• 18 اپریل, 2024

میری والدہ مکرمہ حاکم بی بی صاحبہ کا ذکرخیر

یہ مضمون میرے شوہر محترم بشیر الدین احمد سامیؔ صاحب مرحوم نے اپنی والدہ صاحبہ کے لئے لکھا ہوا ہےجو اُن کی فائل میں تھا۔ یہ اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے میں اُس کو ویسے ہی لکھ رہی ہوں جیسا کہ اُ نہوں نے لکھا ہے۔ میرا خیال ہے یہ مضمون کم از کم چوبیس یا پچیس سال تو پُرانہ ہوگا ۔ صفیہ بشیر سامیؔ

1914ء میں جب محترمہ اماں جی مرحومہ حاکم بی بی صاحبہ شادی کے بعد قادیان آئیں تو وہ احمدی نہیں تھیں ۔ انہوں نے نہ تو قرآن کریم پڑھا ہوا تھا اور نہ ہی اردو لکھنا پڑھنا جانتی تھیں۔ لیکن جیسے ہی قادیان آئیں تو محترمہ بیگم جی صاحبہ کی تربیت میں انہوں نے قرآن کریم ناظرہ ، اردو، اور دیگر دین کی باتیں سیکھ لیں ۔ اوّل اوّل مکرم صلاح الدین صاحب ایم اے کے مکان میں ٹھہریں، اڑوس پڑوس ماحول، اخوت اور محبت کا ایک مثالی ماحول تھا ۔ قرب وجوار میں مولوی غلام نبی صاحب ، مکرم فضل محمد صاحب ہرسیاں والےم، ولوی بقاپوری صاحب، مکرم عبد الرحمٰن صاحب مہر سنگھ، مکرم عبیداللہ صاحب بسمل صاحب ، مکرم فضل الرحمٰن صاحب حکیم اور مکرم ابو العطا جالندھری صاحب جیسے بزرگ گھرانے آباد تھے ۔

1922ء میں جب سیّدنا امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اباجی مرحوم سردار مصباح الدین صاحب کو انگلستان کے مشن میں خدمت کے لئے بھجوایا تو مکرم با با جی فضل محمد ہرسیاں والے از خود اماں جی اور اُن کی بیٹی فاطمہ (مرحومہ) کا خاص خیال رکھتے اور اپنی بچیوں محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اور محترمہ سردار بیگم صاحبہ کو اُنکی دیکھ بھال کے لئے مقرر کر دیا ۔ تاکہ اُن کی بیٹی فاطمہ کے ساتھ جا کر کھیلا کریں ۔ اماں جی کے بطن سے جب چوتھا بیٹا پیدا ہوا تھا اُس وقت محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اور محترمہ سردار بیگم صاحبہ بڑی ہو چکی تھیں جب اُن کو اماں جی کے بیٹے کی خبر ملی تو تحفہ تحائف کے ساتھ وہ اُس نوزائیدہ بچے کو دیکھنے گئیں ۔ لیکن کیا وہ جان سکتی تھیں کہ قدرت کو آگے جا کر کیا منظور ہوگا؟

1936ء کے قریب اگرچہ اماں جی اپنے نئے مکان میں چلی گئیں تھیں جو اُ نہوں نے باویاں دا باغ کے سامنے بنوایا تھا لیکن محبتیں اور تعلق بدستور قائم رہے ۔

گرمیوں کی ایک کڑکتی دوپہر

ایک دن باویاں دے باغ کے ایک پیڑ کے سائے تلے سخت گرمی میں اور تپش سے بچنے کےلیےایک خاتون بیٹھی تھی جس کی گود میں ایک شیر خوار بچہ تھا ۔ اور گرمی کی شدّت اور تپش کی وجہ سے بالکل بے ہوش پڑا تھا ۔ وہ خاتون زارو قطار رو رہی تھی ۔ اتفاق سے میں بھی اُسی جگہ کھیل رہا تھا ۔اور جب میں نے یہ ماجرہ دیکھا تو بھاگ کر اماں جی مرحومہ کو بتایا ۔ اماں جی بھاگم بھاگ میرے ساتھ آئیں اور اُس خاتون کو جا کر تھاما اور دلاسا دیا ۔بچے کو اپنی گود میں لیا اور فوراً اپنے گھر لے آئیں ۔ اُ نہیں ٹھنڈک پہنچائی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس بچے نے آنکھیں کھول دیں ۔ اماں جی نے ہمیں ریتی چھلہ کی طرف دوڑایا کہ اس بچے کے والدمکرم خواجہ ناصر احمد صاحب کو بلا کر لائیں ۔ وہ اُن دنوں وہاں فروٹ کا کاروبار کرتے تھے ۔

