ہر ایک کے حالات ایسے نہیں ہوتے کہ شروع سے آخر تک ایک جیسی مہمان نوازی کر سکے تو مہمان کو بھی حکم ہے کہ تم بھی گھر والوں کا خیال رکھو۔ اگر زیادہ قیام ہے تو پھر اس طرح رہو جس طرح گھر والا رہتا ہے اور گھر والوں کی کام کاج میں بھی کوئی مدد کی ضرورت پڑے تو وہ بھی کر دینی چاہیے ان ملکوں میں تو خاص طور پر۔ عموماً تو لوگ کرتے ہیں اور یہی ایک خوبصورت معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ جہاں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ دوسرا شخص ہم پر بوجھ ہے وہاں خلوص اور محبت میں کمی آ جاتی ہے اور جب اس میں کمی آ جائے تو پھر حالات پُرسکون نہیں رہتے۔ پس مہمان کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مہمان کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے ذمہ جو فرائض ہیں ان کو ادا کرے۔ اگر مہمان کا حق ہے کہ مہمان نوازی کی جائے تو میزبان کا بھی حق ہے کہ مہمان اس کا حق ادا کرے اور اس پر بوجھ نہ بنے۔ مہمان کےاس حق کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف چند روز تک محدود کیا ہے۔ یہاں انتظامیہ کو میں یہ بھی کہہ دوں کہ ہمارے جلسہ پر آئے ہوئے جو مہمان ہیں اگر ایک مہینہ بھی ٹھہرتے ہیں تو ہم نے ان کی مہمان نوازی کرنی ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھیں کہ تین یا چار دن کے بعد ہم نے مہمان نوازی ختم کر دینی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے کاموں کے حوالے سے لنگر خانے کے قیام کو بھی اپنی شاخوں میں سے ایک شاخ قرار دیا ہے۔
(ماخوذ از حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ221)
اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لنگر میں آنے والوں کے ساتھ جب بھی وہ آئیں جلسے کے دنوں میں نہیں عام حالات میں بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔
(خطبہ جمعہ 2 اگست 2019ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)