• 22 اپریل, 2024

جلسے کا ماحول

جلسے کا ماحول اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ماحول ہوتا ہے کہ ہر سعید فطرت پر یہ نیک اثر ڈالتا ہے۔ بعض غیر از جماعت اور غیر مسلم لوگ صرف اس لئے جلسے میں شامل ہوتے ہیں کہ دیکھیں ان سے تعلق رکھنے والے احمدی ان غیر از جماعت دوستوں کو جلسے کی برکات کے بارے میں جو بتاتے ہیں وہ کس حد تک صحیح ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے۔ اور جب یہ غیر دوست یہاں آ کر جلسے میں شامل ہوتے ہیں تو پھر اکثر یہی کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں جلسے کے بارے میں بتایا گیا اس سے بہت زیادہ ہم نے مشاہدہ کیا۔ اور بعض پر اس کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ بیعت کر لیتے ہیں۔ اس دفعہ بھی دو مہمانوں نے جو رشیا سے تھے جلسے کا ماحول دیکھ کر بیعت کی۔ اسی طرح گوئٹے مالا اور چلّی اور کوسٹا ریکا کے امریکن ممالک کے بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے جلسے پر عالمی بیعت کے دوران تو بیعت نہیں کی لیکن انتہائی متأثر تھے۔ تمام جلسہ سنا پھر مجھ سے ملاقات کی اور کہنے لگے ہمیں افسوس ہے کہ ہم بیعت نہیں کر سکے۔ ہمارے دل بالکل اس طرف مائل ہیں۔ ہم نے حقیقت کو، سچائی کو پہچان لیا ہے، سمجھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھا ہے کہ کس طرح جماعت پر نازل ہوتے ہیں اور ہم بھی اب بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری بیعت لے لیں۔ چنانچہ کل ایسے چھ افراد، چار مرد اور دو خواتین نے ظہر کی نماز کے بعد بیعت کی۔

۔۔۔۔۔۔ جنہوں نے وہاں بیعت نہیں کی تھی لیکن کل کی۔ ان میں سے ایک دوست سمیع قادر صاحب ہیں جو گوئٹے مالا میں رہتے ہیں۔ اردن سے ان کا تعلق ہے۔ کاروبار کے سلسلے میں وہاں ہیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے اس جلسے میں باہمی اخوت و محبت کی وہ عملی صورت دیکھی جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جلسہ سالانہ کے بہترین انتظامات، نظم و ضبط، احباب کا اخلاص و وفا اور باہمی ہمدردی اور اخوت کے جذبے نے بہت متأثر کیا۔ اور اس حدیث مبارکہ کی عملی تصویر دیکھی کہ مومنین کی باہم محبت و اخوت کی مثال اس جسم کی طرح ہے کہ جس کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کارکنان جلسہ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

اسی طرح کوسٹا ریکا سے آنے والے وفد میں حیدر سَبِیْلِیَا صاحب شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے جماعت احمدیہ کے اعلیٰ انتظام نے بہت متأثر کیا۔ جماعت احمدیہ کے ہر ممبر کا اپنے ذمہ لگائی گئی ڈیوٹی کو اخلاص کے ساتھ ادا کرنے نے از حد متاثر کیا۔ مَیں دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگوں سے مل کر، ان سے گفتگو کر کے اور ان کے ساتھ باہمی تبادلہ خیالات کر کے بہت خوش ہوا ہوں۔ جلسے میں شمولیت سے حقیقی اسلام کی طرف میری توجہ مزید بڑھی ہے اور اس حوالے سے اخلاص اور ایمان نے ترقی کی ہے۔ اور خلیفۂ وقت کے خطابات، نصائح اور رہنمائی بغیر شیعہ اور سنّی کی تمیز کے تمام مسلمانوں کے لئے ہیں۔ پھر کوسٹا ریکا سے ہی ایک خاتون ڈیانا نعیمہ (Diana Naima) صاحبہ کہتی ہیں۔ جلسے میں شمولیت ایک انوکھا تجربہ تھا۔ دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مختلف اقوام و نسل کے لوگوں کے باہمی پیار و محبت نے میرے دل پر گہرا اثر کیا ہے۔ اس فضا نے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد کروا دیا۔ مجھے یقین ہے کہ جماعت احمدیہ ترقی کرے گی اور اس کے ذریعے اسلام کا محبت بھرا پیغام بھی پھیلتا چلا جائے گا۔ انہوں نے بھی کل بیعت کی ہے۔

