• 20 اپریل, 2024

کچھ ناموں کے بارہ میں

آنحضرتؐ نے مشرکانہ ناموں کو بدل کر خوبصورت اور بامعنی ناموں کو رواج بخشا، ایسے نام رکھے جو شرف انسانیت کے مطابق تھے

سال 1979ء میں انڈونیشیا سے جو طالب علم دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جامعہ احمدیہ ربوہ میں آئے ایک ملاقات میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ان میں سے بعض کے نام تبدیل فرمائے مثلاً ایک طالبعلم کا نام مشتری رؤف تھا۔ اس کا نام عبدالستار رکھا۔ واول سکندر کو عبدالوہاب اور مرزوقی باروس کو عطاءالرزاق کا نام دیا۔ احمدسپرجا حسن کا نام سبط احمد اور اس کا متوقع نام عطاء الرب رکھا۔ اسی طرح حضور رحمہ اللہ نے بعض کے ناموں کے ساتھ کچھ اضافہ کیا۔ ایک کا نام ہدایت تھا حضور نے اس کا نام خالد ہدایت رکھا اور ظفر اللہ کے نام کے ساتھ ناصر کا تخلص بڑھا دیا اور وہ ظفراللہ ناصر بنا۔

جہاں تک نام رکھنے کا تعلق ہے تو جو شخص بھی اس دنیا میں آتا ہے اسے کوئی نہ کوئی نام دیا جاتا ہے جس سے وہ لوگوں میں معروف ہوتا ہے۔ بعض لوگ بڑے عجیب و غریب نام رکھتے ہیں۔ اسلام سے قبل عربوں کے نام بہت ہی عجیب ہوتے تھے۔ چند نام ملاحظہ ہوں۔ ثَعْلَبٌ (لومڑ) ذِئْبٌ (بھیڑیا) حَيَّةٌ (سانپ) سِنَانٌ (نیزہ) َرْبٌ (دشمن،جنگجو) مُرّةٌ (کنجوس، بخیل، تلخ) تَأَبَّطَ شَرّاً (شرکو بغل میں رکھنے والا) غَاوِی (سرکش، ظالم)، عبدُالحجرِ (پتھر کا بندہ)۔ عبدُ الکعْبَةِ (کعبہ کا بندہ) عبدُ العُزّى (عزّی بت کا بندہ)۔

الغرض ان کے نام اسی قسم کے ہوتے تھے جو یا تو مشرکانہ تھے یا وہ انسانیت کی توہین کے مترادف تھے۔جیسے ثَعْلَبٌ (لومڑ) ذِئْبٌ (بھیڑیا) كِلَابٌ (کتے) وغیرہ جیسے نام۔یا بعض ایسے نام تھے جو انسان کو تہذیب و اخلاق سے عاری ظاہر کرنے والے تھے۔۔ لیکن قربان جاؤں مؤحّد ،کامل، محسن انسانیت اور معلم اخلاق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جنہوں نے اس لحاظ سے بھی ایک عظیم الشان تغیر اور انقلاب پیدا فرمایا۔ آپ ؐ نے مشرکانہ ناموں کو بدل ڈالا اور خوبصورت ،حسین اور بامعنی ناموں کو رواج بخشا اور ایسے نام رکھے جو انسانیت کے شرف کے عین مطابق تھے۔

اس ضمن میں خاکسار ذیل میں چند روایات درج کرتا ہے ۔ان روایات سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ ناموں کی نسبت سے آپ کو علم ہوگا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم( فدا ہ نفسی وابی وامی) کا ذوق کس قدر اعلیٰ اور کتنا لطیف تھا اور حقیقی توحید کے قیام کے لئے آپ صلی الله علیہ وسلم کس طرح مستعد تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہلو سے بھی شرک کی راہ مسدود کرنے میں اور اس کے خاتمے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہ خیال رکھتے کہ کوئی نام اللہ تعالی ٰکی توحید، اس کی ذات و صفات کے منافی نہ ہو۔اس سے کسی قسم کے شرک کی بو نہ آتی ہو۔اور ناموں میں ایک عزت ،ایک وقار، ایک شرف ،ایک عظمت کا اظہار ہو۔ وہ نام انسانیت کے مقام کے عین مطابق ہوں۔ظاہری لحاظ سے بھی ناموں میں ایک حسن اور خوبصورتی ہو۔ ایک جذب اور کشش ہو۔ لیکن بے معنی اور فضول نہ ہوں۔ ان میں معنویت پائی جاتی ہو۔ ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ معنوی اعتبار سے بھی وہ حسن و خوبی سے آراستہ ہو کیونکہ نام بھی انسانی طبائع اور اخلاق کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ بعض اوقات نام بھی کسی کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس سے پتہ چل سکتا ہے کہ یہ شخص کس قسم کی طبیعت یا اخلاق کا مالک ہے۔اس مختصر سی تمہید کے بعد اب میں ذیل میں چند روایات درج کرتا ہوں۔