اللہ کی تقدیر

سالوں پر پھیلے ہوئے بظاہر دو عام سے واقعات تھے ۔ لیکن قدرت کی شان دیکھیں کہ وہی لڑکی جو اماں جی کے نوزائیدہ بچے کو دیکھنے کیلئے تحفوں کے ساتھ گئی تھی بالآ خر اُسی بچے کی ساس بنیں (مکرمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم شیخ محمد حسن صاحب آف لندن)

اور وہ شیر خوار بچہ جو ’’باویاں دے باغ‘] میں اپنی ماں کی گود میں بے ہوش پڑا تھا ۔ جس کو اماں جی نے گود میں لیا اور ٹھنڈک پہنچائی وہ بچہ مکرم خواجہ منیر احمد صاحب ربوہ ہیں ۔ اور وہ اُسی بچے کے سمدھی بنے جس نے اُ نہیں بچپن میں اپنی ماں کی گود میں بے ہوش پایا تھا ۔ جبکہ عزیزم منیر احمد شہزاد کے ساتھ اُنکی بیٹی عزیزہ شازیہ بیاہی گئی اور اب ماشاء اللہ اُسکی گود میں اماں جی کاپڑپوتا عزیزم شہزیب احمدکھیل رہا ہے ۔ (ان شاء اللہ اب اس بچے عزیزم شہزیب احمد کی بھی عنقریب شادی ہونے والی ہے) اللہ تعالیٰ انہیں خادم دین بنائے اور صحت سلامتی سے رکھے۔ آمین

تیمارداری

تقسیم ہند وپاکستان سے پہلے تپ دق ایک ایسا مہلک مرض تھا کہ جس گھر میں آ جاتا تھا وہ کنبے کا کنبہ ہلاکت کی لپیٹ میں آ جاتا تھا ۔ ایک موقعہ پر ہمارے گھر کے سامنے باغ میں کسی دیہات سے ایک دِق کا مریض آ گیا ۔ اس کے لواحقین اُ سے بے یارو مدد گار چھوڑ کر چلے گئے ۔ مریض چلنے پھرنے سے قاصر تھا ۔ مرض انتہا کو پہنچ چکا تھا ۔ کوئی بھی شخص ایسی حالت میں مریض کے پاس کھانا یا پانی تک لے جانے سے گھبراتا تھا ۔ اماں جی مرحومہ کو جب علم ہوا کہ اُن کے پڑوس میں ایک بے بس انسان انتہائی مہلک مرض میں مبتلاء بے یارو مدد گار پڑا ہے ۔ تو فوراً اماں جی مرحومہ نے تمام خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اُس اجنبی مریض کی تیمار داری کے لئے مستعد ہو گئیں اُس کی با قاعدہ خبر گیری کی ۔کھانا پہنچایا، پانی کا انتظام کیا ۔ اور دعائیں بھی کیں کہ اللہ تو اُس پر رحم نازل فرما ۔ بالآخر وہ مریض چل بسا۔

باویوں دا باغ

ہمارے گھر کے سامنے سے آنے جانے والے دیہاتیوں کا اکثر گزر رہتا تھا ۔ چونکہ بہت بڑا آ موں کا باغ تھا ۔ گرمی کی وجہ سے یہ رہگیر اس باغ میں سستانے کے لئے رُکتے یہاں تک کے دن ڈھل جاتا ۔ لیکن پانی کا کنواں اس باغ کے ورلے کنارے پر تھا ۔ اسلئے باغ میں رُکنے والے رہگیر وں کے لئے تازہ پانی حاصل کرنے کے لئے ہمارا گھر ہی سامنے تھا ۔ پانی کا نل دن بھر چلتا رہتا، اُس کے علاوہ ہم بچوں کی ڈیوٹی لگاتیں کہ باغ کے بڑے پیڑ کے نیچے ہر وقت بڑے بڑے مٹکے پانی کے بھر کر رکھیں ۔

