• 23 اپریل, 2024

قرآن مجید کی ایک جغرافیائی صداقت کا خارق عادت ظہور

ہمارے نبی اور نبیوں کے سرتاج محمد مصطفیﷺ ایسے زمانے میں مبعوث ہوئے جب روما کی عیسائی سلطنت دنیا کی ایرانی حکومت کے متوازی مغرب کی سب سے بڑی طاقت تسلیم کی جاتی تھی جس کا سرکاری عقیدہ حیاتِ مسیح تھا اور اس دور میں ہر طرف طوفان کی طرح مسلط ہو چکا تھا۔ اس ماحول میں قرآن مجید نے انکشاف کیا کہ اٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیۡنٍ (مومنون: 51) یعنی حادثہ صلیب کے بعد ہم نے مسیح اور ماں کو ایسے ملک میں پہنچا دیا جس کی زمین بہت اونچی تھی پانی صاف تھا اور بڑے آرام کی جگہ تھی۔ قرآن نے یہ بھی بتایا کہ آنحضرتﷺ کی زبان عرش کے خدا کی زبان ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم پر وحی کی گئی کہ ایک جگہ سےدوسری جگہ منتقل ہو جاؤ تا کہیں تمہاری شناخت نہ ہو جائے ورنہ تکلیف پاؤ گے چنانچہ آپ زمین کی سیاحت پر نکل کھڑے ہوئے اس دوران میں جنگل کی سبزیاں استعمال کرتے اور چشموں کا پانی پیا کرتے تھے اور ایک سو بیس سال میں وفات پائی۔

(خلاصہ احادیث مندرج کنز العمال)

قرآن مجید نے حضرت مسیح کے دار الہجرت کی جغرافیائی علامات یہ بتلائیں کہ سمندر سے اس کی سطح مرتفع بہت اونچی ہے ( ربوہ)، اس کے نظارے نہایت درجہ پُرکشش ہیں، سردی اس میں بلا کی پڑتی ہے۔ پر سکون اور مستحکم جگہ اور محفوظ مقام ہے۔ یہ سب معانی مشہور اور مستند عربی لغت ’’معجم اعظمی‘‘ میں بیان ہوئے ہیں جو عالم ازہر اور معتمد جماعت الاخوۃ الاسلامیہ مصر جناب محمد حسن الاعظمی کی فاضلانہ تالیف ہے۔ اور اس میں کسے کلام ہے کہ یہ تمام قدرتی اوصاف کشمیر کے دارالسلطنت سری نگر میں بدرجہ اتم موجود ہیں جس کی تصدیق کشمیر کی قدیم تاریخ ملّا نادری اور بارھویں صدی ہجری کے کشمیری بزرگ حضرت محمد اعظم شاہ کی تاریخ کشمیر اعظمی سے بھی ہوتی ہے اور جدید تحقیقات نے حقائق سے ایسا پردہ اٹھادیا ہے اور خدا کے ارادہ سے ایسے اسباب پیدا ہو گئے ہیں جن سے سرینگر کے محلہ خانیار میں واقع قبر مسیح چاردانگ عالم میں شہرت پا چکی ہے۔

کشمیر کے ماہر آثار قدیمہ اور ریسرچ سکالر جناب محمد یٰسین نے اس موضوع پر مسٹر یز آف کشمیر (MYSTERIES OF KASHMIR) لکھی ہے اسی طرح ہسپانوی مورّخ اندریا س فالبر قیصر کے قلم سے تاریخی اور جدید اکتشافات کی بناء پر ایک معرکہ آرا کتاب JESUS DIED IN KASHMIR کے نام سے منصّہ شہود پر آچکی ہے۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا عربی لغت کے مطابق حضرت مسیح کے جائے پناہ کو ’’ذات قرار‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے جس کے ایک معنی محفوظ مقام کے ہیں اور یہ خارق عادت بات ہے کہ جہاں8؍ اکتوبر 2005ء کے حالیہ قیامت خیز زلزلہ سے مظفر آباد کھنڈرات میں بدل گیا ہے وہاں سرینگر میں جھٹکے ضرور آئے مگر نہ صرف یہ کہ اس کے ’’معین‘‘ یعنی اس کے چشمے پوری شان سے جاری رہے بلکہ ’’ذات قرار‘‘ ہونے کے باعث کوئی قابل ذکر عمارتی نقصان نہیں ہوا جس نے جو قرآن مجید کی جغرافیائی صداقت پر اعجازی رنگ سے مہر تصدیق مثبت کردی۔ یہی نہیں زمانہ تاریخ سے 2005ء تک کی جدید تحقیق کے مطابق سر ینگر میں زلزلوں سے عمارتوں کی برباد یا چشموں کے خشک ہونے کا کوئی ایک واقعہ نہیں ملتا۔ قرین قیاس یہی ہے کہ خدائے قادر و توانا نے اپنی کسی خاص مصلحت کے لئے مزار مسیحؑ کے قرار یعنی حفاظت کا ازل سے خود ہی سامان رکھا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب

سری نگر کے پیارے اور شریف النفس مسلمان

اخبار ’’جنگ‘‘ کے 13؍ اگست 1993ء کے ’’جمعہ میگزین‘‘ کے صفحہ7 پر پاکستان کے ایک انشاء پرداز اور فاضل کے قلم سے یہ رپورٹ شائع ہوئی۔

’’23مئی (1944ء) سرینگر…… ہر مسلمان بلاتمیز عقیدہ و فرقہ مسلم لیگ کا ممبر بن سکتا ہے کشمیر پریس میں قائد اعظم کا بیان ……

’’مجھ سے ایک پریشان کن سوال پوچھا گیا کہ مسلمانوں میں مسلم کانفرنس کا ممبر کون ہو سکتا ہے؟ یہ سوال خاص طور پر قادیانیوں کے سلسلے میں پوچھا گیا۔ میرا یہ کہنا ہے کہ جہاں تک آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کا تعلق ہے تو اس میں درج ہے کہ ہر مسلمان بلا تمیز و عقیدہ و فرقہ مسلم لیگ کا ممبر بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ مسلم لیگ کے عقیدہ، پالیسی اور پر وگرام کو تسلیم کرے۔ رکنیت کے فارم پر دستخط کرے اور دو آنے چندہ ادا کرے۔ میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے اپیل کروں گا کہ وہ فرقہ وارانہ سوالات نہ اٹھائیں بلکہ ایک ہی پلیٹ فارم پر ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہو جائیں۔ اسی میں مسلمانوں کی بھلائی ہے۔ اس سے نہ صرف مسلمان مو ثر طریقے سے سیاسی،سماجی ، تعلیمی اور معاشرتی ترقی کر سکتے ہیں بلکہ دیگر اقوام بھی‘‘

(کالم 1،2)

جموں کے نام نہاد لیڈروں کا رخ ِکردار

یہ حقیقت ہے کہ کشمیرخصوصاً سرینگر کے پاک نفس اور روشن خیال مسلمانوں نے 1944ء سے اب تک قائد اعظم کی اس نصیحت کو اپنے دل میں جگہ دی ہے اور احمدیوں کے خلاف کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ کھڑا نہیں کیا لیکن افسوس صد افسوس جموں کے نام نہاد مسلمان لیڈروں نے اس کی دھجیاں بکھیرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اور جیسا کہ سردار گل احمد خاں کوثر سابق چیف پبلسٹی آفیسر آزاد کشمیر حکومت اور مورّخ کشمیر جناب پریم ناتھ بزاز نے تاریخ جدو جہد حریت کشمیر (HISTORY OF THE STRUGGLE FOR FREEDOM IN KASHMIR) میں لکھا ہے آزاد کشمیر حکومت کا قیام 3؍اکتوبر1947ء کو عمل میں آیا اور اس کے پہلے صدر کشمیر کے ایک معروف احمدی اور حریت کشمیر کے نامور لیڈر جناب خواجہ غلام نبی گلکار مقر ر کئے گئے مغربی تاریخ دان لارڈ برڈوڈ نے اپنی کتاب ’’دو قومیں اور کشمیر‘‘ میں بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ علاوہ ازیں 1931ء کی تحریک آزادی کشمیر میں جماعت احمدیہ نے جو سنہری خدمات انجام دیں وہ ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائیں گے۔ استعماری طاقتوں کی مخالفت کے باوجود فرزند احمدیت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کی اہل کشمیر کی سلامتی کونسل میں فقید المثال ترجمانی اور کونسل کی استصواب سے متعلق قرار داد کی منظوری کا کارنامہ قیامت تک چاند ستاروں کی طرح چمکتا رہے گا۔ سردار محمد ابراہیم خاں سابق صدر آزاد کشمیر کا چشم دید بیان ہے چونکہ سرظفراللہ خاں نے فلسطین کے مسلمانوں کی حمایت کی تھی اس لئے نیو یارک کا یہودی پریس پاکستان کو اور جناب حمید نظامی کی روایت کے مطابق چوہدری صاحب کو اپنا بدترین دشمن سمجھتا تھا‘‘

ملاحظہ ہو کتاب متاع زندگی ازسردار ابراہیم۔ نشان منزل صفحہ 172۔ خطوط حمید نظامی)

ظلم وستم کی حد یہ ہے کہ جمونی اور جنونی قیادت نے اپنے محسن عظیم کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے یہودیوں سے بڑھ کر اس یگانہ روز گار شخصیت کی توہین وتضحیک کی حتیٰ کہ اسے بھی کافر تک قرار دے دیا۔

مستقبل کا مورّخ یقیناً یہ معلوم کرکے ورطۂ حیرت میں ڈوب جائے گا کہ آزاد کشمیر حکومت کی فرقہ پر ست جمونی قیادت پورے جوش جنوں کے ساتھ ریاست کے وفادار اور مخلص احمدیوں پر 1950ء سے اکتوبر 2005ء تک ظلم وستم کا پہاڑ توڑ تی رہی۔ اسی قیادت نے اپریل 1973ء میں میجر محمد ایوب کی قرار داد کے ذریعہ مظفر آبادی اسمبلی سے نے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ بعد ازاں 1974ء میں مسیح محمدی کے غلاموں کے لئے آزاد کشمیر کی سرزمین کربلا بنادی گئی۔ اس خونچکاں پُر فتن اور پُرآشوب سال جن احمدی جماعتوں پر حشر بپا کیا گیا ان میں سے بعض شہروں کے نام یہ ہیں۔

مظفر آباد، باغ، تراڑکھل، کوٹلی، بھمبر، دولیاں جٹاں، بھابڑہ، گوئی ، چکار، خلیل آباد، میرا بھڑکا، درّہ شیر خاں (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو روزنامچہ 1974 ء ناشر جناب افضال ربّانی۔یاسر منصور احمد صاحب معرفت ہفت روزہ لاہور عقب ہائی کورٹ لاہور، اشاعت جون 2001ء)؎

یہ بھی تو غنیمت ہے کہ ہر ظلم کی تکمیل
غیروں سے جو ہوتی تھی وہ یاروں سے ہوئی ہے

(شاعر احمدیت حضرت ثاقب زیروی)

1974ء کے بعد فتنہ بظاہر دب گیا مگر اندر ہی اندر سلگتا رہا۔ اسی ماحول میں 13؍اگست 1979ء کو کوٹلی کے ایک خاموشی طبع فرشتہ سیرت اور نافع الناس بزرگ علم الدین صاحب دن دھاڑے خنجر سے شہید کر دئیے گئے۔ ریاستی احمدیوں نے صبر تحمل کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور بزبان حال یہ کہتے ہوئے اپنی سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کر دیا ؎

اور بھی دور فلک ہیں ابھی آنے والے
ناز اتنا نہ کریں ہم کو ستانے والے

آیت قرآنی میں ایک سر بستہ رازاسیروں کے رستگار اور کشمیر کمیٹی کے صدر حضرت سیدنا خلیفۃ المسیح الثانی نے 22؍جنوری 1932ء کے خطبہ میں احمدیوں کو خاص تحریک فرمائی کہ مسلمانان کشمیر کی مال اور دعاؤں سے مدد کریں۔ اس خطبہ میں حضور نے آزادی کشمیر کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا۔

’’کشمیر کے مسلمان یقیناً غلام ہیں اور ان کی حالت دیکھنے کے بعد بھی جو یہ کہتاہے کہ ان کو کس قسم کے انسانی حقوق حاصل ہیں وہ یا تو پاگل ہے اور یا اوّل درجہ کا جھوٹا اور مکار، ان لوگوں کو خدا تعالیٰ نے بہترین دماغ دئیے ہیں اور اُن کے ملک کو دنیا کی جنت بنایا ہے مگر ظالموں نے بہترین دماغوں کوجانوروں سے بدتر اور انسانی ہاتھوں نے اس بہشت کو دوزخ بنادیاہے اس لئے وہ اب چاہتا ہے کہ جسے اس نے پھول بنایا ہے وہ پھول ہی رہے اور کوئی ریاست اور حکومت اسے کانٹا نہیں بنا سکتی۔ روپیہ چا لاکی مخفی تدبیر یں اور پروپیگنڈا کسی ذریعہ سے بھی اسے کانٹا نہیں بنایا جاسکتا۔ چونکہ خدا تعالیٰ کا منشایہ ہے اس لئے کشمیر ضرور آزاد ہوگا اور اس کے رہنے والوں کو ضرور ترقی کا موقع دیا جائے گا۔‘‘

(الفضل 31جنوری 1932ء صفحہ7)

خدا کے خلیفہ موعود کی اس عظیم الشان پیشگوئی کی روشنی میں آیت ’’ذات قرار و معین‘‘ میں یہ راز پوشیدہ معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ امن عالم کے قیام میں سری نگر کو ایک اہم رول ادا کرنے کی توفیق پائے گا اور علوم وفنون کا سر چشمہ ثابت ہوگا۔ خدا کرے یہ روحانی وعلمی انقلاب ہم اپنی آنکھوں سے بہت جلد مشاہدہ کرسکیں۔؎

ہم تہی دست ترے در پہ چلے آئے ہیں
لطف سے اپنے عطا کر ید بیضا ہم کو

٭…٭…٭

(مولانا دوست محمد صاحب شاہد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اگست 2020