• 25 اپریل, 2024

محترم مولانا منیر الدین احمد صاحب کی شخصیت و خدمات

پاکستان، مشرقی افریقہ اور یورپ میں خدمات بجالانے والے منکسر المزاج مربی سلسلہ

درمیانہ قد، متبسم گول چہرہ، خوبصورت رنگ، چال میں وقار اور انکسار، خدمت ِسلسلہ اور خدمت ِخلق کے جذبہ سے سرشار محترم مولانا منیر الدین احمد صاحب مربی سلسلہ گوجرانوالہ کے رہنے والے اور پیدائشی احمدی تھے۔ آپ 1926ء میں بکلوہ چھاؤنی ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے جہاں آپ کے والد محترم میاں قمر الدین صاحب (بیعت 1902ء) کاروبار کے سلسلہ میں مقیم تھے۔ بکلوہ چھاؤنی پٹھان کوٹ اور ڈلہوزی کے درمیان واقع ہے۔

آپ کے والد محترم کی بیعت سے قبل ان کے ماموں حضرت میراں بخش صاحب داخل احمدیت ہو چکے تھے انکی تحریک پر ہی آپ کے والد اور پھر چچا مکرم قائم دین صاحب نے بیعت کر لی۔ آپ کا خاندان گوجرانوالہ کا رہائشی تھا لیکن آپ کے والد محترم کاروبار کے سلسلہ میں بکلوہ چھاؤنی آگئے۔مولانا منیر الدین احمد صاحب نے ابتدائی تعلیم اسی علاقے میں حاصل کی۔حضرت مصلح موعود ؓموسم گرما میں ڈلہوزی تشریف لے جاتے تھے پہاڑی راستہ کی وجہ سے آپ کے والد اکیلے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے۔مولوی صاحب کو حضرت مصلح موعودکی پہلی زیارت جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر 1937ء میں نصیب ہوئی۔ اسی سال کاروباری حالات خراب ہونے کی وجہ سے آپ کے والد بکلوہ چھوڑ کر قادیان آگئے اور بچوں کو گوجرانوالہ شفٹ کر دیا۔ قادیان میں آپ کے والد صاحب نے مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی کے ساتھ ملکر شوز سٹور کا کاروبار شروع کیا۔ مولوی بدوملہی صاحب کا یہ کام آپ کے بیٹے نے گولبازار ربوہ میں رشید بوٹ ہاؤس کے نام سے جاری رکھا۔مولانا منیر الدین احمد صاحب کے والد امرتسر سامان لینے جایا کرتے تھے1938ء میں ایک بار گئے تو واپس نہ آئے۔ تلاش بسیار کے باوجود انکا پتہ نہ لگ سکا۔چنانچہ پھر آپ کی کفالت اور تعلیمی بندوبست آپ کے بڑے بھائیوں نے سنبھال لیا۔

محترم مولانا منیرالدین احمد صاحب کو بچپن میں ہی انکے والد نے حضرت مصلح موعودکی اس تحریک کے تحت وقف کر دیا تھا جس میں حضور نے فرمایا تھا کہ ہر خاندان سے ایک بچہ وقف ہو اور اسکی فیملی اس کو سپورٹ بھی کرے۔چنانچہ والد صاحب کے مفقود الخبر ہونے کے بعد آپ کے بھائیوں نے اس معاملہ میں اپنی ذمہ داری نبھائی۔محترم مولانا منیر الدین احمد صاحب نے بی۔ اے کرنے کے بعد وقف کے لئے پیش کر دیا۔انٹرویو کے بعد آپ کو جامعۃ المبشرین ربوہ میں داخلہ مل گیا جہاں سے آپ 1959ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔

مشرقی افریقہ تقرر

جامعۃ المبشرین سے فارغ ہونے کے بعد آپ کی شادی ہوئی اور شادی کے ایک سال بعد آپ کو 1960ء میں مشرقی افریقہ کے ملک یوگنڈا جانے کا ارشاد ہوا۔ چنانچہ آپ نے اپنی فیملی کو گوجرانوالہ چھوڑ ا اور کراچی سے بذریعہ بحری جہاز نو دنوں کا سفر طے کر کے ممباسہ کی بندرگاہ پہنچے۔کچھ دنوں جنجہ میں کام کیا اور پھر آپ نیروبی آگئے جہاں محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مشنری انچارج تھے۔ نیروبی سے جماعت کے دو اخبارات ایک انگریزی میں اور ایک سواحیلی میں نکلتا تھا۔ اخبارات کی ترسیل و اشاعت پر آپ کی ڈیوٹی لگی نیز آپ انگریزی اخبار کی پروف ریڈنگ بھی کیا کرتے تھے۔ محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کی مرکز واپسی کے بعد آپ ممباسہ میں متعین ہوگئے اور تین سال پورے ہونے پرخصت پر 1963ء میں مرکز واپس آگئے۔واپسی بھی بذریعہ بحری جہاز ہی ہوئی تھی۔مرکز آکر آپ وکالت تبشیر میں خدمت کرتے رہے۔

قیام مرکز کے دوران آپ کوانتخاب ِخلافت ثالثہ میں شمولیت کی سعادت بھی ملی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے آپ کو مع فیملی کینیا بھجوانے کا ارشاد فرمایا۔روانگی سے قبل حضورؒ سے ملاقات ہوئی تو حضور نے پوچھا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں؟عرض کیا دو بیٹیاں ہیں۔ حضورؒ نے فرمایا اچھا اللہ تعالیٰ افریقہ میں بیٹا دے گا۔ حضورؒ کی بشارت پوری ہوئی اور کینیا پہنچنے کے ایک سال بعد 1967ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹا عطا فرمایا۔ یہ حضور کی قبولیت ِ دُعا کا اعجاز تھا اس لئے آپ نے اس بچے کو حضور کی خدمت میں پیش کر کے وقف کر دیا۔ حضور نے منظور فرمایا اور ظہیر احمد نام عطافرمایا۔ مکرم ظہیر احمد کھوکھر صاحب (جو خاکسار کے جامعہ احمدیہ ربوہ کے کلاس فیلو ہیں)نے جامعہ سے شاہد پاس کیا اور بہائیت میں تخصص بھی کیا اور پھر جنوبی افریقہ میں خدمات بجالاتے رہے۔ آجکل لاہور میں تعینات ہیں۔

آپ کے دوسرے بیٹےمکرم فخر احمد کھوکھر صاحب مقیم جرمنی بیان کرتے ہیں کہ ابا جان بتاتے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتا تھا کہ اے اللہ تونے بیٹا عطافرمایا تو میں نے تیری راہ میں وقف کر دیا، وہ اب تیرا ہو گیا ہے۔ تو ہمارے لئے بھی ایک بیٹا عطا فرما!اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو ایک اور بیٹا عطافرمادیا جس کا نام فخر احمد کھوکھر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو حفظ قرآن کی سعادت بھی بخشی ہے۔ مولوی صاحب کی یہ دعا اس رنگ میں بھی پوری ہوئی کہ آپ نے اپنے زندگی کے آخری ایام اپنے بیٹے فخر احمد کھوکھر کے پاس گزارے۔

محترم مولانا منیر الدین احمد صاحب کینیا میں سات سال گزارنے کے بعد 1972ء میں واپس مرکز تشریف لے آئے۔کینیا قیام کے دوران آپ کو پہلے کسموں شہر اور پھر ممباسہ میں خدمت کی توفیق ملی۔مشرقی افریقہ میں آپ کاعرصہ خدمت پہلی بار تین سال اور دوسری بار سات سال رہایعنی کل دس سال آپ کا وہاں قیام رہا۔

