• 20 اپریل, 2024

حضرت مصلح موعودؓ کے بابرکت وجود کے ہمراہ گزرے ہوئے ایام کی یادیں

خاکسار کا آبائی علاقہ چارکوٹ ضلع راجوری (کشمیر) ہے۔ خاکسار 1942ء میں پہلی مرتبہ اپنے تایازادبھائی مولوی خورشیداحمدمنیر اورمولوی نظام دین (مہمان) کے ہمراہ قادیان گیا۔یہ دونوں احباب مدرسہ احمدیہ میں زیرِ تعلیم تھے اورچھٹیوں میں گھر آئے ہوئے تھے۔ واپسی پرخاکسارنے بھی قادیان جا کر پڑھنے کی ضدکی۔ اس سے قبل خاکسارپرائمری تک تعلیم ماسٹربشیراحمدکے اسکول میں آپ سے حاصل کر چکا تھا۔

قادیان بھیجنے پروالدصاحب راضی نہ ہوتے تھے۔ چنانچہ خاکسارقادیان جانے کی ضد میں چھپ گیا۔بالآخروالدصاحب کافی اصرارکے بعد راضی ہوئے اورمولوی خورشید احمد کو قادیان جانے کے لئے خاکسار کا کرایہ دیا۔ ان دنوں قادیان جانے کے لئے راجوری سے جموں کے لئے بس نہیں چلتی تھی۔ چنانچہ بھمبھر گلی کے راستے پیدل سفر کرکے گجرات جاتے تھے اورپھروہاں سے آگے بذریعہ ٹرین یابس لاہور کے راستہ قادیان جایا جاتا تھا۔ خاکسار نے پہلی مرتبہ اس وجیہہ، پاک، مقدس، مبارک، صاحبِ شکوہ اور پُرعظمت وجود کو قادیان کی بستی میں دیکھا اور آپ کی امامت میں بارہا مسجدمبارک و مسجداقصیٰ میں ادائیگی نماز کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔

1944ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ سے خبرپاکر مصلح موعودہونے کادعویٰ فرمایااور پھر ہوشیارپور جا کرجہاں حضر ت مسیحِ موعود علیہ السلام کوخداتعالیٰ نے ایک مصلح موعود بیٹے کی بشارت عطافرمائی ،وہاں جلسہ عام میں اعلان فرمانے کے لئے تشریف لے گئے۔قادیان سے ایک ریلوے بوگی ریزروکروائی گئی۔اس ٹرین میں لاؤڈ اسپیکر اوربجلی کا جنریٹر بھی رکھ کرلے جایاگیا۔تاکہ یہ جلسہ میں کام آسکیں۔رات کو ٹرین میں بجلی فیل ہوجانے کی وجہ سے ٹرین کی اُس بوگی میں یہ جنریٹر چلاکرروشنی کا انتظام کیاگیا۔جس میں قادیان کے بہت سے احمدی احباب ہوشیارپوراس جلسہ میں شرکت کی غرض سے گئے تھے۔ میں بھی اسی ٹرین میں سوار ہو کر ہوشیارپورگیا اور اس جلسہ میں شامل ہونے کے اعزازمیں شریک ہوا۔ فالحمدللّٰہ تعالیٰ

