• 18 اپریل, 2024

حضرت موسیٰؑ کا معراج

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کےدرس القرآن کےترجمہ اور foot note میں سورۃ الکہف آیت 61 تا 83 میں حضرت موسیٰؑ کے معراج کا ذکر فرمایا گیا ہے جو قارئین کی خاطر نیچے دیا جا رہا ہے۔

(ایڈیٹر)

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا…..وَ اَمَّا الۡجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ وَ کَانَ تَحۡتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنۡ یَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسۡتَخۡرِجَا کَنۡزَہُمَا ٭ۖ رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ۚ وَ مَا فَعَلۡتُہٗ عَنۡ اَمۡرِیۡؕ ذٰلِکَ تَاۡوِیۡلُ مَا لَمۡ تَسۡطِعۡ عَّلَیۡہِ صَبۡرًا…الخ

(الکہف:61 تا 83)

ترجمہ: (کیا تمہیں موسیٰ کا قصہ یاد نہیں) جب اس نے اپنے جوان سے کہا میں نہ بیٹھوں گا جب تک نہ پہنچ جاؤں دو دریاؤں کے ملنے کے مقام تک یا چلتا رہوں گا سالہا سال۔پھر وہ جب دونوں دریاؤں کے سنگم یا اجتماع یا ملنے کی جگہ پر پہنچے بھول گئے اپنی مچھلی تو اس نے اپنا راستہ لیا دریا میں سرنگ کی طرح۔پھر جب آگے بڑھ گئے تو موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا ہمارا ناشتہ لاؤ بے شک ہم نے یہ آج کے سفر میں تکلیف اٹھائی۔جوان نے کہا آپ نے یہ دیکھا جب ہم نے آرام پایا پتھر کے پاس تو (جناب)میں مچھلی بھول گیا اور یہ شیطان ہی نے مجھےبھلادیاہو گا کہ میں اس کا تذکرہ کروں آپ سے اورمچھلی نے اپنا راستہ لیا دریا میں کیسا تعجب ہے۔موسیٰ نے کہا وہ یہی (مقام ) تو ہے جوہم چاہتے تھے پھر دونوں الٹے پھرےاپنے قدموں کے نشانوں پر کھوج لگاتے ہوئے۔ تو انہوں نے پایا ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو جس کو ہم نے دی تھی خاص اپنے پاس سے رحمت اور سکھایا تھا ہمارے پاس کاعلم ۔ موسیٰ نے ان سے کہا کیا میں تمہاری پیروی کروں اس شرط پر کہ تم مجھے سکھا دو جوتم کو سکھائی گئی ہے لیاقت کی بات۔ اس نے یعنی ( عبد صالح) نے کہا تم میرے ساتھ ہر گز نہ صبرکر سکو گے۔ اور کیسا صبر کر سکتے ہو اس چیز پر جس کا سمجھنا تمہارے قابو میں نہیں۔ موسیٰ نے کہا انشاء اللہ آپ مجھ کو ضرور صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کےخلاف نہ کروں گا۔خضر نے کہا اچھا اگر تم میرے ساتھ ہوتے ہو تو مجھ سے کچھ بھی نہ پوچھنا جب تک میں خود ہی اس کا ذکر نہ شروع کروں تم سے۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ کشتی میں سوار ہوئے تو خضر نے کشتی کو پھاڑ دیا ۔ کہا کیا تم نے اس کشتی کو پھاڑ دیا تا کہ کشتی والوں کو ڈبا دو یہ تو تم نے خطرناک بات کی۔خضر نے کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تو ہرگز میرے ساتھ صبر نہ کر سکے گا۔ موسیٰ نے کہا آپ میری بھول پر مجھے نہ پکڑیں اور نہ میرے کام میں مجھ پر سختی کریں۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک جوان سےملے تو خضر نے اس کو مار ڈالا، موسیٰ نے کہا تم نے بے عوض ایک پاک نفس کو مار ڈالا۔ یہ ایک ناپسند چیز تم لائے۔ خضر نے کہا کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھاکہ تو ہرگز میرے ساتھ صبر نہ کر سکے گا۔ موسیٰ نے کہا اگر میں آپ سے پھر پوچھوں کچھ تو آپ ساتھ نہ رکھنا مجھے، بے شک آپ پہنچ جائیں گے میری طرف سے عذرکو۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب دونوں پہنچے ایک گاؤں والوں کے پاس تو وہاں کےگاؤں والوں سے کھانا مانگا تو گاؤں والوں نے ان کی مہمانی سے انکار کر دیا پھر اس گاؤں میں ایک دیوار پائی جو گرا ہی چاہتی تھی تو اس کو سیدھا کر دیا۔ موسیٰ نے کہا اگر آپ چاہتے تو اس پر اُجرت لے سکتے تھے۔ خضر نے کہا یہ میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے میں تم کو قریب ہی بتائے دیتا ہوں اُن باتوں کی حقیقت جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ کشتی جوتھی وہ چند بے کسوں کی تھی کام کرتے تھے دریا میں تو میں نے چاہا اس کو عیب دار کر دوں کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو پکڑتا تھا ہر ایک کشتی کو زبردستی۔اور وہ جوان کہ اس کے ماں باپ ایماندار تھے تو ہم ڈرے کہ ان کو عاجز کرے گا سرکشی اور کفر کر کے۔ تو ہم نے چاہا کہ ان کو عوض مرحمت فرمائے ان کا رب اس جوان کی بجائے بہتر پاکیزگی میں اور قریب تر مہربانی میں ۔ اور وہ جو دیوارتھی تو وہ شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ گڑا ہوا تھا اور ان دونوں کا باپ ایک نیک مرد تھا تو تیرے پروردگارنے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کوپہنچ جا ئیں اور اپنا خزانہ نکال لیں یہ تیرے رب کی مہربانی سے ہے اور میں نے یہ اپنی رائے سے نہیں کیا۔ یہ اصل حال ہے جس پر تو صبر نہ کر سکا۔

