• 24 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 03؍ ستمبر 2021ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍ ستمبر 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

اے پیارے طالع! مَیں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً تم نے اپنے وقف اور عہد کے اعلیٰ ترین معیاروں کو حاصل کرلیا
کسی نے خواب بھی دیکھا ہے کہ آنحضرتﷺ ایک جگہ کھڑے ہیں اور طالع دوڑتا ہوا جاکر آپؐ سے چمٹ جاتا ہے ؛
آنحضرتﷺ بھی اسے چمٹا کر کہتے ہیں کہ آؤ میرے بیٹے خوش آمدید۔

’ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہو گیا ہے‘، عزیزم سیّد طالع احمد شہید کے درخشندہ اوصاف کا تذکرہ

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 03؍ستمبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد، تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گذشتہ دنوں ہمارے ایک بہت ہی پیارے بچّے اور واقفِ زندگی عزیزم سیّد طالع احمد ابن سیّد ہاشم اکبر کی گھانا میں شہادت ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 23 اور 24 اگست کی درمیانی شب ایم ٹی اے کی تین رکنی ٹیم غانا کے ناردرن ریجن میں ریکارڈنگ کرکے کماسی آرہی تھی کہ راستے میں سوا سات بجے کے قریب ڈاکوؤں کی فائرنگ سے عزیزم سیّد طالع احمد اور عمر فاروق صاحب زخمی ہوگئے۔

سیّد طالع احمد محترمہ امة اللطیف بیگم صاحبہ اور سیّد میر محمد احمد صاحب کے نواسے، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے پڑنواسے اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کے پڑپوتے تھے۔ حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ حضرت اماں جانؓ کے چھوٹے بھائی تھے اس لحاظ سے ان کا سلسلہ حضرت اماں جانؓ سے ملتا ہے اور پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ سے رشتہ قائم ہوتا ہے۔ مرحوم مرزا غلام قادر شہید کے داماد بھی تھے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے موصی اور تحریکِ وقفِ نَو میں شامل تھے۔

آپ نے بائیومیڈیکل سائنس میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد جرنلزم میں ماسٹرز کیا تھا۔ 2013ء میں زندگی وقف کی اور پھر مختلف دفاتر میں کام کرنے کے بعد 2016ء میں آپ کی ایم ٹی اے نیوز میں کُل وقتی تقرری ہوئی جہاں انہوں نے دستاویزی فلمیں بنائیں اور ہفتہ وار پروگرام This week with Huzur کی تو انہوں نے ہی طرح ڈالی تھی۔ اپنی مقامی جماعت اور پھر خدام الاحمدیہ کے تحت بھی خدمات کا موقع ملا۔

عزیزم طالع کو معیار کے مطابق اپنا کام ختم کرنے کا غیرمعمولی جوش تھا جس کے لیے وہ کسی خطرے کی پروا نہیں کرتے تھے۔ ان کے شہادت کے واقعے سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ ٹمالے کے زونل مشنری کے مطابق انہیں رات کو سفر کرنے سے احتیاط کا مشورہ دیا گیا تھا تاہم انہوں نے وقت کی تنگی اور بہت سے کام کی وجہ سے یہی مناسب سمجھا۔ جماعتی املاک اور وقت کی اتنی قدر تھی کہ راستے میں بھی لیپ ٹاپ پر اپنا کام کررہے تھے کہ Mpaha جنکشن کے قریب ڈاکوؤں نے گاڑی پر فائرنگ کردی۔ آپ کی کمرپر گولی لگی اور بہت ساخون بہ گیا۔ پہلے پولی کلینک میں ان کی میڈیکل ٹریٹمنٹ ہوئی اور پھر ٹمالے ٹیچنگ ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں واقعہ کے تقریباً ساڑھے چار گھنٹے کے بعد ان کی وفات ہوگئی۔

عمر فاروق صاحب کہتے ہیں کہ طالع کا سر میری ران پہ تھا اور وہ باربار مجھ سے یہی پوچھتے تھے کہ کیا ہمارے اس واقعے کی حضورِانور کو اطلاع ہوگئی ہے۔ خون ضائع ہوجانے اور حددرجہ تکلیف کے باوجود ہسپتال جاتے ہوئے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ فائرنگ کے دوران مَیں نے لیپ ٹاپ اور دوسری قیمتی اشیا گاڑی کی پچھلی نشستوں کے نیچے دھکیل دی ہیں، وہاں محفوظ ہیں انہیں نکال لینا۔ اس قدر زخمی ہونے کے باوجود انہیں جماعتی اموال اور تاریخ کے محفوظ ہونے کی فکر تھی۔ عمر فاروق صاحب کہتے ہیں کہ راستے میں باربار مجھے کہتے کہ

Tell Huzur that I love him and tell my family that I love them.

