• 24 اپریل, 2024

ایم ٹی اے ارتھ اسٹیشن مسرور ٹیلی پورٹ۔ امریکہ (قسط دوئم آخر)

ایم ٹی اے ارتھ اسٹیشن مسرور ٹیلی پورٹ۔ امریکہ
قسط دوئم آخر

۱۴؍اکتوبر ۱۹۹۴ ء کا تاریخی مبارک دن

مورخہ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۹۴ء کو وہ مبارک دن آن پہنچا جب امامِ وقت نے مسجد ’’بیت الرحمٰن‘‘ سلور سپرنگ میری لینڈ سے پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور مسجد کے افتتاح کے ساتھ تفصیل سے ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کی تنصیب کے مراحل کا ذکر فرمایا۔ اگلے روز پندرہ تاریخ کو حضورؒ نے کینیڈا کے امیر مکرم نسیم مہدی صاحب اور مکرم چوہدری منیر احمد صاحب کو حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے ہاں طلب کیا۔ اور اس بات کا اظہار فرمایا کہ ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کو چلانے کے لیے چوہدری منیر صاحب کو کینیڈا سے یہاں آ جانا چاہیے مگر اس کا فیصلہ امیر صاحب کینیڈا کریں کہ اس ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کو کس طرح چلانا ہے۔

چوہدری منیر احمد صاحب کی مستقلاً پوسٹنگ ابھی تک آٹوا (کینیڈا) ہی میں تھی اور وہ اس سارے عرصے میں آتے جاتے رہتے تھے۔ حضورؒ کے دورے کے بعد وہ دوبارہ وہاں چلے گئے تو امیر صاحب کینیڈا نے حضور کے منشا کا ذکر کرتے ہوئے رائے پوچھی تو چوہدری صاحب نے یہی جواب دیا:
’’جو حضورؒ کا ارشاد ہے اسی میں برکت ہے۔‘‘

چنانچہ مکرم نسیم مہدی صاحب نے ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ چلانے کے لیے چوہدری صاحب کی واشنگٹن میں پوسٹنگ کی سفارش کی۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا:
’’آپ سفارش تو بعد میں کر رہے ہیں۔ مَیں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں۔‘‘

یکم جنوری ۱۹۹۵ ء کو مکرم چوہدری منیر احمد صاحب نے مستقلاً واشنگٹن ڈی سی آ کر حضورؒ کی ہدایات کے مطابق ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کے انتظامات سنبھال لیے۔ ابتدا میں صرف تین گھنٹے کی نشریات شروع کی گئیں جو ایسٹ کوسٹ کے وقت کے مطابق رات آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک جاری رہتیں۔ لندن سے ٹرانسمیشن صبح فجر سے قبل ہوتی تھی جسے ریکارڈ کر لیا جاتا۔ اور پھر تین گھنٹے کے لیے مقررہ وقت پر رات آٹھ سے گیارہ بجے تک نشر کر دیا جاتا۔ ان دنوں میں یہ ساری سروس تغیّر پذیر (Analog) سسٹم میں تھی اور ہمارے پاس سیٹیلائٹ پر کوئی مستقل مقرر شدہ مستحکم (Fixed) چینل نہیں تھا۔ کیونکہ ہم چوبیس گھنٹوں کی کُل وقتی سروس پیش نہیں کر رہے تھے اس لیے جُز وقتی ٹرانسمیشن کے لیے کبھی ایک جگہ ’’ٹرانسپانڈر‘‘ ملتا اور کبھی دوسری جگہ۔ چنانچہ ایک ماہ کا گوشوارہ بنا کر جماعتوں کو بھیج دیا جاتا کہ مقررہ سیٹلائٹ پر کون سے دن ہماری ٹرانسمیشن کس فریکوئنسی پر ہو گی۔ اور احباب جماعت اس دشواری کے باوجود شوق سے ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھتے۔

’’یہ ایک ایسی روک ہے جو مزید بلندیوں کی طرف لے جائے گی۔‘‘

ایک سال تک اسی طرح روزانہ تین گھنٹے کی ٹرانسمیشن جاری رہی کہ اچانک ۱۹۹۶ ء میں بعض سیٹیلائٹ لانچز نا کام ہو گئیں۔ چنانچہ ایک گھنٹہ ٹرانسمیشن کی قیمت تین سو ڈالر سے بڑھ کر ایک ہزار ڈالر ہو گئی۔ پہلے تین گھنٹے کے نو سو ڈالر ادا کیے جاتے تھے اب یہ رقم تین ہزار ڈالر یومیہ ہو گئی۔ حضرت امیر المؤمنینؒ نے فرمایا:
’’یہ ایک ایسی روک ہے جو مزید بلندیوں کی طرف لے جائے گی۔‘‘

