوئے۔ امام غزالی ؒ ہوئے، حضرت محی الدین صاحب ابن عربی ؒ ہوئے اور ان کے علاوہ ہزاروں اور بزرگ ہوئے ۔پھر آخری زمانہ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ محدث دہلوی ہوئے، خواجہ باقی باللہ ؒ ہوئے، خواجہ معین الدین صاحب چشتی ؒ ہوئے، شیخ شہاب الدین صاحب سہروردی ؒ ہوئے، خواجہ بہاؤ الدین صاحب نقشبندی ؒ ہوئے، نظام الدین صاحب اولیاؒ ہوئے، خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکیؒ ہوئے، فرید الدین صاحب شکر گنجؒ ہوئے، حضرت سید احمد صاحبؒ بریلوی ہوئے۔ حضرت شیخ احمد صاحب ؒ سرہندی مجدد الف ثانی ہوئے۔ یہ سب لوگ خداتعالیٰ کا قرب پا کر اٰیَاتٍ مُّبَیِّنٰتٍ کا مقام حاصل کر گئے۔‘‘

(تفسیر کبیرجلد ششم صفحہ358)

وفات

حضرت ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلویؒ نے 62 سال کی عمر پائی، شاہ عبدالعزیزؒ کے بیان کے مطابق حضرت ولی اللہ شاہ صاحب ؒنے 29محرم الحرام 1176ھ مطابق 20۔اگست 1762ء کو ظہر کے وقت وفات پائی۔ شاہ صاحب کے جسد خاکی کو مہندیان میں دفن کیا گیا، یہ قبرستان دہلی کے مشائخ اور مشاہیر علماء و فضلاء، ادباء اور شرفا کی آرام گاہ ہے، یہ قبرستان محدثین کے نام سے موسوم ہے کیونکہ اس قبرستان میں آپ کے خاندان کے صاحب علم حدیث احباب دفن ہیں۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا 26۔اکتوبر 1905ء بمقام دہلی حضرت شاہ ولی اللہؒ کی قبر پردعا کرنا۔
صبح کے وقت حضور نے گاڑیاں منگوائیں اور خواجہ میر درد صاحب اور شاہ ولی اﷲ صاحب کے مزار مبارک پر تشریف لے گئے۔ راستہ میں قبرستان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: یہ انسان کی دائمی سکونت ہے جہاں ہر قسم کے امراض سے نجات پا کر انسان آرام کرتا ہے۔ خواجہ میر درد صاحب کی قبر پر آپ نے فاتحہ پڑھی اور کتبہ کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ کتبہ لکھنا شریعت میں منع نہیں ہے۔ اس میں بہت سے فوائد ہیں۔
یہاں سے ہو کر حضرت مسیح موعودؑ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب کی قبر پر گئے اور فاتحہ پڑھی۔ فرمایا کہ شاہ ولی اﷲ صاحب ایک بزرگ اہلِ کشف اور کرامت تھے۔ یہ سب مشائخ زیرِزمین ہیں اور جو لوگ زمین کے اُوپر ہیں وہ ایسے بدعات میں مشغول ہیں کہ حق کو باطل بنا رہے ہیں اور باطل کو حق بنا رہے ہیں۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ502)

اولاد

حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ کے ہاں، پانچ بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ ان میں سے پہلا بیٹا ابتدائی مدت میں ہی فوت ہوگیا۔ دیگر چاربیٹے، شاہ عبدالعزیز ، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالقادر، شاہ عبدالغنی علیہم الرحمۃ تھے۔ یہ چار فرزند اپنے وقت کے مشہور عالم، محدث اور اپنے والد صاحب کی تحریک و تعلیم کے محرک رہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کی بیٹی کا ایک واقعہ