حضورِانور نے فرمایا کہ ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو خلافت کے وفاشعار اور دین کو مقدّم رکھنے والے عطا فرماتا رہے لیکن اس کا نقصان ایسا ہے جس نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ وقف کی روح کو سمجھنے والا اور اپنے عہد کو حقیقی رنگ میں نبھانے والا پیارا وجود تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی اور اب تک ہوتی ہے کہ اس دنیاوی ماحول میں پلنے والے بچے نے اپنے وقف کو سمجھا، اسے نبھایا اور پھر اسے انتہا تک پہنچا دیا۔ وہ بزرگوں کے واقعات کو پڑھتا تاکہ انہیں زندگی کا حصّہ بنائے۔ خلافت سے وفا اور اخلاص کا ایسا ادراک دین کا گہرا عِلْم رکھنے والے بھی نہیں سمجھتے۔ شایددوتین سال پہلے اس نے خلافت سے تعلق اور پیار کے اظہار پر مشتمل ایک نظم لکھی تھی۔ جو اس نے اپنے ایک دوست کو دی اور کہا کہ اپنے پاس رکھ لو اور کسی کو دکھانی نہیں ہے۔ اُس نظم کو شروع اس طرح کیا ہے کہ مَیں خلیفہ وقت سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں اور ختم یوں کیا ہے کہ خلیفہ وقت سے مجھے جو پیار اور محبت ہے وہ انہیں کبھی پتا نہیں چلے گی۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اے پیارے طالع! تمہارے ان آخری الفاظ سے پہلے بھی مجھے پتا تھا، تمہارے ہر عمل، ہر حرکت و سکون، تمہاری آنکھوں کی چمک اور چہرے کی ایک عجیب قسم کی رونق سے اُس محبت کا اظہار ہوتا تھا۔ مجھے شاید ہی کسی میں اس محبت کا اظہار نظر آتا ہو۔

اسے اپنے کام سے اگر لگاؤ تھا تو اس لیے تاکہ اس کے ذریعے اسلام اور محمد رسول اللہﷺ کے دین کا دفاع کرسکے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی تدفین کے وقت میرے دائیں طرف آکر کھڑا ہوگیا۔ مَیں نہیں جانتا تھا کہ یہ کون کھڑا ہے۔ اس موقع پر اُس تیرہ سالہ لڑکے نے شاید یہ عہد کیا تھا کہ مَیں نے خلیفۂ وقت کا مددگار بننا ہے۔ اس نے تعلیم مکمل کی اور سالوں بعد اس عہد کو نبھایا اور خوب نبھایا اور شہید ہوکر بتا گیا کہ مَیں خلافت کا حقیقی مددگار ہوں۔

اے پیارے طالع! مَیں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً تم نے اپنے وقف اور عہد کے اعلیٰ ترین معیاروں کو حاصل کرلیا۔ وہ خلیفۂ وقت کے الفاظ پر عمل کی کس کس طرح کوشش کرتا تھا اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ مربیان سے بعض میٹنگز میں مَیں نے کہا تھا کہ مربیان کو ایک گھنٹے کے قریب تہجد پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عزیز طالع نے اس پر عمل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔

وہ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا فرد ہونے کی حیثیت سے افرادِ خاندان کے لیے بھی وفا اور اخلاص کا ایک نمونہ قائم کرگیا ہے۔ وہ واقفینِ زندگی کے لیے بھی حیرت انگیز نمونہ تھا۔ اس نے مالی تنگی یا الاؤنس تھوڑا ہونے کا کبھی شکوہ نہیں کیا۔ وہ خدا سے یہی دعا کرتا کہ اے اللہ! مجھے تنگی نہ دینا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ مَیں اس کی وفا کو تو کچھ حد تک جانتا تھا لیکن اس کی نیکی اور تقویٰ کے معیار بہت اونچے تھے۔

