• 23 اپریل, 2024

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام (قسط 46)

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام
اکرامِ ضیف
قسط 46

اےاللہ! تو محمد ﷺ پر اور محمدﷺ کی آل پر درود اور برکتیں بھیج جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کی آل پردرود اور برکتیں بھیجیں۔ یقیناً تو حمید اور مجید ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کوحضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی صفات اور برکات عطا فرمائیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر خلق عظیم پر قائم فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی اللہ تعالیٰ کو پسندآ ئی اسے قرآن کریم میں محفوظ کرلیا۔

’’اور یقیناً ابراہیم کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے خوشخبری لے کر آئے۔ انہوں نے سلام کہا۔ اس نے بھی کہا سلام اور ذرا دیر نہ کی کہ ان کے پاس ایک بُھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔‘‘

(ہود: 70)

آنحضرتﷺ میں بھی یہ خُلق بدرجۂ اتم موجود و معروف تھا جب پہلی دفعہ وحی نازل ہونے پر آپ ﷺسخت گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے تسلی دیتے ہوئے آپﷺ کی جن صفات کا ذکر کیا ان میں آپﷺ کی مہمان نوازی بھی شامل تھی۔

(بخاری کتاب التفسیر۔ سورۃ اقرأ باسم ربک…حدیث نمبر4953)

دین اسلام میں جیسے مہمان نوازی اورحقوق ا لعباد کا خیال رکھنے کا درس دیا گیا ہے اور کسی مذہب میں نہیں ملتا اور بانیٔ اسلام حضرت محمد عربیﷺ فرماتے ہیں:
’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لا تا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کی تکریم کرے۔‘‘

(بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ حدیث 6135)

قرآن پاک میں مسافروں کے لئے ابْنِ السَّبِیْل کا لفظ آیا ہے اور ان پر مال خرچ کرنے اور ان کا حق دینے کی تاکید ہے۔ آپﷺ نے مامور من اللہ کی حیثیت سے تالیف قلوب اور دعوت الی اللہ کے لئے مہمان نوازی کا آغاز ایک بڑی دعوت سے کیا۔ پہلی دفعہ خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا تو دوسری دعوت کا اہتمام کیا۔جس کے نتیجہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صورت میں پھل ملا۔

اسلام کا آغاز ہؤا تو نَوواردان پیارے آقاﷺ کے ذاتی مہمان ہوتے۔ گھر کی خواتین جو کچھ میسر ہوتا پیش کردیتیں۔ اگر مہمان زیادہ ہوتے تو اپنے اصحاب کو تحریک فرماتے کہ مہمان کو ساتھ لے جائیں اور خدمت کریں۔ مکہ مدینہ کا رہن سہن اور ماحول ہمارے آج کے زمانے سے بہت مختلف تھا۔ عام لوگ محنت مزدوری کرکے بمشکل گزر اوقات کرتے۔ زندگی سادہ تھی۔ آسائشیں کم تھیں۔ مہمانوں کے لئے کوئی الگ انتظام نہیں ہوتا تھا۔ آپﷺ نے اپنے متبعین کی اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ اپنی ضرورت کو پس پشت ڈال کر ایثار اور قربانی سے دوسروں کا خیال رکھتے۔ ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہﷺ انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ضرورتمند کو چہرے سے پہچان لیتے اور اسے احساس دلائے بغیر ضرورت پوری کرنے کا انتظام فرماتے۔ آپﷺ نےمہمانوں کے خوش دلی سے استقبال کی تلقین فرمائی۔ ماحضر بغیر یہ دریافت کئے کہ آپ کو کھانا چاہئے؟ وقت پر پیش کرنے کی تاکید فرمائی۔ مہمان کے ساتھ آخرتک کھانے میں شریک رہنے کو پسند فرمایا تاکہ اسے کسی قسم کی خجالت وندامت نہ ہو کہ وہ اکیلا کھا رہا ہے۔

(ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب النہی ان یقام عن الطعام: 3285)

آپ ﷺنے مہمان کو الوداع کرتے ہوئے مہمان کی عزت کی خاطر اس کے ساتھ گھر کے دروازے تک جانے کا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔

(ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب الضیافۃ: 3349)

مہمان نوازی میں کسی صلہ یا ستائش کی لالچ رکھنے سے منع فرمایا۔ یہ کارخیر صرف رضائے الٰہی کی خاطر ہو۔ نیز تکلفات اور دکھاوے کو نا پسند فرمایا۔

میزبانوں کے ساتھ آپ ﷺنے مہمانوں کو بھی آداب سکھائے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ پر تکلف مہمان نوازی ایک دن رات ہے جبکہ عمومی مہمان نوازی تین دن تک ہے۔ اور تین دن سے زائد صدقہ ہے۔ مہمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اتنا عرصہ میزبان کے پاس ٹھہرا رہے کہ جو اس کو تکلیف میں ڈال دے۔

(بخاری کتاب الادب۔ باب اکرام الضیف)

مہمان کو چاہئے کہ میزبان کا شکر گزار ہو کر دعا دے آپﷺ جب انصار میں سے کسی کے ہاں مہمان جاتے تو آپﷺ کا معمول تھا کہ آپﷺ کھانا وغیرہ تناول فرماکر واپس جانے سے پہلے وہاں دو رکعت نماز نفل ادا فرماتے یا موقع کی مناسبت سے اہل خانہ کے لئے اور ان کے رزق میں برکت کے لئے خاص طور پر دعا کرتے۔

(بخاری کتاب الادب باب الزیارۃ و من زار قوماً فطعم عندھم)

آپ ﷺنے اپنے عمل سے دکھایا کہ جس کو دعوت دی گئی ہے وہ اپنے ساتھ زائد لوگوں کو نہ لے کر جائیں۔ایک د فعہ ابوشعیب انصاری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی دعوت کی اور عرض کیا کہ چار افراد اپنی مرضی سے ساتھ لے آئیں۔ دعوت پر جاتے ہوئے ایک اور شخص بھی ساتھ تھا۔ رسول کریمﷺ نے میزبان کو بے تکلفی سے فرمایا کہ آپ نے تو پانچ افراد کی دعوت کی تھی۔ایک زائد آدمی ہمارے ساتھ آگیا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو یہ آجائیں ورنہ یہ واپس چلے جاتے ہیں۔میزبان نے بہت خوشی سے اجازت دے دی۔

(بخاری کتاب الاطعمہ باب الرجل یتکلّف الطعام لاخوانہ)

ایک فارسی نو مسلم حضورﷺ کا ہمسایہ بنا جو سالن بہت عمدہ تیار کیا کرتا تھا۔ اس نے حضورﷺکے لئے سالن تیار کیا اورحضورﷺکو دعوت دینے آیا تو آپ ﷺنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارہ میں پوچھا کہ ان کو بھی ساتھ بُلایا ہے نا؟ وہ بولا نہیں حضورﷺنے فرمایا پھر ہم بھی نہیں آتے۔دوسری دفعہ وہ پھر دعوت دینے آیا توآپ ﷺنے پھر وہی سوال کیا۔تیسری مرتبہ اس نے حامی بھری۔تب حضورﷺ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے گھر کھانے کے لئے تشریف لے گئے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ123 بیروت)

آپﷺ کی میزبانی کا ایک واقعہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یوں بیان فرماتے ہیں:
’’ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبی کواختیار کیا۔ کوئی شخص عیسائی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ حضرت نے اس کی بہت تواضع و خاطر داری کی۔ وہ بہت بھوکا تھا۔ حضرت نے اس کو خوب کھلایا کہ اس کا پیٹ بہت بھر گیا۔ رات کو اپنی رضائی عنایت فرمائی۔ جب وہ سو گیا تو اس کو بہت زور سے دست آیا کہ وہ روک نہ سکا۔ (اس بیچارے کا پیٹ خراب ہو گیا) اور رضائی میں ہی کر دیا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے سوچا کہ میری حالت کو دیکھ کر کراہت کریں گے۔ شرم کے مارے وہ نکل کر چلا گیا۔ جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سے عرض کی کہ جو نصرانی عیسائی تھا وہ رضائی کو خراب کر گیا ہے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ مجھے دو تاکہ مَیں صاف کروں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں۔ ہم جو حاضرہیں، ہم صاف کر دیں گے۔ آنحضرتﷺنے فرمایا کہ وہ میرا مہمان تھا، اس لئے میرا ہی کام ہے اور اٹھ کر پانی منگوا کر خود ہی صاف کرنے لگے۔ وہ عیسائی جب کہ ایک کوس نکل گیا تو اس کو یاد آیاکہ اس کے پاس جو سونے کی صلیب تھی وہ چارپائی پر بھول آیا ہوں۔ اس لئے وہ واپس آیا تو دیکھا کہ حضرت اس کے پاخانہ کو رضائی پر سے خود صاف کر رہے ہیں۔ اس کو ندامت آئی اور کہاکہ اگر میرے پاس یہ ہوتی تو مَیں کبھی اس کو نہ دھوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسا شخص کہ جس میں اتنی بے نفسی ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پھر وہ مسلمان ہو گیا۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ370-371 جدید ایڈیشن)

