• 17 اپریل, 2024

خدا تعالیٰ کے حقیقی شکر گزار کیسے بنیں؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
لیکن ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُس کی شکر گزاری بھی تبھی ہو گی جب وہ حقیقت میں خدا تعالیٰ کی اس بات کو سامنے رکھے کہ اُس کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ ایک احمدی اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچانے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے پھر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے۔ اپنے آپ کو اُس اسوہ کے مطابق چلانے کی کوشش کرے جو ہمارے سامنے ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے دن بھر کے فضلوں کو یاد کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے اور فرماتے کہ تمام حمد اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے مجھ پر فضل و احسان کیا، مجھے عطا فرمایا اور مجھے بہت دیا۔

(مسند احمد بن حنبل، جلد2 صفحہ495 مسند عبداللہ بن عمر حدیث 5983 دارالکتب العلمیہ بیروت 1998ء)

بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و ثنا ہے۔ اور پھر آپ ﷺکا عبادتوں کا یہ حال تھا کہ عبادت کرتے کرتے (روایات میں آتاہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سُوج جاتے تھے۔ اور یہ عرض کرنے پر کہ یا رسول اللہ! آپ اتنی مشقت کیوں اُٹھاتے ہیں؟ فرماتے: کیا مَیں خدا تعالیٰ کا عبدِ شکور نہ بنوں؟

(صحیح البخاری کتاب التفسیر، سورۃ الفتح باب قولہ لیغفرک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر…4837)

پس اس عبدِ شکور کے ماننے والوں کا اور اُس کی امت کا بھی فرض ہے کہ اپنی استعدادوں کے مطابق اس اُسوہ کی پیروی کرنے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کے پیار سے حصہ پانے والے بنیں۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ آپ اعلان فرما دیں کہ ’’فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32)‘‘ کہ تم میری پیروی کرو، میرا اسوہ حسنہ اپنانے کی کوشش کرو تو اللہ تعالیٰ کے پیارے ہو گے، اُس کا پیار حاصل کرنے والے بنو گے۔ ا ور اللہ تعالیٰ کا پیار پھر اور نعمتوں اور فضلوں سے حصہ پانے والا بناتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نعمتوں کے ملنے پر ہی شکر گزاری نہیں فرماتے تھے بلکہ کسی مشکل سے بچنے پر بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے تھے۔ حتی کہ روزمرّہ کے کاموں میں، چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی آپ کی سیرت میں شکرگزاری کی انتہا نظر آتی، اور اس کے علاوہ بھی شکر گزاری ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تھی۔ پس یہ وہ حقیقی شکر گزاری ہے جس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے اور یہ ایسی شکرگزاری ہے جس پر اللہ تعالیٰ مزید فضل فرماتا ہے۔ اپنے انعامات اور احسانات کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ پس یہ شکرگزاری انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہماری شکرگزاری کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ہماری شکرگزاری کا حاجتمند نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۱۳﴾ (لقمان: 13) اور جو بھی شکر کرتا ہے، اُس کے شکر کا فائدہ اُسی کی جان کو پہنچتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے وہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ سب قسم کے شکروں سے بے نیاز ہے۔

پس ایک احمدی اس قسم کا شکرگزار ہونا چاہئے۔

پھر شکر گزاری کے بھی کئی طریقے ہیں۔ اُن طریقوں کو ہمیشہ روزانہ اپنی زندگی میں تلاش کرتا رہے۔ ایک احمدی جو ہے، حقیقی مومن جو ہے وہ شکر گزاری کے ان طریقوں کو تلاش کرتا ہے تو پھر دل میں بھی شکر گزاری کرتا ہے۔ پھر شکرگزاری زبان سے شکریہ ادا کر کے بھی کی جاتی ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے یا کسی دوسرے کی شکرگزاری بھی کرتا ہے تو زبان سے شکر گزاری ہے۔ اور پھر اپنے عمل اور حرکت و سکون سے بھی شکرگزاری کی جاتی ہے۔ گویا جب انسان شکرگزاری کرنا چاہے تو اُس کے تمام اعضاء بھی اس شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں یا انسان کے تمام جسم پر اُس شکرگزاری کا اظہار ہونا چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ جب بندوں کا شکر کرتا ہے، یہاں شکرگزاری کا جو لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوا ہے، تو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری، انسان پر انعامات اور احسانات ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری جب انسان کرتاہے تو ان باتوں کا اُسے خیال رکھنا چاہئے کہ انتہائی عاجزی دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا جائے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ سے پیار کا اظہار کرنا اور اُس کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو علم میں لانا۔ ہر فضل جو انسان پر ہوتا ہے اُس کو یہ سمجھنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ علم ہونا چاہئے کہ ہر نعمت جو مجھے ملی ہے وہ اللہ کے فضلوں کی وجہ سے ملی ہے۔ یہ احساس پیدا ہونا چاہئے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ پھر اُس کے انعامات اور احسانات کا منہ سے اقرار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کی حمد سے، اُس کے ذکر سے تَر رکھنا۔ پھر یہ بھی کہ اُس کی مہیا کردہ نعمتوں کو اس رنگ میں استعمال کرنا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے والی ہوں، جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ ان باتوں کے کرنے کے نتیجے میں پھر ایک شکرگزاری حقیقی رنگ میں شکر گزاری بنتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس کے نتیجے میں پھر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا یہ ہے کہ وہ اپنے ایسے شکرگزار بندوں کو مزید انعامات اور احسانات سے نوازتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس طرح شکر گزار ہو گے تو لَاَزِیْدَنَّکُمْ مَیں تمہیں اَور دوں گا، اس کو حاصل کرنے والے بنو گے۔

پس جب لوگ مجھے لکھتے ہیں اور ملاقاتوں میں بتاتے ہیں کہ جلسہ گاہ میں بڑا فائدہ ہوا، بڑا لطف آیا تو یہ لطف اور فائدہ تبھی فائدہ مند ہے جب اس کے نتیجے میں ہر احمدی پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا اور اُس کی عبادت کرنے والا بنتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے پہلے سے زیادہ کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں اور انعاموں کی ایک فہرست بنائے اور اپنے سامنے رکھے۔ جن نیکیوں کے کرنے کی توفیق ملتی ہے، پکّا ارادہ کرے کہ اب ان پر مَیں نے قائم رہنا ہے۔ برائیوں کی فہرست بنا کر پھر ان سے بچنے کی کوشش کرے۔ اپنی تمام تر صلاحیتوں اور قوتوں کے ساتھ یہ کوشش ہونی چاہئے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں اور انعاموں کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ کی حمد سے اپنی زبان کو تر کرتا چلا جائے اور ہمیشہ اس بات پر قائم رہے کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کا غلط استعمال نہیں کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اگر اس ملک میں آ کر بہتر حالات کر دئیے ہیں، مالی کشائش دے دی ہے تو اس مالی کشائش کو بجائے غلط کاموں میں استعمال کرنے کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے استعمال کرنا ہے۔

(خطبہ جمعہ 13؍ جولائی 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پچھلا پڑھیں

’’فساد سے بچو‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 نومبر 2021