سویڈن روانگی

مشرقی افریقہ سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی آپ کاتقرر سویڈن ہو گیا۔ ان ایام میں سویڈن اور ناروے کے مربی مکرم سید کمال یوسف صاحب تھے۔ اور گوٹن برگ میں کرایہ کا مشن ہاؤس تھا۔آپ کے قیام سویڈن کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 1973ء،1975ء اور 1976ء میں سویڈن کا دورہ فرمایا۔پہلے دورہ میں ہی حضورؒ نے سویڈن میں مسجد کے لئے قطعہ اراضی لینے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ 1975ء کے دورہ کے دوران سویڈن کی پہلی مسجد ناصر گوٹن برگ کا حضور رحمہ اللہ نے سنگِ بنیاد رکھا اور اگلے سال اس کا افتتاح فرمایا۔

1976ء میں مولوی صاحب کی مرکز واپسی ہوئی۔ مرکز میں آکر چند ماہ آپ نظارت اصلاح وارشاد کے تحت دہلی گیٹ لاہور متعین ہوگئے اور پھر حضور رحمہ اللہ نے آپ کو دوبارہ سویڈن واپس جانے کاارشاد فرمایا۔سویڈن پہنچ کر حضور رحمہ اللہ کے ارشاد کے تحت ناروے کی مسجد کے لئے جگہ کی تلاش کیلئے مساعی کی توفیق ملی اور مسجد بیت النور اوسلو کی عمارت خریدی گئی۔ جس کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا اور ناروے میں محترم سید کمال یوسف صاحب مشنری انچارج مقرر ہوئے۔ناروے قیام کے دوران برف سے پھسلنے کی وجہ سے مولانا منیر الدین احمد کے دائیں بازو میں فریکچر ہو گیا۔ اس فریکچر کے اثرات آخر عمر تک برقرار رہے اور آپ کے بازو میں خم آگیا جس کی وجہ سے آپ چلتے ہوئے دائیں طرف جھکاؤ رکھتے تھے۔

قیام سویڈن کا ایک اہم واقعہ پروفیسر ڈاکٹر عبدا لسلام صاحب کو نوبیل پرائز ملنے کی تقریب میں شمولیت کا تاریخی موقع تھا۔یہ دسمبر 1979ء کی بات ہے جب عالمی شہرت یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو فزکس میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔اس تقریب میں مولانا منیر الدین احمد صاحب کو بھی شرکت کے لئے بلایا گیا۔ اس موقع پر آپ نے شاہِ سویڈن کو جماعتی لٹریچر بھی پیش کیا۔

آپ کے قیام سویڈن کے دوران ہی ایک اور تاریخی موقع مسجد بشارت سپین کی تقریب سنگ بنیاد بھی تھی۔اس تاریخی موقع کیلئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ بنفس ِنفیس 1980ء میں سپین تشریف لے گئے اور سات سو سال بعد سپین میں بننے والی پہلی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔اس تاریخی تقریب میں محترم مولانا منیر الدین احمد صاحب کو سویڈن سے شمولیت کی سعادت ملی۔ دسمبر 1980ء میں مولوی صاحب سویڈن سے واپس مرکز آگئے اور دارالذکر لاہور میں بطور مربی انچارج لاہور آپ کا تقرر ہوا جہاں آپ کو تین سال خدمت کا موقع ملا۔ اسی دوران خلافت ِرابعہ کے انتخاب 1982ء میں بھی آپ کو شمولیت کی سعادت ملی۔

