• 25 اپریل, 2024

اس بات کو بہت برا سمجھا جاتا ہے بلکہ گناہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت اگر بیوہ ہو جائے تو دوسری شادی کرے

ایسی بعض بیوائیں ہوتی ہیں جو شادی کی عمر کے قابل ہوتی ہیں یا بعض ایسی جو اپنے تحفظ کے لئے شادی کروانا چاہتی ہیں ان کے رشتوں کے مسائل ہیں۔ لیکن ایسی بیوائیں بعض دفعہ معاشرے کی نظروں کی وجہ سے ڈر جاتی ہیں اور باوجود یہ سمجھنے کے کہ ہمیں شادی کی ضرورت ہے، وہ شادی نہیں کرواتیں۔ تو بہر حال مختلف طبقوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں ہمارے بعض مشرقی ممالک میں، بیواؤں کے ضمن میں بات کروں گا، اس بات کو بہت برا سمجھا جاتا ہے بلکہ گناہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت اگر بیوہ ہو جائے تو دوسری شادی کرے۔ اور بعض بیچاری عورتیں جو اپنے حالات کی وجہ سے شادی کرنا چاہتی ہیں ان کے بعض دفعہ رشتے بھی طے ہو جاتے ہیں لیکن ان کے عزیز رشتہ دار اس بات کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا۔ اور اس طرح ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اور بیچاری عورت کو اتنا عاجز کردیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے ہی بیزار ہوجاتی ہے۔ اور حیرت اس بات کی ہے کہ یہاں یورپ میں آکر جہاں اور دوسرے معاملات میں روشن خیالی کا نام دے کر بہت سارے معاملات میں ملوث ہوجاتے ہیں جن میں سے بعض کی اسلام اجازت بھی نہیں دیتا لیکن یہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بیواؤں کی شادی کرو اس بارے میں بڑی غیرت دکھا رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ یہ جو مَیں نے آیت تلاوت کی ہے کہ تمہارے درمیان جو بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کراؤ۔ اور اسی طرح تمہارے درمیان جو تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے نیک چلن ہوں ان کی بھی شادیاں کراؤ۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی بنا دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کا حکم جس پر ہر ایک کو عمل کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تو بڑا واضح طور پر کھل کر فرماتا ہے کہ معاشرے میں اگر نیکیوں کو فروغ دینا ہے تو معاشرے میں جو شادیوں کے قابل بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کرانے کی کوشش کرو ۔۔۔۔۔ معاشرے کا یہ کام ہے کہ چاہے وہ بیوائیں ہوں، چاہے وہ غریب لوگ ہوں ان کی شادیاں کروانے کی کوشش کرو۔ اس طرح معاشرہ بہت سی قباحتوں سے پاک ہو جائے گا، محفوظ ہو جائے گا۔ بیواؤں میں سے بھی اکثر جو ایسی ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ شادی کرانے کی خواہش رکھتی ہوں، ضرورت مند ہوں اور ان میں سے ایسی بھی بہت ساری تعداد ہوتی ہے جو خاوند کی وفات کے بعد معاشی مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔ معاشرے کے بعض مسائل ہیں جن سے دوچار ہوتی ہے تو ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو کوئی ٹھکانہ ملے۔ ان کو تحفظ ملے بجائے اس کے کہ وہ مستقل تکلیف اٹھاتی رہے۔ اس لئے فرمایا کہ پاک معاشرہ کے لئے بھی اور ان کے ذاتی مسائل کے حل کے لئے بھی پوری کوشش کرو کہ ان کی شادیاں کروادو۔ تو یہ ہے حکم اللہ تعالیٰ کا جبکہ جیسا کہ مَیں نے کہا بعض معاشرے اس کو ناپسند کرتے ہیں۔ اسلامی اور احمدی معاشرہ کہلاتے ہوئے بعض لوگ ناپسند کرتے ہیں۔ تو ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مقابلے میں ہماری روایات یعنی وہ جھوٹی روایات جو دوسرے مذاہب یا غیر مسلموں کے بگڑے ہوئے مذہب کا حصہ بن کر ہمارے اندر جڑ پکڑ رہی ہیں، ہمارے اند رداخل ہو رہی ہیں ان کو نکالنا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ تو بیوگان کو یہ اجازت دیتا ہے کہ بیوہ ہونے کے بعد اگر کسی کا خاوند فوت ہو جائے تو اس کے بعد جو عدت کا عرصہ ہے، چار مہینے دس دن کا، وہ پوراکرکے اگر تم اپنی مرضی سے کوئی رشتہ کرلو اور شادی کرلو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ کوئی ضرورت نہیں ہے کسی سے فیصلہ لینے کی یا کسی بڑے سے پوچھنے کی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ معروف کے مطابق رشتے طے کرو۔ معاشرے کو پتہ ہو کہ یہ شادی ہو رہی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ تو بیواؤں کو تو اپنے متعلق اپنے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے کا خود اختیار دے دیا گیا ہے یا اجازت ہے اور لوگوں کو یہ کہا ہے کہ تم بلا وجہ اس میں روکیں ڈالنے کی کوشش نہ کرو اور اپنے رشتوں کا حوالہ دینے کی کوشش نہ کرو۔ اگر یہ بیواؤں کے رشتے جائز اور معروف طور پر ہورہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی اجازت دیتا ہے۔ تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ تم اپنے آپ کو خاندان کا بڑا سمجھ کر یا بڑے رشتے کا حوالہ دے کر روک نہ ڈالو کہ یہ رشتہ ٹھیک نہیں ہے، نہیں ہونا چاہئے یا مناسب نہیں ہے۔ بیوہ کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ تم کسی بھی قسم کی ذمہ داری سے آزاد ہو۔ اللہ تمہارے دل کا بھی حال جانتا ہے۔ اگر تم کسی وجہ سے نیک نیتی سے یہ روک ڈالنے یا سمجھانے کی کوشش کررہے ہو کہ یہ رشتہ نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ جو تمہارے دل میں ہے ظاہر کردو اس کو بتا دو اور اس کے بعد پیچھے ہٹ جاؤ اور فیصلے کا اختیار اس بیوہ کے پاس رہنے دو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دل کا حال جانتا ہے اس کو تمہاری نیت کا پتہ ہے تمہارے سے بہر حال باز پرس نہیں ہوگی۔ اگر نیک نیت ہے تو نیک نیتی کا ثواب مل جائے گا۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 24 دسمبر 2004)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اگست 2020