مزید فرمایا کہ فی الحال روزانہ ٹرانسمیشن کی بجائے صرف ایک گھنٹہ خطبہ جمعہ کے لیے وقت لے لیا جائے۔ چنانچہ اس کے مطابق روزانہ کی بجائے ہفتہ وار حضور کے خطبہ کے لیے ایک گھنٹہ کی نشریات کا سلسلہ شروع ہو گیا جو احبابِ جماعت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ چند ہی دنوں بعد حضورؒ کا ارشاد موصول ہؤا کہ اصبعی/عددی (ڈیجیٹل Digital ) ٹرانسمیشن کی طرف توجہ کی جائے۔ اس سے ہمارے اخراجات کم ہوں گے۔ لیکن دقت یہ تھی کہ‘‘ڈیجیٹل’’ سسٹم کے لیے ابھی مارکیٹ میں ریسیور موجود نہیں تھے۔ یہ سپیشل آرڈر پر بنوانے پڑتے اور دوسری دشواری یہ تھی کہ انہیں صرف احمدی احباب خریدتے اور وہی اس کا سگنل وصول کرتے۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیحؒ نے فرمایا:
’’کوئی بات نہیں، اگر آپ میرا احمدیوں سے سیٹلائٹ کے ذریعے براہِ راست رابطہ قائم کروا دیتے ہیں تو جو احمدیوں کی تربیت ہو گی اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ احمدیت کے پھیلاؤ کے بہت سارے سامان پیدا فرما دے گا۔ اور یہ ٹیکنالوجی بھی آگے بڑھنے والی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ ’’ڈیجیٹل‘‘ سسٹم عام ہو جائے گا۔‘‘

بظاہر یہ بات بہت دور نظر آتی تھی لیکن حضورؒ کے ارشاد کے مطابق ’’ڈیجیٹل‘‘ ریسیور بنانے والی مختلف کمپنیوں سے گفت و شنید شروع ہوئی تو فرانس کی ایک کمپنی نے تیرہ سو ڈالر میں ایک ریسیور دینے کی پیشکش کی۔ حضورؒ کے ارشاد پر ان سے صرف پانچ ریسیور خرید لیے گئے اور اپنے سٹیشن کو ’’ڈیجیٹل‘‘ ٹرانسمیشن کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ’’اینالاگ‘‘ (Analog) پر حضورؒ کے ہفتہ وار خطبے کی نشریات جاری رہیں۔ اپنے اسٹیشن کو ”ڈیجیٹل“ ٹرانسمیشن میں تبدیل کرنے کے لیے جب دوبارہ ’’اپلائیڈ ٹیلی کمیونیکیشنز‘‘ Applied) Telecommunications) سے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے نہایت مناسب قیمت پر یہ کام کرنے کی حامی بھری جس کی حضورؒ نے بخوشی منظوری دے دی۔

یہاں ایک اور امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ۱۹۹۴ ء میں ’’ارتھ سٹیشن‘‘ کی تنصیب کے وقت کینیڈا کی نیشنل مجلسِ شوریٰ نے متفقہ طور پر سیّدنا حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ اگرچہ یہ منصوبہ اب امریکہ میں زیرِ تکمیل ہے لیکن ہمیں اس سعادت میں اس طور پر شامل فرمایا جائے کہ اس کے لگانے کے سارے اخراجات جماعت احمدیہ کینیڈا اٹھائے۔ حضورؒ نے اس تجویز کو پسند فرما کر منظوری عطا کر دی تھی۔ اب جب اس کو ’’ڈیجیٹل‘‘ کرنے کا موقع آیا اور مزید تین لاکھ ڈالر کے اخراجات سامنے آئے تو اسے پورا کرنے کے لیے سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ یہ مرکز دے گا، مگر ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کو چلانے کے لیے دونوں ملک امریکہ اور کینیڈا نصف نصف خرچ ادا کرتے رہیں؛ تاہم چونکہ یہ پراجیکٹ کینیڈا جماعت کی پیش قدمی کا ثمر ہے اس لیے اس کا انتظام انہیں کے پاس رہے گا۔ چوہدری منیر احمد صاحب کینیڈا کے مبلغ کے طور پر یہاں نقل مکانی کر کے ان انتظامات کی دیکھ بھال کریں گے۔

تین گھنٹے سے بڑھ کر چوبیس گھنٹے ہونے کا سفر

جس وقت نئے ’’ڈیجیٹل‘‘ نظام کے ساتھ ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کی تنصیب مکمل ہو گئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ارشاد موصول ہؤا:
’’اب ہمیں روزانہ تین گھنٹے کی ٹرانسمیشن پر اکتفا نہیں کرنا۔ ہمیں چوبیس گھنٹے کی سروس کے لیے تیار ہونا ہے۔‘‘

سال ۱۹۹۶ کے پہلے چھ ماہ تک صرف حضورؒ کا خطبہ جمعہ نشر ہوتا رہا تھا۔ لیکن اس انقطاع کے باعث احبابِ جماعت کو جس محرومی کا سامنا کرنا پڑا اللہ تعالیٰ نے اس کا مداوا یوں فرمایا کہ ایک انعام اور سہولت کے طور پر تین گھنٹے کی بجائے چوبیس گھنٹے کی نشریات کے سامان پیدا فرما دئیے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

اس ’’ڈیجیٹل‘‘ سسٹم میں ’’ٹرانسپانڈر‘‘ کم جگہ استعمال کرتا ہے اور اسی حساب سے خرچ بھی کم ہوتا ہے۔ پرانے نظام میں جتنی رقم تین گھنٹے کی ٹرانسمیشن کی ادا کی جانی تھی، قریباً اتنے بلکہ اس سے بھی کم خرچ پر یہ نیا ’’ڈیجیٹل‘‘ سسٹم چوبیس گھنٹے کی نشریات کی سہولت بہم پہنچا رہا تھا۔ حضورؒ کی خواہش کے عین مطابق سیٹیلائٹ ’’ٹیلی سٹار-۴‘‘ پر چوبیس گھنٹوں کی سروس کے لیے ۴میگا ہرٹز (4 MHz) کا ’’ٹرانسپانڈر‘‘ مل گیا۔ شروع میں اسی قدر جگہ کی استطاعت اور گنجائش تھی اور اسی قدر سیٹلائٹ پر جگہ دستیاب تھی۔