مارچ 1944ء میں حضرت میرمحمداسحٰقؓ جیسے ہمدرد، شفیق اوریتیم پروروجود کی وفات محلہ دارالانوار میں ایک گیسٹ ہاؤس میں ہوئی۔ اس موقع پر دارالشیوخ اور مدرسہ احمدیہ کے لڑکے وہاں موجودتھے۔خاکساربھی اس جگہ موجودتھا۔اندرکمرہ میں جہاں حضرت میرصاحب کی وفات ہوئی، حافظ قدرت اللہ صاحب کے سورۃ یٰس پڑھنے کی آواز آ رہی تھی۔میری آنکھوں کے سامنے ابھی بھی اس کمرہ کے باہربرآمدہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کادعائیں کرتےہوئے بےچینی کے عالم میں ٹہلنا یاد ہے۔ازاں بعدحضورنے آپ کاجنازہ پڑھایااورخاکسارکواس عالم اورکریم وجودکے جنازہ میں شمولیت کاموقع ملا۔
غالباً1943ء میں قادیان میں خدام الاحمدیہ کے ایک اجتماع کے موقع پرجوبٹالہ کی جانب آریہ اسکول کی طرف جامعہ احمدیہ کے عقبی میدان میں منعقدہوتاتھا۔اجتماع کے اختتامی روز حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ خطاب کے لئےتشریف لائے۔ ان دنوں حضورکاطریق یہ تھاکہ اجتماع کے موقع پر اسی جگہ حضوراپنے خدام کو ملاقات کاشرف عطافرماتے تھے۔خطاب کے دوران کسی خادم نے نادانستگی میں تالی بجائی توحضوراس عمل پرشدیدناراض ہوئے اورفرمایاکہ میں نے قبل ازیں بھی توجہ دلائی ہے کہ تالی پیٹنامردوں کاشیوہ نہیں ۔چنانچہ مقامِ اجتماع سے ناراضگی کی حالت میں ہی خطاب مکمل کئے اورملاقات کئے بغیرآپ واپس تشریف لے گئے۔بعدمیں حضورکی خدمت میں معافی کے لئے تحریری درخواستیں لکھی گئیں جسے آپ نے ازراہِ شفقت قبول فرمایااوربعدازاں خدام سے قصرِ خلافت میں ملاقاتیں فرمائیں۔

خاکسارنےبعدازہجرت کنری کو جس مقصداورخواہش کے مدنظر رکھتے ہوئے اپنامسکن ٹھہرایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھ حقیرکے اس مدعا اورمقصدکو قبولیت بھی عطافرمائی اورخلافت کی بےانتہا برکتوں سے مالامال فرمایاجومیرے اورمیری اولادوں کے لئے ایک انمول خزانہ ہے۔خلافت کی انہی برکتوں اوردعاؤں کی بدولت خاکسارکے دوبیٹے مربی سلسلہ کے طورپرخدمتِ دینیہ کی توفیق پارہے ہیں جن میں سے ایک جامعہ احمدیہ میں استاد ہیں۔خداتعالیٰ نے اس عاجز کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سندھ کے دوروں کے دوران ملاقاتوں اورقرب کے مواقع عطافرمائے۔حضورانورجب ناصرآباد دورہ پرتشریف لاتے تو ازراہِ شفقت اس پُرحقیرکواپنا بدنِ مبارک دبانے کاموقع عطا فرماتے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سےخاکسارکوبیسیوں مرتبہ یہ سعادت حاصل کرنے کی توفیق میسرآئی۔

ابتداء جون1949ء میں حضورپُرنورناصرآباد اسٹیٹ تشریف لائے تو ازراہِ شفقت میری والدہ رقیہ بیگم،اہلیہ جنت بی بی،ہمشیرہ حلیمہ بیگم اورچھوٹے بھائی مبارک احمدکو اپنی کوٹھی کے اندربلاکرملاقات کا موقع عطافرمایا۔ یہ ملاقات جمعہ کے روز ہوئی۔ یہ چاروں افرادحضورِ انورسے ملاقات کی خاطرکنری سے ناصرآباد گئے۔ ملاقات کے دوران حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے استفسار فرمایا کہ آپ کا تعلق کس خاندان سے ہے۔جس پروالدہ صاحبہ نے عرض کی کہ میں قاضی محمداکبر(صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) چارکوٹ والوں کی بیٹی اور مولوی فضل دین کی بہن ہوں اور ایک سب سے چھوٹے چچامولوی ثناء اللہ ہیں۔توحضورِ انورنے علاوہ دیگرباتوں کے فرمایاکہ مولوی ثناء اللہ قادیان میں میرے کلاس فیلو تھے اورحضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے میرے ساتھ طب، قرآنِ کریم اور حدیث پڑھتے تھے۔اسی ملاقات میں حضورنے چھوٹے بھائی عزیزم مبارک احمدسے استفسار فرمایاکہ تم پڑھتےکیوں نہیں، جس پربھائی نے جواباً حضور کو کہا کہ میں اپنے وطن کشمیر واپس جانا چاہتا ہوں۔

اس روز جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ناصرآبادکی مسجدمیں پڑھایا۔میرے چھوٹے بھائی اندر کوٹھی میں حضورسے ملاقات کرچکے تھے۔میں جمعہ کی ادائیگی کے بعد لائن میں ملاقاتیوں کے ساتھ کھڑاہوگیا اور سب سے آخر میں کھڑا ہوا۔ جب میں نے حضورسے مصافحہ کیا توحضور نے میرا نام پوچھا۔ جس پرمیں نے اپنانام بتایا تو حضور نے استفسار فرمایاکہ مبارک احمد تمہارا بھائی ہے ۔میں نے عرض کی کہ جی ہاں۔ ازاں بعد حضور مجھ سے مختلف باتیں پوچھتے ہوئے کوٹھی کے دروازے تک لے گئے۔ الحمدللہ

پھرمیں روزانہ حضور کابدنِ مبارک دبانےکوٹھی میں چلا جاتا تھا اور لگ بھگ قریباً آدھا پونا گھنٹہ تمام بدن بشمول ٹانگیں، کمر، کندھے اور بازو دباتا اور یوں دباتا گویا کہ میراجسم حضورپرنور کے بدنِ مبارک کے ساتھ مَس ہوتاتھا۔حضورکابدن باوجود کہ اس زمانہ میں آپ کی عمرقریباًساٹھ برس تھی،مضبوط اورتوانا تھا۔

حضور مضبوطی کے ساتھ اورسخت ہاتھوں سے اپنابدنِ مبارک دبواناپسندفرماتے تھے۔حضورنے عموماًصرف قمیص اورشلوارزیبِ تن فرمائی ہوتی تھی۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاچہرہ اس قدربارعب ،وجیہہ، خوبصورت اورپُرنورتھاکہ باوجودیکہ خاکسارکو آپ کو نہایت قریب سے بارہا دیکھنے کاموقع ملالیکن کبھی بھی آپ کا چہرہ نظر بھرکے نہ دیکھ سکا۔آپ کی رنگت سرخ و سفیدتھی۔آپ کا جسم نہایت متناسب تھا نہ تو موٹاپا اورنہ ہی دبلاپن تھا۔ اُس زمانہ میں حضورکےسرکے بال زیادہ گھنے نہ تھے بلکہ چھدرےتھے۔اوران کی رنگت سفیدی مائل تھالیکن ان میں نیلاہٹ نظرآتی تھی۔عام طورپرصبح نودس بجے یابعض اوقات عصرکے بعدآم ،امرود،فالسہ اورمالٹے وغیرہ کے باغ میں پیدل تیزی کے ساتھ چہل قدمی فرماتے۔باغبانوں سے پودوں اور درختوں کے متعلق استفساربھی فرماتے تھے۔اوراگرزمینوں کے معائنہ کادورہ مقصودہوتاتوصبح کے وقت گھوڑے پرسوارہو کر تشریف لے جاتے۔حضورکی گھڑسواری بھی نہایت عمدہ اورقابلِ دیدتھی۔ بعض اوقات باغ میں ہی حضور اپنی صاحبزادیوں کو بھی گھڑسواری سکھاتے تھے۔

حضورکاسندھ کے دورہ جات میں زیادہ قیام ناصرآبادمیں ہی ہوتاتھا۔ان دنوں خاکساراپناکاروبار چھوڑدیتا اورسارادن حضورکی موجودگی سے برکت پانے کے لئے ناصرآبادمیں ہی موجودرہتااوررات کوعشاء کی نمازکے بعد حضورکودبانے کے لئے کوٹھی چلاجاتا۔حضرت مصلح موعودؓ گھرسے باہرہمیشہ بندجوتے میں ہی تشریف لاتے خواہ کوٹھی سے معمولی فاصلہ پرمسجدہی کیوں نہ ہوتی۔تاہم کوٹھی میں حضور کوعام چپل پہنے دیکھتاتھا۔حضورکاطویل قیام ناصرآبادمیں ہی ہوتا۔لیکن جب آپ نے ناصرآبادسے محمودآبادتشریف لے جاناہوتاتوموٹرپرسوارہوکرکنجیجی کے راستہ نہرکی پٹری سے محمودآبادتشریف لے جاتے۔افرادِ خانہ حضرت اقدس اورعملہ کے افرادبیل گاڑیوں پربیٹھ کرمحمودآبادجاتے۔

ایک ماہ کے بعدحضورکوئٹہ تشریف لے جانے لگے تو حضورکو الوداع کرنے حیدرآبادتک آیا۔جب حضور حیدر آباد اسٹیشن پر کوئٹہ ایکسپریس میں سوار ہوگئے اورحضورکھڑکی کے قریب تشریف فرماتھے۔گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی تھی میں حضورسے باربارمصافحہ کرتاتھا۔حضورنے بھی ازراہِ شفقت اپنادستِ مبارک اس غلام کے لئے کھڑکی سے باہرہی رکھا۔گاڑی کے تیزہونے تک غالباً سات یاآٹھ مرتبہ فرطِ محبت میں خاکسار کو مصافحہ کا شرف حاصل ہوا۔ فالحمدللہ تعالیٰ

حضورکے کوئٹہ تشریف لےجانے کے بعد خاکسار کثرت سےخط تحریرکرتارہا۔ان خطوط میں خاکسارمختلف اشعارلکھنے کی بھی جسارت کرتا۔خاکسارنے حضورکی روانگی کے بعدجو پہلاخط تحریرکیااُس میں درج ذیل اشعارلکھے ؂

جب سے دیکھاہے تجھے اِک درد ہے دل میں نہاں
اے صبالے جا تو بھی اُن تک مری بےتابیاں
الوداع اے قافلے والو مجھے اب چھوڑ دو
مری قسمت میں لکھی ہیں دشت کی ویرانیاں

اوربعض خطوط میں خاکسارنے حضورکےعشق و فراق میں کچھ ذاتی اشعار بھی آپ کی خدمت میں عرض کئے۔جن پرحضوکی جانب سے ایک مرتبہ پیار بھری ڈانٹ بھی موصول ہوئی۔ان میں سے کچھ اشعار ذیل میں تحریرہیں۔ ؂

چلمن سے نور کیا چھن چھن کے آ رہا ہے
در پردہ کسی کا جوبن جلوہ دکھا رہا ہے
وہ دن بھی ہو گا یارب قاصد کہے گا آ کر
اٹھو چلو کہ کوئی تم کو بلا رہا ہے
صادق ذرا سنبھلو مدہوش ہو نہ اتنے
حضرت خبر لو دل کی ہاتھوں سے جا رہا ہے

حضور نے ازراہِ نوازی اس ناکارہ اورناچیز کوجواباً اپنے دستِ مبارک سے خط تحریرفرمایااوراوراس خط میں یہ ارشادفرمایاکہ رمضان شروع ہے تم رمضان ختم ہونے کے بعد میرے پاس کوئٹہ آؤ۔خاکسار کے پاس بطورتبرک دوایسے خطوط موجودہیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ناچیزغلام کو اپنے دستِ مبارک سے تحریرفرمائے اوران کے لفافوں پرپتہ بھی ازراہِ شفقت آپ ہی کے قلم سے تحریرفرمودہ ہے۔

1949ء کا رمضان ختم ہونے کے بعدجولائی کی کسی تاریخ کوحضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کے مطابق میں کنری سندھ سے کوئٹہ کے لئے روانہ ہوکرآپ کی خدمت ِ اقدس میں کوئٹہ حاضرہوگیا۔میرے کوئٹہ جانے سے قبل کوئٹہ میں برسات نہیں ہوئی تھی ۔سخت حبس اورگرمی زوروں پرتھی اوربرسات نہیں ہورہی تھی۔میں جس دن کوئٹہ اتراشام کوحضورسے ملاقات کے لئے کوٹھی یارک ہاؤس میں داخل ہواتو موسلادھاربرسات شروع ہوگئی۔حضورازراہِ شفقت مجھے اندرکمرہ میں یہ فرماتے ہوئے لے گئے کہ اب بارش ختم ہوگی توپھرجانا۔قریباً ایک گھنٹہ بوجہ بارش حضورکے سایہ محبت وشفقت میں اسی کمرہ میں رہنے کا موقع ملا۔حضوراندرتشریف لے جاکربسترپرلیٹ گئے اوراس دوران خاکسار کو ساتھ بیٹھ کر حضورپُرنورکاجسم دبانے کا موقع ملا۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ کوئٹہ میں سخت گرمی پڑرہی تھی۔

برسات ہونہیں رہی تھی۔تم تواپنے ساتھ برسات بھی لے کرآئے ہو۔میں نےجسارت کرکے ازراہِ تفنن عرض کی کہ حضورسندھ میں برسات ہورہی تھی اس لئےمیرے ساتھ ہی آگئی ہے۔میں نے اس موقع پرحضورسے اپنی اہلیہ کی وفات کا بھی عرض کیاتوحضورنے نہایت شفقت سےفرمایاکہ تم نے مجھے کیوں نہیں لکھا،میں جنازہ پڑھاتا۔مجھے اب یہ یاد نہیں کہ آیاحضورنے بعدمیں جنازہ پڑھایا۔مجھے یادہے کہ اسی ملاقات میں حضورنے اپنے تکیہ کے غلاف کے اندر ہاتھ ڈال کر گزشتہ ایک ماہ میں اس غلام کے اپنے آقاکو تحریرکردہ چاریاپانچ خطوط بھی نکال کردکھائے کہ یہ تمہارے خط آئے ہوئے ہیں۔

پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد1950ء میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاکسارکادوسرانکاح ناصرآبادکی مسجدمیں جمعہ کے بعدپڑھایا۔ازاں بعدخاکسارکی منکوحہ کوملوانے کے لئے ان کے عزیزحضورکی خدمت میں لے کرحاضرہوئے۔جب شام کو حضورکودبانے کی غرض سے خاکسارکوٹھی میں حاضرہواتوحضورنے فرمایاکہ شریف احمد!میں نے نکاح توپڑھادیاہے مگرمجھے تواس رشتہ میں جھگڑاہی نظرآتاہے۔چنانچہ اُس سخت ذہین وفہیم وجودکی دور رس نگاہ نے جودیکھااس کے عین مطابق یہ رشتہ رخصتی سے قبل ہی ختم ہوگیا۔

کوئٹہ میں ملاقات کے بعدمیں ایک ہفتہ حضورکی خدمت میں رہا۔اس دوران میری والدہ صاحبہ کاخط آیاکہ مجھے بخارآرہے ہیں۔میں نے حضورکی خدمت میں عرض کیاتوحضورفرمانے لگے کہ تمہاری والدہ بیمارہیں لہٰذاتم واپس چلے جاؤ۔میں ایک ہفتہ حضورکی خدمت میں رہ کرواپس کنری سندھ آگیا۔ان دنوں 1949ء میں اندرونِ سندھ اردوکا کوئی اسکول نہ تھاسب سندھی میڈیم تھے۔کوئٹہ میں میں نے حضورکی خدمت میں ناصرآبادکی ملاقات کے حوالہ کےساتھ عرض کیاکہ حضورچونکہ سندھ میں کراچی کے علاوہ اردو کا کوئی اسکول نہیں ہے۔میراچھوٹا بھائی کشمیرمیں پانچویں کلاس میں پڑھتاتھا،ہجرت کی وجہ سے چھوڑ آیاہے۔ازراہِ شفقت اس کی پڑھائی کا ربوہ میں انتطام فرمادیں۔اس دل کے حلیم وجودنے فرمایاکہ میں جب لاہور واپس جاؤں گاتوتم بھائی کو لے کرلاہورآجاناپڑھائی کا انتظام ہوجائے گا۔حضورجب لاہورواپس چلے گئے توپھرمیں نےحضورکی خدمت میں بھائی کی تعلیم کے لئے لکھا۔اس پرحضورنے خاکسارکوایک مرتبہ پھراپنے دستِ مبارک سے خط تحریرفرمایااورلفافہ کے باہرایڈریس بھی آپ نے اپنے دستِ مبارک سے ہی رقم فرمایا۔اس خط میں فرمایاکہ ’’میں نے تمہیں پہلے بھی کہاتھاکہ جب میں واپس لاہور جاؤں تو بھائی کولے کر آنا تعلیم کا انتطام ہوجائے گا۔اب میں 19ستمبر1949ء کولاہورسے ربوہ شفٹ ہوں گاتم بھائی کولے کر ربوہ میرے پاس آجاؤ۔‘‘

