• 20 اپریل, 2024

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 20۔ حصہ اول)

سیّدنا امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورہٴ امریکہ 2022ء
15؍اکتوبر 2022ء بروز ہفتہ
مبلغین سلسلہ کی حضور سے میٹنگ اور مبلغین کو قیمتی نصائح و ہدایات
قسط 20۔ حصہ اول

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح چھ بج کر پندرہ منٹ پر مسجد بیت الرحمٰن میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

• صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے مختلف ممالک سے بذریعہ Fax اور ای میل کے ذریعہ آنے والے خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ نیز حضور انور کی مختلف دفتری امور کی ادائیگی میں مصروفیت رہی۔

فیملیز ملاقاتیں اور تاثرات

• پروگرام کے مطابق صبح گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

آج صبح کے اس سیشن میں 37فیملیز کے162 افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ہر ایک نے اپنے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

آج ملاقات کرنے والی فیملیز اور احباب Marry Land کی مقامی جماعت کے علاوہ امریکہ کی دیگر مختلف 25جماعتوں سے آئے تھے۔ جن میں سے بعض بڑے لمبے اور طویل سفر طے کر کے پہنچے تھے۔

جماعت Albany سے آنے والے 353میل اور جماعت Chaaarlotte سے آنے والے 422میل اور بوسٹن (Boston) سے آنے والے427میل کا سفر طے کر کے پہنچے تھے۔

آج بھی ملاقاتیں کرنے والوں میں بہت سے ایسے احباب اور فیملیز تھیں جو اپنی زندگی میں پہلی بار اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پا رہی تھیں۔

• ایک دوست سہراب احمد صاحب نے بتایا کہ میری زندگی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ میرا دل سکون اور محبت سے بھر گیا ہے۔ چند لمحات تھے جو میں نے خلیفۃ المسیح کے پاس گزارے لیکن یہ میرے لیے نا قابل یقین حد تک یادگار ہیں۔ میں انہیں کبھی بھول نہیں سکتا۔

• شمیر گوہر ملک صاحب جو جماعت سنٹرل جرسی سے آئے تھے۔ کہنے لگے کہ میں نے اپنے بچپن میں جب بہت چھوٹا تھا حضور انور کو دیکھا تھا۔ آج میں ایک بالغ ہونے کی حیثیت سے زندگی میں پہلی بار مل رہا ہوں۔ اس وقت میرے جذبات ایسے ہیں کہ میں ایک عجیب سرور اور لذّت محسوس کر رہا ہوں۔ ملاقات کی یہ سعادت ایک عظیم نعمت ہے۔ ہر کسی کو حضور انور سے ملنے کا موقع نہیں ملتا۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ یہ سعادت نصیب ہوئی۔

• علی عمر صاحب جماعت Clevelandسے آئے تھے کہنے لگے کہ اس وقت جذبات ایسے ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ بس ہم بہت خوش قسمت ہیں اور بہت خوش ہیں۔ حضور نے ہمیں بہت پیار دیا۔ ہمیں بھی تحفہ دیا، ہمارے بچوں کو بھی تحفہ دیا۔

• ایک صاحب شاہین خان صاحب جماعتQueensسے آئے تھے۔ ان کی اہلیہ بات کرتے ہوئے رونے لگ گئیں۔ کہنے لگیں ہماری خوشی نا قابل بیان ہے ہم بارہ تیرہ سال علیحدہ رہے ہیں۔ خاوند امریکہ آگئے اور اسائیلم کیا۔ کیس پاس ہوا تو پھر ہم آئے اور آج ہماری اکٹھی فیملی کی حضور انور سے ملاقات ہو گئی۔ ان کے دل خوشی کے جذبات سے بھرے ہوئے تھے اور مزید بات نہ کر سکے۔