۱۹۹۶ء کے وسط میں ایم-ٹی-اے کی چوبیس گھنٹے کی نشریات جاری ہو چکی تھیں لیکن یہ سگنل اتنا مضبوط نہیں تھا اور لوگوں کے پاس ’’ڈیجیٹل‘‘ ریسیور بھی پہلی پود (1st Generation) کے تھے۔ اس لیے احبابِ جماعت کو ایک میٹر کے چھوٹے ڈش لگانے اور سگنل وصول کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ حضورؒ کے پاس جب اس صورتحال کا ذکر ہؤا تو آپؒ نے فرمایا:
’’کوئی بات نہیں، یہ ٹِیدِنگ پرابلمز (Teething Problems) ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جو بچے کو دانت نکالتے وقت پیش آتے ہیں۔ اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اس نظام کو بہت وسیع ہونا ہے۔ اچھے ریسیور بھی آ جائیں گے اور ہمیں بہتر نرخوں (Rates) پر زیادہ جگہ بھی مل جائے گی۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم-ٹی-اے اب ایک قابلِ اعتماد اور مستحکم ٹی وی چینل کے طور پر پہچانا جانے لگا تھا۔ اور اگرچہ محدود پیمانے پر مگر جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے میں پیش پیش تھا۔ چنانچہ بڑی بڑی سیٹیلائٹ کمپنیوں کی نظریں اس پر لگی ہوئی تھیں۔ اسی دوران میں ایک سیٹیلائٹ کمپنی نے رابطہ قائم کیا اور چوبیس گھنٹے سروس کی طاقتور سگنل کے ساتھ پیشکش کی مگر یہ پیشکش ہماری موجودہ استطاعت سے بہت اونچی تھی۔ جب حضورؒ کو اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ وقت نہیں آیا، ابھی اسی طرح گزارہ کریں۔

موجودہ ’’ڈیجیٹل‘‘ سروس شروع کرتے ہی فرانس سے تیرہ سو ڈالر فی کس کے حساب سے پانچ ریسیور خرید لیے گئے تھے۔ ان میں سے دو لندن بھجوا دئیے گئے، دو مسجد ’’بیت الرحمٰن‘‘ سے ملحقہ ’’ٹیلی پورٹ‘‘ پر اور ایک ٹورانٹو میں نصب کر دیا گیا۔ ابتدا میں ’’ڈیجیٹل‘‘ ٹرانسمیشن اتنی ہی تھی۔ لوگ اسے ریسیو نہیں کر سکتے تھے۔ حضرت صاحبؒ کے ارشاد پر کوششیں جاری تھیں۔ چنانچہ کینیڈا کی ایک کمپنی ٹیکام کینیڈا (Tecom Canada) نے شپنگ اخراجات سمیت ایک ہزار کینیڈین ڈالر جو تقریباً سات آٹھ سو امریکی ڈالر کے برابر تھے کے حساب سے پیشکش کی۔ چنانچہ دو سو ڈش سسٹمز امریکہ اور دو سو ڈش سسٹمز کینیڈا کے لیے ابتدائی طور پر آرڈر کر دئیے گئے۔ یوں حضورؒ کے ارشاد کے مطابق آہستہ آہستہ یہ سپلائی کم قیمت پر احبابِ جماعت کو پہنچنے لگی۔

ٹیکنالوجی میں اوّلیت و فضیلت

’’مسلم ٹیلیویژن احمدیہ‘‘ (MTA) کی ان ’’ڈیجیٹل‘‘ ٹرانسمیشن کی جو شروعات ۱۹۹۶ء میں ہوئی تھیں۔ ان سے استفادہ کرنے میں لوگوں کو ابتداً کافی دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ بڑی خوشدلی اور جذبے کے ساتھ امامِ وقت کی آواز سننے اور تصویر دیکھنے کے شوق میں کشاں کشاں ریسیور خریدتے اور اپنے گھروں میں ’’کے یو بینڈ‘‘ (’’Ku Band‘‘) کی تین فٹ انٹینا ڈش لگاتے۔ دوسری طرف ہر ہفتے کمپنی سے نیا سافٹ ویئر (Software) لے کر اپنے ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ سے سیٹیلائٹ پر لوڈ کر دیا جاتا۔ اور لوگوں کے گھروں میں موجود ریسیورز کو اس سے ہم آہنگ (Update) رکھا جاتا۔ اور ساتھ ہی ساتھ تحقیق و نشوونما (Research & Development) میں شامل ہو کر اس کمپنی (Tecom Canada) کو باقاعدہ رپورٹ کے ساتھ مدد کی جاتی کہ نئے ’’سافٹ ویئر‘‘ سے اس کی کارکردگی پر کیا اثر پڑا ہے، اور اس میں بہتری کی اور کون سی صورت نکالی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آہستہ آہستہ یہ سروس بڑی مستحکم ہوتی گئی۔ اور ریسیور بھی معیاری ہو گئے۔ حقیقتاً یورپ سے برِّ اعظم امریکہ آنے والی ایم-ٹی-اے (MTA) کی ’’ڈیجیٹل‘‘ سروس اپنی نوعیت کی دنیا میں پہلی سروس تھی۔ اس سے قبل کسی چینل نے براہِ راست گھروں تک رسائی والی (DTH: Direct to Home) سروس شروع نہیں کی تھی۔ اس لحاظ سے جماعت احمدیہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس میدان میں اولیت کا اعزاز پانے والے یہی اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے تھے۔ موجودہ زمانے میں امریکہ کی Dish Network, EchoStar, Direct TV، ڈِش نیٹ ورک، ایکوسٹار اور ڈائریکٹ ٹی وی جیسی بڑی بڑی کمپنیاں ہمارے بہت بعد اس ’’ڈیجیٹل‘‘ میدان میں آئیں۔