حضرت ہانی بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ ایک وفد کی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ لوگ انہیں ’’اَبُو الْحَكَمِ‘‘ کی کنیت سے پکارتے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ حَكَم توصرف اللہ تعالیٰ ہے اورہر فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ پھر تم نے اپنی کنیت ابوالحکم کیوں رکھی ہے؟ حضرت ہانی کہتے ہیں میں نے عرض کی۔نہیں حضور! یہ کنیت خود میں نے نہیں رکھی بلکہ بات یہ ہے کہ جب میری قوم کے لوگ کسی معاملہ میں اختلاف کرتے تو میرے پا س آجایا کرتے تھے ۔میں ان کے درمیان فیصلہ کر دیتا تھا۔ جس سے دونوں فریق راضی ہوجاتے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے مجھے اس کنیت سے پکارنا شروع کردیا۔ اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔کیا خوب ہے۔ پھر فرمایا۔ تمہارے بچے کون کون سے ہیں۔حضرت ہانی رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ شُرَیح ،عبداللہ اورمسلم ان کے بیٹے ہیں۔ اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ ان میں سب سے بڑا کون ہے؟ حضرت ہانی رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ شریح سب سے بڑاہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم ابوشُرَیح ہو۔

اسی طرح حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ لوگ ایک شخص کو عبدالحجر کے نام سے پکارتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اسے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے عرض کی ’’عبدالحجر‘‘۔ فرمایا۔ ’’نہیں ۔تم عبداللہ ہو۔‘‘

محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت ابی سلمہ کے پاس آئے ۔ ان کی ایک بہن ان کے پاس رہا کرتی تھی۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت ابی سلمہ نے ان سے ان کا نام دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کا نام برّه ہے۔ (برّه کے معنی ہیں نیک ،پاک باز) حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت ابی سلمہ نے فرمایا اس کا نام بدل دو ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت زینب بنت جحش سے نکاح فرمایا پہلے ان کا نام بَرَّه تھا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر زینب رکھا اور جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ہوئی اس وقت میر انام بَرَّه تھا۔حضورؐ نے میری والدہ کو مجھے بَرَّه کہہ کر پکارتے ہوئے سنا توفرمایا۔اپنے آپ کو پاک مت قراردو۔اللہ تعالیٰ جانتاہے کہ کون تم میں سے برّہ(نیک،پاکباز) ہے اورکون فاجرہ۔تم اس کا نام زینب رکھو۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جویریہ کا نام پہلے برّه تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام جویریہ رکھا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میمونہ کا نام پہلے برّه تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام میمونہؓ رکھا۔حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصیہ کا نام تبدیل کیا اور فرمایا۔ ’’تم جمیلہ ہو۔‘‘ (عاصیہ کے معنے ہیں نافرمان)۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو میں نے ان کا نام حرب رکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بچے کی ولادت کی خبر ہوئی۔ آپؐ تشریف لائے اور فرمایا۔ ’’أَرُوْنِي اِبْنيَّ‘‘ مجھے میرا بیٹا دکھاؤ۔ تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ ہم نے کہا حرب۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ حَسَن ہے۔‘‘۔۔۔۔ پھرجب حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے میں نے ان کا نام حرب رکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ ۔تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ ہم نے کہا حرب ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’وہ حُسَین ہے۔‘‘’ جب تیسرا بیٹا پیدا ہؤا میں نے اس کا نام حرب رکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ ہم نے کہا حرب ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’یہ محسن ہے۔‘‘

(حرب کے معنی شدید جنگجو، دشمن کے ہیں)۔

عبداللہ بن الحارث بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ رائطۃ بنت مسلم ؓنے بتلایا کہ ان کے والد (یعنی عبداللہ بن حارث کے نانا) كہتے تھے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی جنگ میں شامل ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا۔ ’’تمہارا نام کیا ہے ؟‘‘ میں نے کہا ’’غراب‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’نہیں بلکہ تمہارا نام مسلم ہے۔‘‘ (غراب کے معنے کوے کے ہیں۔)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر ہوا اسے شہاب کہتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ۔ ’’تم ہشام ہو۔‘‘ (شہاب کے معنے ہیں بھڑکتی ہوئی، روشن آگ کا شعلہ اورہشام کے معنی سخی کے ہیں۔)

زید بن حباب کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابو عبدالرحمٰن بن سعید المخزومی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ حضرت سعید المخزومی رضی اللہ عنہ کا نام پہلے ’’اَلصَّرم‘‘ تھا ۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام سعید رکھا ۔(صرم کے معنی مقطوع کے ہیں جو ہر قسم کی خیر سے کاٹا گیا ہو، محروم کردیا گیا ہو اور سعید کے معنی خوش بخت، سعادتمند کے ہیں۔)

عبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں بتایا کہ ان کا نام پہلے ’’عاص‘‘ تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام مطیع رکھا۔ (عاص کے معنے نافرمان کے ہیں اورمطیع کے معنے فرماں بردار)۔

ایک اور صحابی حضرت بشیرؓ بن نہیک تھے ۔پہلے ان کانام زحم تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بشیر رکھا۔ (زحم کے معنی ہیں تنگ کرنے والا اور بشیر کے معنے ہیں بشارت دینے والا۔)

مغنی اللبیب میں ایک نہایت دلچسپ روایت بیان ہے کہ بنوثعلبہ کا ایک شخص تھا جس کا نام غاوی بن ظالم تھا۔ اس کا ایک بت تھا۔ یہ روزانہ اپنے بت کے لئے روٹی اورمکھن وغیرہ لاتا اوراس کے سرپر رکھ دیتا تاکہ وہ بت یہ کھانا کھالے۔ ایک دفعہ اس نے دیکھا وہاں ایک لومڑ آیا۔ اس نے وہ روٹی اور مکھن وغیرہ کھانے کے بعد اپنی ٹانگ اٹھائی اور اس بت کے سر پر پیشاب کر دیا ۔اس پر غاوی نے یہ کہتے ہوئے بت توڑ دیا۔

أَرَبٌّ يَّبُوْلُ الثَّعْلَبَانُ بِرَأْسِهٖ
لَقَدْ هَانَ مَنْ بَالَتْ عَلَيْهِ الثَّعَالِبُ

ترجمہ: ’’کیا وہ رب ہوسکتا ہے جس کے سر پر لومڑ پیشاب کر رہا ہو یقیناً جس پر لومڑ پیشاب کریں وہ بہت ہی ذلیل اور رسوا ہوا۔‘‘

اس کے بعد وہ اللہ رب العالمین پر ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہؤا۔حضورؐنے اس سے اس کا نام دریافت فرمایا۔ اس نے بتلایا کہ اس کا نام غاوی بن ظالم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا نام راشد بن عبداللہ ہے۔

حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے دادا ’’حَزَن‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کا نام دریافت فرمایا۔ انہوں نے کہا میرانام ’’حَزَن‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا بلکہ تمہارا نام سہل ہے۔ اس پر انہوں نے کہا میرے والد صاحب نے میرا جو نام رکھا ہے میں اسے ہرگز تبدیل نہیں کروں گا۔ حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ ’’فَمَا زَالَتْ فِيْنَا الْحَزُوْنَةُ‘‘ بس جب سے ہم میں حزونت جاری ہے۔ (حَزَن کے معنے ہیں غمگین، سخت و درشت اور سہل کے معنی مسرور اور نرم خو کے ہیں۔)

اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالی کے پیاروں کی بات ماننے میں ہی خیر اور برکت ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔

ترجمہ:تیرے رب کی قسم ہے کہ جب تک وہ (ہر) اس بات میں جس کے متعلق ان میں جھگڑا ہو جائے تجھے حکم نہ بنائیں (اور) پھر جو فیصلہ تو کرے اس سےاپنے نفوس میں کسی قسم کی تنگی نہ پائیں اور پورے طور پر فرمانبردار (نہ) ہوجائیں ہرگز ایمان دار نہ ہوں گے۔

(النساء:66)