تقسیم ہند کا ایک واقعہ

تقسیم ہند کے موقعہ پر قادیان کے گرِدو نواح کے تمام دیہات مسلمانوں سے خالی ہو رہے تھے ۔ میں اپنے گھر کے سامنے باغ کے سب سے بوڑھے پیڑ کے نیچے کھڑا تھا کہ دیکھا کہ ہرچوال کی سڑک جو ہمارے گھر کے سامنے سے ریتی چھلہ کو جاتی ہے،حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب کی کوٹھی کی جانب سے ایک بہت بڑا قافلہ نمودار ہوا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس قافلہ نے ’’باویاں دے باغ‘‘ میں اپنا پڑاؤ ڈال دیا ۔ یہ سب بھانبھڑی گاؤں کے پناہ گزیں تھے ۔ مرد ،عورتیں ، بچے، بوڑھے سب شامل تھے ۔ سازوسامان سے لدے پدے گڈے ، گائے ، بھینسیں ، ڈنگر وغیرہ ۔ اس سارے ماحول نے اس بوڑھے باغ کو دیکھتے ہی دیکھتے آ باد کر دیا۔ دن ڈھل گیا اور رات ہو گئی ۔ باغ میں الاؤ جلنے لگے ۔ جس باغ میں رات کوسناٹا رہا کرتا تھا آج کی رات وہ لالٹینوں اور روشنیوں کا شہر بن چکا تھا۔

آدھی رات گزر ی ہو گی کہ موسلا دھار بارش برسنے لگی۔ ہم ابھی سوئے ہی تھے کہ دروازے کھٹکنے لگے ۔اماںجی مرحومہ نےعورتوں اور بچوں کو گھرکےاندر پناہ دے دی اور مرد باغ میں اپنے گڈوں پر بوریاں تان کر رات بسر کرنے لگے ۔ لیکن بارش تھی جو تھمنے کا نام نہ لے رہی تھی بارشوںکایہ سلسلہ کئی دنوںتک جاری رہا۔

بارش کے اس سماں میں اماں جی مرحومہ نے گھر کے تمام بستر، چار پائیاں ، غرضیکہ ہر چیز اپنے اِن مہمانوں کے سامنے پیش کر دیں ۔ گھر کا کوئی کمرہ اپنے بچوں کےعلیحدہ نہیں رکھا ۔ یوں لگتا تھا تھا کہ بھانبھڑی کا بھانبھڑی ہمارے گھر کا کنبہ ہے ۔چولہے جلا دئے گئے ۔ اماں جی مرحومہ کہیں بچوں کے لئے دودھ گرم کر رہی ہیں،کہیں چائے بنارہی ہیں ۔ روٹیاں ہیں کہ مسلسل پکتی چلی جا رہی ہیں ۔ سٹور میں سردیوں کے لئے جمع شدہ ایندھن موجودتھا۔ گاؤں کی عورتیں باہمت تھیں ۔ شیر خوار بچے گود میں تھے بارش سے خودگیلی ہوئی پڑی تھیں مگر ہر کام مستعدی سے کر رہی تھیں۔

زیورات سے بھری تھیلیاں اُن سے سنبھالی نہ جاتی تھیں۔ بلا تکلف انہوں نے یہ تھیلیاں اماں جی مرحومہ کے پاس امانتاً ڈھیر کر دیں۔ تقریباً ایک ہفتہ یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ مجھے یاد نہیں کب رات ہوتی اور کب دن چڑھتا تھا ۔ اتنے بڑے میلے میں دن رات کا کوئی تصور ہی باقی نہ تھا ۔ اُدھر بارش کا زور اس قدر زیادہ تھا کہ زیادہ عرصہ پورے گاؤں کو چند گھروں میں سمیٹنا مشکل ہو رہا تھا۔ چولہے چوبیس گھنٹے جلنے کے باوجود ضرورت پوری نہیں کر رہے تھے۔ بالآ خر جانے کس طرح تختوں کی بنی ہوئی کشتیوں پر تیرتے ہوئے خدام لنگر خانہ سے روٹیاں لائے جب وہ تقسیم ہو رہی تھیں کوئی چھینا جھپٹی نہ تھی۔

