• 25 اپریل, 2024

کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ

کُلُّ نَفْسٍ ذَ ٓائِقَۃُ الْمَوْتِ

(آلِ عمران: 186)

ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے۔

حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے زمین پر کچھ لکیریں کھینچیں اور فرمایا۔ یہ انسان کی امیدیں ہیں اور یہ انسان کی اَجل یعنی موت ہے۔ انسان ابھی امیدوں میں مشغول ہوتا ہے کہ یہ لکیر یعنی موت انسان کو آلیتی ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الرقاق)

جانے کس وقت کوچ کرنا ہو
اپنا سامان مختصر رکھئے

زندگی کیا ہے؟ ایک ننھاسا دیاجس کو ہوا کا ایک جھونکاپل میں گرا دے۔کسی نے کہا ہےکہ ’’زندگی کو زیادہ سیریس لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں سے بچ کر کوئی نہیں گیا۔‘‘ موت کا نام سن کر ہی اکثر لوگوں پر ایک ہیبت سی طاری ہو جاتی ہے۔ غالب نے کہا ہے۔

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

انسانی زندگی کے متعلق اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کو 2حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک اس دنیا کی زندگی جو دارالعمل ہے۔ دوسرے آخرت کی زندگی جو دار الجزاء ہے اور ان دونوں کے درمیان موت کا پردہ حائل ہے۔

فرمایا۔ وَ اَنَّھُمْ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرۃ:47) کہ وہ اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔اس کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔

’’اسلام اس دنیا کی زندگی کو ایک لمبی زندگی کی ایک کڑی قرار دیتا ہے…یہی وہ یقین ہے جس نے سچے مسلمانوں کو ہمیشہ موت سے نڈر بنائے رکھا۔‘‘

(تفسیرِ کبیر جلد اول ص399)

مزید فرماتے ہیں۔
’’جب اس کے ساتھ کسی کو حیات بعدالموت پرایمان بھی ہو اور زندہ خدا پر توکل ہو تو پھر تو یہ دو چیزیں مل کراُس کے دل کو ایسا مضبوط بنا دیتی ہیں کہ موت کا ڈراس کے قریب بھی نہیں آتا۔

(تفسیرِ کبیر جلد2 ص498)

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے

اللہ تعالیٰ نے وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌوَّ اَبْقٰی (الاعلیٰ:18) فرما کر آخرت کی زندگی کو دنیاوی زندگی سے بہتر اور دیرپا قرار دیا ہے۔

حیاتِ آخرت پر ایمان موت سے نڈر بنا دیتا ہے۔جب ایک مومن حیات آخرت کو اسی زندگی کا ایک تسلسل مانتا ہے جو مستقل او ر دائمی ہو گی تو انسان اس کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے۔ اس طرح اس دنیا کو چھوڑنا یا بالفاظِ دیگر موت کو قبول کرنا مومن کو ناگوار نہیں گزرتا بلکہ اس دنیا کوچھوڑ کر دوسری دنیا یعنی آخرت میں جانے کے لئے ایک دلیری اور تیاری محسوس کرتا ہے۔

کوئی دن کے مہماں ہیں ہم سبھی
خبر کیا کہ پیغام آوے ابھی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آجائے گی۔

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ306)

فرمایا۔ ’’یاد رکھو قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جاتی ہے۔ ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے جاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے مکر کرنا مومن کا کام نہیں ہے۔ جب موت کا وقت آگیا پھر ساعت آگے پیچھے نہ ہوگی۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ124)

قبر کے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر لگادی جائے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ہم اُسی وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خدا وند مُنعِم نے ہمیں دیا ہے ہم اُس کوواپس دیں یا واپس دینے کے لئے تیار ہو جائیں۔ ہماری جان اُس کی امانت ہے اور وہ فرماتاہے تُؤَدُّ والْاَمٰنٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا۔

(مکتوبات احمدیہ جلد دوم نمبر3 حاشیہ صفحہ47-48)

