• 23 اپریل, 2024

بچوں کی نیک تربیت

تبرکات: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ

محترمہ مدیرہ صاحبہ رسالہ ’’مصباح‘‘ نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ ’’مصباح‘‘ کا ایک تربیتی نمبر نکالنا چاہتی ہیں اور انہوں نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں اِس نمبر کے لئے کوئی مختصر سا نوٹ لکھ کر ارسال کروں۔ آجکل مجھے بلڈپریشر کی زیادتی کی تکلیف ہے اور دورانِ سر کا عارضہ بھی رہتا ہے۔ دوسری طرف جلسہ سالانہ کے قرب کی وجہ سے کام بھی زیادہ ہے مگر میں اس کارِ خیر کی شرکت سے محروم بھی نہیں رہنا چاہتا۔ اس لئے چند سطریں مصباحی بہنوں کے لئے لکھ کر بھجوا رہا ہوں۔

میرے دل و دماغ پر یہ خیال ہمیشہ غالب رہا ہے کہ بعض لحاظ سے تربیت کا پہلو تبلیغ کے پہلو سے بھی زیادہ ضروری اور اہم ہے کیونکہ اگر ہم تبلیغ کے ذریعہ ساری دنیا کو بھی مسلمان بنا لیں یا سارے مسلمانوں کو احمدی کر لیں مگر وہ پکے اور سچے مسلمان نہ ہوں تو ایسے لوگوں کا ہمیں چنداں فائدہ نہیں بلکہ اس قسم کے لوگ اسلام اور احمدیت کی بدنامی کا موجب ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر تعداد تو تھوڑی ہو مگر مسلمان ہونے والے یا احمدی بننے والے پکے اور مخلص ہوں تو خدا کے فضل سے اس قسم کی تھوڑی تعداد بھی بڑی طاقت کا موجب ہو سکتی ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِ

(البقرہ:250)

یعنی کتنے ہی تھوڑی تعداد کے لوگ ہوتے ہیں جو خدا کے حکم سے (یعنی اس کے احکام پر عمل کر کے) بڑی بڑی تعداد والوں پر غالب آ جاتے ہیں۔

پس تربیت کا سوال بڑا ضروری ہے اور بڑا اہم ہے اور مجھے بڑی خوشی ہے کہ مدیرہ صاحبہ رسالہ ’’مصباح‘‘ نے اس کی طرف خاص توجہ دینے کا ارادہ کیا ہے۔ خدا کرے کہ وہ اس ارادہ میں کامیاب ہوں اور احمدی ماؤں میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے بچوں میں اور خصوصاً اپنی لڑکیوں میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم بچپن کے زمانہ میں ہی ایسی راسخ کر دیں کہ وہ اسلام کی جیتی جاگتی تصویر بن جائیں اور انہیں دیکھ کر لوگ خوش ہوں کہ اُن کے چہروں پر دینداری اور روحانیت کا نور نظر آتا ہے۔

یاد رکھنا چاہئے کہ تربیت کا زمانہ بچے کی ولادت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لئے ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کے پیدا ہوتے ہی اس کے دائیں کان میں اذان کے الفاظ دُہرائے جائیں اور اُس کے بائیں کان میں اقامت کے الفاظ دُہرائے جائیں۔ اس حدیث میں اذان ایمان کی قائم مقام ہے اور اقامت عمل کی قائم مقام ہے۔ گویا یہ تعلیم دی گئی ہے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے ایمان اور عمل کی تربیت کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے اور ماں باپ کو شروع سے ہی اِس کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ بعض والدین اس غلطی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ پیدا ہونے والا بچہ تو گویا صرف گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے اور بعد میں بھی وہ کئی سال تک دینی اور اخلاقی باتوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتا۔ مگر ایسا خیال کرنا بڑی غلطی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر شعوری طور پر ولادت کے ساتھ ہی تاثر اور تاثیر کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے اور والدین کا فرض ہے کہ اِسی زمانہ سے بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں اور نگرانی شروع کر دیں۔ آجکل علم النفس کی ترقی نے بھی یہی بات ثابت کی ہے جو ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے بظاہر امّی ہونے کے باوجود عرب کے صحراء میں فرمائی تھی کہ بچہ کی ولادت کے ساتھ ہی اس کی تربیت کا انتظام کرو۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ ماؤں کے قدموں کے نیچے بچوں کے لئے جنت ہے اِس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر مائیں بچپن سے ہی بچوں کی اچھی تربیت کریں اور ان کے اعمال کی نگرانی رکھیں تو وہ ان کو جنت کے رستہ پر ڈال کر ابدالآباد کی نعمتوں کا وارث بنا سکتی ہیں۔

پس میں اپنے اس مختصر سے نوٹ کے ذریعہ احمدی ماؤں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بچپن سے ہی بلکہ بچوں کی ولادت کے ساتھ ہی ان کی تربیت کا خیال رکھنا شروع کر دیں اور ان کو ایسے رستہ پر ڈال دیں جو جنت کا رستہ ہے تاکہ بڑے ہو کر وہ اسلام اور احمدیت کے بہادر سپاہی بن سکیں اور ان کے دلوں میں خدا کی محبت اور رسولؐ کی محبت اور مسیح موعودؑ کی محبت ایسی راسخ ہو جائے کہ وہ اس کے لئے ہر جائز قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں۔

تربیت کے معاملہ میں ماؤں کو جن خاص باتوں کا خیال رکھنا چاہئے وہ خدا کے فضل سے قرآن مجید میں تفصیلی طور پر مذکور ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب کشتی نوح اور ملفوظات میں بھی ان پر خاص زور دیا گیا ہے۔ احمدی ماؤں کو چاہئے کہ اِن کتابوں کو پڑھیں اور پھر بچوں کی تربیت میں اِن کتابوں میں درج شدہ ہدایات پر عمل کریں۔ اس خاکسار کے 2 رسالے بھی تربیت کے معاملہ میں ماؤں کے اچھے مددگار بن سکتے ہیں اور احمدی مائیں ان سے بھی کافی فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ان رسالوں کے نام یہ ہیں۔

  1. اچھی مائیں
  2. جماعتی تربیت اور اس کے اصول

مختصر طور پر احمدی ماؤں کو چاہئے کہ اپنے بچوں میں خصوصیت کے ساتھ مندرجہ ذیل صفات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یعنی خدا اور رسولؐ اور مسیح موعودؑ کی محبت۔ خلافت کے ساتھ وابستگی۔ نماز کی پابندی۔ دعاؤں کی عادت۔ سچ بولنے کی عادت۔ جماعت کی مالی امداد میں حصہ لینا۔ بوقتِ ضرورت اسلام اور احمدیت کے لئے ہر جائز قربانی کے واسطے تیار رہنا۔ تبلیغِ اسلام کا جذبہ۔ دیانت داری۔ گالی گلوچ سے پرہیز۔ ہمدردیٔ خلق اللہ۔ مرکز کی طرف سے جاری شدہ تنظیموں یعنی اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ میں منظم ہو کر رہنا وغیرہ وغیرہ۔

نیز احمدی والدین کو یہ بھی چاہئے کہ جب وہ جلسہ سالانہ یا دوسرے اجتماعوں کے وقت مرکز میں آئیں تو حتی الوسع اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائیں اور ان کو سلسلہ کے مختلف ادارے دکھا کر بتائیں کہ یہاں خدمتِ دین کا یہ یہ کام ہوتا ہے تاکہ ان کے دل میں دلچسپی اور وابستگی پیدا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے بھی ملائیں۔

سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ماں باپ کا یہ فرض ہے کہ ہمیشہ اپنے بچوں کی دینی اور دنیوی بہتری کے لئے خدا کے حضور دردِ دل سے دعائیں کرتے رہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ سب احمدی والدین ضرور ایسا کرتے ہوں گے لیکن جس بات پر میں اس جگہ خاص زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ احمدی والدین کو چاہئے کہ اپنی دعاؤں میں صرف دنیا کی ترقی کو ہی مدنظر نہ رکھیں بلکہ لازماً اپنے بچوں کی دینی اور روحانی ترقی کی دعا کو بھی اپنی روزمرہ کی دعاؤں میں شامل کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں کہ ماں باپ کی دعا بچوں کے حق میں خاص طور پر زیادہ قبول ہوتی ہے اور وہ والدین بڑے بدقسمت ہیں جو اپنے بچوں کو ان دعاؤں سے محروم رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنے کی توفیق دے تاکہ جماعت کی آئندہ نسلیں ہمیں بدنام کرنے والی نہ بنیں بلکہ اسلام اور احمدیت کے نام کو روشن کرنے والی بنیں اور ہم خدا کے حضور سرخرو ہو کر پہنچیں۔ آمِیْنَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ

(محررہ 18نومبر 1961ء)

(ماہنامہ مصباح ربوہ دسمبر، جنوری 1961-62ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 7 جولائی 2020ء