تقرر بطور انچارج شعبہ رشتہ ناطہ

1983ء میں آپ کو انچارج شعبہ رشتہ ناطہ مقرر کر دیاگیا اور 1987ء تک آپ اس عہدہ پر کام کرتے رہے۔1987ءتا1991ء آپ جہلم شہر میں بطور مربی سلسلہ متعین رہے اور پھر دس سال نظارت اصلاح وارشاد مرکزیہ میں خدمات بجالاتے رہے۔ اس عرصہ میں آپ کو مسجد مبارک ربوہ میں امامت کی سعادت بھی ملی نیز محترم ناظر صاحب اصلاح وارشاد مرکزیہ کی عدم موجودگی میں مسجد اقصیٰ ربوہ میں جمعہ پڑھانے کے مواقع بھی ملتے رہے۔ 2001ء میں آپ کو دوبارہ انچارج شعبہ رشتہ ناطہ مقرر کر دیا گیا۔اور پھر 2007ء تک یہ خدمت بجالاتے رہے۔اس دوران 2004ء میں آپ کو جلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت کا موقع ملا۔اس جلسہ پر آپ کے بیٹے ظہیر احمد کھوکھر صاحب بھی جنوبی افریقہ سے آئے ہوئے تھے اور خاکسار کو جلسہ میں شمولیت کی سعادت ملی تھی۔ اس دوران جماعتی طور پر سیر کرنے والے قافلے میں ہم سیر کے لئے ہمسفر بھی رہے اور مولوی صاحب کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے۔

2005ء میں مولوی صاحب کی اہلیہ وفات پاگئیں جس کے بعد آپ اکیلے رہ گئے۔ آپ کے بیٹے ظہیر احمد کھوکھر صاحب جنوبی افریقہ میں تھے اور وہ اپنی والدہ کی وفات پر ربوہ نہیں آسکے۔مولوی صاحب رخصت لیکر 2007ء میں کچھ عرصہ اپنے بیٹے کے پاس جنوبی افریقہ چلے گئے۔ ربوہ واپس آکر آپ رخصت پر جرمنی اپنے بچوں کے پاس چلے گئے اور شعبہ رشتہ ناطہ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔لندن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوئی تو حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ جرمنی چلے جائیں اور رشتہ ناطہ جرمنی کا کام سنبھالیں۔چنانچہ آپ جرمنی آگئے اور نیشنل سیکرٹری رشتہ ناطہ جرمنی کے آفس میں خدمات بجالاتے رہے۔

آپ کے بیٹے حافظ فخر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ بیت السبوح فرینکفورٹ قیام کے دوران آپ کو ٹھوکر لگنے سے کولہے کی ہڈی میں تکلیف شروع ہو گئی جس کی وجہ سے آپ چھڑی پکڑ کر بہت آہستہ چلا کرتے تھے۔اس کیفیت میں محترم امیر صاحب جرمنی نے ایک مرتبہ کہا کہ میں جب مولوی صاحب کو اس عمر میں اتنی کوشش کر کے جماعتی خدمت کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میں اپنے اندر ایک نئی توانائی محسوس کرتا ہوں اور نیا جذبہ میرے اندر پیدا ہو جاتا ہے۔یوں جب تک ہمت رہی آپ جماعتی خدمت پر کمربستہ رہے اور قیام جرمنی میں پیرانہ سالی کے باوجود آرام کی بجائے جماعتی کام میں لذت محسوس کرتے رہے۔ 10/جنوری 2010ء کو آپ 84سال کی عمر میں جرمنی میں ہی راہی ملک بقا ہوگئے۔آپ کی میت ربوہ لائی گئی اور بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔

قیام جرمنی کے دوران جہاں آپ آخری دموں تک خدمت ِسلسلہ کے لئے مستعد رہے وہاں آپ نے اپنے ذاتی حالات، میدان عمل کے اہم واقعات کو قلمبند کیا اور پھر اشاعت کے لئے روزنامہ الفضل کو بھجوایا۔ آپ کے خود نوشت حالات روزنامہ الفضل اگست 2009ء کے تین شماروں کی زینت بن کر تاریخ احمدیت کا حصہ ہو چکے ہیں۔

