• 24 اپریل, 2024

ارشاداتِ نور (قسط 13)

ارشاداتِ نور
قسط 13

مصائب اپنی ہی بد عملیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں

فرمایا۔ آدمی کو جب کبھی بیماری آتی ہے یا کوئی تکلیف یا مصیبت وارد ہوتی ہے تو اس کے متعلق قرآن کریم نے یہ قاعدہ بتایا ہے کہ وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ (الشوریٰ: 31)

جو مصیبت آئی ان کے اپنے ہی کرتوتوں سے آئی۔

ابھی تھوڑے دن ہوئے کہ مجھ کو الہام ہوا تھا۔

لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ (الانفال: 29)۔ یہ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔ پھر تکلیفیں یا مال کے ذریعہ ہوتی ہیں یا جان پر پڑتی ہیں یا بیوی بچوں کے ذریعہ آتی ہیں یا آبرو خراب ہوتی ہے یا رشتہ داروں کے ذریعہ سے یا ملک پر۔ اور اس کے علاوہ ایک زبردست مصیبت ہے جو سب سے بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے انسان کا بُعد ہو جاتا ہے۔ اس کے متعلق دو آیتیں میں پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

فَاَعۡقَبَہُمۡ نِفَاقًا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ یَلۡقَوۡنَہٗ بِمَاۤ اَخۡلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوۡہُ وَ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ

(التوبه: 77)

ترجمہ۔ اللہ تعالیٰ کا وعدوں کے خلاف کرنے اور جھوٹ بولنے کے سبب ان کے دلوں میں نفاق پڑ گیا اس دن تک کہ وہ اللہ کے حضور میں حاضر ہوں۔

دوسری آیت

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ

(البقرہ: 7۔8)

اس کے لطیف معنے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتائے ہیں۔ ایک آدمی ایسا شریر ہوتا ہے اور گندا ہوتا ہے کہ جب اس کو اس کی بھلائی کے لیے کوئی بات کہتے ہیں تو معاً وہ انکار کر جاتا ہے۔ اس کو اس خیر خواہی پر ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی اس واسطے اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ میں نے بار ہا یہ کہا ہے کہ میں تم سے کسی بات کا خواہش مند نہیں۔ اپنی تعظیم کے لیے تمہارے اٹھنے کا محتاج نہیں۔ تمہارے سلام تک کا محتاج نہیں۔ باوجود اس کے میں کسی کو کچھ کہتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں لیکن ایسے بھی ہیں کہ ابھی تھوڑے دن ہوئے کہ میں نے ایک آدمی کو نصیحت کی اس نے مجھ کو دو ورق کا خط لکھ کر دیا۔

خلاصہ کلام جو انسان کو دکھ پہنچتا ہے تو کسی گناہ کے ذریعہ سے اس کو پہنچتا ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ362)

بے فائدہ بحثیں نہ کرو

ایک شخص کا خط پیش ہوا کہ ایک جگہ احمدیوں میں یہ بحث ہو رہی تھی کہ فرشتے جسم رکھتے ہیں یا بے جسم ہیں اس پر حضرت خلیفة المسیح رنجیدہ خاطر ہوئے کہ ہماری جماعت کے لوگ کن نکمی بحثوں میں لگ جاتے ہیں۔ کیا ان کے پاس دین دنیا کا کوئی مفید کام نہیں یا وہ سب کام انہوں نے ختم کر لیے ہیں۔

فرمایا۔ مِنْ حُسْنِ الْاِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنہ)۔ انسان کے اسلام کی خوبی اس بات میں ہے کہ بے فائدہ باتوں کے پیچھے نہ پڑے۔ اگر فرشتے جسم کے ہیں تو اس سے تم کو کیا مل جاوے گا اور اگر جسم کے نہیں تو تمہارا کیا نقصان ہو گا اور اگر یہ علم تم کو حاصل ہو گیا تو دین دنیا میں کون سی نیکی ہے جو اس ذریعہ سے تم کماؤ گے۔ اگر کوئی فائدہ حاصل نہیں تو پھر قرآن شریف کی اس آیت پر کیوں عمل نہیں کرتے کہ قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِمُعۡرِضُوۡنَ(المؤمنون: 2-4) تحقیق بامراد اور کامیاب ہوئے وہ مومن جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہیں اور وہ جو بے فائدہ باتوں سے کنارے میں رہتے ہیں۔

