• 24 اپریل, 2024

کوپرنیکس کا ہیلیو سنٹرک (Heliocentric) نظریہ اور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

کوپرنیکس کا ہیلیو سنٹرک (Heliocentric) نظریہ
اور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

’’100 عظیم شخصیات‘‘ میں پہلے نمبر پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیا گیا ہے اور تیسرے نمبر پر عیسٰی رسول الی بنی اسرائیل علیہ السلام کو بیان کیا گیا

The 100 A ranking of the most influential persons in the history by Michael H Hart

جہاں تک سائنس کا تعلق ہے اس کا عیسٰی علیہ السلام یا آپ کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں اسی لئے جب بھی سائنس کی دنیا میں کوئی جدید نظریہ پیش کیا گیا پادریوں نے اکثر اس کی مخالفت کی اور ایسے سائنس دانوں کو بڑی بڑی سزائیں دیں کیونکہ پادریوں کی تعلیمات کے انہیں خلاف پایا گیا جب کہ ہر نئی سائنسی تحقیق جو احیاء نو renaissance کے دور یا بعد میں ہوئی اسے قرآن کے مطابق پایا گیا اس کا واضح ثبوت مؤریس بکالے (Maurice Bucaille) کی کتاب

The Bible, Qur›an and Science

سے ملتا ہے جیسا کہ وہ لکھتا ہے

The Qur›an did not contain a single statement that was assailable from a modern scientific point of view.

یعنی قرآن حکیم میں ایک بھی ایسا بیان نہیں ہے جس پر جدید سائنسی نقطہ نظر سے حملہ ہو سکے
100 عالمی شہرت کی کتا ب میں لکھا ہے

Similarly, even though modern science first arose in the Christian nations of westren Europe, it seems inappropriate to think of Jesus as responsible for the rise of Science. Certainly none of the early Christians interpreted the teachings of Jesus as a call for scientific investigation of the physical world. Indeed, the conversion of the Roman world to Chistianity was accompanied and followed by a drastic decline in both the general level of technology and general degree of interest in science.

The science did eventually arise in Europe s indeed an indication that there was something in the European cultural heritage that was favourable to the scientific way of thinking. That something, however, was not the sayings of Jesus, but rather Greek rationalism, as typified by the works of Aristotle and Euclid. It is noteworthy that modern science developed, not during the hayday of church power and Christian piety, but rather on the heels of the Renaissance, a period during which Europe experienced a renewal of interest in its pre_Christian heritage.

(The 100 …… page 48,49)

یعنی اسی طرح، اگرچہ جدید سائنس نے مغربی یورپ کی عیسائی اقوام میں ترقی پائی لیکن یہ سوچنا نامناسب ہے کہ سائنس کی ترقی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی مرہون منت ہے یقیناً ابتدائی عیسائیوں نے کبھی بھی عیسوی تعلیمات کو سائنسی تحقیقات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے نہیں پایا بلکہ رومن ورلڈ کا عیسائی مذہب قبول کرنا سائنس اور ٹیکنالوجی کی عمومی پستی کا باعث بنا دراصل سائنس نے یورپ میں بالآخر ترقی اس وجہ سے کی کہ یورپ کی ثقافت میں اس کے آثار پائے جاتے تھے اس میں قطعاً عیسوی تعلیم کا کوئی دخل نہیں بلکہ یونان کے ارسطو اور اقلیدس کی تحریر کردہ معلومات کا نتیجہ ہے یہ امر قابل ذکر ہے کہ سائنس نے یورپ میں ترقی عیسائیت کے خوشحالی کے دوران نہیں کی بلکہ احیاء نو کے بل بوتے پر عیسائیت کے وجود سے پہلے کی ثقافت کی تجدید کا نتیجہ ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے
’’بائبل اور سائینس کی آپس میں ایسی عداوت ہے جیسی کہ دو سوکنیں ہوتی ہیں‘‘

(الحکم 10اگست 1901ء)

بطلیموس کا جیو سینٹرک (Geocentric) ارض مرکزی
نظریہ

سالہا سال تک علم ہیئت میں سائنسدان اس غلط نظریے پر قائم رہے کہ زمین ساکن ہے اور سورج اور دیگر سیارے زمین کے گرد گول مدار میں گھوم رہے ہیں اس کا تصور یونان کے عظیم فلاسفر ارسطو نے 340 ق م میں پیش کیا