میری بدقسمتی کہ میں ربوہ نہ گیا لیکن ناصرآباداورمحمودآبادکے چندلڑکے چنیوٹ تعلیم الاسلام ہائی اسکول میں پڑھتے تھے۔وہ موسمِ گرماکی چھٹیوں میں سندھ آئے ہوئے تھے۔جب چھٹیاں ختم ہوئیں اوراسکول کھل گیااوروہ واپس جانے لگے تومیں نے چھوٹے بھائی کو بے سروسامانی میں صرف کرایہ دے کران لڑکوں کے ہمراہ حضورکے پاس ربوہ بھیج دیا۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک یتیم بچے پربےانتہا شفقت کہ عزیزم مبارک احمد پہلے چند یوم قصرِخلافت میں رہاپھرحضورنے اسے چنیوٹ ہائی اسکول کے بورڈنگ میں بھیج کراسکول میں داخل کرادیا۔ان دنوں میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی شفقتوں اورعنایات کا ذکربرادرم مبارک احمدراجوری نے اپنی کتاب ’’چارکوٹ کے درویش‘‘ میں کیاہے۔

میں 1949ء میں تو ربوہ نہ جاسکامگرماہ جنوری1951ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے ربوہ روانہ ہوا۔ملتان اسٹیشن پرگاڑی رکی توایک بزرگ نورانی چہرے والے ریل کے ڈبہ میں آکرمیرے سامنے سیٹ پربیٹھ گئے۔انہوں نے مجھے سلام دعاکے بعدمجھ سے پوچھاکہ کہاں سے آئے اورکہاں جارہے ہو۔میں نے بتایاکہ میں کنری سندھ میں جماعتِ احمدیہ کی فیکٹری میں سپروائزرہوں اورحضورکوملنے ربوہ جارہاہوں۔انہوں نے مجھے فرمایاکہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمتِ اقدس میں میراسلام پہنچادینا۔

میرا نام محمدحسین ہے اور میں جماعتِ احمدیہ ملتان کا امیر ہوں۔ جنوری کا مہینہ اور صبح کا وقت تھا اور سردی بہت تھی۔ میں نے بغیربازؤوں کاسویٹر پہنا ہوا تھا۔چوہدری محمدحسین نے اپنا اوورکوٹ اتارا اورمجھے کہاکہ کہ یہ پہن لوکیونکہ سردی بہت ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ اُس بزرگ نیک انسان پررحمتیں اوربرکتیں نازل فرمائے اوراعلیٰ علیین میں داخل فرماوے۔یہ بزرگ مکرم ڈاکٹرعبدالسلام صاحب نوبل لاریٹ کے والدِ محترم تھے۔میں نےمحترم چوہدری محمدحسین سے شکریہ کے ساتھ عرض کیاکہ مجھے سردی نہیں لگتی اوراگرمجھے سردی لگی تومیرے پاس اوپربسترمیں کمبل پڑا ہے، نکال کراوڑھ لوں گا۔حالانکہ میرے پاس بسترمیں ایک پھٹا پرانا کمبل تھا۔جوبوجہ خستہ اورپھٹاہونے کی وجہ سے شرم سے نہیں اوڑھاتھا۔میرے کوٹ لینے کے انکارکے باوجوداصرارکرتے ہوئےفرمایاکہ یہ دیکھومیں نے ایک سویٹراورچھوٹاکوٹ اندرپہنا ہواہے اوریہ کہتے ہوئے انہوں نے اوورکوٹ میرے اوپرڈال دیا۔مجھے لیتے ہوئے طبعیت میں حجاب اورشرم محسوس ہورہی تھی۔چنانچہ شکریہ کے ساتھ کوٹ انہیں واپس کرکے لینے سے انکارکردیا۔حالانکہ مجھے سردی لگ رہی تھی۔

عصرکےوقت میں چنیوٹ اسٹیشن پراترکرتعلیم الاسلام ہائی اسکول کے بورڈنگ میں گیااوربھائی مبارک احمدکوساتھ لے کرربوہ آیا۔فیصل آبادسے حضورکی خدمت میں پیش کرنے کے لئے میں نے فروٹ لیاتھا۔وہ بھائی کے ہاتھ اندر حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھجوایااورکہاکہ عرض کرناشریف احمد ملاقات کے لئے ربوہ حاضرہواہے۔اُس نے وہ حقیرساتحفہ پیش کرکے میرا بتایا تو آپؓ نے فرمایا اچھا۔ ازاں بعد مبارک احمد واپس چنیوٹ چلے گئےاورمیں اپنے تایازاد بھائی مولوی خورشیداحمدمنیر کے پاس رات رہاجو جامعۃ المبشرین میں زیرِ تعلیم تھے۔میں صبح دفترپرائیویٹ سیکرٹری گیااورحضورسے ملاقات کے لئے نام لکھوایامگراُس روزکسی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی اورمیں واپس آگیا۔دوسرے دن میں دفترمیں ملاقاتیوں میں نام لکھوانے نہ جاسکا۔صبح جامعۃ المبشرین کے لڑکوں کی کلاسیں کھلے میدان میں دھوپ میں لگی ہوئی تھیں۔چونکہ اُس وقت کوئی عمارت نہ تھی۔لڑکے بھی کچی اینٹوں کی دیواریں کھڑی کرکے اوپر سر کنڈے ڈال کر ان جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ کلاسیں لگنے کے بعدمولوی خورشیداحمدمنیربھاگتے ہوئے میرے پاس اُس جھگی نما رہائش میں آئے اورکہنے لگے کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کا کارکن تمہیں بلانے آیاہے۔

اور کہتا ہے کہ حضورنے تمہیں یادفرمایاہے۔ہوا یوں کہ دوسرے روزدفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں خاکسار رجسٹر ملاقات میں نام لکھوانے نہ جا سکااورجب ملاقات کا رجسٹرحضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں اندرپیش ہواتوحضورؓنے رجسٹرمیں نوٹ فرمایاکہ کل میاں شریف احمدراجوری والے کنری سے ملاقات کے لئے آئے تھے آج اُن ملاقاتیوں میں نام نہیں ہے۔وہ کہاں ہیں!اس نوٹ پر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے ڈھونڈنے اوربلانے کے لئے آدمی دوڑایا اور مجھے جامعۃ المبشرین سے ڈھونڈھ کرلایاگیا۔میں جب دفترپرائیویٹ سیکرٹری پہنچاتوجوکارکن ملاقات کروانے کے لئے دفترحضورِ انورکے باہربیٹھے ہوئے تھے۔انہوں نے کہاکہ سب ملاقات کرنے والے ختم ہوگئے ہیں اورحضوراقدس صرف تمہارے انتظارمیں تشریف فرماہیں۔میں نے خدمتِ اقدس میں حاضرہوکرملاقات کا شرف حاصل کیا۔الحمدللہ ۔کہاں حضرت خلیفۃ المسیح کامامورالاوقات وجوداورکہاں یہ حقیراور ناکارہ غلام۔لیکن اُس آقانے اپنے غلام کواس قدرعزت بخشی ۔قریباً ایک ہفتہ کے قریب خاکسارحضورکے پاس خدمت میں رہااورحضورکی خدمت انجام دینے کی توفیق پاتارہا۔

انہی ایام کاذکرہے کہ جب میں ربوہ میں حضورکی خدمت میں حاضرہواتو اُس سخت ذہین وفہیم ہستی نے اِس گنہگارکو الائچیوں کی ایک مٹھی بھرکردی۔خاکسارنے جو کہ دوسال قبل کوئٹہ کی ایک بات کو بھول چکاتھا،حضورکے اِس شفقت بھرے تحفہ کو دیکھ کر بھانپ گیااورآپ کی یادداشت پرنہایت حیران ہوا۔ ہوا یوں کہ کوئٹہ میں،میں ایک مرتبہ حضور کو دبانے کی سعادت حاصل کررہاتھا(اس سے قبل باہر پہریداروں کے ساتھ کھاناکھایاتھا، اُس کھانے میں سلاد کے طورپرپیازبھی تھی)حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی طبعیت بے حد حساس تھی۔آپ کو دباتے ہوئے میں نے تاڑلیاکہ حضور کو اُس پیازکی بُو کی وجہ سے ناگواری محسوس ہوئی ہے۔لیکن اُس دل کے حلیم وجودنے معمولی سا بھی اظہارنہ فرمایا۔

خاکسار نے الائچیوں کے اُس تبرک کو دیکھ کرحضرت مصلح موعودؓ کی خدمتِ اقدس میں عرض کی کہ حضور میں کچھ وضاحت کرنا چاہتاہوں اورپھردوسال قبل کوئٹہ میں اُس روز پیازکی بُوسے متعلق عرض کیاکہ کہ باہر سے اُسی وقت تازہ تازہ کھانا کھا کر آپ کی خدمتِ اقدس میں حاضرہوا تھا۔

میری یہ بات سن کر حضورؓ فرمانے لگے لاحول ولاقوۃ اور بہت دیر تک تبسم فرمایا۔

بعد میں جب میں یہ الائچیاں ہاتھ میں لے کر باہرنکلا تو مولوی خورشیداحمدمنیر اور چنددیگردوستوں نے یہ انمول تبرک مجھ سے ہاتھوں ہاتھ اُچک لیا۔

1952ء میں میری والدہ محترمہ شدیدبیمارہوگئیں۔زندگی کی کوئی امیدنہ تھی۔میں نے اپنے چھوٹے بھائی عزیزم مبارک احمدراجوری کو چنیوٹ بورڈنگ تعلیم الاسلام میں خط لکھاکہ والدہ شدیدبیمارہیں تم حضورانورکی خدمت میں میرایہ خط لے کرجاؤ اورحضورِ اقدس سے عرض کرکے ریل کاکرایہ لے کرفوراً آؤ۔ وہ ربوہ حضورکی خدمت میں میراعریضہ لے کرگئے۔چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ازراہِ شفقت پرائیویٹ سیکرٹری مکرم عبدالرحمان انورکو تحریرفرمایاکہ مبارک احمد کو کرایہ دے دیں۔جب حضور کا لکھا فرمان لے کربھائی انور صاحب کے پاس گئے تودفترکاعملہ وقت ختم ہونے کی وجہ سے گھرچلاگیاتھا۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے فرمایاکہ چونکہ دفترکاوقت ختم ہوگیاہے اوراکاؤنٹنٹ صاحب گھرچلے گئے ہیں لہٰذا تمہیں کل پیسے مل جائیں گے۔تم بھی دعاکرومیں بھی تمہاری والدہ کے لئے دعاکرتاہوں۔ کراچی آنے والی ریل گاڑی غالباًصبح چھ یاسات بجے ربوہ سے آتی تھی۔اگروہ نہ ملتی توپھرکوئی اورگاڑی سارادن کراچی کے لئے نہ آتی تھی اوردفتراس وقت کے بعدکھلتاتھا۔ عزیزم مبارک احمدواپس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمتِ اقدس میں قصرِ خلافت واپس چلاگیااورساری بات آپ کی خدمت میں عرض کی ۔حضورکی ذرہ نوازی کہ آپ خودچل کر باہرتشریف لائے اور پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو فرمایا کہ انورصاحب میں نے اس لڑکے کو آپ کے پاس کرایہ کے پیسوں کے لئے بھیجاہے ۔آپ نے کہاکہ پیسے کل ملیں گے میں دعاکروں گا۔

فرمایاانورصاحب!دعاکے لئے میں جوہوں آپ اس کو کرایہ کے لئے پیسے دیں۔چنانچہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے کسی آدمی کو اکاؤنٹنٹ صاحب کے گھربھیج کرانہیں بلواکرپیسوں کا انتظام کروایا۔عزیزم مبارک احمدکے کنری سندھ گھر پہنچنے سے قبل ہی ہماری پیاری امی جان انتقال کرکے اللہ تعالیٰ کے پاس حاضرہوگئیں۔ میری والدہ محترمہ کی وفات کے کچھ دنوں کے بعدہمارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ محترمہ اور سب احمدیوں کی روحانی ماں ام المؤمنین حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا وفات پاگئیں۔

اِنّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیہِ رَاجِعُونَ

حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کی وفات سے چند دن قبل میں نے خواب میں دیکھاکہ ایک بہت بڑاجنگل ہے اور اس جنگل میں بڑے بڑے اونچے درخت ہیں ۔مگرایک درخت ان سب اونچے درختوں سے بھی اونچا ہے جو آسمان سے اونچائی میں باتیں کر رہا ہے۔ وہ میرے دیکھتے دیکھتے زمین پر گر گیا ہے۔ اس خواب کی تعبیر حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کی وفات سےہوئی۔

اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے مقدس وجودپر بے شماررحمتیں نازل فرمائے اور مجھے اور میری اولادکوخلافت کی برکتوں سے ہمیشہ متمتع فرماتا رہے۔ آمین

(شریف احمد راجوری)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2020