بھانبڑی کے لوگ اپنے چودھر یوں کے مشورہ پر چلتے تھے۔ ہر جگہ اپنے وفد کو آگے کرتے ۔ اُن میں کوئی بھگدڑ نہ تھی ۔ ایک منظم قافلہ تھا ۔ہم اُن کے اُس وفد کو لیکر صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر گئے عاجز بھی ساتھ گیا۔ وہاں سیّد ولی اللہ شاہ صاحب سے ملایا ۔ اُن کے سامنے اس وفد نے اپنی ضروریات کو پیش کیا سیّد ولی اللہ شاہ صاحب نے انہیں تسلی دی ہمدردی سے سمجھایا کہ تحریک جدید انجمن احمدیہ ہوسٹل میں چلے جائیں ۔ وہاں رہائشی کمرے بھی ہیں ۔ اور کھلی جگہ بھی ہے بارش سے کافی حد تک بچاؤ رہیگا ۔ لیکن انکا اصرار تھا کہ اُ نہیں اُسی جگہ رہنے دیا جائے ۔اور دیگر ضروریات بھی اِس جگہ ہی پوری کی جائیں ۔ چونکہ سہولت کے تقاضے یہی تھے اس لئے وہ بورڈنگ ہاؤس تحریک جدید میں منتقل ہو گئے۔ اُس کے بعد قادیان کے محلوں میں فساد انتہا کو پہنچ گئے ۔ محلے خالی ہو کر سمٹنے لگے ۔ اُس افراتفری کو دیکھ کر بھا نبھڑی کے سربراہوں نے پیدل قافلہ کی صورت میں پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ ہر چند جماعت نے منع کیا کہ پیدل قافلہ اس وقت خطرہ سے خالی نہیں لیکن وہ روانہ ہو گئے ۔ شام تک یہ اطلاع مل گئی کہ اُس قافلہ پر رستہ میں حملہ ہوا ۔ جانے کس قدر نقصان ہوا اور نجانے وہ کس حال میں پاکستان پہنچے ۔

قرآن کریم کی برکتیں

ہجرت کے بعد اماں جی مرحومہ نے پاکستان میں چنیوٹ محلہ گڑھا کو اپنا مسکن بنایا ۔ اِس گھٹی اور الجھی الجھی آبادی میں زیادہ تر جالندھر اور پانی پت کے مہاجر آ کر آباد ہوئے ۔ اس نئے ماحول میں بہت جلد اماں جی مرحومہ نے اپنی جگہ بنا لی اور دیکھتے دیکھتے محلہ کی عورتیں بچے اور بچیاں اُن کے پاس قرآن کریم پڑھنے کے لئے آنے لگیں یہاں تک کہ گھر سے ہر وقت تلاوت ِ قرآن کریم کی آ وازیں آنی شروع ہو گئیں ۔ قرآن کریم پڑھانے کی یہ سعادت ہی تھی کہ محلہ گڑھا کے ہر کنبہ میں اماں جی مرحومہ کو عزت اور احترام حاصل ہو گیا ۔ صبح سے لے کر دن ڈھلے تک کوئی وقت بھی ایسا نہ تھا جب اڑوس پڑوس کی عورتیں اور بچے قرآن کریم کا سبق پڑھنے کے لئے حاضر نہ ہوں ۔ اُن کی یہ شہرت جب شہر میں پھیلی تو ہر دکاندار اُ ن کی خدمت کے لئے مستعد نظر آتا ۔ یوں وہ اب اس ماحول میں ’’بے بے جی‘‘ کے نام سے پہچانی جا نے لگیں اور آج بھی اس گھر کو وہی عزت اور احترام حاصل ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اماں جی مرحومہ کی خدمت قرآن کریم کی وجہ سے ہے ۔ جب 1953 ء میں فسادات کی لہر دوڑی اور چنیوٹ سے احمدیوں کو ربوہ جانا پڑا اس افراتفری میں مکان کو کھلا چھوڑ نا پڑا ۔ لیکن جب حالات ساز گار ہوئے اور واپس اپنے گھروں میں آئے تو اڑوس پڑوس کا یہ اخلاص تھا کہ انہوں نے اس گھر کے تقدس کی وجہ سے کسی قسم کا نقصان نہ ہونے دیا ۔ دراصل پاکستان کے یہی مخلص عوام ہیں جو پاکستان کی سالمیت کے لئے ایک تعویذ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جو عقائد کے اختلافات کے باوجود باہم ہمدردی ، محبت اور بھائی چارہ کی قدر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