عامر سفیر صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ طالع بہت ساری صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ کسی پراجیکٹ پر صفر سے کام شروع کرتے اور اسے قابلِ فخر چیز بنادیتے۔ قدوس عارف صاحب صدر خدام الاحمدیہ یوکے کہتے ہیں کہ میرا بچپن سے اس کے ساتھ تعلق تھا۔ اس نے حضرت ملک غلام فرید صاحب کی شارٹ کمنٹری اور فائیو والیم کمینٹری بڑی تفصیل سے پڑھی ہوئی تھی۔ اہلیہ سطوت صاحبہ کہتی ہیں کہ آنحضورﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ آپؐ کے ذکر پر بچوں کی طرح روتا تھا۔ بیٹے طلال کو آنحضورﷺ کی کہانیاں سناتا تو ہچکیاں لے کر روتا۔ بیٹا کرسچن سکول میں پڑھتا تھا تو اسے سکول لے جاتے ہوئے سورۂ اخلاص دہرواتا جاتا تھا۔ کبھی یہ خیال آتا کہ خلیفۂ وقت کو کوئی بات ناپسند گزری ہے تو تہجد میں بلک بلک کر اللہ تعالیٰ سے معافیاں مانگا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ پر بڑا غیرمعمولی توکّل تھا اور خداتعالیٰ اس کی ضروریات پوری کرتا تھا۔

شہید کے والد لکھتے ہیں کہ الحمدللہ! خداتعالیٰ نے ہمارے بیٹے کو شہادت کےلیے چُن لیا۔ اس کی روح رسول اللہﷺ کی محبت میں چودہ سو سال قبل کے مکّے اور مدینے کی گلیوں میں پھرتی تھی اور اس کا جسم پیکرِ عشق تھا۔ شہید مرحوم کی والدہ کہتی ہیں کہ بیٹے کے انتقال کے بعد مجھے اس بات کا زیادہ احساس ہوا ہے کہ اسے آپ سے کس قدر محبت تھی۔ مرحوم کی ہمشیرہ ندرت صاحبہ کہتی ہیں کہ طالع کا دین کا عِلم بہت وسیع تھا، احادیث کا گہرا مطالعہ تھا۔ عربی زبان اور اس کی گرائمر میں گرفت پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔ اس نے تمام ذہنی صلاحیتوں کو خدا کا قرب اور جماعت کی خدمت کے لیے استعمال کیا۔ طالع نے شہادت سے متعلق خواب بھی دیکھی تھی کہ اس نے خدّام الاحمدیہ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور جھنڈا اٹھائے ہوئے جنت میں داخل ہورہا ہے اور ہر کوئی اسے اس کے سسر کےنام سے پکار رہا ہے کہ مرزا غلام قادر آگیا۔ ان کی چھوٹی بہن کہتی ہیں کہ بہترین رول ماڈل تھے۔ دفتر آتے جاتے ہمیشہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے درس القرآن سنتے رہتے۔ عابد وحید صاحب کہتے ہیں کہ اکثر مَیں نے دستاویزی فلموں کی تیاری کے دوران اسے اٹھارہ انیس گھنٹے کام کرتے دیکھا ہے۔ مرزا طلحہ احمد صاحب کہتے ہیں کہ طالع کو سکرپٹ رائیٹنگ اور story telling میں مہارت حاصل تھی۔ نسیم باجوہ صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے بطور مبلغ اسے طفل کے طور پر دیکھا وہ وقت کا پابند، سنجیدہ، ذہین، دینی معلومات کا شوق رکھنے والا، فرماں بردار، مہمان نواز، ذکرالٰہی، بڑوں کا احترام اور غوروفکر کرنے والا تھا۔ مربی سلسلہ نوشیروان رشید صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے طالع بھائی کو تین سال کے عرصے میں باقاعدگی سے جمعرات کا روزہ رکھتے دیکھا ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ طالع شہید نے آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کی جسمانی اور روحانی آل ہونے کا حق ادا کردیا۔ وہ آنحضورﷺ کی آل میں سے تھا اوراللہ تعالیٰ نے اسےمحرّم کے مہینے میں قربانی کےلیے چُنا۔ امید ہے اللہ تعالیٰ نے اسے آنحضرتﷺ کے قدموں میں جگہ دی ہوگی۔ کسی نے خواب بھی دیکھا ہے کہ آنحضرتﷺ ایک جگہ کھڑے ہیں اور طالع دوڑتا ہوا جاکر آپؐ سے چمٹ جاتا ہے ؛آنحضرتﷺ بھی اسے چمٹا کر کہتے ہیں کہ آؤ میرے بیٹے خوش آمدید۔

حضورِانور نے نمازِ جنازہ حاضر ادا کیے جانے کا ارشاد فرماتے ہوئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کے بیوی بچوں کا حافظ و ناصر ہو، ماں باپ، بہن بھائیوں کو صبر اور حوصلہ دے۔ اس کے بہن بھائی اور اس کی اولاد اس کی نیکیوں کو جاری رکھنے والے ہوں۔

٭…٭…٭

(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل)

پچھلا پڑھیں

قرارداد تعزیت

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات