• 25 اپریل, 2024

مجالس کے آداب

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر مجالس کی امانتیں ہیں۔ کسی مجلس میں اگر آپ کو دوست سمجھ کر، اپنا سمجھ کر آپ کے سامنے باتیں کر دی جائیں تو ان باتوں کو باہر لوگو ں میں کرنا بھی خیانت ہے۔ پھر مجالس میں کسی کے عیب دیکھیں، کسی کی کوئی کمزوری دیکھیں تو اس کو باہر پھیلانا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ جب کہ کسی اور شخص کو بھی بتانا جس کا اس مجلس سے تعلق نہ ہو یہ بھی خیانت ہے۔ ایک بات اورواضح ہو اور ہر وقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر کسی مجلس میں نظام کے خلاف یا نظام کے کسی رکن کے خلاف باتیں ہو رہی ہوں تو اس کو پہلے تو وہیں بات کرنے والے کو سمجھا کر اس بات کو ختم کردینا زیادہ مناسب ہے اور وہیں اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اصلاح کی کوئی صورت نہ ہو تو پھر بالا افسران تک اطلاع کرنی چاہیے۔

لیکن بعض دفعہ بعض کارکن بھی اس میں Involve ہو جاتے ہیں۔ پتہ نہیں آج کل کے حالات کی وجہ سے مردوں کے اعصاب پر بھی زیادہ اثر ہوجاتا ہے یا مردوں کو بھی بلا سوچے سمجھے عورتوں کی طرح باتیں کرنے کی عادت پڑگئی ہے۔ اس میں بعض اوقات اچھے بھلے سلجھے ہوئے کارکن بھی شامل ہو جاتے ہیں اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں اور اس طرح غیر محسوس طور پر ایک کارکن دوسرے کارکن کے متعلق بات کرکے یا ایک عہدیدار دوسرے بالا عہدیدار کے متعلق بات کرکے یا اپنے سے کم عہدیدار کے متعلق بات کرکے، لوگوں کے لئے فتنے کا موجب بن رہا ہوتا ہے۔ کمزور طبیعت والے ایسی باتوں کا خواہ وہ چھوٹی باتیں ہی ہوں، برا اثر لیتے ہیں۔ اور ایسے کارکنوں کو بھی جو اپنے ساتھی عہدیداران کے متعلق باتیں کرنے کی عادت پڑ جائے تو منافق بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نظام بھی متاثر ہو تا ہے۔

اس لئے تمام کارکنان اورعہدیداران کو جو ایسی باتیں خواہ مذاق کے رنگ میں ہو ں، کرتے ہیں ان کو اپنے عہدوں اور اپنے مقام کی وجہ سے ایسی باتیں کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔اور ایسی مجلسوں میں بیٹھنے والوں کے لئے یہاں اجازت ہے۔ اب ویسے تو مجلس کی باتیں امانت ہیں باہر نہیں نکلنی چاہئیں۔لیکن اگر نظام کے خلاف باتیں ہو رہی ہو ں تو یہاں اجازت ہے کہ چاہے وہ اگر نظام کے متعلق ہے یا نظام کے کسی عہدیدار کے متعلق ہیں اوراس سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ اس میں کئی اعتراض کے پہلو ابھر سکتے ہیں، نکل سکتے ہیں تو اس کو افسران بالا تک پہنچانا چاہیے۔

اور ایک حدیث میں اس کی اس طر ح اجازت ہے کہ حضرت جابر ؓبن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجالس کی گفتگو امانت ہے سوائے تین مجالس کے۔ ایسی مجالس جہاں خون بہانے والوں کے باہمی مشورہ کی مجلس ہو۔ پھر وہ مجلس جس میں بدکاری کا منصوبہ بنے۔ اور پھر وہ مجلس جس میں کسی کا مال ناحق دبانے کا منصوبہ بنایا جائے۔ تو جہاں ایسی سازشیں ہو رہی ہوں جس سے کسی کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، ایسی باتیں سن کر متعلقہ لوگوں تک یا افسران تک پہنچانا یہ امانت ہے۔ ان کو نہ پہنچانا خیانت ہو جائے گی۔ تو نظا م کے متعلق جو باتیں ہیں وہ بھی اسی زمرہ میں آتی ہیں کہ اگر کوئی نظام کے خلاف بات کر رہا ہو اور بالا افسران تک نہ پہنچائیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ8/ اگست2003ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 7 جولائی 2020ء