شادی اور اولاد

بی۔ اے کرنے کے بعد مولوی منیر الدین احمد صاحب کی پہلی شادی مکرمہ جمیلہ پال صاحبہ بنت فیروز دین پال صاحب کے ساتھ ہوئی۔ آپ کی اہلیہ اول شادی کے ایک سال بعد وفات پاگئیں۔آپ کی دوسری شادی مکرمہ بشریٰ بیگم صاحبہ بنت مکرم غلام مصطفی صادق صاحب (المعروف جی۔ایم۔صادق) کے ساتھ جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1959ء میں ہوئی۔ قبل ازیں جلسہ سالانہ 1957ء کے موقع پر حضرت مصلح موعوؓد نے آپ کے نکاح کا اعلان فرمایا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹیاں اور دو بیٹے عطافرمائے:۔
1۔مکرمہ ثمینہ لطیف صاحبہ اہلیہ مکرم عبداللطیف کھوکھر مقیم جرمنی
2۔مکرمہ طاہرہ منظور صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری منظور احمد مقیم کراچی
3۔ مکرم ظہیر احمد کھوکھر صاحب مربی سلسلہ حال لاہور
4۔ مکرم حافظ فخر احمد کھوکھر صاحب مقیم جرمنی

سیرت کے چند نمایاں پہلو

مولانا منیر الدین احمد صاحب سے کوارٹرز تحریک جدید میں ہماری محلہ داری بھی تھی اور قریبی مراسم بھی۔آپ سے تعلق ربع صدی سے زائد عرصہ تک محیط ہے۔ آپ ہمارے بزرگ بھی تھے اور خاکسارکے والد محترم چوہدری محمد صادق صاحب واقف زندگی سابق اکاؤنٹنٹ وکالت تبشیر کے قریبی دوستوں میں سے بھی۔اکثر آپ دونوں کو نماز عصر کے بعد دوستانہ ماحول میں اکٹھے گفتگو کرتے دیکھا۔ رشتہ ناطہ آپ کا جذبہ بھی تھا اور جنون بھی۔ آپ کے اس جذبہ خدمت سے ہماری فیملی بھی مستفیض ہوئی۔ہمارے خاندان کے بعض رشتے آپ کی تجاویز پر طے ہوئے۔خود خاکسا کےرشتہ کی تجویز بھی آپ کی طرف سے آئی تھی اور جب خاکسار کی شادی ہوئی تواس موقع پر آپ لڑکی والوں کی طرف سے تقریب رخصتانہ کے مہمان ِ خصوصی تھے۔مولانا منیر الدین احمد صاحب کے بڑے بیٹے مکرم ظہیر احمد کھوکھر مربی سلسلہ جامعہ احمدیہ میں میرے کلاس فیلو تھے۔ہم ممھدہ سے شاہد تک ایک سیکشن اور ایک ہی محلہ میں رہے۔

مولانا منیر الدین احمد صاحب کی سیرت کا خلاصہ مسجد، قرآن، جماعتی خدمت اور خدمت ِخلق کے جذبہ کے تحت لوگوں کے عائلی معاملات اور رشتہ ناطہ کے امور میں معاونت تھا۔نماز پنجگانہ باجماعت توایک مومن کا خاصہ اور لازمہ ہوتی ہے اور آپ اس کے پابند تھے۔ قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا جذبہ آپ میں موجزن تھا اور یہ فریضہ آپ تادم آخر ادا کرتے رہے۔

خدمت ِ سلسلہ کا یہ عالم تھا کہ آپ کے بیٹے حافظ فخر احمد کھوکھر خاکسار سے بیان کرتے ہیں کہ ابا جان کو 2001ء میں جرمنی آنے کا موقع ملا۔جرمنی میں ایک موقع پر آپ کے جاننے والے ایک مربی صاحب نے آپ کو مشورہ دیا کہ مولوی صاحب آپ نے لمبا عرصہ جماعت کی خدمت کی ہے اب آپ ضعیف العمری میں ہیں اس لئے خدمت سے رخصت لیکر یہاں جرمنی میں اسائلم کر کے اپنے بچوں کے پاس وقت گزاریں۔ آپ نے انکے اس مشورہ کو یکسر رد کر تے ہوئے کہا کہ اُس اسائلم کا کیا کروں جو اُدھر کروایا ہوا ہے یعنی وقف زندگی کے حصار میں اپنے آپ کو مقید کیا ہوا ہے۔اہلیہ کی وفات کے بعد آپ اکیلے رہ گئے تو بڑھاپے میں جرمنی آئے اور یہاں بھی گھر کے آرام کو ترجیح نہیں دی بلکہ جماعتی خدمت میں ہی پیرانہ سالی کے باوجود وقت گزارا۔