آپﷺ بنفس نفیس مہمانوں کی خاطر داری میں خوشی محسوس فرماتے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ حضورﷺ کے ہاں مہمانی کا شرف حاصل ہوا۔ آپﷺ نے ران بھوننے کا حکم دیا اور پھر چھری لے کر گوشت کاٹ کاٹ کرمجھے عطا فرمانے لگے۔

(ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب فی ترک الوضؤ من مسّت النار:160)

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت نبی کریمﷺکی شادی حضرت زینب بنت جحش سے ہوئی تو مجھے میری والدہ اُمِّ سُلَیم نے حَیْس نامی کھانا تیار کیا اور پھر وہ کھانا مجھے دے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیج دیا۔ جب مَیں رسول اللہﷺ کے پاس پہنچا توآپﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا اس برتن کو رکھو۔ پھر کچھ آدمیوں کا نام لے کر فرمایا کہ ان کو بلا لاؤ اور ہر وہ شخص جو تمہیں ملے اسے کہنا کہ میں بلا رہا ہوں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مَیں نے آنحضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق کیا۔ جب مَیں واپس آیا تو گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا۔ پھر میں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کھانے پررکھا اور اس کو برکت دینے کے لئے کچھ دیر دعا کرتے رہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ دس دس افراد کو بلانے لگے جو اس برتن میں سے کھاتے تھے۔ اور رسول اللہﷺ ان کو فرماتے تھے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اور ہرشخص اپنے سامنے سے کھائے۔ آنحضور ﷺ اسی طرح ان سب کو بلاتے رہے یہاں تک کہ ان سب نے کھانا کھا لیا۔

(بخاری کتاب النکاح۔ باب الھدیۃ للعروس)

آپ ﷺ نے ایسی روایات قائم فرمائیں جن پر عمل ہو تو کوئی انسان بھوکا نہ رہے۔

اسلام کے دورِ ثانی میں حضرت محمد مصطفیﷺ کے ظل آپﷺکے اسوہ پر چلنے والے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے امرِ تائیدِ حق اور اشاعتِ اسلام کے کاموں میں تیسری شاخ مہمانوں کی خدمت قرار دی فرماتے ہیں:
’’تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرّقہ سے آنیوالے ہیں جو اس آسمانی کار خانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیّتوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں۔ یہ شاخ بھی برابر نشوونما میں ہے۔ اگرچہ بعض دنوں میں کچھ کم مگر بعض دنوں میں نہایت سرگرمی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان سات برسوں میں ساٹھ 60 ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جس قدر اُن میں سے مستعد لوگوں کو تقریری ذریعوں سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور اُن کے مشکلات حل کر دئے گئے۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ14)

مہمانوں کے لئے آپ علیہ السلام کے دل اور دروازہ کھلا رہتا۔ احباب کو قادیان جلدی جلدی آنے اور آکر زیادہ عرصہ ٹھہرنے کی ترغیب دیتے۔ اپنے الدار میں یا قریب ترین ٹھہرانا پسند فرماتے تھے۔ جانتے تھے کہ قریب آنے سے مہمانوں کو آپ علیہ السلام کے قلبِ مطہر کی روشنی سے حصہ ملے گا۔ خدا نمائی کا یہ ذریعہ مخلوق کی بھلائی کے لئے استعمال فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو مہمانوں کی کثرت سے آمد کی اطلاع کے ساتھ ان کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیا تھا:
’’ترجمہ۔ میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور میں اپنی طرف سے محبت تیرے پر ڈالوں گا یعنی بعد اس کے کہ لوگ دشمنی اور بغض کریں گے یک دفعہ محبت کی طرف لوٹائے جائیں گے جیسا کہ یہی مہدی موعود کے نشانوں میں سے ہے اور پھر فرمایا کہ جو لوگ تیرے پر ایمان لائیں گے ان کو خوشخبری دے کہ وہ اپنے رب کے نزدیک قدم صدق رکھتے ہیں۔ اور جو میں تیرے پر وحی نازل کرتا ہوں تو ان کو سنا۔ خلق اللہ سے منہ مت پھیر اور ان کی ملاقات سے مت تھک اور اس کے بعد الہام ہوا۔ وسّع مکانک یعنی اپنے مکان کو وسیع کرلے۔ اس پیشگوئی میں صاف فرما دیا کہ وہ دن آتا ہے کہ ملاقات کرنیوالوں کا بہت ہجوم ہو جائے گا یہاں تک کہ ہر ایک کا تجھ سے ملنا مشکل ہو جائے گا پس تو اس وقت ملال ظاہر نہ کرنا اور لوگوں کی ملاقات سے تھک نہ جانا۔‘‘