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’یاد رکھنا چاہئے کہ شیطان ایسا چالاک اور فریبی ہے کہ کبھی نیک بات بتاکر بھی دھوکہ دیا کرتا ہے۔ اس لئے سوچ لینا چاہئے کہ یہ جو نیک بات بتائی گئی ہے اس سے کوئی بڑی نیکی تو ہاتھ سے نہیں جاتی۔ حضرت خلیفہ اول سناتے تھے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کی ایک بیٹی تھیں۔ انہوں نے وظائف پڑھنے شروع کئے تو ایسا مزہ آیا کہ پہلے نوافل چھوڑ دئیے ۔ پھر سنتیں بھی چھوڑ دیں۔ ایک دن ان کے بھائی نے ان کی حالت کو دیکھا تو بہت افسوس ہوا۔ بہت سمجھایا مگر کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر انہوں نے ایک خاص طریق پر لاحول کا وظیفہ پڑھنے کے لئے ان کو بتایا۔ اس کے بعد ایک دن وہ آئے تو کیا دیکھا کہ وہ سنتیں پڑھ رہی ہیں۔ پوچھا یہ کیا؟ کہنے لگیں آج میں آپ کے بتائے ہوئے طریق پر لاحول پڑھ رہی تھی کہ شیطان بندر کی شکل میں آیا اور کہنے لگا کہ تم بچ گئیں۔ اگر تم یہ وظیفہ نہ پڑھتیں تو اب میں تم سے فرض چھڑوانے والا تھا۔ تو شیطان کبھی چالاکی کرتا ہے اور ایک نیکی کی تحریک کرتا ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل اس کے ذریعہ کسی بڑی نیکی سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اس لئے یہ بات ضرور مد نظر رکھنی چاہئے۔‘‘

(حقیقۃ الرؤیا، انوارا لعلوم جلد4 صفحہ115)

شاہ ولی اللہ اکیڈمی

آپؒ کے نام سے ایک اکیڈمی بھی قائم ہے جو شاہ ولی اللہ اکیڈمی کے نام سے موسوم ہے۔ اس کے درج ذیل مقاصد ماہنامہ ر سالہ الولی اپریل1972ء کی پشت پر درج ہیں۔

اغراض و مقاصد

  1. شاہ ولی اللہ کی تصنیفات ان کی اصلی زبانوں میں اور ان کے تراجم مختلف زبانوں میں شائع کرنا۔
  2. شاہ ولی اللہ کی تعلیمات اور ان کے فلسفہ و حکمت کے مختلف پہلوؤں پر عام فہم کتابیں لکھوانا اور ان کی طباعت و اشاعت کا انتظام کرنا۔
  3. اسلامی علوم اور بالخصوص و ہ اسلامی علوم جن کا شاہ ولی اللہ اور ان کے مکتب فکر سے تعلق ہے۔ ان پر جو کتابیں دستیاب ہو سکتی ہیں، اُنہیں جمع کرنا ، تاکہ شاہ صاحب اور ان کی فکر ی و اجتماعی تحریک پر کام کرنے کیلئے اکیڈمی ایک علمی مرکز بن سکے۔
  4. تحریک ولی اللہ سے منسلک مشہور اصحاب علم کی تصنیفات شائع کرنا ، اور اُن پر دوسرے اہل قلم سے کتابیں لکھوانا اور ان کی اشاعت کا انتظام کرنا۔
  5. شاہ ولی اللہ اور ان کے مکتب فکر کی تصنیفات پر تحقیقی کام کرنے کیلئے علمی مرکز قائم کرنا۔
  6. حکمت ولی اللہ اور اس کے اصول ومقاصد کی نشر واشاعت کیلئے مختلف زبانوں میں رسائل کا اجراء ۔
  7. شاہ ولی اللہ کے فلسفہ و حکمت کی نشر واشاعت اور ان کے سامنے جومقاصد تھے ۔ انہیں فروغ دینے کی غرض سے ایسے موضوعات پر جن سے شاہ ولی اللہ کا خصوصی تعلق ہے ، دوسرے مصنفوں کی کتابیں شائع کرنا۔

’’الرحیم‘‘ رسالہ سندھی میں جبکہ رسالہ ’’الولی‘‘ اردو زبان میں یہاں سے چھپتا رہا ہے۔ 2002ء میں رسالے چھپنا بند ہو گئے ہیں۔ اب نہ رسالے چھپ رہے نہ کوئی کتاب چھپتی ہے۔

(سلطان نصیر احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 05۔مئی 2020ء