یہ کوئی معمولی بات نہیں اور اس کے جواب میں یہ کہہ دینا درست نہیں ہوگا کہ نام ہی رکھنا تھا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نام رکھا تھا اس کے بجائے اور رکھ لیاکیونکہ اپنے مطاع امام سے نام رکھوانےسے پہلے آپ کو اختیار تھا آپ خود نام رکھ سکتے تھے۔ یاکسی اور سے رکھوا سکتے تھے۔ لیکن جب آپ خود ہی اپنی مرضی سے اپنے امام کی خدمتِ اقدس میں برکت اور دعا کے حصول کی نیت سے سے بچے کا نام رکھنے کے لیے درخواست کرتے ہیں اور اس بات کا فیصلہ حضور پر چھوڑتے ہیں اور از راہ شفقت حضور بچے کا نام رکھ دیتے ہیں تواب اس کے خلاف عمل کرنا نامناسب اور ادب کے اعلیٰ مقام کے منافی ہے۔

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے یہ اونٹ کون ہانکے گا؟مجلس میں سے ایک شخص نے کہا ۔ ’’میں‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے اپنا نام بتایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ او رپھر دوسرا کھڑا ہوا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی اس کا نام دریافت فرمایا ۔اس نے بھی اپنا نام بتایا ۔ آپ ؐنے فرمایا۔ ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ اور پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا۔ ’’تمہارا نام کیا ہے۔؟‘‘ اس نے کہا جی میرا نام ناجیَہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ’’اَنْتَ لَهَا فَسُقْهَا‘‘ تم ان کے لیے مناسب ہو تم ان اونٹوں کو چلاؤ۔ (ناجیَہ کے معنے تیز چلنے والی اونٹنی کے ہیں)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’تم انبیاء کے نام رکھو۔ اللہ تعالیٰ کو عبداللہ اور عبدالرحمٰن نام بہت پسند ہیں۔ ناموں میں سے سب سے زیادہ سچے نام حارث اور ہمام ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ قبیح حرب اور مرّه ہیں۔

حضرت یوسف رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام یوسف رکھا تھاا اور مجھے اپنی گود میں بٹھایا اورمیرے سرپر ہاتھ پھیرا تھا۔

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ہاں لڑکا ہؤا تو میں اسے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اسے کھجورکی گھٹی دی اور اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میرے نام پر نام تورکھو لیکن میری کنیت دوسروں کو نہ دو۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہمارے ایک انصاری بھائی کے ہاں بچہ پیدا ہؤا۔ اس نے اس کا نام محمد رکھنا چاہا اور ایک روایت میں ہے کہ وہ انصاری خود بچے کو لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں آئے اور عرض کی کہ میں اس کا نام محمد رکھنا چاہتا ہوں ۔آپ ؐ نے فرمایا۔ ’’میرے نام پر نام تو رکھو مگر میری کنیت کسی کو نہ دو۔‘‘ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم تھی۔)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ فحش نام اس شخص کا ہے جس نے اپنا نام ’’ملک الاملاک‘‘ (شہنشاہ) رکھا۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں زندہ رہا تو ان شاءاللہ اپنی امت کو اس بات سے روکوں گا کہ وہ اپنے میں سے کسی کا نام برکت، نافع اور افلح رکھیں۔‘‘ حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے یاد نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نافع بھی فرمایا تھا یا نہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کوئی کہے گا یہاں برکت تھی ؟ تو دوسرا کہے گا نہیں یہاں نہیں تھی ۔یا وہ کہے گا یہاں برکت ہے؟ دوسرا کہے گا نہیں یہاں برکت نہیں ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور یعلیٰ، برکت، نافع، یسار اور افلح و غیرہ نام رکھنے سے منع کرنا چاہتے تھے مگر خاموش رہے اور اس بارے میں کچھ نہیں فرمایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔

( نوٹ :مغنی اللبیب کے حوالے کے علاوہ اس مضمون میں شامل دیگر روایات حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب ’’الأدب المفرد‘‘ سے لی گئی ہیں۔)

حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء بھی نومولودگان کے بہت خوبصورت اور بامعنی نام عطا فرماتے چلے آرہے ہیں جو نہ صرف اسلامی نقطہ نگاہ سے بلکہ جدید دور کو مدّنظر رکھتے ہوئے بھی بہت اعلیٰ اور نفیس ہوتے ہیں۔

ناموں سے متعلق اور بھی کئی روایات اور واقعات ہیں جن کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ مضمون کی طوالت کے باعث اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔احباب جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے نام رکھتے وقت اسلامی تعلیم کی روح کو ہمیشہ مدنظر رکھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور پاکیزہ ارشادات کا مطالعہ کرکے اس کے مطابق زندگیوں میں ایک پاک تغیر پیداکرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

مولانا نصیر احمد قمرؔ۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 05 جون 2020ء