• 24 اپریل, 2024

احکامات رمضان

احکامات رمضان
بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

رؤیت ھلال کا طریق

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’اِن ملکوں میں جو مغربی ممالک ہیں، یورپین ممالک ہیں نہ ہی حکومت کی طرف سے کسی رؤیت ہلال کا انتظام ہے اور نہ ہی اس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس لئے ہم چاندنظر آنے کے واضح امکان کو سامنے رکھتے ہوئے روزے شروع کرتے ہیں اور عید کرتے ہیں۔ ہاں اگر ہمارا اندازہ غلط ہو اور چاند پہلے نظر آ جائے تو پھر عاقل بالغ گواہوں کی گواہی کے ساتھ، مومنوں کی گواہی کے ساتھ کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے پہلے بھی رمضان شروع کیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ایک چارٹ بن گیا ہے اس کے مطابق ہی رمضان شروع ہو۔ لیکن واضح طور پر چاندنظر آنا چاہئے۔ اس کی رؤیت ضروری ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ہم ضرور غیر احمدی مسلمانوں کے اعلان پر بغیر چاند دیکھے روزے شروع کر دیں اور عید کر لیں یہ چیز غلط ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء، الفضل انٹر نیشنل 24 تا 30جون 2016ء۔صفحہ 5)

مسافر اور مریض

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’اگر تم مریض ہو یاسفر میں ہوتو پھران دنوںمیں روزے نہ رکھو۔ اور یہ روزے دوسرے دنوں میں جب سہولت ہو پورے کرلو۔ یہاں یہ بھی یاد رکھناچاہئے کہ یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ اس وقت چونکہ تمام گھروالے روزے رکھ رہے ہیں جیسے کہ مَیں نے پہلے بھی کہا، اٹھنے میں آسانی ہے، زیادہ تردّد نہیں کرنا پڑتا،جیسے تیسے روزے رکھ لیں، بعد میں کون رکھے گا۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے۔ بات وہی ہے کہ اصل بنیاد تقویٰ پرہے، حکم بجالاناہے، حکم یہ ہے کہ تم مریض ہو یا سفر میں ہو، قطع نظر اس کے کہ سفر کتناہے، جو سفر تم سفر کی نیت سے کررہے ہو وہ سفر ہے اور اس میں روزہ نہیں رکھناچاہئے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبر تا 25دسمبر2003ء۔ صفحہ نمبر6-7۔ خطبات مسرور جلد1 صفحہ424)

مرکز میں قیام کے دوران روزہ رکھنا جائز ہے

’’قیام کے دوران روزوں کے بارے میں حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ روزوں کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے ایک جگہ پر تین دن سے زائد اقامت کرنی ہو تو پھر وہ روزے رکھے اور اگر تین دن سے کم اقامت کرنی ہو تو روزے نہ رکھے اور اگر قادیان میں کم دن ٹھہرنے کے باوجود روزے رکھ لے تو پھر روزے دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں (فتاویٰ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رجسٹر نمبر5 دار الافتاء ربوہ بحوالہ فقہ المسیح صفحہ208 باب روزہ اور رمضان) کیونکہ قادیان وطن ثانی ہے اس میں تین دن سے کم وقت میں بھی اگر رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے لیکن باقی جگہوں پر تین دن اگر قیام ہے تو روزے رکھ سکتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء، الفضل انٹر نیشنل 24 تا 30جون 2016ء۔ صفحہ7)

