• 25 اپریل, 2024

حضرت ملک محمد الطاف خان صاحب رضی اللہ عنہ ترناب ضلع چارسدہ

حضرت ملک محمد الطاف خان صاحب رضی اللہ عنہ ولد مکرم خواص خان نمبردار قوم افغان محمد زئی ترناب ضلع چارسدہ کے رہنے والے تھے۔ آپ نے مارچ 1908ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی توفیق پائی۔ (الفضل 3اگست 1928ء صفحہ 10کالم 1) آپ نیک فطرت، خدا رسیدہ، صاحب رؤیا و کشوف بزرگ تھے۔ قبول احمدیت پر اپنے علاقہ میں شدید مخالفت کا سامنا کیا پھر بھی ایمان پر مضبوطی سے قائم رہے۔ آخری عمر میں ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے اور محلہ دارالفضل میں رہائش رکھی۔ آپ کے حالات اور رؤیا و کشوف مفصل طور پر محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے نے اخبار الحکم میں شائع کرائے تھے جس میں آپ کا اپنا بیان کردہ قبول احمدیت کا پس منظر یوں ہے:
’’عاجز بندہ قوم بنی اسرائیل کے خاندان افغان میں سے موضع ترناب تحصیل چار سدہ علاقہ ہشت نگر ضلع پشاور صوبہ سرحد کا ہے ۔میری والدہ ایک نہایت پارسا اور متقی عورت، پابند صوم و صلوٰۃ وتہجد ،خان قوم درانی افغان سے تھیں اور والد قوم محمد زئی کے سرداران قوم میں سے بفضل خدا ایک نیک اور سخی آدمی تھے ۔میرے دادا صاحب کی وفات کے بعد والد ایک معقول جائیداد کے مالک اور جانشین ہوئے ۔مگر ان کی اکثر عمر قومی مقابلوں میں صرف ہوئی اور ساری جائیداد جو لاکھوں روپے کی قیمت کی تھی، ان کی روز مرہ کی حفاظت اور جان و مال اور مقابلوں میں صَرف ہوئی ۔وہ گاہے بگاہے حصہ جائداد منقولہ اور غیر منقولہ سے خدا کے نام بھی وقتًا فوقتًا دیتے رہے، جو اب سیدوں اور طبقہ علماء و فقراء کے پاس بطور معافی درج کاغذات سرکار ہے ۔وہ سال 1898ء میں شہید ہوئے اور ہم دشمنوں کے نرغےمیں آئے ۔میرے والدین کو ابتداء ہی سے دینی علم کا شوق تھا ۔لہذا انہوں نے ہم تینوں بھائیوں کو پڑھنے پر لگایا ۔قرآن مجید اور فقہ و احادیث میں نے مساجد میں پڑھیں اور مدرسہ کی ابتدائی تعلیم میں نے میر اکبر نام مدرس سے حاصل کی جو اپنے کمال تقوی کی وجہ سے احمدی ہوئے اور مردان میں اول درجہ کے عرائض نویس تھے ۔ان کے دورا ن بیعت میں بندہ نورمل پاس کرکے علاقہ خود پرائمری مدرسہ کا ہیڈ ماسٹرہوااور انہوں نے اخبار بدر مفت میرے نام سے جاری کیا۔گویا سال 1902ء میں استاد صاحب موصوف نے احمدیت کی طرف میری توجہ مبذول فرمائی، اللہ تعالی ان کو اجر عظیم عطا فرمائے ۔جب کبھی مردان یا گردو نواح میں میاں محمد یوسف صاحب امیر جماعت مردان کا مباحثہ غیر احمدی علماء سے ہوتا تھا، استاد المکرم ان جلسوں میں اس عاجز کو برائے شمولیت بلایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مولوی معین الدین صاحب والد مولوی چراغ دین صاحب مولوی فاضل حال مبلغ صوبہ سرحد کے احمدیت قبول کرنے پر شور پڑا اور احمدیوں کی طرف سے غالباً پندرہ مارچ 1908ء کو بمقام کوٹ جھونگڑہ غیر احمدی علماء کے ساتھ مباحثہ قرار پایا اور میں بھی اس جلسہ کے لئے حسب تحریک استاذالمکرم میاں میر اکبر صاحب حاضر ہوا ۔مولوی صاحبان مباحثہ سے فرار ہوئے اور ہم رات کو مردان واپس آئے۔ میں نے استاذالمکرم میاں میر اکبر صاحب سے پوچھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو اب میں سچا مانتا ہوں مگر اطمینان قلب کے لئے کوئی نسخہ ہے؟ انہوں نے مجھے فرمایا کہ تم تو قرآن کے معنی خوب جانتے ہو اور تہجد خوان بھی ہو اور بچپن سے تم نمازی اور دیندار بھی ہو، خدا تعالی کے ساتھ کامل محبت رکھتے ہو۔ اس کے لئے حضرت مسیح موعود کا بتایا ہوا نسخہ استعمال کرو ۔میں نے کہا وہ کونسا ہے؟ انہوں نے درثمین فارسی میرے ہاتھ میں دے کریہ مقام نکالا ۔

خواہی کہ روشنت شوداحوال صدق ما
روشندلی بخواہ ازاں ذات ذوالکرم

(ترجمہ: اگر تو چاہتا ہے کہ ہماری سچائی کی حقیقت تجھ پر روشن ہو جائے تو اُسی مہربان ذات سے دل کی روشنی مانگ۔)

خلاصہ یہ کہ رات کو میں ایک خلوت گاہ میں نماز استخارہ پڑھ کر سویا اور اسی رات رسول کریم ﷺنے مجھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق وہ کچھ بتایا جس کی تحریر کے لئے دو تین صفحات کی ضرورت ہے۔ الغرض مَیں اسی ماہِ مارچ ۱۹۰۸ ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوا اور بعد ازاں تاحال کِسی وقت بھی بفضلِ خدا میرے ایمان پر زلزلہ نہیں آیا اور خدا تعالیٰ کے افضال اور بشارات کے ماتحت دونوں خلافتوں پر انشراحِ صدر سے میرا ایمان ہے اور اِس پر قائم ہوں…..‘‘

آپ کی وفات پر حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب رضی اللہ عنہ نے بھی اخبار الحکم میں آپ کے متعلق مضمون لکھا۔ اس کے علاوہ اخبار الفضل میں بھی آپ کے دو خطوط شائع شدہ ہیں جن سے آپ کے اخلاص اور سلسلہ احمدیہ کے لیے قربانی کے جوش کا علم ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا:
’’وقت تحریک ایک لاکھ چندہ میں نے ایسی حالت میں دس روپے کا وعدہ لکھ دیا جبکہ 2؍اکتوبر 1924ء سے علاقہ ہذا میں میری زرعی اراضی اور کاروبار وثیقہ نویسی بوجہ شدید مخالفت بند ہے اور کثیر کنبہ کا گذارہ نہایت تنگی سے ہوتا ہے، دس روپیہ چندہ موعودہ میں سے پانچ روپیہ پہلے ادا کر چکا ہوں مزید پانچ روپیہ کے لیے دل نے بوجہ تنگدستی تساہل اختیار کیا مگر یک ماہ کی مزید میعاد کے اندر ہر وقت بوقت نماز تہجد دل شرمندہ ہو کر کہتا کہ کہیں سے قرض لے کر ادا کروں تا وعدہ شکنی پر اللہ کریم ناراض نہ ہو مگر حالات امتحانی تھے کہ کچھ انتظام نہ ہو سکا۔ اسی اثناء میں متواتر تین رات تہجد پڑھتے وقت حضور کی پیاری شکل ممبر پر رونق افروز ہوکر تحریک کا نظارہ اچانک اندھیری رات میں آنکھوں کے سامنے آ جاتا، آج صبح میں نے اپنے اضطراب کا ذکر اپنی بیوی سے کیا تو اس نے کہا چھوٹے چھوٹے بچوں کے عید کے کپڑوں کے لیے اور تین روپے آرد کے لیے کل دس روپے کا نوٹ ہے، ان میں سے پانچ روپیہ آج ہی بقایا چندہ میں 30؍جون سے پیشتر بھیج دو اس لیے اللہ کریم کا شکر گزار ہوں کہ باوجود اس قدر ابتلاء اور تنگدستی کے اُس نے اپنے فضل سے یہ توفیق بخشی، قبول فرما کر دعا فرما دیں۔ والسلام 27؍ جون 1925ء‘‘

(الفضل 18جولائی 1925ء صفحہ 2)

ناظر صاحب بیت المال قادیان کی ایک رپورٹ میں آپ کا ایک خط یوں درج ہے:
’’تحریک جلسہ سالانہ اخبار میں بار بار پڑھ کر اس قدر جوش آتا کہ بذریعہ ہوا و باد اپنا چندہ روانہ کروں مگر ہمارے بدقسمت گاؤں میں ڈاک خانہ نہیں ہے اور چاروں طرف سے دریا محیط ہے۔ بوجہ نہ ہونے ڈاک خانہ و کثرت بیماری و سراسیمگی چندہ میں تاخیر ہوئی لہذا اب اپنا اور متعلقین کا چندہ جلسہ سالانہ 10/1 ارسال کرتا ہوں۔ ملک الطاف خاں از ترناب ضلع پشاور۔‘‘

(الفضل 24جنوری 1930ء صفحہ 17)

آپ نے جنوری 1935ء میں وفات پائی، اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’نہایت ہی افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ ملک الطاف خان صاحب افغان مہاجر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے صحابی اور بہت مخلص احمدی تھے، چند دن بعارضہ نمونیہ بیمار رہنے کے بعد بعمر 54سال 15,16جنوری کی درمیانی شب انتقال کر گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جنازہ پڑھایا اور میت کو کندھا دیا۔ مرحوم مقبرہ بہشتی میں دفن کیے گئے۔ احباب دعائے مغفرت کریں۔‘‘

(الفضل 20جنوری 1935ء صفحہ 1کالم 1)

آپ کی اہلیہ محترمہ کا نام بی بی شہا بنت سید عبدالباقی تھا، انھوں نے 1909ء میں بیعت کی، وصیت نمبر 3922 تھا۔ (الفضل 17جولائی 1933ء) آپ کی اولاد میں ایک بیٹی اہلیہ مکرم ہدایت اللہ خان صاحب ولد مکرم سرور خان صاحب آف ترنگزئی (تاریخ احمدیت صوبہ سرحد صفحہ 309) اور ایک بیٹے محمد عباس خان صاحب ولد مکرم محمد الطاف خان صاحب آف ترناب (وصیت 6352) وفات 24اپریل 1982ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) کا علم ہوا ہے۔ ایک بیٹی محترمہ عائشہ صاحبہ کی ایمانداری کا ذکر اخبار الفضل 9؍جولائی 1939ء صفحہ2 پر ملتا ہے۔

(مرسلہ: غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 نومبر 2020