(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ زیرآیات سورۃ الکہف 61 تا 83)

ان آیات کی تفسیر میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ حضرت موسیٰؑ کےمعراج کاذکر کرتےہوئےفرماتےہیں کہ:
کیا تمہیں موسیٰ کا قصہ یاد نہیں۔ مَجْمَعُ الْبَحْرَیْنِ یعنی نیلِ ارزق اور نیلِ ابيض کے سنگم تک جو دریائے نیل کی دوشاخیں ہیں ان دونوں کے ملنے کی جگہ منار ایک عظیم الشان شہر تھا جو فراعنہ کے وقت دارالسلطنت تھا آج کل وہاں شہر خُرطُوم ہے۔ صحیح بخاری میں مجملاًیہ قصہ یوں بیان ہوا ہے کہ بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ وعظ فرما رہے تھے کسی نے پوچھا زیادہ عالم کون ہے؟ حضرت نے بظاہر اپنی طرف نسبت کی اور موقع وعظ اللہ تعالیٰ کا تذکرہ چاہتا تھا اس لئے خدا نے فرمایا کہ مجمع البحرین میں تم کو ہمارا ایک بندہ ملے گا جوتم سے بھی زیادہ عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی کہ میں ان تک کس طرح پہنچوں؟ ارشاد ہوا کہ تھیلی میں ایک مچھلی رکھ لو پھر جہاں وہ مچھلی گم ہو وہاں وہ ملے گا۔ جب بحکم خدا موسیٰ علیہ السلام، یوشع بن نون کو ہمراہ لے کر چلے ایک موقع پر پہنچے جہاں وہ ایک پتھر پر رکھ کر سو گئے مچھلی تھیلی میں سے تڑپ کر دریا میں جا گری اور جہاں تک وہ جاتی تھی پانی میں ایک سوراخ سا ہو جاتا تھا اور پانی اِدھر اُدھر سے نہیں ملتا تھا۔ جب بیدار ہوئے تو یوشع مچھلی کا قصہ یاد دلانا بھول گئے اور وہاں سے آگے بڑھے۔ رات تک چلتے رہے یہاں تک کہ جب دوسرے روزصبح کا وقت ہوا تو موسیٰ نے اپنے خادم سے کھانا مانگا اور اس منزل میں موسیٰ علیہ السلام تھک گئے تھے۔ مچھلی کو دیکھا تو ندارد۔دیودار کی لکڑی کا برادہ رگڑ کر مچھلی کے منہ میں ڈال دیا جائے تو دیر تک زندہ رہتی ہے۔ یہ طبی بات ہے مچھلی زندہ تھی اس وقت یوشع نے ذکر کیا کہ میں آپ سے کہنا بھول گیا۔شیطان نے مجھے بھلا دیا پھر دونوں صاحب واپس پلٹے اور اسی مقام پر آئے اور پھر اس شخص سے ملے جسے عِلمِ لَدُنِّی دیا گیا تھا ۔ جوعلم بذریہ دحی اور الہام کے معلوم ہوتا ہے وہ عِلمِ لَدُنِّی کہلاتا ہے۔ جو تجاربِ عقل سوچ بچار سے معلوم ہو وہ علم ظاہری یا عقلی اجتہادی کہلاتے ہیں۔

اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا۔ دیکھو انبیاء علیہ السلام کوعلم کا شوق کیسا ہے اور وہ صاحب علم کو کس طرح ڈھونڈتے ہیں ۔ نَسِیَاحُوْتَھُمَا مچھلی بھنی ہوئی نہ تھی بلکہ بطور نشان کے ان کو دی گئی تھی کہ جہاں وہ سِرکے گی وہیں وہ عبد ہو گا۔ یہ بحث کہ خضر نبی ہے یا کون؟ مولانا نورالدین صاحب خضر کو فرشتہ جانتے تھے اور اس واقعہ کو موسیٰ کا کشف معراج کی طرح سمجھتے تھے۔ خضر کے فرشتہ ہونے کا ذکر اور اس کی تحقیق اِصَابَۃَ فِي شَرْحِ الصَّحَابَةِ (اس کتاب کا معروف نام ’’الاِصَابَةُ فِي تَمْيِيْزِ الصَّحَابَةِ‘‘ ہے) میں خوب کی گئی ہے۔

جِدَارًا۔ اس دیوار کے لفظ میں ایک پیشگوئی ہے اور اس قصہ میں معراج موسوی کا ذکر ہے۔ مشہور قصہ تو معلوم ومسلّم ہی ہے اور جن تین باتوں پر حضرت موسیٰ نے اعتراض کیا ہے وہ خود ان کے گھر میں اور ان پر گزری ہوئی ہیں ۔ پانی میں نہیں ڈوبے۔ بلا اُجرت پانی شعیب کی بیٹیوں کو بھر دیا۔ قتلِ قبطی بھی جہاد موسوی میں مشہور ہے۔ یہ بیان موسیٰ علیہ السلام کے معراج کا ہے ۔ عبد صالح خضر راہ تھے اور آئندہ کے واقعات کا اظہار تھا۔ اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ بادشاہ سے لڑ کر دریا عبور کرنا پڑے گا، قتل النفس بھی بہت ہو گا یعنی جہاد سیفی، دیوار ملت ابرا ہیمی کرنے والی تھی اس کو اور عَبْدٌ مِّنْ عِبَادِنَا یعنی سردار انبیاء ہمارے حضور ﷺ نے درست کر دی اور ملتِ ابراہیم کے خزانے محفوظ رہے۔ ایک پُرانی کتاب یہودیوں کے پاس ہے اس کا نام معراج موسوی ہے اس میں موسیٰ کے ہمراہی کا نام خضر ہی لکھا ہے۔

(ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا ببلیکا حروف موسی و اپا کے لپس)

(قرآن مجید مترجمہ حضرت مولوی میر محمد سعید از دروس قرآن حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ فحہ626۔ 630)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2020