نیکی زبردستی اپنے آپ کو تکلیف دینے کا نام نہیں

’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ضرورت سے زیادہ سختی اپنے اوپر وارد کرتے ہیں یا وارد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کل کا سفر کوئی سفر نہیں ہے اس لئے روزہ رکھنا جائز ہے۔ آپؑ نے یہی وضاحت فرمائی ہے کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ زبردستی اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کی جائے اور اپنی طرف سے تاویلیں اور تشریحیں نہ بنائی جائیں۔ جو واضح حکم ہیں ان پر عمل کرنا چاہئے۔ اور یہ بڑا واضح حکم ہے کہ مریض اور مسافرروزہ نہ رکھے۔ تو برکت اسی میں ہے کہ تعمیل کی جائے نہ کہ زبردستی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے۔ایک روایت میں آتا ہے:‘‘حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے رمضان کے مہینے میں سفر کی حالت میں روزہ اور نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺنے فرمایارمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھو۔ اس پر اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا اَنْتَ اَقْوٰی اَمِ اللّٰہ؟ یعنی تو زیادہ طاقتور ہے یا اللہ؟ یقیناً اللہ تعالیٰ نے میری امت کے مریضوں اور مسافروں کے لئے رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کو بطور صدقہ ایک رعایت قرار دیاہے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ تم میں سے کسی کوکوئی چیزصدقہ دے پھر وہ اس چیز کو صدقہ دینے والے کو واپس لوٹا دے‘‘۔ (المصنف للحافظ الکبیر ابی ابکرعبدالرزاق بن ھمام الصنعانی الجزء الثانی صفحہ 565 باب الصیام فی السفر)۔ تو یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدقہ مل رہا ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5اکتوبر 2004 ء۔خطبات مسرور جلد2 صفحہ745-746)

’’ایسے لوگ جو اس لئے کہ گھر میں آج کل روزہ رکھنے کی سہولت میسرہے روزہ رکھ لیتے ہیں ان کو اس ارشاد کے مطابق یاد رکھنا چاہئے کہ نیکی یہی ہے کہ روز ے بعد میں پورے کئے جائیں اور وہ روزے نہیں ہیں جو اس طرح زبردستی رکھے جاتے ہیں۔حدیث میں آتاہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ایک سفر پرتھے۔ آپؐ نے لوگوں کا ہجوم دیکھا اور ایک آدمی پر دیکھا کہ سایہ کیا گیاہے۔ آ پؐ نے فرمایا: ’’کیا ہے؟‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ شخص روزہ دار ہے۔ آ پ ؐنے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔

(بخاری کتاب الصوم باب قول النبیؐ لمن ظلل علیہ واشتد۔۔۔۔۔۔)

(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبر تا 25دسمبر 2003ء ۔۔ خطبات مسرور جلد1 صفحہ425)

روزوں کے حوالہ سےحقیقی بیمار کون شمار ہوتاہے؟

بعض دفعہ بعض لوگ دوسری طرف بہت زیادہ جھک جاتے ہیں۔ بعض اس سہولت سے کہ مریض کو سہولت ہے خود ہی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ مَیں بیمارہوں اس لئے روزہ نہیں رکھ سکتا۔ اور پوچھو تو کیا بیماری ہے؟ تم تو جوان آدمی ہو، صحت مند ہو، چلتے پھر رہے ہو، بازاروں میں پھر رہے ہو، بیماری ہے تو ڈاکٹر سے چیک اپ کرواؤ تو جواب ہوتاہے کہ نہیں ایسی بیماری نہیں بس افطاری تک تھکاوٹ ہو جاتی ہے، کمزوری ہوجاتی ہے۔ تویہ بھی وہی بات ہے کہ تقویٰ سے کام نہیں لیتے۔ نفس کے بہانوں میں نہ آؤ۔ فرمایا یہ ہے کہ نفس کے بہانوں میں نہ آؤ۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دل کا حال جانتا ہے۔ خوف کا مقام ہے۔ یہی نہ ہو کہ ان بہانوں سے کہیں ان حکموں کو ٹال کر حقیقت میں کہیں بیمار ہی بن جاؤ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’بے شک یہ قرآنی حکم ہے کہ سفر کی حالت میں اور اسی طرح بیماری کی حالت میں روزے نہیں رکھنے چاہئیں اور ہم اس پر زور دیتے ہیں تا قرآنی حکم کی ہتک نہ ہو مگر اس بہانے سے فائدہ اٹھا کرجو لوگ روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں اور پھروہ روزہ نہیں رکھتے یا ان سے کچھ روزے رہ گئے ہوں اور وہ کوشش کرتے تو انہیں پورا کرسکتے تھے لیکن ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ ایسے ہی گنہگار ہیں جس طرح وہ گنہگار ہے جوبلا عذر رمضان کے روزے نہیں رکھتا۔ اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ جتنے روزے اس نے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے نہیں رکھے وہ انہیں بعدمیں پورا کرے‘‘۔

