• 19 اپریل, 2024

باجماعت نماز کے دوران مقتدی کہاں کھڑا ہو؟

فقہ کیا کہتا ہے

نوٹ: کرونا وائرس کی وجہ سے جو حالات دنیا کے ہیں۔ ملکی قوانین کے مطابق مساجد میں نمازوں کی ادائیگی کی ممانعت کردی گئی ہے۔ ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو گھروں میں نمازیں باجماعت ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ گھروں میں باجماعت نمازوں کی ادائیگی کی صورت میں یہ سوال اُٹھ رہا تھا کہ گھر میں موجود عورت کہاں کھڑی ہو۔ ادارہ نے اس حوالہ سے ’’فقہ کیا کہتا ہے‘‘ سے جماعت احمدیہ کا موقف حاصل کیا ہے جو قارئین الفضل لندن آن لائین کے استفادہ کے لئے پیش ہے۔

(ایڈیٹر)

اگر امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے والا صرف ایک شخص ہوتو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہوگا۔حدیث میں آتا ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ فِی بَیْتِ خَالَتِی مَیْمُونَۃَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّیْلِ فَأَطْلَقَ الْقِرْبَۃَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ أَوْکَأَ الْقِرْبَۃَ، ثُمَّ قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ، فَقُمْتُ فَتَوَضَّأْتُ کَمَا تَوَضَّأَ، ثُمَّ جِءْتُ فَقُمْتُ عَنْ یَسَارِہِ، فَأَخَذَنِی بِیَمِینِہِ فَأَدَارَنِی مِنْ وَرَاءِہِ فَأَقَامَنِی عَنْ یَمِینِہِ، فَصَلَّیْتُ مَعَہ

(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجلین یؤم احدھماصاحبہ کیف یقومان)

ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے ہاں رات گزاری۔رات کے وقت نبی کریم ﷺ بیدار ہوئے، آپ ﷺ نے مشکیزہ کھولا اور وضو کیا پھر مشکیزہ بند کر دیا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ پس میں بھی بیدار ہوا اور وضو کیا جیسا کہ آپ ﷺ نے وضو کیا تھا پھر میں آپ ﷺ کے بائیں طرف جاکر کھڑا ہوگیا۔پس آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے کی طرف سے مجھے گھما کر اپنی دائیں طرف کھڑا کیا پس میں نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔

اگر امام ایک مقتدی کے ساتھ نماز باجماعت شروع کروائے اور بعد میں ایک اور مقتدی شامل ہو جائے تو پھر دونوں مقتدی امام کے پیچھے صف بنالیں گے۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں:

فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُصَلِّیَ، وَکَانَتْ عَلَیَّ بُرْدَۃٌ ذَہَبْتُ أَنْ أُخَالِفَ بَیْنَ طَرَفَیْہَا فَلَمْ تَبْلُغْ لِی، وَکَانَتْ لَہَا ذَبَاذِبُ فَنَکَّسْتُہَا، ثُمَّ خَالَفْتُ بَیْنَ طَرَفَیْہَا، ثُمَّ تَوَاقَصْتُ عَلَیْہَا، ثُمَّ جِئْتُ حَتَّی قُمْتُ عَنْ یَسَارِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بِیَدِی فَأَدَارَنِی حَتَّی أَقَامَنِی عَنْ یَمِینِہِ، ثُمَّ جَاء َ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاء َ فَقَامَ عَنْ یَسَارِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدَیْنَا جَمِیعًا، فَدَفَعَنَا حَتَّی أَقَامَنَا خَلْفَہ

(صحیح مسلم کتاب الزھد و الرقائق باب حدیث جابر الطویل و قصۃ ابی الیسر)

رسول اللہ ﷺ نما ز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے اور میرے اوپر ایک چادر تھی جو کہ چھوٹی تھی۔میں نے اس کے دونوں کناروں کو پلٹا کر اسے اپنی گردن پر باندھا۔پھر میں آکر رسول اللّٰہ ﷺ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا تو آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اور گھما کر مجھے اپنی دائیں طرف کھڑا کر دیا پھر جبار بن صخر آئے۔انہوں نے وضو کیا پھر آکر رسول اللہ ﷺ کے بائیں طرف کھڑے ہوگئے تو رسول اللّٰہ ﷺ نے ہم دونوں کے ہاتھوں کو پکڑ کر ہمیں ہٹا کر اپنے پیچھے کھڑ اکر دیا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقتدی ایک ہو تو وہ امام کے دائیں طرف کھڑا ہوجائے اور اگر ایک سے زیادہ مقتدی ہوں تو پھر سب امام کے پیچھے کھڑے ہوں۔

باجماعت نماز کے دوران عورت کہاں کھڑی ہو؟

اگر مقتدیوں میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہوں تو ان کی علیحدہ صف ہونی چاہیے جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: صَلَّیْتُ أَنَا وَیَتِیمٌ، فِی بَیْتِنَا خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّی أُمُّ سُلَیْمٍ خَلْفَنَا

(صحیح بخاری کتاب الاذان باب المرأۃ وحدھا تکون صفا)

’’میں نے اورمیرے بھائی یتیم نے ہمارے گھر میں آنحضرت ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر دوسری صف میں نماز پڑھی اور میری والدہ ام سلیم تیسری صف میں اکیلی ہمارے پیچھے تھیں۔‘‘

اسی طرح جب مرد امام ہو اور اس کی مقتدی صرف ایک عورت ہو تو عورت اکیلی پیچھے کھڑی ہو۔ مقتدی عورت خواہ محرم ہو یا غیر محرم آنحضرت ﷺ اسے پچھلی صف میں کھڑی کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک اور موقع کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ:

’’رسول پاک ﷺ نے مجھے اور میری والدہ کواس طرح نماز پڑھائی کہ مجھے آپ نے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا اور میری والدہ کو پچھلی صف میں کھڑا کیا۔‘‘

(مسلم کتاب المساجد باب جواز الجماعۃ فی النافلۃ والصلاۃ علیٰ حصیروخمرۃ و ثوب و غیرھا من الطاہرات)

حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

’’میں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ آپ کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی جبکہ حضرت عائشہ نے دوسری صف میں ہمارے پیچھے تنہا کھڑی ہو کر نماز پڑھی۔‘‘

(سنن نسائی کتاب الامامۃ باب موقف الامام اذا کان معہ صبی وامراۃ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں مسئلہ پیش ہوا کہ دو احمدی کسی گاؤں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ؟ حضور علیہ السلام نے مولوی محمد احسن صاحب سے خطاب فرمایا تو انہوں نے عرض کی کہ دو سے جماعت ہو جاتی ہے۔ اس لیے جمعہ بھی ہو جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا:۔

’’ہاں پڑھ لیا کریں۔ فقہاء نے تین آدمی لکھے ہیں۔ اگر کوئی اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیرہ کو پیچھے کھڑا کر کے تعداد پوری کرسکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 168)

حضور علیہ السلام کے اس فقرہ سے پتہ چلتا ہے کہ بیوی،خاوند کے پیچھے والی صف میں کھڑی ہوگی نہ کہ خاوند کے ساتھ۔

پچھلا پڑھیں

بدی اور گناہ سے پرہیز

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