• 19 اپریل, 2024

انسانی اعضاء جانوروں میں پیدا کرنے کی کوشش

انسان کے مختلف اعضاء جیسے گردہ ،جگر ،لبلبہ یا دل وغیرہ بیماری کیوجہ سے ناکارہ ہو چکے ہوں تو ایک صحت مند انسان کے عطاکردہ ایسے عضو بیمار میں منتقل کر کے اس کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

سائنسی یا طبّی زبان میں منتقل کئے جانے والے عضو کو Transport اور اعضاء کی منتقلی کے عمل کو Transplantation کے ناموںسے پکارا جاتا ہے ۔دنیا میں لاکھوں بیمار ایسے ہیں جو اس طرح کے علاج سے صحت یاب ہو سکتے ہیں ۔لیکن ایسے اعضاء کی جو مریض کا جسم رد نہ کرے اور ان کی ہر وقت عدم دستیابی بیماروںاور ڈاکٹروں کے لئے ایک سنگین مسئلہ ہے ۔سائنسدان سالہا سال سے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔اس مشکل کا آسان ترین حل یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ جانوروں کے اعضاء کو استعمال کیا جائے ۔لیکن انسانی جسم جانوروں کے اعضاء کو رد کر دیتا ہے کیونکہ انسان کا مدافعاتی نظام ان کو غیر مواد سمجھ کر ان کے خلاف شدت کے ساتھ متحرک ہو کر ان کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔

حال ہی میں امریکہ کی یونیورسٹی آف نِوادا کے اسماعیل زنجانی اور ان کے ساتھی سائنسدانوں نے جانوروں کے اعضاء کو Transplantationکے لائق بنانے پر ان کی تحقیق میں غیر معمولی پیش رفت کا انکشاف کیا ہے ۔ان کی تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ جانوروں کو ہی انسانی اعضاء پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔

نوادا یونیورسٹی کے سائنسدان جن تخلیقی اصولوں کو بروئے کار لا رہے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں ۔انسان یا جانوروں کے اعضاء یا ریشے (Tisues) دراصل ایک ابتدائی خلیہ (Stem cell) سے معرض وجود میں آتے ہیں ۔رحم مادر میں یہ ابتدائی خلیے ٔہی جنین (Foetus) کے اعضاء کی پیدائش اور تشکیل کا منبع ہوتے ہیں۔کسی بھی عضو کی یکساں خلیے ایک ہی ابتدائی خلیہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ پیدائش کے وقت جسم کے تمام اعضاء کی ساخت مکمل ہو چکی ہوتی ہے اور بعد میں صرف ان کی جسامت اور کام کرنے کی اہلیت میں ترقی ہوتی ہے۔ لیکن اس تعلق سے خون کی نوعیت کچھ مختلف ہے کیونکہ خون جن خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے انکی عمر محدود ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر آن خون کے نئے خلیے تیار ہوتے رہتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ ان خلیوں کی پیدائش کے لئے ایسے ابتدائی خلیوں کادائمی طور پر موجود ہونا لازمی ہے جن میں خون کے خلیوں کا Blue print موجود ہو ۔خون کے یہ ابتدائی خلیے ہڈیوں کے مغز میں ہوتے ہیں جہاں سے خون کے مختلف خلیے پیدا ہوتے ہیں ۔کیونکہ انسان یا جانور کے جسم کا آغاز رحم مادر میں ایک ہی خلیہ سے ہوتا ہے لہٰذا ممکن ہے کہ ہڈی کے مغز میں پائے جانے والے ابتدائی خلیہ میں بھی ایسی خاصیت ہو کہ اس سے نہ صرف خون کے خلیے بلکہ جسم کے دوسرے اعضاء کے خلیے بھی پیدا کئے جا سکیں ۔سائنسی تجارب نے ثابت کر دیا ہے یہ عملی طور پر ممکن ہے بشرطیکہ ابتدائی خلیوں کو ضروری ماحول میسر ہو ۔ماحول کی یہ ضروریات مادر رحم میں موجود جنین (foetus) سب سے عمدہ رنگ میں پورا کر سکتا ہے کیونکہ جنین خود اسی عمل میں سے گزر رہا ہوتا ہے ۔لہٰذا اگر انسانی ابتدائی خلیے جانور کے جنین میں ٹیکے کے ذریعہ داخل کئے جائیں تو یہ جنین کے جن اعضاء میں بہم پہنچ جائیں گے انہیں اپنا گھر بنا کر ان میں اپنی تعداد بڑھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔اگر جنین کی عمر کے اوائل میں بیرونی ابتدائی خلیے انجیکٹ کئے جاتے ہیں تو ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے اعضاء کی تشکیل و تکمیل میں خلل پڑنے کی وجہ سے جنین کی ترقی اثر انداز ہو کر حمل کا برقرار رہنا بھی مشکل ہو سکتا ہے ۔اگر بیرونی ابتدائی خلیے زیادہ دیر سے انجیکٹ کئے جائیں تو جنین کا اپنا مدافعتی نظام اتنا مضبوط ہو چکا ہوتا ہے کہ بیرونی خلیات کو پہچان کر ان کو ختم کر سکتا ہے ۔جنین محدود ابتدائی دور میں اپنے اور غیر خلیات میں فرق کرنے کا اہل نہیں ہوتا ۔لہٰذا جانور کے جنین میں انسانی ابتدائی خلیے کامیابی کے ساتھ اس وقت داخل کئے جا سکتے ہیں جب جنین کے اعضاء کی تشکیل مکمل ہو چکی ہو لیکن اس سے قبل کہ جنین ان خلیوں کو رد کرنے میں کامیاب ہو ۔تجارب سے معلوم ہوا ہے کہ یہ موزوں وقت حمل کی آدھی میعاد گزرنے پر شروع ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف نوادا کے سائنسدانوں نے انسانی ہڈی کے مغز سے حاصل کردہ ابتدائی خلیے بھیڑ کے رحم میں بڑھ رہے جنین میں انجیکٹ کر کے دیکھا کہ اس طرح پیدا شدہ بھیڑ کے بچے کے جگر میں سات سے پندرہ فی صد خلیات پر مبنی تھے اور بعض ایسی بھیڑوں میں انسانی جگری خلیات یکجا ہو کر ایک باقاعدہ کام کرنے والا انسانی جگر کا گوشہ تیار کر لیتے ہیں ۔جگر کا ایسا حصہ انسان میں Transplant کیا جائے تو ممکن ہے کہ بالکل انسانی جگر کی طرح کام کرے ۔نوادا کے یہ سائنسدان دل سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی کامیاب تجارب کو عنقریب منظر عام پر لانے والے ہیں ۔ان تجارب سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی خلیے ایسی بھیڑوں میں بیک وقت مختلف اعضاء جیسے جگر،دل و دماغ وغیرہ میں پنپ اور پروان چڑھ رہے ہوتے ہیں۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں مختلف اعضاء بنانے کی صلاحیت رکھنے والے ابتدائی خلیوں کی پہچان ممکن ہو سکے گی اور انہیں حسب ضرورت مخصوص اعضاء تیار کرنے کے کام لایا جا سکتا ہے ۔مثال کے طور پرذیابیطس کا مریض اپنے ابتدائی خلیات سے ہی اپنے لبلبے کے وہ خلیے تیار کراسکتا ہے جو اس کے اپنے لبلبے کہ جگہ پر انسولین (Insulin) مہیّا کر سکے ۔اسی طرح ہارٹ اٹیک میں ناکارہ ہونے والے خلیوں کوبدلنے کا علاج ممکن ہو سکے گا۔

اگرچہ یونیورسٹی آف نوادا کے سائنسدانوں کی اس تکنیک کو عام استعمال میں لانے کیلئے کئی سال بلکہ کئی دہائیاں درکار ہونگی لیکن ان کے کام کو بہت سراہا گیا ہے ۔یاد رہے کہ سائنسدانوں کے بعض طبقے ایسی تکنیکوں کی سخت مخالفت کرتے ہیں جن میں جانوروں کے اعضاء کا کسی طرح سے بھی انسانوں میں استعمال کیا جائے ۔ان کا خدشہ ہے کہ جانوروں کی بیماریاں انسانوں میں منتقل ہو سکتی ہیں۔ انہیں بالخصوص فکر ہے کہ جانوروں کے DNA (خلیات میں موجود تخلیقی سانچے) میں پنہاں Retroviruses انسانی جسم میں تبدیل ہو کر بیماریوں کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اسی طرح سے بعض لوگ اس وجہ سے بھی مخالفت کر رہے ہیں کہ وہ اصولی طور پر انسانوں کیلئے جانوروں کے اعضاء کے Transplant کو پسند نہیں کرتے ۔ان میں ایسے مذہبی فرقے سرفہرست ہیں جو Blood transfusion کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایسی تکنیک کو جانوروں کی تخلیق میں خلل ڈالنے کے مترادف سمجھ کر انہیں رد کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ جیسے یہ بحثیں جاری رہیں گی ویسے سائنسی تحقیق بھی جاری رہے گی اور عین ممکن ہے کہ مستقبل میں ٹرانسپلانٹیشن کی یہ نئی تکنیک کسی نہ کسی سطح پر عام استعمال میں آنے لگے۔

(ڈاکٹر میر شمس الدین۔یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 05 جون 2020ء