(بحوالہ فقہ احمدیہ صفحہ٢٩٣)

یہ فتویٰ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا۔ تویہ افراط اور تفریط دونوں ہی غلط ہیں۔ ہمیشہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے روزے رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔

(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبر تا 25دسمبر 2003ء ۔۔ خطبات مسرور جلد1 صفحہ427-426)

بلاوجہ صرف فدیہ دینا اور روزہ نہ رکھنا اباحت کا دروازہ کھولنا ہے

’’فطری مجبوریوں سے فائدہ تو اٹھاؤ لیکن تقویٰ بھی مدِّنظر ہو کہ ایسی حالت ہے جس میں روزہ ایک مشکل امر ہے تو اس لئے روزہ چھوڑا جا رہا ہے، نہ کہ بہانے بنا کر۔ پھر اس کا مداوا اس طرح کرو کہ ایک مسکین کو روزہ رکھواؤ۔ یہ نہیں کہ بہانے بناتے ہوئے کہہ دو کہ مَیں روزہ رکھنے کی ہمت نہیں رکھتا، پیسے میرے پاس کافی موجود ہیں ،کشائش ہے ،غریب کو روزہ رکھوا دیتا ہوں۔ ثواب بھی مل گیا اور روزے سے جان بھی چھوٹ گئی۔ نہ یہ تقویٰ ہے اور نہ اس سے خداتعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر نیک نیتی سے ادا نہ کی گئی نمازوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نمازیوں کے منہ پر ماری جاتی ہیں تو جو فدیہ نیک نیتی سے نہ دیا گیا یا بدنیتی سے دیا گیا ہو گا، یہ بھی منہ پر مارا جانے والا ہو گا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ ۳۸۳)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: ’’صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے۔ ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پا کے روزہ رکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ صرف فدیہ کا خیال اباحت کا دروازہ کھول دیتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ٣٢٢۔ ٢٤ اکتوبر ١٩٠٧)

یعنی ایک ایسا اجازت کا رستہ کھل جائے گا اورہر کوئی اپنی مرضی سے تشریح کرنی شروع کر دے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ’صرف‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بعد میں روزے کی طاقت رکھتے ہوں اگر وہ فدیہ دے دیں تو یہ زائد نیکی ہے۔ بعد میں روزے بھی پورے کر لئے اور فدیہ بھی دے دیا۔ اور جو رکھ ہی نہیں سکتے اور رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ان کے لئے فدیہ ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5اکتوبر 2004ء۔ خطبات مسرور جلد2 صفحہ743)

سحری کے آداب

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ:۔
’’بعض لوگ سحری نہیں کھاتے، عادتاً نہیں کھاتے یا اپنی بڑائی جتانے کے لئے نہیں کھاتے اوراٹھ پہرے روزے رکھ رہے ہوتے ہیں ان کے لئے بھی حکم ہے۔ حدیث میں آتاہے۔ حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول ا للہ ؐنے فرمایا کہ سحری کھایاکرو سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘

’’پھریہ کہ سحری کاوقت کب تک ہے؟ ایک تو یہ کہ جب سحری کھا رہے ہوں تو جو بھی لقمہ یا چائے جو آپ اس وقت پی رہے ہیں، آپ کے ہاتھ میں ہے اس کو مکمل کرنے کا ہی حکم ہے۔ روایت آتی ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ جس وقت تم میں سے کوئی اذان سن لے اوربرتن اس کے ہاتھ میں ہوتووہ اس کو نہ رکھے یہاں تک کہ اپنی ضرورت پوری کرلے یعنی وہ جو کھا رہاہے وہ مکمل کرلے۔