بطلیموس Ptolemy دوسری صدی کا عظیم ماہر فلکیات و جغرافیہ دان تھا اس کی کتاب المجسطی Almagest قدیم یونانی عالمی شہرت یافتہ ریاضی اور علم ہیئت پر کتاب ہے جس کا impact کئی صدیوں پر محیط ہےبطلیموس نے ارسطو کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے geocentric ارض مرکزی نظریہ کا ماڈل تیار کیا جس کے مطابق زمین مرکز میں قائم تھی اور ارد گرد 8 کرے تھےجن میں چاند، سورج، ستارے اور اس وقت تک معلوم 5 سیارے (عطارد، زہرہ، مریخ مشتری، اور زحل) شامل تھے

مسیحی کلیسیا نے اسے کائنات کے تصور کے طور پر اختیار کیا

یہ نظریہ کئی سو سال تک صحیح تسلیم کیا جاتا رہا لیکن بعد میں غلط ثابت ہوا

کوپر نیکس کا ہیلیو سنٹرک (Heliocentric) آفتاب مرکزی نظریہ

نکولس کوپر نیکس (1473_1543)

Nicolas Copernicus

پولینڈ کا ایک عظیم ہیئت دان تھا جس نے Heliocentric Theory پیش کی جس کے مطابق آفتاب مرکزی حیثیت رکھتا ہے جس کے گرد زمین سمیت سب اجرام فلکی گول مداروں میں گردش کر رہے ہیں اس تھیوری پر مشتمل کوپر نیکس نے 1514ء میں ایک سادہ ماڈل بنا کر پیش کیا جس نے

Earth Central Model

کو Sun Central Model میں بدل دیا اس وجہ سے کوپر نیکس کے خلاف پادریوں کی طرف سے کہرام مچ گیا اور چرچ کی طرف سے بہت شدید مخالفت ہوئی وہ اتنا خوف زدہ ہوا کہ اس نے آفتاب کی مرکزیت یعنی

Heliocentric (sun Central) Model

پر جو کتاب لکھی تھی اس کی اشاعت کو اپنی موت تک رکوا دیا چنانچہ جب وہ Death Bedپر یعنی قریب المرگ تھا اس وقت اس کی کتاب شائع ہوئی کتاب کا نام ہے

De Revolutionibus Orbium Celestium

(The Revolution of the Celestial Spere)

حتیٰ کہ گلیلیو Galileo Galilie (پیدائش 1564ء وفات 1642ء) کی دور بین ایجاد ہونے کے بعد اس کی تھیوری کی تصدیق ہو گئی

ازاں بعد (پیدائش 1571ء وفات 1639ء) Johannes Kapler نے کوپر نیکس کی تھیوری میں ترمیم کرتے ہوئے یہ تجویز دی کہ سیارے دائروں کی بجائے بیضوی مداروں میں حرکت کرتے ہیں اس کے بعد نیوٹن Isaac Newton ( پیدائش 1643ء وفات 1727ء) جیسے عظیم سائنسدان کی ریسرچ اور کتاب

Philosophia Naturralis Principia Mathematica

وغیرہ کی اشاعت نے کوپر نیکس کے نظریے کی پوری طرح تصدیق کر دی

کوپر نیکس کی کتاب پر پابندی اور گلیلیو کی تا حیات نظر بندی

In 1633, the Catholic Church convicted Galileo of heresy for «following the position of Copernicus, which is contrary to the true sense and authority of Holy Scripture», and placed him under house arrest for the rest of his life.

More than 200 years later, in 1835, the ban on the book was finally lifted.

(wikipedia)

1633ء میں کوپرنیکس کے نظریے کی تصدیق کے جرم میں گلیلیو پر کیتھولک چرچ کی طرف سے مقدمہ چلایا گیا کیونکہ چرچ کے نزدیک مرکزیت آفتاب کا نظریہ بدعت اور Holy Scripture کے خلاف تھا چنانچہ گلیلیوکو بطور سزا تا حیات نظر بند کر دیا گیا اور اسی حالت میں اس کی وفات ہوئی۔200 سال سے کچھ زیادہ سال بعد 1835ء میں اس کتاب پر سے ban اٹھا لیا۔حال ہی میں ایک شہرہ آفاق سائنسدان (تھیوریٹیکل فزکسٹ کاسمالوجیسٹ) سٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب

A Brief History of Time

(وقت کی مختصر تاریخ) میں بھی ان حقائق کا ذکر کیا ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ حیات (1835ء1908ء)

خداتعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ بہت سارے اہم سائنسی انکشافات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیاۃ طیبہ (1835ء 1908ء) میں ظاہر ہوئے ہیں

1835ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک پیدائش کا سال ہے۔اورکوپر نیکس کا نظریہ بھی سالہا سال تک controversy کا شکار رہ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش والے سال یعنی 1835ء میں تسلیم کیا گیا اور اس کی ضبط شدہ کتاب منظر عام پر آگئی

آپ نے فتح اسلام میں فرمایا ہے ’’خلیفۃ اللہ کے نزول کے ساتھ فرشتوں کا نازل ہونا ضروری ہے تا دلوں کو حق کی طرف پھیریں‘‘

