• 24 اپریل, 2024

اے خواجہ! درد نیست وگرنه طبیب ہست

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کے اس مصرعہ کواپنے ارشاد بعنوان ’’محبت الٰہی کے ذرائع‘‘ کے تحت خدا جوئی کے آ داب بیان کرتے ہوئے فر مایا ہے (ملفوظات جلد2 ص112) جس کے معانی ہیں ’’حضرت! درد ہی نہیں ورنہ طبیب تو موجود ہے‘‘ گویا اللہ تعالیٰ بطور طبیب تو ہر جگہ موجود ہے۔ اس سے علاج کروانے کے لئے اپنے اندردرد پیدا کرنا ضروری ہے۔

یہ حافظ محمد شیرازی کی فارسی نظم سے ایک مصرعہ ہے۔ جس کا پورا شعر یوں ہے۔

ؔعاشق کہ شُد کہ یار بحالش نظر نہ کرد
اے خواجہ! درد نیست وگر نہ طبیب ہست

جس کا ترجمہ یوں ہے کہ کون ہے جو کسی کاعاشق ہوا ہو اور یار نے اس کے حال پر نظر نہ کی ہو۔ اے صاحب! درد ہی نہیں ورنہ طبیب تو موجود ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شعر کو بھی ایک جگہ بیان فر مایا ہے ۔آپؑ فرماتے هیں۔

“ ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بیقرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے ۔ الُو ہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا ۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر گر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہےتو الوہت کا کرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے ۔اس لئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چایئے ۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ کے حضور رونے دھونے سے کچھ نہیں ملتا ۔ با لکل غلط اور باطل ہے ۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے صفات قدرت و تصرف پر ایمان نہیں رکھتے ۔ اگر ان میں حقیقی ایمان ہوتا تو وہ ایسا کہنے کی جرات نہ کرتے ۔ جب کبھی کوئی شخص اللہ تعالی ٰکے حضور آیا ہے اور اس نے سچی توبہ کے ساتھ رجوع کیا ہے اللہ تعالی ٰنے ہمیشہ اس پر اپنا فضل کیا ہے یہ کسی نے بالکل سچ کہا ہے ۔

ؔ عا شق کہ شُد کہ یار بحالش نظر نہ کرد
اے خواجہ! درد نیست و گرنہ طبیب ہست

خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ تم اُس کے حضور پاک دل لے کر آ جاؤ۔ صرف وہ اتنی ہے کہ اس کے مناسب حال اپنے آپ کو بناؤ اور وہ سچی تبدیلی جو خدا تعالیٰ کے حضور جانے کے قابل بنا دیتی ہے ۔ اپنے اندر کر کے دکھاؤ ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میں عجیب در عجیب قدرتیں ہیں اور اس میں لا انتہا فضل و برکات ہیں مگر ان کے دیکھنے اور پانے کے لئے محبت کی آنکھ پیدا کرو ۔ اگر سچی محبت ہو تو خدا تعالیٰ بہت دعائیں سنتا ہےاور تائیدیں کرتا ہے۔‘‘

( ملفوظات جلد اول ص352-353 ایڈیشن1984ء)

ایک انسان اپنے ڈاکٹر ، طبیب یا فزیشن سے اسی وقت رابطہ کرتا ہے جب وہ کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور اپنی تکلیف اور درد کا ذکر کر کے دوالیتا، علاج کرواتا اور صحت یاب ہوتا ہے۔ یہی ایک مومن کی روحانی زندگی کی کیفیت ہوتی ہے۔ اور ہونی بھی چاہئےکہ اللہ تعا لیٰ سے کچھ منوانے کے لئے اپنے اندر درد پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا پڑتا ہے۔ راتوں کی سہانی نیند کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے وقف کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح مادی تکلیف اور درد میں انسان کی آہیں نکلتی ہیں۔ ویسے ہی رونی صورت اور اپنے اندر درد کا احساس بنانا ہوتا ہے۔ کسی نے تو یہ بھی کہا ہے کہ اگر دعا کرتے رونا نہ آئے تو رونے والی صورت ہی بنا لی جائے۔ قبولیت دُعا کے جو اصول اور آداب اسلام نے بیان فر مائے ہیں ان میں پہلا قرینہ بھی یہی ہے۔

اولاد کا اپنے والدین کے ساتھ محبت اور عزت و احترام کے مثالی رشتہ کو بھی یہاں بیان کیا جا سکتا ہے۔ والدین کو تو اپنی اولاد سے محبت ہوتی هی ہے، بچے بھی اپنے والدین کے ساتھ عزت و تکریم کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ حافظ شیرازی کے اس شعر کا پہلا مصرعہ اس لاجواب رشتے پر بطور مثال کے پیش کیا جاتا ہے کہ کون ہے جو کسی کا عاشق ہوا ہو اور یار (محبوب) کو اس کے حال پر نظر نہ ہوئی ہو۔