پھر بعض دفعہ غلطی لگ جاتی ہے اور پتہ نہیں لگتاکہ روزے کاوقت ختم ہو گیاہے اوربعض دفعہ چند منٹ اوپر چلے جاتے ہیں تو اس صورت میں کیا یہ روزہ جائز ہے یانہیں۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا کہ مَیں مکان کے اندر بیٹھا ہواتھا اور میرا یقین تھاکہ ابھی روزہ رکھنے کا وقت ہے اورمَیں نے کچھ کھاکے روزہ رکھنے کی نیت کی لیکن بعد میں ایک دوسرے شخص سے معلوم ہواکہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو گئی تھی اب مَیں کیاکروں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :ایسی حالت میں اس کا روزہ ہوگیا۔دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس نے احتیاط کی اور نیت میں فرق نہیں صرف غلطی لگ گئی اورچند منٹوں کا فرق پڑ گیا۔

(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبر تا 25دسمبر 2003ء۔ خطبات مسرور جلد1 صفحہ429)

’’اسی طرح سحری کھانے کا معاملہ ہے۔ سحری کھا کر روزہ رکھنا ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزے کے دنوں میں سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھا کر روزہ رکھنے میں برکت ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الصوم باب برکۃ السحور ۔۔۔۔۔۔ الخ حدیث 1923)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کی پابندی فرمایا کرتے تھے۔ خود بھی اور جو اپنے جماعت کے احباب افراد تھے ان کو بھی کہا کرتے تھے کہ سحری ضروری ہے۔ اسی طرح جو مہمان قادیان میں آیا کرتے تھے ان کے لئے بھی سحری کا باقاعدہ انتظام ہوا کرتا تھا بلکہ بڑا اہتمام ہوا کرتا تھا۔

اس بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ آپ نے سحری کھاتے دیکھ کر فرمایا کہ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟ (سحری کے وقت دال روٹی کھا رہے تھے) اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں (ہیں۔ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ روزے رکھ رہے ہیں۔) ہر ایک سے معلوم کرو کہ ان کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیار کیا جائے۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر مَیں کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھا لو۔ اذان جلدی دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔‘‘

(سیرت المہدی جلد2 حصہ چہارم صفحہ127 روایت نمبر1163)

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء، الفضل انٹر نیشنل 24 تا 30جون 2016ء۔ صفحہ6)

گزشتہ سال ایک دوست کو مَیں نے کہا تھا کہ آپ زیادہ دیر تک سحری کھاتے رہتے ہیں۔ اس بات پر انہوں نے شاید میری بات سن کے دوبارہ روزے رکھ لئے۔ لیکن اگر یہ وقت جو تھا اس وقت سے آگے نہیں لے کر گئے تھے پھر تو ٹھیک ہے۔ روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ اور اب بھی ہر ایک جائزہ لے سکتا ہے۔ یہاں تو اذانیں نہیں ہوتیں۔ صبح صادق کو دیکھنا ضروری ہے۔ جب پو پھٹتی ہے یعنی جب دھاری نمودار ہوتی ہے تو اس وقت تک سحری کھائی جا سکتی ہے۔

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء، الفضل انٹر نیشنل 24 تا 30جون 2016ء۔ صفحہ 6)

افطاری کے آداب

’’افطاری میں جلدی کرنے کے بارہ میں حکم آتاہے۔ابی عطیہ نے بیان کیا کہ مَیں اور مسروق حضرت عائشہؓ کے پاس آئے اور پوچھا اے ام المومنین !حضورؐکے صحابہ میں سے دو صحابی ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی نیکی اورخیر کے حصول میں کوتاہی کرنے والا نہیں لیکن ان میں سے ایک تو افطاری میں جلدی کرتے ہیں اورنماز بھی جلدی پڑھتے ہیں۔یعنی نمازکے پہلے وقت میں پڑھ لیتے ہیں اوردوسرے افطاری اورنمازوں میں تاخیر کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا کہ ان میں سے کون جلدی کرتاہے تو بتایاگیاکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ۔ توحضرت عائشہ ؓنے فرمایاکہ آنحضرتؐ بھی اسی طرح کیاکرتے تھے۔ لیکن افطاری میں جلدی کرنے سے کیا مراد ہے ؟اس کا تعین کس طرح ہوگا اس بارہ میں یہ حدیث وضاحت کرتی ہے۔آنحضرت ؐسے روایت ہے کہ غروب آفتاب کے بعد حضور ؐنے ایک شخص کو ا فطاری لانے کو کہا۔اس شخص نے عرض کی کہ حضور ذرا تاریکی ہو لینے دیں۔ آپ ؐنے فرمایا :افطاری لاؤ۔ اس نے پھرعرض کی کہ حضورؐ ابھی تو روشنی ہے۔ حضور نے فرمایا افطاری لاؤ۔ وہ شخص افطاری لایا تو آپؐ نے روزہ افطار کرنے کے بعد اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ جب تم غروب آفتاب کے بعد مشرق کی طرف سے اندھیرا اٹھتا دیکھو تو افطار کرلیاکرو۔

(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبر تا 25دسمبر 2003ء۔ خطبات مسرور جلد1 صفحہ430-429)

اعتکاف کا طریق اور اس بابت بعض اہم مسائل

پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ اعتکاف رمضان کی ایک نفلی عبادت ہے۔ اس لئے جگہ کی مناسبت سے، اس کی گنجائش کے مطابق جو مرکزی مساجد ہیں ان میں یا جو بھی اپنے شہر کی مسجد ہو اس میں بھی حالات کے مطابق اعتکاف بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کا زور ہو تا ہے کہ ہم نے ضرور اعتکاف بیٹھنا ہے اور فلاں مسجد میں ہی ضرور بیٹھنا ہے۔مثلاً ربوہ میں مسجد مبارک میں یا مسجد اقصیٰ میں بیٹھنا ہے یا یہاں مسجد فضل میں بیٹھنا ہے یا مسجد بیت الفتوح میں بیٹھنا ہے۔ اور پھر اس کے لئے زور بھی دیا جاتا ہے، خط پہ خط لکھے جاتے ہیں اور سفارش کرنے کی درخواستیں کی جاتی ہیں۔ تو یہ طریق غلط ہے۔ دعا کی قبولیت تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تو کہیں بھی ہو سکتی ہے۔ یہ تو نہیں فرمایا کہ جو اعتکاف بیٹھیں گے ان کو لیلۃ القدر حاصل ہو گی اور باقیوںکو نہیں ہو گی۔ کسی خاص جگہ سے تو مخصوص نہیں ہے ہاں بعض جگہوں کی ایک اہمیت ہے اور ان کے قرب کی وجہ سے بعض دفعہ جذبات میں خاص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سوچ بہرحال غلط ہے کہ ہم نے فلاں جگہ ضرور بیٹھنا ہے۔ بعض دفعہ لوگوں کو صرف یہ خیال ہوتا ہے کہ پچھلے سال فلاں بیٹھا تھا اس لئے اس سال ہمیں باری دی جائے۔ یا اس سال ہم نے ضرور بیٹھنا ہے۔ یہ دیکھا دیکھی والی بات ہو جاتی ہے۔ نیکیوں میں بڑھنے والی بات نہیں رہتی۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء خطبات مسرور جلد2 صفحہ779-780)

دوران اعتکاف بلند آواز سے تلاوت کرنا مناسب نہیں جبکہ قریب دیگر معتکفین بھی ہوں

آپؐ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اعتکاف کس طرح بیٹھنا چاہئے، بیٹھنے والوں اور دوسروں کے لئے کیا کیا پابندیاں ہیں روایت میں آتا ہے کہ ’’آپؐ نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا، آپؐ کے لئے کھجور کی خشک شاخوں کا حجرہ بنایا گیا، ایک دن آپؐ نے باہر جھانکتے ہوئے فرمایا، نمازی اپنے رب سے راز و نیاز میں مگن ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سنانے کے لئے قراء ت بالجہر نہ کرو۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ67۔ مطبوعہ بیروت)

یعنی مسجد میں اور بھی لوگ اعتکاف بیٹھے ہوں گے اس لئے فرمایا معتکف اپنے اللہ سے راز و نیا زکر رہا ہوتاہے، دعائیں کر رہا ہوتا ہے۔ قرآن شریف بھی اگر تم نماز میں پڑھ رہے ہو یا ویسے تلاوت کر رہے ہو تو اونچی آواز میں نہ کرو تاکہ دوسرے ڈسٹرب نہ ہوں۔ ہلکی آواز میں تلاوت کرنی چاہئے۔ سوائے اس کے کہ اب مثلاً جماعتی نظام کے تحت بعض مساجد میں خاص وقت کے لئے درسوں کا انتظام ہوتا ہے۔ وہ ایک جماعتی نظام کے تحت ہے اس کے علاوہ ہر ایک معتکف کو نہیں چاہئے کہ اونچی آواز میں تلاوت بھی کرے یا نماز ہی پڑھے۔ کیونکہ اس طرح دوسرے ڈسٹرب ہوتے ہیں۔ تو یہ ہیں احتیاطیں جو آنحضرت ؐ نے فرمائیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء خطبات مسرور جلد2 صفحہ781)

دوران اعتکاف معتکفین کو دعا کی پرچیاں دینا؟

’’معتکف کے لئے بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے۔ کہ وہ اپنی عبادت میں مصروف ہوتا ہے پردہ کے لئے ایک چادر ہی ٹانگی ہوتی ہے نا۔ پردہ کے پیچھے سے ایک ہاتھ اندر داخل ہوتا ہے جس میں مٹھائی اور ساتھ پرچی ہوتی ہے کہ میرے لئے دعا کرو یا نمازی سجدے میں پڑا ہوا ہے اوپر سے پردہ خالی ہوتا ہے تو اوپر سے کاغذ آکر اس کے اوپر گر جاتا ہے (ساتھ نام ہوتا ہے) کہ میرے لئے دعا کرو۔ یا ایک پراسرار آواز پردے کے پیچھے سے آتی ہے آہستہ سے کہ مَیں فلاں ہوں میرے لئے دعا کرو۔ یہ سب غلط طریقے ہیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء خطبات مسرور جلد2 صفحہ781۔782)

مساجد میں معتکفین کے لیے افطاریوں کی بابت ہدایات

’’پھر شام کو افطاریوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ افطاریاں بڑی بڑی آتی ہیں ٹرے لگ کے، بھر کے، جو معتکف تو کھا نہیں سکتا لیکن مسجد میں ایک شور بھی پڑ جاتا ہے اور گند بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ اور پھر جو لو گ افطاریاں بھیج رہے ہوتے ہیں۔ بعض بڑے فخر سے بتاتے بھی ہیں کہ آج مَیں نے افطاری کا انتظام کیا ہوا تھا، کیسی تھی؟ کیا تھا؟ یا دوسروں کو بتا رہے ہیں کہ یہ کچھ تھا۔ میری افطاری بڑی پسند کی گئی۔ پھر اگلے دن دوسرا شخص اس سے بڑھ کر افطاری کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو یہ سب فخرومباہات کے زمرے میں چیزیں آتی ہیں۔ بجائے اس کے کہ خدمت کی جائے یہ دکھاوے کی چیزیں بن جاتی ہیں۔ اس لئے یا تو اعتکاف بیٹھنے والا، اپنے گھر سے سحری اور افطاری منگوائے یا جماعتی نظام کے تحت مہیا ہو۔ ناموں کے ساتھ ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ افطاریاں آنی غلط طریق کار ہے۔ یہ کہیں بھی جماعت کی مساجد میں نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس سے آگے اور بدعتیں بھی پھیلتی چلی جائیں گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء خطبات مسرور جلد2 صفحہ782)