جب ایم-ٹی-اے (MTA) کی یہ سروس چل پڑی اور بڑی تعداد میں لوگوں کے گھروں میں ریسیور پہنچ گئے تو ایسا وقت بھی آتا کہ لوگوں کو دینے کے لیے ایک بھی ریسیور موجود نہ ہوتا۔ نئی کھیپ کا انتظار کرنا پڑتا۔ واشنگٹن ٹیلی پورٹ پر صرف دو ریسیور تھے۔ ایک بار یوں ہؤا کہ ان میں سے بھی ایک خراب ہو گیا اور صرف ایک ہی سے نشریات کی جانچ پڑتال اور نگرانی کی جا رہی تھی۔ نئی رسدکا انتظار تھا۔ ایک رات ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ پر ڈیوٹی کے لیے انڈین ریلوے کے ریٹائرڈ ایک بزرگ مکرم عبدالحمید احمد صاحب مرحوم (سابق صدر خدام الاحمدیہ امریکہ مکرم عبدالشکور احمد صاحب اور موجودہ نائب صدر انصاراللہ مکرم عبدالہادی احمد صاحب کے والد محترم) ڈیوٹی پر تھے۔ رات گئے ایک احمدی دوست ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ پر چلے آئے اور کہنے لگے کہ ان کا ریسیور خراب ہو گیا ہے۔ کوئی فالتو ریسیور عاریتاً انہیں دے دیا جائے۔ مکرم عبدالحمید صاحب نے کہا:
’’ہمارے پاس یہی ایک ریسیور ہے۔ اگر مَیں یہ آپ کو دے دوں تو اپنی ٹرانسمیشن کو کس طرح مانیٹر کروں گا۔‘‘

اس پر وہ دوست، مکرم خلیل لطیف صاحب، جو ریسیور لینے آئے تھے کہنے لگے:
’’اور اگر آپ کا یہ اکلوتا ریسیور بھی خراب ہو گیا تو پھر کیا کریں گے؟‘‘

’’مَیں نے یہ مصلّا (جائے نماز) کس لیے رکھا ہے؟‘‘

مکرم عبدالحمید صاحب مرحوم بڑے دعا گو اور متوکل انسان تھے (اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے)، بے ساختہ بول اٹھے:
’’خلیل صاحب! یہ مصلّا (جائے نماز) مَیں نے کس لیے رکھا ہؤا ہے؟ یہ ریسیور نہیں خراب ہو سکتا۔‘‘

تو یہ جذبہ جو لوگوں کے گھروں میں تھا وہی ’’ارتھ سٹیشن‘‘ کے سٹاف میں تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ مسیحؑ کا پیغام ہے جسے ہر حال میں جاری رہنا ہی رہنا ہے۔

’’ارتھ سٹیشن‘‘ کی تنصیب کے وقت اس کمپنی نے بڑے پُر زور طریق پر درخواست کی تھی کہ یہ بہت ٹیکنیکل کام ہے، اسے مؤثر رنگ میں جاری رکھنے کے لیے ہمہ وقت دو تین انجنیئرز کی ضرورت پیش آئے گی۔ حضور انورؒ کی خدمت میں یہ بات عرض کی گئی اور اس کے اخراجات کا تخمینہ پیش کیا گیا تو آپؒ نے چوہدری منیر صاحب سے فرمایا:
’’انجنیئر بھی تو انسان ہی ہوتے ہیں۔ آپ خود یہ کام سیکھیں۔ اور اپنے ساتھ پاکستان، انڈیا یا دوسرے ممالک سے آئے ہوئے ریٹائرڈ سینیئر سٹیزن کو رکھیں اور کام لیں۔ اور کام کو زیادہ سے زیادہ خود کار (Automated) کریں۔‘‘

چنانچہ آقاؒ کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے جماعت کے لاکھوں قیمتی ڈالرز کی بچت ہوئی۔ مکرم عبدالحمید صاحب مرحوم اور مکرم منصور پال صاحب مرحوم ’’ایم ٹی اے ارتھ اسٹیشن‘‘ کے پہلے باقاعدہ کارکن تھے جنہیں جماعتی قواعد کے مطابق مشاہرہ دیا جاتا، اور وہ رضاکارانہ جذبے سے خدمت بجا لاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں بزرگوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے سامان ہر جگہ پیدا ہوتے رہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، شروع شروع میں جب ٹیلی سٹار4-سیٹلائٹ کے ساتھ ٹرانسمیشن شروع کی گئی تو بہت سی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ریسیور بھی اعلیٰ کوالٹی کے نہیں تھے اور سافٹ ویئر (Software) کو بھی بار بار ’’اپ گریڈ‘‘ کرنا پڑتا۔ تاہم مسلسل کوششوں کے نتیجے میں یہ مسائل بہت حد تک حل ہو چکے تھے اور اس سسٹم میں ایک توازن اور استحکام کی صورت دکھائی دینے لگی تھی کہ اچانک ایک دن ایک شمسی طوفان کے نتیجے وہ سیٹیلائٹ (Telestar-4) تباہ ہو گئی اور ہماری ٹرانسمیشن بری طرح متاثر ہوئی۔ فوری طور پر حضورؒ کو فیکس کے ذریعے اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ گھبرانا نہیں، کوئی اور سیٹیلائٹ دیکھ لیں۔ اسی اثنا میں جب نئی معلومات کے لیے ریسرچ کر رہے تھے تو ایک پرانے جاننے والے انڈسٹری کے دوست نے فون پر چوہدری منیر احمد صاحب کو بتایا:
’’GE-2 جی ای 2 سیٹیلائٹ پر آپ کو جگہ مل سکتی ہے۔ اس وقت بہت سے لوگ جو ’’ٹیلی سٹار 4-‘‘ سے متاثر ہوئے ہیں جگہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ چاہیں تو یہ انتظام کیا جا سکتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا فضل حادثات باعثِ رحمت آقا کی خداداد فراست

اس موقع پر فوری طور پر جگہ محفوظ کرا لی گئی اور جو قیمت چار میگا ہرٹز کی ادا کی جا رہی تھی اسی میں 10.4 میگا ہرٹز کا چینل کل وقتی سروس کے لیے میسر آ گیا۔ جب سیّدنا حضرت اقدسؒ کو اطلاع دی گئی کہ اسی قیمت پر ہمیں زیادہ جگہ طاقتور سگنل کے ساتھ مل رہی ہے تو آپؒ نے فرمایا:
’’فوراً لے لیں۔ ٹیلی سٹا4- سیٹلائٹ کی تباہی میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے برکت رکھی ہے۔‘‘

چنانچہ ریڈیائی لہروں کی زیادہ وسیع حد بندی (Bandwidth) کے ساتھ تقریباً تین گنا (کیونکہ ہر تین ڈی بی (dB: decibels) سگنل بڑھنے سے طاقت دگنی ہو جاتی ہے) زیادہ طاقتور سگنل کا معاہدہ ہو گیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے ہم سال بہ سال معاہدہ کرتے تھے، اب پانچ سال کا معاہدہ کرنا پڑا جس کی حضرت صاحبؒ نے بخوشی منظوری دے دی۔

بعد ازاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مختلف مواقع پر واشنگٹن ڈی سی تشریف لاتے رہے اور ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کے لیے ہدایات عطا فرماتے رہے۔ اور احبابِ جماعت کی ضروریات کے مطابق انہیں ارزاں نرخوں پر ریسیور مہیا کرنے کا سلسلہ کامیابی سے جاری تھا کہ ایک روز پتا چلا کہ کینیڈا کی جو کمپنی (Tecom Canada) ہمیں ریسیور مہیا کرتی تھی اس نے دیوالیہ پن (Bankruptcy) کا اعلان کر دیا ہے۔ اب بڑی پریشانی کا سامنا تھا کہ یہی ایک کمپنی تھی جو ہمارے لیے سامان تیار کرتی تھی۔ فوری طور پر کوئی اور بندوبست ممکن نہیں تھا۔ یہاں بھی آقاؒ کی خدا داد فراست اور الہٰی تصرف سے ملنے والی رہنمائی ہمارے کام آئی۔ آپؒ نے فرمایا: ’’اگر کمپنی بنک رپٹ ہو گئی ہے تو کسی بنک کے پاس ہی جائے گی۔ ٹورنٹو جا کر معلوم کریں کہ اسے کس بنک نے اٹھایا ہے اور اس سے گفت و شنید کر کے سودا طے کر لیں۔‘‘

چنانچہ چوہدری منیر صاحب فوری طور پر ٹورنٹو پہنچے اور معلوم کیا کہ قرضہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے کورٹ نے کمپنی کے اثاثوں کو اس کی قرض دہندہ (Lender) کمپنی ’’E&Y: Earnest and Young‘‘ کی تحویل میں دے دیا ہے۔ ’’E & Y‘‘ سے بات چیت کی گئی تو وہ سٹاک میں موجود دو ہزار ریسیور سات سو کی بجائے دو سو ڈالر فی عدد پر دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ نصف کی کھپت کینیڈا میں ہو گئی اور نصف کی امریکہ میں۔ اس طرح لوگوں نے کثرت سے وہ ریسیور گھروں میں لگائے اور اس سودے سے فائدہ اٹھایا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ Tecom Canada کے بنک کرپٹ ہونے پر جماعت کو ستّر ہزار امریکی ڈالر نقصان کی مدّ میں وارنٹی کے طور پر ملے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فضل بھی خلیفۃ المسیح کی پُر بصیرت رہنمائی کا نتیجہ ہے۔ یوں گویا اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے (MTA) کے نفوذ اور پھیلاؤ کا ایک اور دروازہ کھول دیا جس کا عام حالات میں اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رفتہ رفتہ مارکیٹ میں عام ریسیور آنے شروع ہو گئے جو ایم-ٹی-اے (MTA) کا سگنل بھی وصول کرتے تھے۔ چنانچہ یہی فیصلہ کیا گیا کہ اب جماعت ریسیور خرید کر احباب کو مہیا نہ کرے بلکہ وہ براہِ راست مقامی طور پر خرید کر ڈش لگا لیں۔

