• 25 اپریل, 2024

آج کی دعا

يَا بُنَيَّ إِذَا دَخَلْتَ عَلَى أَهْلِكَ فَسَلِّمْ يَكُنْ بَرَكَةً عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتِكَ

(جامع ترمذی ابْوَابُ الِاسْتِئْذَانِ وَالْآدَابِ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺحدیث 2698)

ترجمہ :اے میرے بیٹے! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو انہیں سلام کیا کرو، یہ سلام تمہار ے لیے اور تمہارے گھروالوں کے لیے خیر وبرکت کا باعث ہوگا ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے گھر میں داخل ہونے کے بعدسلام کرنے کی (مندرجہ بالا) نصیحت فرمائی۔
یہ وہ بنیادی آداب ہیں جو پیارے رسول حضر ت محمدﷺنے ساری انسانیت کو سکھائے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کے ایک آدمی آنحضرتﷺ کی خد مت میں آیا اور پوچھا ، کون سا اسلام افضل اور بہتر ہے؟ آپﷺ نےفر ما یا کھا نا کھلا نا اور ہر ملنے والے کو خواہ جان پہچان ہویا نہ ہوسلام کر نا۔

(بخاری)

ہمارے پیارے امام سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ ستمبر 2004ء میں سلام کو رواج دینے کے حوالہ سے فرماتے ہیں :
’’اسلام نے جو ہمیں طریق سکھایا ہے، جو مومنین کی جماعت کو، اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو اپنے اندر رائج کرنا چاہئے وہ ہے کہ سلام کرو۔ یعنی ایک دوسرے پر سلامتی کی دعا بھیجو اور پھر یہ بھی تفصیل سے بتایا کہ سلامتی کی دعا کس طرح بھیجو اور پھر دوسرا بھی جس کو سلام کیا جائے، اسی طرح کم از کم انہیں الفاظ میں جواب دے۔ بلکہ اگر بہتر الفاظ میں گنجائش ہو جواب دینے کی تو بہتر جواب دے۔ اس طرح جب تم ایک دوسرے کو سلام بھیجو گے تو ایک دوسرے کے لئے کیونکہ نیک جذبات سے دعا کر رہے ہو گے اس لئے محبت اور پیار کی فضا بھی تمہارے اندر پید اہو گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ 3؍ ستمبر 2004ء)

(مرسلہ: مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جنوری 2021