• 25 اپریل, 2024

بنی نوع سے ہمدردی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اُس کی عبادت کی جا وے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پرمبنی نہ ہو۔ بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں۔ تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے کوئی فرق نہ آوے۔ اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چا ہیے۔

بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دُشمن کے لئے دعا نہ کی جا وے پُورے طور پر سینہ صاف نہیں ہو تا ہے۔ اُدْعُوْ نِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:61) میں اللہ تعالیٰ نے کو ئی قید نہیں لگا ئی کہ دشمن کے لئے دُعا کرو توقبول نہیں کرو ں گا۔ بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دُعا کرنا یہ بھی سُنّتِ نبوی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دُعا کیا کرتے تھے۔ اس لئے بُخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہئے اور حقیقۃً مو ذی نہیں ہونا چاہیے۔ شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دوتین مرتبہ دُعا نہ کی ہو۔ایک بھی ایسا نہیں۔ اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سِکھاتا ہوں۔ خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طورپر ایذا پہنچا ئی جا وے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جا وے،ایسا ہی بیزار ہے۔ جیسے وہ نہیں چا ہتا کہ کوئی اس کے ساتھ ملایاجاوے۔ ایک جگہ وہ فصل نہیں چاہتا اور ایک جگہ وصل نہیں چاہتا۔یعنی بنی نوع انسان کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل۔ اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دُعا کی جا وے۔ اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمّت بلند ہو تی ہے۔ اس لئے جب تک ہما ری جماعت یہ رنگ اختیار نہیں کرتی اُس میں اور اس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنیٰ درجہ کا ہے تواس کے ساتھ نہایت رِفق اورملا ئمت سے پیش آنا چاہئے اور اُن سے محبت کر نی چاہیے۔ کیونکہ خدا کی یہ شان ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 97-96)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مارچ 2020