اعتکاف کے دوران دنیوی امور کی بابت گفت و شنید؟

’’پھر بعض لوگ اعتکاف بیٹھ کر بھی کچھ وقت کے لئے دنیاداری کے کام کر لیتے ہیں۔ مثلاً بیٹے کو کہہ دیا، یا اپنے کام کرنے والے کارندے کو کہہ دیا کہ کام کی رپورٹ فلاں وقت مجھ کو دے جایا کرو۔ کاروباری مشورے لینے ہوں تو فلاں وقت آ جایا کرو کاروباری مشورے دیا کروں گا۔ یہ طریق بھی غلط ہے۔ سوائے اشد مجبوری کے یہ کام نہیں ہونا چاہئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس بارے میں سوال ہوا کہ آدمی جب اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار سے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں؟۔ آپؑ نے فرمایا کہ سخت ضرورت کے سبب کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لئے اور حوائج ضروریہ کے واسطے باہر جا سکتاہے۔ فرمایا کہ سخت ضرورت کے تحت۔ یہ نہیں ہے کہ جیسا میں نے پہلے کہا کہ روزانہ کوئی وقت مقرر کر لیا، فلاں وقت آ جایا کرو اور بیٹھ کر کاروباری باتیں ہو جایا کریں گی۔ اگر اتفاق سے کوئی ایسی صورت پیش آ گئی ہے کسی سرکاری کاغذ پر دستخط کرنے ہیں، تاریخ گزر رہی ہے یا کسی ضروری معاہدے پر دستخط کرنے ہیں، تاریخ گزر رہی ہے یا اور کوئی ضروری کاغذ ہے، ایسے کام تو ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہر وقت،روزانہ نہیں۔‘‘

(بدر21/فروری 1907ء صفحہ5)

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء خطبات مسرور جلد2 صفحہ782-783)

روزہ کے دوران مُنہ میں الائچی رکھنا ،دانتوں کو برش کرنا اور عورت کا ہنڈیا کا نمک چیک کرنے کی بابت ہدایت

اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
‘‘روزہ کی حالت میں الائچی چبانا اگرچہ اسے اندر نگلنے کی بجائے تھوک ہی دیا جائے پھر بھی روزہ کے منافی ہے۔ اس لیے اس کی بالکل اجازت نہیں۔ حکماء کہتے ہیں کہ الائچی کا دانہ منہ میں رکھنے سے پیاس ختم ہو جاتی ہے۔اس سوال کی جو یہ وجہ بتا ئی گئی کہ منہ سے بو آتی ہے تو حدیث میں آتا ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ہاں ایک حد تک مسواک یا آجکل برش وغیرہ سے دانتوں کی صفائی ہوسکتی ہے اور کرنی بھی چاہیے۔اور احتیاط کے ساتھ ٹوتھ پیسٹ بھی استعمال کی جاسکتی ہے ۔لیکن جن لوگوں کو یہ اندیشہ ہو کہ ٹوتھ پیسٹ حلق کے اندر چلی جائے گی تو انہیں اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔بلکہ زیادہ بہتر ہے کہ صبح سحری کے وقت پیسٹ کر لی جائے اور باقی دن خالی برش سے دانت صاف کیے جائیں۔

خاتون کے ہنڈیا کا نمک چیک کرنے کے لیے زبان پر تھوڑا سا سالن رکھ کر تھوکنے کی بات بھی درست نہیں۔قرآن کریم اور مستند حدیث میں اس کی کوئی سند نہیں ملتی ۔فقہاء میں سے اکثر نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔اس ضمن میں جو کہا جاتا ہے کہ خاوند کی ناراضگی سے بچنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے ۔تو یاد رکھنا چاہیے کہ روزہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے ۔اس لیے خداتعالیٰ کو خوش کرنے کی کوشش ہونی چاہیے ۔خاوند جیسا بھی ہو اس کی سخت یا نرم طبیعت سے شریعت نہیں بدل سکتی۔‘‘