اے حبّ جاہ والو! یہ رہنے کی جا نہیں
اس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں
اک دن تمہارا لوگ جنازہ اُٹھائیں گے
پھر دفن کرکے گھر میں تاسفّ سے آئیں گے

فرمایا۔
’’موت کیا دُور ہے؟ جس کی پچاس برس کی عمر ہو چکی ہے اگر وہ زندگی پالے گا تودو چاربرس اور پالے گا یا زیادہ سے زیادہ دس برس اور آخر مرنا ہوگا۔ موت ایک یقینی شے ہے جس سے ہرگز ہرگز کوئی بچ نہیں سکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد اول ص427)

عمرِ ناپائیدار بیت چلی
موت کا انتظار باقی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ہمارے دوستوں کو کس نے بتایا ہے کہ زندگی بڑی لمبی ہے۔ موت کا کوئی وقت نہیں کہ کب سر پر ٹوٹ پڑے۔ اس لئے مناسب ہے کہ جو وقت ملے اُسے غنیمت سمجھیں۔ فرمایا یہ ایّام پھر نہ ملیں گے اور یہ کہانیاں رہ جائیں گی۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 302)

اِس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو
اُس یار کے لئے رہِ عشرت کو چھوڑ دو
لعنت کی ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو
ورنہ خیالِ حضرتِ عزت کو چھوڑ دو

خدا سے آخر وقت تک محبت و وفا

جب آپ علیہ السلا م کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ علیہ السلا م کو اس کثرت اور اس تکرار کے ساتھ اپنی وفات کے قرب کے بارے میں الہام ہوئے کہ کوئی اور ہوتا تو اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ جاتے۔ مگر چونکہ آپ علیہ السلام کو خدا کے ساتھ کامل محبت تھی اور اُخروی زندگی پر ایسا ایمان تھا کہ گویا آپ علیہ السلام اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ آپ علیہ السلام ان پےدرپے الہاموں کے باوجود ایسے شوق اور ایسے انہماک کے ساتھ دین کی خدمت میں لگے رہے کہ گویا کوئی بات ہوئی ہی نہیں۔ بلکہ اس خیال سے اپنی کوششوں کو تیز سے تیزتر کر دیا کہ اب میں اپنے محبوب سے ملنے والا ہوں۔ اس لئے اس کے قدموں میں ڈالنے کے لئے جتنے پھول بھی چن سکوں چن لوں۔

(سیرت طیبہ ازحضرت مرزا بشیر احمدؓص12۔13)

خلافت کے بعد حضرت علیؓ نے پہلے خطبہ میں اطاعت کے بارے میں فرمایا … تم لوگ موت کے آنے سے قبل اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرو جبکہ موت تمہیں گھیرتی چلی آرہی ہے۔ اس لئے تم لوگ گناہوں سے ہلکے ہو کر موت سے ملو۔

(تاریخ طبری جلد سوم حصہ دوم صفحہ441)

ایک مفکر کا کہنا ہے۔ ’’بڑھاپا ایک خونخوار بھیڑیے کی طرح دروازے کے اندر جھانک رہا ہے ۔ بیماریوں نے دشمنوں کی طرح محبت کے قلع کا محاصرہ کرلیا ہے ۔ زندگی پانی کی طرح ٹوٹے ہوئے برتن سے قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے۔‘‘

روزِ ازل سے ہے یہاں موت و فنا کا سلسلہ
سنتے ہیں اس جہاں میں ہے جاری بقا کا سلسلہ
ہزاروں ہیں جو اس منزل پہ ہمت ہار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے جس سے انکارممکن ہی نہیں۔ دنیا فانی ہے اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے۔جتنی مرضی تدبیریں کر لیں آخر رخصت ہونا ہے ۔موت ایک ایسی چیز ہے جو عزیزسے عزیز چیز کو بھی چھین لیتی ہے ۔ زندگی جیسی قیمتی دولت دے کر موت نصیب ہوتی ہے۔ بندے کا اس جہاں میں فانی ہونا اور پھر اگلے جہاں میں غیر فانی ہوجانا یقینی طور پر اِس دنیا کی حقیقت کے حوالے سے جس کسوٹی کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہی ہے کہ یہاں عارضی قیام اور وہاں ہمیش۔ بندہ مومن کا جب اپنے رب سے ملاقات ہونے کا سبب بننے والی موت سے سامنا ہوتا ہے تو بندہ مومن کے لئے اُس کے رب کی جانب سے وہ موت تحفہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔

موت انسانی زندگی کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ یہ تو انسانی زندگی کے اگلے دور کا نام ہے۔ موت کے دروازے سے گزر کر انسان اگلے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔ موت فقط نقل مکانی ہے۔ موت کا ذائقہ ہر کسی نے چکھنا ہے۔ ذائقہ ایک کیفیت کا نام ہوتا ہے اِس کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔ جیسے اگر کوئی مشروب پیا جائے تو اُس کا ذائقہ کچھ دیر تک رہتا ہے لیکن اُس کے بعد اُس مشروب کے ذائقے والی کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہی حال موت کا ہے کہ انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، مرنا نہیں ہے۔چونکہ ذائقہ ایک بے ثبات چیزہے۔ ایک دن میں کئی مرتبہ ذائقہ آتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔ اِس لئے تو موت ذائقہ بن کر آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ اِس ذائقہ موت کی کیا مجال کہ وہ انسان کی حقیقت کو ختم کر سکے۔

کون کہتا ہے موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤں گا

اس کا مطلب ہے موت، زندگی کے تسلسل کا ہی نام ہے۔ کوئی فوت ہو جائے تو کہاجاتاہے فلاں کا انتقال ہوگیا یعنی وہ اس دنیا سے اگلی دنیا میں ٹرانسفرہوگیا۔ انتقال کی ٹرم زمین کی خریدو فروخت میں بھی استعمال کی جاتی ہے ۔آپ نے یہ بھی سناہوگا فلاں بزرگ کا وصال ہوگیا ۔وصال کے معانی ہی ملنے کے ہیں۔ ہجروصال سے اولیاء کرام، شاعروں اور عاشقوں کا گہرا رشتہ ہے۔ مرزا غالب نے اس ضمن میں بڑے مزے کی بات کی ہے اورصوفی تبسم نے پنجابی میں اس کا منظوم ترجمہ کرکے حق ادا کردیاہے۔

بھاویں ہجر تے بھاویں وصال ہوئے
وکھوں وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں

خلیل جبران کہتا ہے کہ میں نے بار بار اس پر غور کیا۔ موت کیا ہے؟ اس کا زندگی سے کیا رشتہ ہے؟ ایک دفعہ میں نے ایک سمندری جہاز دیکھا جب وہ ساحل سے دور ہوتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا تب وہاں پر موجود لوگ کہنے لگے ’’چلاگیا‘‘ میں نے سوچا دور ایک بندر گاہ ہوگی وہاں پر لوگ جہاز کو دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے’’آگیا‘‘ اور شاید اسی کانام موت ہے ۔ایک پرانی زندگی کا خاتمہ اور ایک نئی زندگی کی ابتداء۔

حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت بلالؓ کو بخار ہو گیا۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میں ان کی عیادت کو گئی تو میں نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کر کے کہا اے اَبَّا! آپ کا کیا حال ہے؟ اور اے بلالؓ تمہارا کیا حال ہے؟

حضرت عائشہ ؓ کرتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ کو بخار ہوتا تھا تو وہ یہ شعر پڑھتے تھے۔

کُلُّ امْرِءٍ مُصَبَّحٌ فِیْ اَھْلِہٖ
وَالْمَوْتُ اَدْنٰی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہٖ

ہر شخص اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے اور موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے۔اور حضرت بلال ؓ کا جب بخار ٹوٹتا تھا تو وہ اپنی چادر اٹھا کر جو شعر پڑھتے تھے ان کا یہ مفہوم ہے۔ہائے مجھ پر وہ دن بھی آئے گا جب کہ میں رات ایسی وادی میں گزاروں گا جہاں میرے اردگرد اِزْخِرْ گھاس اور جلیل اُگی ہوئی ہوگی……حضرت عائشہؓ کہتی ہیں مَیں نے حضرت ابوبکرؓ و حضرت بلال ؓ کا یہ حال دیکھا تو میں نے آکر رسول اللہ ﷺ کو اس سے آگاہ کیا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے یہ دعا فرمائی۔

اے اللہ! ہمیں مدینہ مکہ سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔ اور اس کی آب وہوا درست فرما دے اور ہمارے لئے اس کے صَاع اور مُد میں برکت دے دے اور اس کی بیماری کو جُحْفَہ کے علاقہ میں منتقل فرما دے۔

(الادب المفرد للبخاری باب ما یقول للمریض۔ حدیث: 525)

حضرت بقیرہؓ زوجہ حضرت سلمانؓ فارسی روایت کرتی ہیں کہ بوقت وفات حضرت سلمانؓ اپنے چوبارے میں تھے جس کے 4دروازے تھے۔ مجھے کہنے لگے بقیرہ ؓ! یہ دروازے کھول دو، میں آج کچھ پیش رو فرشتوں کو آتے دیکھتا ہوں۔ نامعلوم وہ کس دروازے سے آجائیں۔ پھر انہوں نے مُشک منگوایا اور کہا اسے پانی سے ملا کر ایک برتن میں رکھو پھر اسے میرے بستر کے گرد چھڑک دو پھر نیچے اتر جانا اور کچھ دیر بعد آکر مجھے بستر پر دیکھ جانا۔ میں نے واپس جاکر دیکھا تو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔

(سیر اعلام النبلاء جلد1 ص553۔554)