(سراجِ منیر، روحانی خزائن جلد12 صفحہ73)

قادیان آنے والوں کے رتبۂ بلند کے بارے میں فرمایا:
’’خدا تعالیٰ نے انہی اصحاب الصفہ کو تمام جماعت میں سے پسند کیا ہے اورجو شخص سب کچھ چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا اور کم سے کم یہ کہ یہ تمنا دل میں نہیں رکھتا۔ اُس کی حالت کی نسبت مجھ کو بڑا اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے۔ اور یہ ایک پیش گوئی عظیم الشان ہے۔ اور ان لوگوں کی عظمت ظاہر کرتی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے علم میں تھے کہ وہ اپنے گھروں اور وطنوں اور املاک کو چھوڑیں گے۔ اور میری ہمسائیگی کے لئے قادیان میں بود و باش کریں گے۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ262۔ 263)

ابتدا میں مہمان نوازی کا سارا خرچ اور کام آپ علیہ السلام اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کرتے تھے۔ مہمانوں میں اضافہ ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے آنے والوں کی مہمان نوازی کے لئے وسائل کی فکر سے بھی مخلصی عطا فرمادی ’’ایک دفعہ بہت قحط پڑ گیا اور آٹا روپے کا پانچ سیر ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لنگر کے خرچ کی نسبت فکر پڑی تو آپ کو پھر الہام ہوا۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ آج سے لنگر کا خرچ دوگنا کر دو۔ اور بڑا مرغن شوربہ پکا کرتا تھا۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر9 صفحہ105 غیر مطبوعہ)

یہ وعدہ ان گنت طریق پر پورا ہورہا ہے۔ لنگر خانہ مسیح موعودؑ قادیان سے شروع ہو کر اب دنیا کے کئی ملکوں میں پھیل چکا ہے۔اور اس سے ہزاروں لاکھوں افراد فیضیاب ہورہے ہیں۔

لفاظات الموائد کان اکلی
وصرت الیوم مطعام الاھالی

احبابِ جماعت کو نصیحت فرمائی:
’’میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ وشتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے تو اس کو گوارا کرنا چاہئے کیونکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے۔ ہمارا کیا حق ہے کہ اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مریدوں سے چاہتے ہیں۔ یہ بھی ہم ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے باتیں کریں۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ ٹھہریں۔ چونکہ کلمہ کا اشتراک ہے جب تک یہ نہ سمجھیں جو کہیں ان کا حق ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ201-202، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

ایک دفعہ لنگرخانے کے انچارج کو تاکید فرمائی: ’’دیکھو! بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔ سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو۔ تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو۔ ان سب کی خوب خدمت کرو۔ اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کر دو۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ492 جدید ایڈیشن)

اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں روایت کرتی ہیں کہ ’’ہمارے ساتھ ایک بوڑھی عورت مائی تابی رہتی تھی اس کے کمرے میں ایک روز بلی پاخانہ کر گئی اس نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا میرے ساتھ دوعورتیں تھیں انہوں نے خیال کیا کہ ہم سے تنگ آکرمائی تابی ایسا کہتی ہے ایک نے تنگ آکر اپنے خاوند کو رقعہ لکھا جو ہمارے ساتھ آیا ہوا تھا کہ مائی تابی ہمیں تنگ کرتی ہے ہمارے لئے الگ مکان کا انتظام کردیں۔ جلال الدین نے وہ رقعہ حضور علیہ السلام کے سامنے پیش کردیا رقعہ پڑھتے ہی حضور علیہ السلام کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ علیہ السلام نے فورا مائی تابی کو بلایا اورفرمایا تم مہمانوں کو تکلیف دیتی ہوں تمہاری اس حرکت سے مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے اس قدر تکلیف کہ اگر خدانخواستہ میرے چاروں بچے مر جاتے تو مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی مہمانوں کو تکلیف دینے سے پہنچی ہے۔

(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت 1322)

ایک دفعہ جب مہمانوں کی زیادتی کی وجہ سے بستر بہت کم ہو گئے تو اپنے گھر میں جو آخری رضائی تھی وہ بھی مہمانوں کودے دی اور خود ساری رات تکلیف میں گزاری۔ کسی مہمان کو چارپائی نہ ملی تو اپنی چارپائی بھیج دی یا فوراً تیار کروا دی اور نیا بستر بنوا کر بھیج دیا سردی کے دنوں میں مہمانوں کے لئے انگیٹھی اور کوئلے بھجوائے۔ قرض لے کر بھی مہمانوں کی خدمت کرتے۔ کھانا تناول فرماتے ہوئے بھی اپنا کھانا اٹھا کر مہمانوں کو بھیج دیا اور خود دوگھونٹ پانی پر ہی کفایت فرمائی۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ ایک دفعہ لاہور سے قادیان آئے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ بیٹھئے مَیں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے۔ کسی خادم کے ہاتھ کھانا نہیں بھیجا۔ چند منٹ کے بعد کھڑکی کھلی تو حضرت اقدس علیہ السلام اپنے ہاتھ سے سینی اٹھائے ہوئے کھانا لائے اور فرمایا کہ آپ کھانا کھائیے مَیں پانی لاتا ہوں۔

ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’خاکسار1907ء میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے قادیان حاضر ہوا ایک رات میں نے کھانا نہ کھایا تھا اور اس طرح چند اورمہمان بھی تھے جنہوں نے کھانا نہ کھایا تھا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا یاایھاالنبی اطعموا الجائع والمعتر منتظمین نے حضور علیہ السلام کے بتلانے پر مہمانوں کو کھانا کھانے کے لیے جگایا خاکسار نے بھی ان مہمانوں کے ساتھ بوقت تقریباً ساڑھے گیارہ بجے لنگر میں جاکر کھانا کھایا۔ اگلے روز خاکسار نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دن کے قریباً دس بجے مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حضور علیہ السلام کے سامنے حضرت مولوی نورالدین خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تھے اور بعض اور اصحاب بھی تھے اس وقت حضور علیہ السلام کو جلال کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انتظام کے نقص کی وجہ سے رات کو کئی مہمان بھوکے رہے اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا یا ایھا النبی اطعمواالجائع والمعتر

(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت 1176)

ایک دفعہ بیس بائیس مہمان رات کے ساڑھے گیارہ بجے قادیان پہنچے حضور علیہ السلام نے دریافت کیا کہ لنگر میں کوئی روٹی ہے؟ عرض کیا گیا حضور اڑھائی روٹیاں اور کچھ سالن ہے۔ فرمایا وہی لے آؤ۔ مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر سفید چادر بچھا کر حضور ایک طرف بیٹھ گئے۔ ہم تمام آس پاس بیٹھ گئے۔ حضور نے ان روٹیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مہمانوں کے آگے پھیلا دئیے۔ سب نے سیر ہو کر کھایا اور پھر بھی کچھ ٹکڑے بچے ہوئے تھے تو اُسی چادر میں وہ لپیٹ کر لے گئے‘‘۔

(رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر9 صفحہ15 غیر مطبوعہ)

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام مہمانوں سے بہت شفقت اور مہر بانی فرماتے آپ نے ایک دفعہ نصیحت کے رنگ میں بہت دلچسپ اور سبق آموز قصہ سنایا:
’’ایک دفعہ ایک شخص کو جنگل سے گزرتے گزرتے رات پڑ گئی اور وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا سردی کا موسم تھا، نہ کھانے کو کچھ، نہ جسم گرم کرنے کو آگ تھی درخت کے اوپر دو نر اور مادہ پرندوں نے گھو نسلہ بنا یا ہواتھا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ یہ شخص آج ہمار امہمان ہے۔ اسے آرام پہنچا نا چاہئے انہوں نے اپنا گھونسلہ نیچے گرا دیا تا کہ وہ آگ جلا سکے۔ اسکے بعد انہوں نے سوچا کہ اسے بھوک لگی ہوئی ہوگی تو انہوں نے اپنے آپ کو نیچے گرادیا تاکہ وہ ان دونوں کو بھون کر کھا سکے۔‘‘

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’دیکھو! ان پرندوں نے اپنا سامان بھی دے دیا اور اپنی جانیں بھی قربان کردیں تا کہ اپنے مہمان کو آرام پہنچا دیں اسی طرح ہم کو بھی اپنے مہمان کی خاطر کرنی چاہئے۔‘‘

(الحکم 14نومبر 1936)

آپ علیہ السلام مہمانوں کے جانے سے غم محسوس فرماتے اور مہمان بھی آپ علیہ السلام سے جدا ہوتے وقت افسردہ ہوجاتے۔

مہماں جو کر کے اُلفت آئے بصد محبت
دِل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت
پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی

(مطبوعہ 7؍جون 1897ء)

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

انجم افشاں ودود مرحومہ کی یاد میں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جنوری 2023