(مکتوب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنام مکرم ظہیر احمد خان صاحب محررہ 2015 بحوالہ اخبار احمدیہ ماہ اپریل 2020ء۔صفحہ نمبر 11۔12)

ایسے علاقوں میں سحری اور افطاری کے اوقات کی بابت ہدایت جن میں دن بائیس یا تئیس گھنٹے کے ہوتے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’بعض ممالک جہاں آجکل بائیس تئیس گھنٹے کا دن ہے اور صرف ڈیڑھ دو گھنٹے کی رات ہے وہ بھی رات نہیں بلکہ روشنی ہی رہتی ہے یا جھٹ پٹے کا وقت رہتا ہے اس لیے وہاں کی جماعتوں کو بتا دیا گیا ہے کہ وقت کے اندازے کے مطابق اپنی سحری اور افطاری کے وقت مقرر کرلیں جو آجکل اکثر جگہ قریبی ملکوں کے اوقات پر محمول کر کے یا ان کے اوقات کا اندازہ رکھتے ہوئے تقریباً اٹھارہ انیس گھنٹے کاروزہ ہوگا ۔ان ملکوں میں اگر اس طرح نہ کیا جائے تو سحری اور افطاری کا کوئی وقت ہی نہیں ہوگا ۔نہ تہجد پڑھی جاسکے گی نہ ہی عشاء اور فجر کی نمازوں کے اوقات معین ہوسکیں گے ۔بہرحال ان علاقوں میں جو جماعتیں ہیں وہ اس کے مطابق عمل کرتی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء،الفضل انٹر نیشنل 24 تا 30جون 2016ء۔صفحہ 5)

عید الفطر کی تکبیرات کس وقت شروع کرنی چاہیئں اور کب تک کہنی ہیں؟

عید الفطر کے دن تکبیرات پڑھنا مسنون ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ سالم اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت کرتے ہیں کہ ان رسول اللّٰہ ؐ کان یکبر یوم الفطر من حین یخرج من بیتہ حتی یاتی المصلی۔ رسول اللہؐ عید الفطر کے روز اپنے گھر سے نکلنے سے لے کرعید گاہ پہنچنے تک تکبیرات پڑھا کرتے تھے۔

(سنن الدارقطنی کتاب العیدین حدیث نمبر6)

امام الزہری بیان کرتے ہیں کہ: ان رسول اللّٰہ کان یخرج یوم الفطر فیکبر حتی یاتی المصلی و حتی یقضی الصلاۃ فاذا قضی الصلاۃ قطع التکبیر۔ رسول اللہ ؐ عید الفطر کے روز نماز کی جگہ پہنچنے تک اور نماز کی ادائیگی تک تکبیرات کہتے۔ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہو جاتے تو تکبیرات کہنا ختم کر دیتے

(مصنف ابن ابی شیبۃ کتاب صلاۃ العیدین باب فی التکبیر اذا خرج الی العید)

آنحضرت ؐ کے اس نمونہ کی تقلید میں صحابہ کرام ؓ بھی عید الفطر کے روز تکبیرات پڑھا کرتے تھے ۔ چنانچہ آنحضرت ؐکے صحابی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بارہ میں آتا ہے کہ وہ عید الفطر کے روز عید گاہ پہنچنے تک اور امام کے جائے نماز پر آجانے تک اونچی آواز سے تکبیرات کہا کرتے تھے ۔

(سنن الدارقطنی کتاب العیدین حدیث نمبر8)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام ممالک میں عید الفطر کی تکبیرات کے بارہ میں متذکرہ بالا احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درج ذیل سرکلر جاری کروایا :
’’عید الفطر کے موقع پر بھی تکبیرات کہنی چاہیئیں کیونکہ یہ امر احادیث سے ثابت ہے اور صحیح ہے کہ عید والے دن صبح سے لے کر نماز عید تک تکبیرات پڑھی جاتی تھیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 31مئی 2019ء۔ صفحہ13)

(رحمت اللہ بندیشہ مربی سلسلہ واستاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مئی 2021