والدین کو اپنی اولاد کی ضروریات کی اطلاع تو روحانی نظر سے معلوم ہوجاتی ہے اور اولاد کو بھی والدین کی حالت سے آ گاہی روحانی نظر سے ہو جاتی ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے کی خیر و عافیت اور حال احوال پوچھ لیتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے درد، دُکھ اور تکلیف کو غیبی نظر سے معلوم کر لیتے ہیں کیونکہ اس مضمون میں ایسا درد اور کرب بیان ہوا ہے جو خود کو بھی محسوس ہو اور دوسرے بھی محسوس کر کے اس کے لئے دُعا کریں۔

حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایک شعر سے اس اداریہ میں درج مضمون کی عکاسی ہوتی ہے ۔آپ فر ماتے ہیں کہ

ؔ جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے
شاید کہ یہ آ غوش ِجدائی میں پلاہے

یعنی انسان کے اندر جب ’’درد‘‘ والی کیفیت پیدا ہو تو پھر وہ ایسے حرفوں میں ڈھل جاتا ہے جو خداتعالیٰ کے حضور درجہ قبولیت پاتے ہیں بالخصوص جدائی کے درد میں خدا کے حضور کہے ہوئے چند بول ایسی جگہ جا پہنچتے ہیں جہاں وہ قبولیت کی سند پاتے ہیں ۔

اب ہم رمضان کے مبارک دنوں سے گزر رہے ہیں۔ ’’رمضان‘‘ کے لغوی معنی ’’تپش‘‘ اور ’’صوم‘‘ کے لغوی معانی ’’رکنے‘‘ کے ہیں۔ اگر ہم میں ہر ایک اپنے اندر روحانی گر مائش پیدا کرنے اور بُرائیوں سے رُکنے کے لئے اپنے آپ کو درد میں ڈالے گا تو ضرور وہ اللہ کے در بار میں جگہ پائے گا ۔ کہتے ہیں سونا آگ میں پڑ کر ہی کندن ہوتا ہے۔ لوہے کو جب تک آگ سے نہ گزارا جائے وہ ایسی Shape اختیار نہیں کرتا جس کو کسی اچھے طریق پر استعمال کیا جا سکے۔ ہیرے کو بھی تیز ترین دھار سے تراش کر کسی ہار یا انگوٹھی کا حصہ بنایا جاتا ہے ورنہ تو وہ دکھنے میں ایک عام پتھر لگتا ہے۔

الہٰی جماعتوں کی مخالفت بھی روحانیت اور اخلاقیات میں نکھار پیدا کرتی ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں۔
More you press, more will rise کہ کسی چیز کو آپ جتنا دبا کر رکھیں گے وہ پوری طاقت کے ساتھ اپنا سر نکالتی ہے۔ کسی نے اُس کی مثال سات ربڑی گیند سے دی ہے کہ اس کو جس طاقت اور زور سے زمین پر پٹکیں گے وہ اس سے کہیں بڑھ کر اُبھرے گا۔ الجزائر اور پاکستان میں مخالفین کی طرف سے جماعت احمدیہ کی جو مخالفت ہو رہی ہے۔ جماعت کو جو مختلف پابندیوں کا سامنا ہے جس کا ذکر ہمارے پیارے آقا گزشتہ کچھ خطبات میں کر کے احباب جماعت سے دُعاؤں کی درخواست فر مارہے ہیں۔ اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ دنیا بھر میں ترقی اور فتوحات کے راستے کھولتا رہتا ہے جس کا اعتراف ہمارے مخالفین بھی کرتے ہیں بالخصوص اس امر کا اظہار کہ افریقہ اور یورپ نیز مغربی دنیا میں اسلام کے بارے میں معلومات لینے کے لئے غیر مسلم، اسلام کا نمائندہ سمجھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے مبلغین سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ صرف اس مخالفت کا صلہ ہے جس کا جماعت احمدیہ کو پاکستان میں سامنا ہے۔ رمضان کے مبارک دنوں میں جماعت کے لئے بالخصوص پاکستان اور الجزائر میں بسنے والے احمدی مسلمانوں کے لئے بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ اور ہر آن ہر حال میں اور ہر تکلیف و درد میں اللہ کی طرف جھکنا، اس سے مدد طلب کرنا ضروری ہے۔

اللہ تعا لیٰ اس مضمون کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے خالق حقیقی سے تعلقات استوار کرنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مئی 2021