سیّدنا خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کی بصیرت آموز رہنمائی
2003ء میں سیّدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے وصال کے بعد سیّدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے ایم-ٹی-اے (MTA) کی طرف خصوصی توجہ فرمائی۔ مکرم چوہدری منیر احمد صاحب نے ایک مختصر مگر جامع رپورٹ حضور انور کی خدمتِ اقدس میں بھجوائی اور بعض زیرِ تکمیل منصوبوں کی توثیق چاہی تو سیّدنا حضرت اقدس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز نے فرمایا:
’’حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے جو فیصلہ جات ہیں ان پر اس طرح عمل جاری رکھیں اور مجھے ساتھ ساتھ پراگرس رپورٹ دیتے رہیں۔‘‘

زمامِ خلافت سنبھالنے کے بعد جب حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ پہلی بار امریکہ تشریف لائے تو آپ نے ”ارتھ اسٹیشن“ کا بھی معائنہ فرمایا۔ یہ اسی پرانی عمارت میں چل رہا تھا۔ ساری تنصیبات باہر چھوٹے چھوٹے شیڈز میں بٹی ہوئی تھیں۔ تمام آلات اور مشینری ایک ٹریلر میں دھرے پڑے تھے۔ کنٹرول روم کے طور پر استعمال کیا جانے والا مکان ایک سو سال پرانا تھا۔ اس میں مرورِ زمانہ کے باعث تدریجی ابتری اور بگاڑ کے آثار نمایاں تھے۔ اکثر بارش اور طوفان میں عمارت کی دوسری کمزوریاں بھی اجاگر ہونے لگتیں۔ حضورِ انور نے ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد فرمایا کہ اس کو ٹھیک کریں، عمارت کو وسیع کریں اور پرانے حصوں کو بدل دیں۔ جب حضور کو یہ بتایا گیا کہ اس کے اندر مشینری ہے اس لحاظ سے ساری عمارت کو یکلخت گرانا بہت مشکل ہے۔ اس پر آہستہ آہستہ کام ہو سکتا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’اس کی مرمت اور تعمیرِ نو کا منصوبہ بنا کر بھجوائیں اور عمارت کو اس طرح ٹھیک کریں کہ ایم-ٹی-اے (MTA) کی ٹرانسمیشن کو کوئی خطرہ نہ رہے۔‘‘

2010ء میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز نے پیش کردہ منصوبے کی منظوری دے دی۔ لندن میں چوہدری منیر احمد صاحب نے آپ کو نقشہ جات پیش کیے تو حضور نے فرمایا کہ وہاں امریکہ میں ملک شفیق صاحب آرکیٹیکٹ ہیں۔ ان سے بھی مشورہ لے لیں۔ بعدہٗ ملک صاحب مرحوم و مغفور نے اسے تفصیلاً چیک کیا اور بعض مختلف تجاویز کے ساتھ نیا نقشہ بنا دیا جس کی منظوری حضور نے عنایت فرمائی اور کام شروع کرنے کا ارشاد فرمایا۔ لیکن بوجوہ تعمیرِ نو کا کام فوری طور پر شروع نہ ہو سکا جس میں بعض ٹیکنیکل امور اور زوننگ کے مسائل درپیش تھے۔

2013ء میں لاس اینجلیز کے دورے کے دوران میں حضور نے چوہدری منیر صاحب سے پوچھا کہ ابھی تک تعمیر کا کام کیوں نہیں شروع ہؤا۔ اگر پیسوں کا مسئلہ ہے تو ابھی مبارک ظفر صاحب سے اس کا بندوبست کرنے کو کہیں۔ عرض کیا گیا کہ زوننگ کے مسائل تعمیرِ نو میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور ایم-ٹی-اے (MTA) کی ٹرانسمیشن جاری رہنے کی وجہ سے ساری عمارت کو یکبارگی گرا کر بنانا بھی ممکن نہیں۔ حضور نے فرمایا:
’’جو بھی کرنا ہے اس کو کریں اور تعمیر جلد شروع کریں۔“ واپس لندن پہنچ کر بھی حضورِ انور کا اسی مضمون کا خط آیا کہ منظوری دی جا چکی ہے، تعمیرِ نو کی رپورٹ جلد بھجوائیں۔ خدا تعالیٰ کا کرنا یہ ہؤا کہ زوننگ کی جو لا ینحل مشکلات اور کاؤنٹی کی طرف سے پس و پیش کی صورت جاری تھی وہ اچانک دور ہو گئی اور بظاہر ناممکن نظر آنے والا کام ممکن بن گیا۔ یوں بلڈنگ پرمٹ کے حصول میں جو دشواریاں در پیش تھیں ان کا سدِّ باب ہو گیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ چنانچہ ایک منصوبے کے تحت آہستہ آہستہ ایک طرف سے عمارت کو گرانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اسے مکمل کرنے کے بعد دوسرے حصے کی طرف توجہ دی جاتی۔ اس دوران میں پروگراموں کی نشریات بغیر کسی تعطّل اور رکاوٹ کے جاری رہیں۔ تعمیرِ نو کا یہ منصوبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے منظم طریق پر جاری ہو گیا۔ پرانی عمارت کی جگہ نئی بنیادیں، نیا ڈھانچہ (Structure)، نیا فریم، نئی چھتوں اور نئے کمروں کے اضافوں کے ساتھ حضرت امیر المؤمنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز کی دعاؤں کی قبولیت اور توجہ کے طفیل یہ عمارت پچانوے فیصد تک نئی بن چکی ہے۔ جو پانچ فیصد رہ گئی تھی اسے بھی مضبوط اور مستحکم کر کے محفوظ کر لیا گیا ہے۔