آج تک انسان اپنی بناوٹ کی حقیقت سے تو آگاہ نہیں ہوا پھر فرشتوں کی بناوٹ پر بحث کرنے سے کیا حاصل۔

تو کار زمین کے نکو ساختی
کہ با آسمان نیز پر داختی

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ مَاۤ اَشۡہَدۡتُّہُمۡ خَلۡقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَا خَلۡقَ اَنۡفُسِہِمۡ (الکہف: 52) آسمان زمین کے پیدا کرنے کے وقت میں نے ان لوگوں کو سامنے کھڑا نہیں کر رکھا تھا کہ یہ اس کو دیکھتے اور شاہد حاضر بنتے بلکہ یہ اپنی پیدائش کے وقت بھی گواہ نہیں۔ ملائکہ کے متعلق شریعت میں لفظ جسم کا نہیں آیا پس ہم جسم کا لفظ نہ بولیں اور ان کی بناوٹ کی کیفیت کو خدا پر چھوڑیں۔ اس سے زیادہ اس معاملہ میں گفتگو نامناسب ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ362۔363)

جھگڑے کی باتوں سے بچو

حضور نے نہایت درد دل سے فرمایا۔
مَا ضَلَّ قَوْمٌ مِّنَ الْحَقِّ اِلَّا اُوتُواالْجَدَلَ ہدایت کے بعد قوم گمراہ ہوتی ہے تو اس وقت کہ وہ باہم جھگڑا کرنے لگیں۔ پس تم جھگڑے کی باتوں سے بچو۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ367)

جزیہ

بعض نادان جزیہ پر اعتراض کرتے ہیں اور اسے انتہا درجہ کا ظلم قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ ایک قسم کا ٹیکس ہے اور ایسے ٹیکس ہر سلطنت میں ہوتے ہیں۔ میں نے کپڑوں پر، گھوڑوں پر، دوکانوں پر غرض ہر چیز پر ٹیکس دیکھا ہے۔ مدرسہ، سڑکانہ، مالگزاری کے ساتھ وصول کیا جاتا ہے پھر فیس الگ۔ بر خلاف ان کے یہ ٹیکس جس کا دوسرا نام جزیہ ہے ایک بہت ہی قلیل رقم ہے مثلاًایک کروڑ روپیہ کسی مسلمان کے پاس ہے تو اسے اڑھائی لاکھ روپیہ زکٰوة کا دینا پڑے گا مگر ایک غیر مسلم کو صرف ساڑھے چار دینے پڑیں گے اور اس کے معاوضہ میں اس کے جان و مال کی حفاظت کی جائے گی اور مسلمان کو تو علاوہ اڑھائی لاکھ کے جان بھی دینی پڑتی ہے۔ باوجود اس فرق بین کے پھر بھی یہ کہنا کہ مسلمانوں نے اپنی حکومت کے زمانے میں غیر مسلموں پر ظلم کیا اور ان پر جزیہ لگایا حد درجے کی بے انصافی ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ368)

ہدایت سے روکنے والی چار چیزیں

فرمایا کہ ہدایات سے روکنے والی چار چیزیں ہیں۔ رسم، عادت، بد ظنی، خود پسندی۔ ان چاروں سے بچو۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ371)

قرآن کی نافرمانی

وَ اذۡکُرۡ اَخَا عَادٍ (الاحقاف: 22) پڑھاتے ہوئے فرمایا۔ دیکھا کہ ایک نبی کی تعلیم پر نہ چلنے سے عاد ہلاک ہو گئے۔ قرآن مجید میں تمام انبیاء کی تعلیم ہے پس جو قرآن مجید کی نافرمانی کرے گا اس کا کیا حال ہو گا؟ عبرت پکڑو اور خدا کے فرمانبردار ہو جاؤ۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ371)

خدا کے رسولوں پر ایمان لاؤ

اللہ کے نیک بندے اولوالعزم رسول بڑے بڑے نشانوں کے ساتھ دنیا میں آتے ہیں۔ کچھ پردے ہیں کہ وہ نشان سمجھ میں نہیں آتے۔ بہت لوگ ایسے ہیں کہ زمین کے نشان ہوں کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ دنیا چند روزہ ہے یہ جاہ و جلال سب کے سب یہاں ہی رہ جاویں گے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ393)

(مرسلہ: فائقہ بُشریٰ)

پچھلا پڑھیں

روٹی (قسط 1)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مئی 2022