آپ بہت شگفتہ مزاج کے حامل تھے۔ لوگوں کے ساتھ بے تکلفی سے گھل مل جاتے۔ مسکراہٹ آپ کے چہرے کا حصہ تھی۔اس شگفتہ مزاجی اور بے تکلفی کی وجہ سے آپ ہر دلعزیز تھے۔ چنانچہ آپ نے لوگوں کے رشتہ ناطہ کے مسائل حل کرنے میں ذاتی دلچسپی کے ساتھ سعئ جمیلہ کی۔آپ دس سال سے زائد عرصہ انچارج شعبہ رشتہ ناطہ رہے۔ اس عرصہ کے علاوہ بھی آپ میدان ِ عمل اور اصلاح وارشاد مرکزیہ میں رہتے ہوئے بھی رشتہ ناطہ کے حوالہ سے نافع الناس وجود بنے رہے۔یہ بہت بڑی خدمتِ خلق اور غیر معمولی ملکہ تھا جو آپ کو طبعاً حاصل تھا۔

مولانا منیر الدین احمد صاحب کا شمار ان معدود ے چند واقفین میں ہوتا ہے جنہوں نے تربیت اور دعوت الی اللہ کی غرض سے سلائیڈز دکھانے کا سہارا بھی لیا۔ ستر اور اسی کی دہائی میں سلائیڈز دکھا کر جماعتی ترقیات کا بیان کر نا اور احباب جماعت میں نظام جماعت سے محبت، جذبہ وقف اور مالی قربانی کی روح پیدا کرنے کیلئے ایک مفید اور پُر کشش ذریعہ تھا۔ چنانچہ آپ نے بھی یہ طریق اپنایا اور اپنے بے تکلف انداز میں سلائیڈز دکھاتے ہوئے روانی کے ساتھ انکی تفصیل بتایا کرتے تھے۔

میدانِ عمل کی مشکلات اور عزیزوں اور بچوں سے دوری اور ہمہ تن جماعتی خدمت میں سرگرم عمل رہنا پرانے مربیان کی سیرت کا لازمہ رہے ہیں۔آپ مشرقی افریقہ دو بار گئے اور بحری جہاز کے مشکل سفر کئے۔ پہلی بار تین سالہ عرصہ فیملی کے بغیر رہے۔ شادی کے تقریباً ایک سال بعد افریقہ چلے گئے۔ روانگی سے چند روز قبل آپ کے ہاں پہلی بیٹی کی ولادت ہوئی اور پھر جب آپ واپس آئے تو وہ تین سال کی ہو چکی تھی۔ یورپ آپ دو دفعہ متعین رہے اور یہ عرصہ بھی آپ فیملی کے بغیر وہاں رہے۔ یوں آپ تقریباً گیارہ سال اپنی فیملی کے بغیر بیرون ملک خدمات ِ سلسلہ بجالاتے رہے۔ آپ نے اپنے وقف کے عہد کو خوب نبھایا۔ جب آپ مستقلاً جرمنی آگئے ہیں تو آپ کی عمر تقریباً 82سال ہو چکی تھی۔ اس عمر میں بھی وہاں بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی بجائے وہاں شعبہ رشتہ ناطہ میں خدمات بجالاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے۔آپ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ہمیں اپنے اسلاف کی اقدار کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد کو آپ کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے اور انہیں آپ کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

(محمد محمود طاہر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 7 جولائی 2020ء