مولانا بشیر احمد رفیق حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان ؓ کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب آپ ناشتہ بھی ہمارے ساتھ کرتے تھے ۔ایک دن صبح کے ناشتہ پر تشریف نہ لائے تو مجھے فکر ہوئی آپ کے فلیٹ میں حاضر ہوا تو آپ بستر پر لیٹے ہوئے تھے ۔میں نے آواز دی تو بڑی نحیف اور کمزور آواز میں جواب دیا آجاؤ ۔فرمانے لگے رات جب میں تہجد کے لئے اٹھا تو اچانک مجھے شدید ضعف کا دورہ پڑا اور سارا جسم پسینہ سے تر بتر ہوگیا اور سینہ میں بھی شدید درد محسوس ہوتا رہا ۔اس دوران کمزوری اتنی بڑھ گئی کہ دو تین مرتبہ مجھ پر غشی طاری ہوتی رہی۔ میں نے عرض کیا آپ کے سرہانے فون رکھا ہوا ہے اور یہ لگایا بھی اسی لئے گیا تھا کہ آپ کسی فوری ضرورت کے وقت مجھے بلوا سکیں ۔آپ نے مجھے کیوں نہیں بلایا ۔فرمایا دو تین دفعہ مجھے خیال آیا کہ تمہیں فون کروں لیکن ہر بار یہ خیال تم کو بلانے سے مانع رہا کہ تم تھکے ہوئے ہوگے رات کو نیند سے اٹھانا مناسب نہ ہوگا۔ پھر فرمایا مجھے خوشی ہے کہ اس بیماری میں میری ایک خواہش پوری ہوگئی ۔میری ہمیشہ سے یہ دعا رہی ہے کہ جب میری موت کا وقت قریب آئے تو میری زبان پر جزع فزع کی بجائے حمد الٰہی اور درود کا ورد ہو ۔رات کو بھی جب مجھ پر غشی ہوتی اور میں غشی کی کیفیت سے باہر آتا تو میری زبان پر حمد اور درود ہوتا اس لئے مجھے اب یہ اطمینان ہوگیا ہے کہ جب بھی موت آئی تو ان شاء اللہ میری زبان حمد اور درود سے تر ہوگی ۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے موت سے ہرگز کوئی خوف نہیں ہے اور میں کبھی اس بارہ میں سوچتا بھی نہیں کہ موت کوئی ڈرنے والی چیز ہے۔ موت کا ذکر آیا تو یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ کو لمحہ بہ لمحہ اپنی طرف بڑھتی ہوئی موت کا نہ صرف احساس تھا بلکہ آپ اس سے ایک گونہ خوشی و مسرت محسوس کرتے تھے اور سفر آخرت کا یوں ذکر فرماتے جیسے کوئی معمول کے سفر پر روانہ ہورہا ہو۔ ایک بار میں آپ کی آخری بیماری کے دوران ملاقات کے لئے لاہور حاضر ہوا تو فرمایا امام صاحب دعا کریں سفر بخیریت گزر جائے۔ میں حیران ہوا کہ آپ تو لندن سے واپس آگئے تھے کہ اب یہیں رہیں گے اور اب آپ کی صحت بھی اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ آپ پھر سے سفر کریں اس لئے سفر کا ارادہ کیوں کرلیا آپ نے؟ میری بات سن کر خفیف سے مسکرائے اور فرمایا میں لندن کے سفر کا نہیں۔ ’’اس‘‘ سفر کا ذکر کر رہا ہوں۔ میں آپ کی بات سمجھ گیا اور عرض کیا اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے ۔آپ کیوں ایسی باتیں کرتے ہیں۔ فرمایا نہیں اب اللہ تعالیٰ نے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ اب سفر جلد درپیش ہے ۔پھر اپنا ایک خواب سنایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میں ایک چار منزلہ مکان کے نیچے بیٹھا الفضل پڑھ رہا ہوں اوپر چوتھی منزل سے میری والدہ محترمہ مجھے آواز دیتی ہیں ’’اب آجاؤ‘‘ میں عرض کرتا ہوں کہ بس یہ الفضل تھوڑا سارہ گیا ہے اسے ختم کرکے حاضر ہوتا ہوں ۔اسی طرح ایک دو اور خوابیں بھی سنائیں اور خواب بیان کرتے وقت چہرے پر موت کے خوف یا ڈر کا تو خیر ذکر ہی کیا اس سے با لکل الٹ نہایت درجہ شادمانی اور اطمینان کا تأثر تھا۔

(محمد ظفراللہ خان چند یادیں ص68-70)

مولانا ظفر محمد ظفر کی آخری بیماری کے بارہ میں آپ کے صاحبزادہ ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں ۔الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے آپ کا مکمل طبی معائنہ کیا اور اس دوران وہ باہم انگلش میں ہی گفتگو کرتے رہے تا ایک بوڑھے مریض کو اس کی علالت کی شدّت کی خبر نہ ہوکہ وہ چراغ سحری ہے۔ اس پر والد صاحب بے ساختہ مسکرائے جس پر ایک ڈاکٹر صاحب بولے بزرگو بیماری کی اتنی شدت میں آپ ہنس رہے ہیں۔ ماشاء اللہ آپ تو بہت باہمت ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اس پر ہنس رہا ہوں کہ آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں ناخواندہ ہوں۔ اس لئے آپ مجھے پریشانی سے بچانے کی خاطر انگلش میں میری صحت کی بحالی کو ناممکن قرار دے رہے ہیں۔اس بارہ میں عرض ہے کہ میں انگلش جانتا ہوں اور دوسری بڑی اور بنیادی بات یہ ہے کہ میں موت سے قطعًا نہیں گھبراتا۔آپ بے شک کھل کر اور جس زبان میں چاہیں بات کریں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے اعصاب اور میری صحت ایسی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے۔

(روزنامہ الفضل مورخہ4 ستمبر 2003ء)

اوڑھ کر مٹی کی چادر بے نشاں ہو جائیں گے
ایک دن آئے گا ہم بھی داستاں ہو جائیں گے

حضرت ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ مجھے حضرت خارجہ بن زید بن ثابتؓ نے بتایا کہ حضرت اُمِّ علاء (جو انصار میں سے ایک ایسی خاتون تھیں جنہوں نے نبی ﷺ کی بیعت کی تھی) نے انہیں بتایا کہ مہاجرین کو قرعہ اندازی کے ذریعہ انصار میں تقسیم کیا گیا تو حضرت عثمان بن مظعون ؓ ہمارے حصہ میں آئے۔ ہم نے انہیں اپنے ہاں ٹھہرایا۔ پھر ان کو وہ تکلیف ہوئی جس میں وہ وفات پاگئے۔ جب ان کی وفات ہوگئی اور ان کو غسل دے دیا گیا تو ان کو ان کے کپڑوں ہی کا کفن پہنایا گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا۔ اے ابوسائبؓ (یعنی حضرت عثمان بن مظعونؓ) میں تمہارے بارے میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو (رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے) عزت بخشی ہے۔ یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا۔ ’’تمہیں یہ کس طرح معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت بخشی ہے؟ اس پر میں نے عرض کی۔ میرے والد آپؐ پر قربان جائیں۔ اللہ تعالیٰ پھر کس کو عزت بخشتا ہے؟ اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا۔ جہاں تک اس کا معاملہ ہے اسے موت نے آلیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں امید رکھتا ہوں کہ اس سے خیر کا معاملہ ہی ہو گا۔ اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ؐہوں۔ اس کے باوجود میں بھی یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ (وفات کے بعد) کیا سلوک کیا جائے گا۔ حضرت اُمّ علاء ؓ نے عرض کی۔ خدا کی قسم! میں آئندہ کبھی کسی کو پاک نہیں ٹھہراؤں گی۔

(بخاری کتاب الجنائز باب الدخول علی المیت بعد الموت اذا ادرج فی اکفانہ۔ حدیث 1243)

ہر مومن کی خواہش ہے کہ اس عارضی زندگی کے اختتام پر انسان کا خاتمہ بالخیر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے خاتمہ بالخیر کے لئے تقوٰی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

فرمایا۔ وَالعَاقِبَۃُلِلْمُتَّقِیْن (الاعراف:129) کہ اچھا انجام متّقیوں کے لئے ہی مقدر ہے۔ پھر جنت کا حصول اور چشموں اور نعمتوں کی عطا بھی متقیوں کا ہی نصیب ہے۔

(الفرقان:75)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔اے عزیزو ! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اُس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا … اس لئے اب اپنے ایمانوں کو خوب مضبوط کرو اور اپنی راہیں درست کرو ،اپنے دلوں کو پاک کرو اور اپنے مولیٰ کو راضی کرو ۔دوستو ! تم اس مسافر خانہ میں محض چند روز کے لئے ہو ۔اپنے اصلی گھروں کو یاد کرو تم دیکھتے ہو کہ ہر ایک سال کوئی نہ کوئی دوست تم سے رخصت ہوجاتا ہے ۔ایسا ہی تم بھی کسی سال اپنے دوستوں کو داغ جدائی دے جاؤ گے۔سو ہوشیار ہوجاؤ۔ اور اس پُر آشوب زمانہ کی زہر تم میں اثر نہ کرے ۔اپنی اخلاقی حالتوں کو بہت صاف کرو ۔کینہ اور بُغض اور نخوت سے پاک ہو جاؤ۔ اور اخلاقی معجزات دنیا کو دکھلاؤ۔

(اربعین نمبر 4، روحانی خزائن جلد17 ص442)

نہ کر تکیہ یہاں کی زندگی پر یہ ہے نادانی
یہاں کی زندگی دھوکہ یہاں کی زندگی فانی

(حافظ عبد الحمید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 05 جون 2020ء