خلافتِ خامسہ کے دور میں ایک اور پیشرفت یہ ہوئی کہ ساؤتھ امریکہ میں ایم ٹی اے (MTA) کی سروس ’’ہسپاسیٹ سیٹیلائٹ (HispaSat Satellite) پر آ رہی تھی۔ جس کی پہنچ اور رسائی (کوریج ۔Coverage) سارے سنٹرل اور ساؤتھ امریکہ کے لیے نا کافی تھی۔ ان ملکوں کی درخواست پر مختلف تجاویز کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے بالآخر حضور کی منظوری سے ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ میں ایک اور ربطِ بالائی (اپ لنک Uplink) ڈش کا اضافہ کیا گیا جو (سَیٹ مَیکس ۶) SATMAX-6 کے ذریعے ایم-ٹی-اے (MTA) کی سروس کو ساؤتھ امریکہ تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کے لیے سن 2010ء میں4.8میٹر کی اس ڈش کی تنصیب کا سارا کام ‘‘ارتھ اسٹیشن’’ کے سٹاف اور رضاکاروں نے سر انجام دیا۔ ایک لاکھ ستاسی ہزار ڈالر میں مکمل ہو کر اس نے اپنا کام شروع کر دیا۔ اگر یہی کام باہر سے کروایا جاتا تو کم و بیش چار لاکھ ڈالر کا خرچ متوقع تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کم لاگت سے سر انجام پا گیا۔ عمارت کی تعمیرِ نو کا کام ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ ایم ٹی اے (MTA) کی سروس چوبیس گھنٹے جاری تھی اس لیے یہ کام نسبتاً آہستہ کرنا پڑا تاکہ بحفاظت تعمیرِ نو کا کام مکمل ہو سکے۔

2017ء میں تعمیر کا کام مکمل ہو گیا اور 16؍اکتوبر 2018ء کو سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز نے نئی عمارت کا افتتاح فرمایا۔ قبل ازیں ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کو صرف ’’ٹیلی پورٹ‘‘ (Teleport) کہا جاتا تھا اور عرفِ عام میں یہ عمارت ’’ایم ٹی اے ٹیلی پورٹ‘‘ (MTA Teleport) یا ’’ایم ٹی اے انٹرنیشنل‘‘ (MTA International) کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اس تعمیرِ نو کے بعد ’’ایم ٹی اے انٹرنیشنل‘‘ (MTA International) بورڈ کی سفارش پر اس نئی عمارت اور فیسلیٹی کا نام جماعت کے ذیلی ادارے (Auxiliary) ’’ایم ٹی اے انٹرنیشنل‘‘ (MTA International) کے تحت سٹیٹ آف میری لینڈ (State of Maryland) میں ’’مسرور ٹیلی پورٹ‘‘ (Masroor Teleport) کے طور پر رجسٹر کروایا گیا۔

عہدِ خلافتِ خامسہ کا ایک اور سنگِ میل

خلافتِ خامسہ کے دور کا ایک اور سنگِ میل یہ بھی ہے کہ 2013ء میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز کے ارشاد پر لندن اور مسرور ٹیلی پورٹ (Masroor Teleport) کو بصری ریشہ کی کڑی (Fiber Optic Link) سے جوڑ دیا گیا۔ جو لندن کے ’’ماسٹر کنٹرول روم‘‘ (MCR) سے براہِ راست ’’مسرور ٹیلی پورٹ‘‘ کے ساتھ منسلک ہے جس کے ذریعے ایم-ٹی-اے (MTA) کی سروس جاری ہے۔ اس متبادل (Backup) سروس کا مقصد یہ تھا کہ اگر سیٹیلائٹ لنک میں کوئی دشواری یا انقطاع ہو تو اس کا اثر شمالی اور جنوبی امریکہ کی سروس پر نہ ہو۔ بعدہٗ ’’مسرور ٹیلی پورٹ‘‘ کو اعلیٰ درجے (Upgrade) میں لانے کے لیے یہ امر بھی ایک اور سنگِ میل ثابت ہؤا کہ حضورِ انور نے اصبعی دباؤ کے نظام (ڈیجیٹل کمپریشن سسٹم (Digital Compression System) کے خارج المیعاد اور متروک (Out of Date) ہونے کے باعث تبدیل کرنے کی منظوری دی۔ اسی طرح لندن ٹرانسمیشن سے ملحقہ تنصیبات کو بھی ’’اپ گریڈ‘‘ کرنے کی منظوری عنایت فرمائی۔ اس وقت تک ہماری سروس ’SD MPEG-2‘ کے ڈیجیٹل فارمیٹ میں ہو رہی تھی جو معیارِ اوسط (Standard Definition) کی تکنیک تھی۔ نئے ’’اپ گریڈ‘‘ کے لیے مختلف کمپنیوں سے نرخ (Quotation) طلب کیے گئے اور اسے ’HD MPEG-4‘ میں تبدیل کر کے نئے آلات اور مشینری لگا کر DVBS-2 سسٹم کے اعلیٰ معیار کی تکنیک (High Definition) میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہی آلات اور نظام لندن کے ماسٹر کنٹرول روم (MCR) میں بھی لگا دیا گیا ہے۔ اس طرح 2017ء کے آخر سے ایم-ٹی-اے (MTA) کی تمام نشریات اعلیٰ معیار کی تکنیک (High Definition) میں ہو رہی ہیں۔