قرآن کریم سے نظریہ آفتاب مرکزی (Heliocentric) کی تصدیق

کوپر نیکس کے Heliocentric نظریہ کو جہاں چرچ کے Holy Scripture کے خلاف پایا گیا اور کیتھولک چرچ نے اس کی سخت مخالفت کی وہاں یہ نظریہ بعض لوگوں کے نزدیک قرآن کریم کے عین مطابق ہے

ملاحظہ فرمائیں سورۃ النور آیت 36

اللہ نور السموات والارض مثل نورہ کمشکوۃ فیھا مصباح المصباح فی زجاجۃ الزجاجۃ کانھا کوکب دری یوقد من شجرۃ مبارکۃ زیتونۃ لا شرقیۃ ولا غربیۃ یکاد زیتھا یضئء ولو لم تمسسہ نار نور علی نور یھدی اللہ لنورہ من یشآء ویضرب اللہ الامثال للناس واللہ بکل شیء علیم

ترجمہ: خدا آسمان اور زمین کا نور ہے اس نور کی مثال یہ ہے جیسے ایک طاق اور طاق میں ایک چراغ اور چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں جو نہایت مصفی ہے اور شیشہ ایسا صاف کہ گویا ان ستاروں میں سے ایک عظیم الشان ستارہ ہے جو کہ آسمان پر بڑی آب و تاب کے ساتھ چمکتے ہوئے نکلے ہیں جن کو کوکب دری کہتے ہیں وہ چراغ زیتون کے روغن سے روشن کیا گیا ہے (شجرہ مبارکہ) نہ شرقی نہ غربی تیل ایسا صاف اور لطیف کہ بن آگ ہی روشن ہونے پر آمادہ، نور علی نور، خدا اپنے نور کی طرف جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور وہ ہر چیز کو بخوبی جانتا ہے

اس آیت میں ترسیمی طور پر (graphically) شمسی نظام میں آفتاب مرکزیت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے جب کہ چراغ (سورج)، از خود روشن ہونے والا ستارہ روشنی (تابانی) کے درمیان میں ہے اور اجرام فلکی (قندیل کی شکل میں) اس کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور اسی (سورج) سے روشنی لے رہے ہیں بطور قندیل کے یعنی تیزی سے گھومنے والے اجرام فلکی شیشے کی طرح شفافیت پیدا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں (واللہ اعلم بالصواب)

The light very graphically outlines a Heliocentric (Sun Central) model of the Solar System where the Sun, the self burning lamp (Star) is the centre of illumination and the planets (Kaukab) revolving around and getting illumination by it as its circling glass cover (rapidly moving bodies create an illusion of glass _ Transparency)

ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ

سائنسدانوں کی زندگیوں کے حالات کیوں نہیں بار بار پڑھتے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز کے پہلے سرپرست مقرر ہوئے تھے یہ ذمہ داری 1980ء میں ایسوسی ایشن کے قیام کے ساتھ ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کو سونپی تھی چنانچہ آپ نے خلافت رابعہ کے عظیم منصب پر فائز ہونے کے بعد آرکیٹکٹس اور انجینئرز کو خطاب کرتے ہوئےفرمایا:
’’سائنس دانوں کی زندگیوں کے حالات ہیں یہ کیوں نہیں بار بار پڑھتے میرا خیال ہے آپ میں سے اکثر ایسے ہوں گے جنہوں نے تعلیم کی فراغت کے بعد اس بات میں دلچسپی لینی چھوڑ دی کہ ہماری برادری کے سائنس دانوں پر کیا گزری؟ کس زمانہ میں کیا ہوا؟ کس طرح وہ آگے نکلے؟ ان کی کیا مشکلات تھیں؟ حالانکہ جب آپ ان کے حالات پڑھیں گے تو وہ حالات پڑھتے پڑھتے ہی اللہ تعالیٰ آپ کے ذہن کی کھڑکیاں بھی ساتھ ساتھ کھول رہا ہو گا کئی جگہ آپ کی نظر وہاں سے ہٹ جائے گی اور خیال میں ایک اور فلسفہ جنم لینے لگ جائے گا

پس آپ اپنے فن سے اپنے آپ کو باتعلق رکھیں

اس کے بہت سے ذریعے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ پرانے اور نئے سائنس دانوں کی زندگی کے حالات پڑھیں

اس کے علاوہ آج کل دنیا میں نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں ان پر پیپر پڑھیں آپس میں تبادلہ خیال کریں اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے‘‘

(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مطبوعہ روزنامہ الفضل ربوہ 22 فروری 1983ء)

(انجینئر محمود مجیب اصغر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جون 2021