• 19 اپریل, 2024

حقیقی نفع رساں اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتےہیں:
’’دُنیا میں لوگ حکام یا دُوسرے لوگوں سے کسی قسم کا کوئی نفع اُٹھانے کی ایک خیالی اُمید پر اُن کو خوش کرنے کے واسطے کس کس قسم کی خوشامد کرتے ہیں۔یہانتک کہ ادنیٰ ادنیٰ درجہ کے اردلیوں اور خدمت گاروں تک کو خوش کرنا پڑتا ہے؛ حالانکہ اگر وہ حاکم راضی اور خوش بھی ہوجاوے، تو اس سے صرف چند روز تک یا کسی موقعِ مخصوص پر نفع پہنچنے کی اُمید ہوسکتی ہے۔ اس خیالی اُمید پر انسان اُس کے خدمتگاروں کی ایسی خوشامدیں کرتا ہے کہ میں تو ایسی خوشامدوں کے قصور سے بھی کانپ اُٹھتا ہوں اور میرا دل ایک رنج سے بھر جاتا ہے کہ نادان انسان اپنے جیسے انسان کی ایک وہمی اور خیالی اُمید پر اس قدر خوشامدکرتا ہے۔ مگر اُس مُعطیِ حقیقی کی جس نے بدوں کسی معاوضہ کے اور التجا کے اس پر بے انتہا فضل کئے ہیں۔ ذرا بھی پروا نہیں کرتا؛ حالانکہ اگر وہ انسان اُس کو نفع پہنچانا بھی چاہے تو کیا؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی نفع خداتعالیٰ کے بدُوں پہنچ ہی نہیں سکتا۔ ممکن ہے کہ اس سے پیشتر کہ وہ نفع اُٹھائے، نفع پہنچانے والا یا خود یہ اس دنیا سے اُٹھ جائے یا کسی ایسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوجائے کہ کوئی حظ اور فائدہ ذاتی اس سے اُٹھا نہ سکے۔ غرض اصل بات یہی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم انسان کے شاملِ حال نہ ہو۔ انسان کسی سے کوئی فائدہ اُٹھا ہی نہیں سکتا۔ پھر جبکہ حقیقی نفع رساں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ پھر کس قدر بے حیائی ہے کہ انسان غیروں کے دروازے پر ناک رگڑتا پھرے۔ ایک خداترس مومن کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اپنے جیسے انسان کی ایسی خوشامد کرے جو اُس کا حق نہیں ہے۔ متقی کے لئے خود اللہ تعالیٰ ہر ایک قسم کی راہیں نکال دیتاہے۔ اُس کو ایسی جگہ سے رزق ملتا ہے کہ کسی دوسرے کو علم بھی نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ خود اس کا ولی اور مربی ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بندے جو دین کو دُنیا پر مقدم کرلیتے ہیں۔ اُن کے ساتھ وہ رأفت اور محبت کرتا ہے؛ چنانچہ خود فرماتا ہے۔ وَاللّٰهُ رَؤُوْفٌ بِالْعِبَادِ۔(البقرہ:208)‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ293جدیدایڈیشن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2020