اسی طرح کل بیعت کرنے والوں میں گوئٹے مالا، چلّی، کوسٹا ریکا سے آنے والے جیسا کہ میں نے کہا چار مرد اور خواتین تھیں۔ ان سب نے (جلسہ کا) سارا نظارہ دیکھ کر، عالمی بیعت کا نظارہ دیکھ کر جب ان کو مکمل شرح صدر ہوا تو پھر انہوں نے بیعت کی۔

پس جماعت احمدیہ جو اسلام کا خوبصورت پیغام دیتی ہے اور بغیر دوسروں پر گند اچھالے، بغیر کسی پر تنقید کئے ایک وحدت پر جمع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور پھر اس کا پیار اور محبت کا جو نظارہ ہر آنے والے کو نظر آتا ہے۔ آپس میں سلوک کا، دوسروں سے سلوک کا جو نظارہ ہر آنے والا دیکھتا ہے۔ وہ ہر ایک کو مجبور کرتا ہے کہ حقیقی اسلام کے اس نمونے کو دیکھ کر اس کا حصہ بنیں۔ یا کم از کم یہ ضرور ہوتا ہے کہ اسلام پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کا اثر یہاں آ کر ہمیں دیکھنے والوں پر سے زائل ہو جاتا ہے۔ یہ نظارے ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ ہمیں دکھاتا رہا، اب بھی دکھا رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ ہی اسلامی تعلیم کبھی پرانی ہوئی اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدات کا ہاتھ کبھی جماعت احمدیہ پر سے اٹھایا ہے۔

ایک دفعہ ایک خاندان نے پاکستان میں مجھے بتایا کہ ان کی ایک بزرگ خاتون تھیں جو جماعت کی مخالف تھیں لیکن خاندانی نظام وہاں کا ایسا ہوتا ہے کہ اکٹھے رہتے تھے۔ کبھی وہ جلسے پر نہیں آیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ مجبوری ہوئی، ان کو ساتھ ربوہ جانا پڑ گیا اور پھر بہانے سے ان کے رشتے دار اُن کو جلسے پر بھی لے گئے۔ سارا نظام بھی دکھایا۔ وہ یہ کہا کرتی تھیں کہ ربوہ والے جادو کر دیتے ہیں اس لئے وہاں نہیں جانا۔ بہرحال جلسے کا ماحول دیکھ کر، تقریریں سن کر، لنگر خانوں کا نظام دیکھ کر انہوں نے بیعت کر لی۔ یہ خلافت ثانیہ کا واقعہ ہے جو ایک خاندان نے مجھے بتایا تھا۔ پھر ہر خلافت کے دَور میں ہم نے یہی کچھ دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب بھی کوئی جلسے پر آیا نیک اثر لے کر گیا یا نیک اثر نے اس کو گھائل کیا اور بیعت کر کے اس سلسلے میں شامل ہو گیا۔ پس یہ نشان ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی صداقت کی یہ دلیل ہے۔ یہ خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا نشان ہے۔ جو باتیں ہم دیکھتے ہیں یہ انسانی کوششوں سے تو پیدا نہیں ہو سکتیں۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ جلسے کا ماحول ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے اور اس میں شامل ہونے والا ہر احمدی اور ہر کارکن ایک خاموش مبلغ ہوتا ہے۔ تمام غیر مہمان یہ نظام دیکھ کر کہ خاموشی سے سب کام ایک دھارے میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔ کوئی panic نہیں۔ کوئی افراتفری نہیں ہے۔ کہیں کوئی سختی یا سخت کلامی نظر نہیں آتی بلکہ مسکراتے چہرے نظر آتے ہیں۔ چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھے مرد عورتیں خدمت کے جذبات سے سرشار ہوتے ہیں۔ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ چیزیں دیکھ کر غیروں پر جماعت کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ اور جو احمدی پہلی بار جلسے میں شامل ہوئے ہوتے ہیں ان کے ایمان میں بھی یہ ماحول بے انتہا ترقی کا باعث بنتا ہے بلکہ ہمیشہ شامل ہونے والے بھی نئے سرے سے چارج ہوتے ہیں اور اپنے ایمان و ایقان میں ترقی اور اضافہ کر کے یہاں سے جاتے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 5؍ ستمبر 2014ء بحوالہ خطبات مسرور جلد12 صفحہ 528،531)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اکتوبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