ایک اور ایمان افروز واقعہ

ہمارے پڑوس میں ماسی کیموں کا کنبہ آباد تھا ۔ اُن کے ہاں لڑکا جب بھی پیدا ہوتا تو چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوجاتا ۔ ایک موقعہ پر اُ نہوں نے اماں جی سے کہا ’’بے بے جی‘‘ اب جو بچہ پیدا ہوگا وہ میں آپ کے نام کر دوں گی تاکہ اللہ تعالیٰ اُسے زندگی عطا کرے ۔ چنانچہ جب اُن کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو اُ نہوں نے اُسے ’’بے بے جی‘‘ کی گود میں ڈال دیا ۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا وہ لڑکا جس کا نام ’’مہند‘‘ تھا ۔ پلا پھلا، پھولا، جوان ہوا، شادی ہوئی ، اُس کےہاں صحت مند بچے پیداہوئے ۔ پھر ’’بے بے جی‘‘ کی وفات کے بعد اُس کے لواحقین نے میرے بڑے بھائی سردار عبد القادر اور اُن کی اہلیہ سعیدہ بیگم سے باقاعدہ درخواست کر کے اپنے اس بچے کوواپس لیا۔ یوں یہ بچہ اپنے اصل کنبہ میں واپس لوٹ گیا ۔ آج بھی جب میں چنیوٹ جاتا ہوں تو وہ لڑکا بھاگ کر گلے لگ جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کوئی خدمت بجا لاسکے ۔ اور کچھ نہیں تو سامان ہی اُ ٹھا کر ساتھ چل پڑتا ہے ۔ اللہ اُسے صحت والی زندگی دے اور جزائے خیر دے۔

مہمان نوازی کا ایک اور مختصر واقعہ

ربوہ سے اکثر ہمارے احمدی بھائی بہن خریداری کے لئے چنیوٹ بازارآتے تھے جو اماں جی مرحومہ اور اباجی مرحوم کے تقریباً سب ہی قادیان سے واقف ہوتے اور بہن بھائیوں کی طرح رشتہ رکھتے تھے ۔ اباجی مرحوم بازار میں جس جاننےوالے کو دیکھتے مہمان نوازی کے لئے گھر لے آتے ۔ اُس زمانے میں ہمارے گھر میں تنگدستی تھی ۔ ایک دن ایسا ہوا اباجی مرحوم کچھ مہمانوں کو گھر لے آئے اماں جی پریشان ہو گئیں کے جلانے کے لئے ایندھن نہیں توچائے کیسے بناؤں ۔ جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو جس چوکی پر بیٹھی ہوئی تھیں اُسی کو توڑ کر آگ جلائی اور چائے بنا کر مہمانوں کی خدمت میں کو پیش کر دی ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ یہ آج چائے کیسے بنی ہے۔

حرف آخر

اللہ تعالیٰ میرے مرحوم والدین کی مغفرت فرمائے اوران کے درجات کو بلند فر مائے آ مین ثم آمین

(مرسلہ: صفیہ بشیر سامیؔ۔ لندن ۔ بشیر الدین احمد سامیؔ (مرحوم))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 نومبر 2020