خلافتِ خامسہ کے عہدِ مبارک میں ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ ایم-ٹی-اے (MTA) کو شمالی امریکہ کی سب سے ہر دلعزیز اور مقبولِ عام سیٹیلائٹ ’’Galaxy-19‘‘ پر جگہ مل گئی۔ G-19 شمالی امریکہ میں ناظرین کے لیے بلا معاوضہ پروگراموں (Free to Air) کی سیٹیلائٹ ہے۔ اس پر سینکڑوں ٹی وی چینلز ہیں جنہیں کثرت سے عربی، فارسی، ہسپانوی، اردو، ہندی اور دیگر زبانوں کے لوگ دیکھتے ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب ابتدا میں ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کی تنصیب ہوئی تو ہمارے پاس بجلی (Electricity) کی فراہمی کے لیے کوئی متبادل (Backup) جنریٹر اور UPS (uninterruptible power supply or uninterruptible power source (UPS): emergency power) یو پی ایس یعنی مقامی متبادل بجلی کا انتظام موجود نہیں تھا۔ اور جب کبھی بجلی چلی جاتی تو ایم-ٹی-اے (MTA) کی سروس مختصر دورانیے کے لیے بند ہو جاتی۔ اس دقت کو دور کرنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ’’ارتھ سٹیشن‘‘ پر ایک بڑے سا‏ئز کے مستعمل جنریٹر اور 50 KVA کا UPS لگوانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ کیونکہ نیا جنریٹر بہت مہنگا تھا۔ یہ جنریٹر قریباً بیس سال پرانا تھا اور بہت زیادہ استعمال سے اس کے بھی خراب ہونے کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ بڑے طوفان آئیں اور کئی کئی دن بجلی غائب ہو جائے تو اس کے سدِّ باب کی بھی تیاری ضروری ہے۔ چنانچہ اسی طرح کا ایک اور بڑا مستعمل جنریٹر خرید لیا گیا تھا۔ گویا اب یہ دونوں چالیس چالیس سال پرانے تھے۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے 2017ء میں ان کی جگہ دو نئے جنریٹر خریدنے کی اجازت عطا فرمائی۔ اسی طرح UPS بھی اپنی عمر پوری کر چکا تھا۔ اس کی جگہ مٹسوبشی کا 30KVA کا بالکل نیا UPS تبدیل کر دیا گیا۔ یوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امکانی خطرات کی روک تھام کے لیے ممکنہ تدابیر بھی اختیار کر لی گئیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیّدنا حضرت اقدس امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز کی خاص شفقت کے پیشِ نظر اس وقت ہم یہاں سے ایم ٹی اے (MTA) کے تین وڈیو چینل MTA3-ALARABIA, MTA8+3 AMERICA, MTA8 AMERICA کو Galaxy19 سیٹیلائٹ پر نشر کر رہے ہیں۔ سارے شمالی امریکہ کو سسٹم کے اعلیٰ معیار کی تکنیک (High Definition) پر یہ سروس مہیا کی جا رہی ہے۔ اسی طرح حضورِ انور کے پروگراموں کے دوران میں مختلف زبانوں کے تراجم کے لیے سات الگ الگ چینل بھی پروگرام ٹرانسمٹ کر رہے ہیں۔ یوں دیکھنے والوں کو ایم ٹی اے (MTA) کے کل دس چینل نظر آتے ہیں جو اپنی اپنی زبان میں دستیاب ہیں۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

مسلم ٹیلیویژن احمدیہ (MTA) کے ’’ارتھ اسٹیشن‘‘ کی تنصیب امریکہ میں ہونے کے باوجود اس کا انتظام و انصرام ابتدا ہی سے جماعت احمدیہ کینیڈا کی ذمہ داری رہا تھا۔ اگرچہ اس کے اخراجات نصف امریکہ اور نصف کینیڈا کی طرف سے ادا ہوتے تھے،تاہم عملی طور پر شروع ہی سے یہ سارا نظام تکنیکی لحاظ سے ایم ٹی اے انٹرنیشنل لندن کے زیرِ اہتمام چل رہا ہے۔ بعد ازاں جولائی 2010ء کو اسے باقاعدہ طور پر جماعت کینیڈا سے علیحدہ کر کے مکمل طور پر لندن کے سپرد کر دیا گیا اور چوہدری منیر احمد صاحب بھی کینیڈا کی بجائے براہِ راست مرکز سے منسلک ہو گئے۔ حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کو جون 2013 میں ڈائریکٹر ’’مسرور ٹیلی پورٹ نارتھ اینڈ ساؤتھ امریکہ‘‘ اور ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر مقرر فرمایا۔ یوں نارتھ امریکہ میں ربع صدی قبل امام جماعت سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خداداد بصیرت اور بالغ نظر ہدایات کی روشنی میں جس ٹیلیویژن چینل کی عاجزانہ سی تخم ریزی ہوئی تھی وہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دنیائے نشر و ابلاغ میں ایک عظیم الشان قابلِ تقلید اور رجحان ساز و وضع طراز (Trendsetter) ادارے کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ و ما توفیقنا الَّا باللہ۔

(بشکریہ النور امریکہ صد سالہ اظہار تشکر نمبر)

(امتیاز احمد راجیکی۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مارچ 2021