• ملاقاتوں کا پروگرام دوپہر ایک بجے تک جاری رہا۔

مبلغین امریکہ کی اپنے آقا سے میٹنگ
اور قیمتی نصائح

• بعد ازاں پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میٹنگ ہال میں تشریف لے آئے جہاں جماعت امریکہ کے مبلغین کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغین کی تعداد کے حوالہ سے استفسار فرمایا جس پر مبلغ انچارج صاحب نے عرض کیا کہ فیلڈ میں 40مربیان ہیں۔ دو مربیان دفتر میں ہیں اور کچھ ان دیگر ممالک میں جو جماعت امریکہ کے سپرد ہیں۔

• اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کے ساتھ میٹنگ کا آغاز کیا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ امریکہ میں مبلغین کی تعداد تو دس سال پہلے کی نسبت دو گنا ہو چکی ہے۔

حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آج سے دس سال پہلے آپ کی بیعتیں کتنی ہوتی تھیں؟

اس پر مبلغ انچارج نے عرض کیا کہ دس سال پہلے ہماری رفتار کافی تیز تھی۔ ہر سال تقریباً 200 کے قریب ہو جاتی تھیں۔ لیکن اب کمی ہو گئی ہے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ دس سال پہلے 200بیعتیں ہو رہی تھیں اور مربیان 20تھے۔ اب 40مربیان فیلڈ میں ہیں اور گزشتہ سال صرف 65بیعتیں ہوئی ہیں۔ اس پر مبلغ انچارج نے عرض کیا کہ Covid کی وجہ سے کام Slow ہوا ہے۔

• اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اب تو کووڈ کو ختم ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ اب تو کوئی excuse نہیں ہونا چاہئے اور ویسے بھی کووڈ تو 3سال سے چل رہا ہے۔ آپ کو مختلف طریقے explore کر لینے چاہئے تھے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ دس سال پہلے جماعت کی کل تعداد کتنی تھی اور اب کتنی ہے؟ مبلغ انچارج نے عرض کیا کہ اس وقت امریکہ میں احمدیوں کی تعدادا 22ہزار کے لگ بھگ ہے۔

• اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اب اگر 22 ہزار ہے تو دس سال پہلے پانچ ہزار ہو گی۔ جب میں 2012ء میں آیا ہوں، اس وقت جلسہ کی حاضری پانچ، چھ ہزار تھی۔ باہر سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جماعتوں میں لوگ آگئے ہیں، مربیان کا کام ہے ان لوگوں کو بھی ساتھ Mobilize کریں۔ ان کو بھی تبلیغ کی طرف لیکرآئیں اور خود بھی پلان بنائیں۔ اب تو کووڈ کا بہانہ ختم ہو گیا ہے۔ اب کووڈ ہو بھی جائے تو کہتے ہیں کہ تین دن کے بعد آجاؤ، کچھ نہیں ہوتا۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اب تو مزید excuse نہیں ہونا چاہئے۔ پچھلے تین سال سے کووڈ چل رہا تھا۔ اگر ہر سال 5,5مبلغین آتے ہیں تو تین سال قبل بھی آپ کے پاس پچاس مبلغین تھے۔ جب تعداد پچیس تھی تو اس وقت بھی اتنی بیعتیں نہیں ہو رہی تھیں جتنی آج سے بیس سال پہلے ہوتی تھیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغ انچارج سے فرمایا: اپنے مربیان کو تھوڑا کھینچیں۔ ان سے پوچھیں ان کا تبلیغ کا کیا پلان ہے۔ تربیت کا کیا پلان ہے؟ ان کے تبلیغ کے اور تربیت کے ٹارگٹ کیا ہیں۔ کیا issues ہیں جو ان کو جماعتوں کی طرف سے face کرنے پڑتے ہیں؟ ان کو کیسے address کرنا ہے؟ اور ان کو صحیح tackle کرنے کے کیا طریقے کار ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہر ماہ میٹنگ کیا کریں۔ آن لائن میٹنگ کر لیا کریں۔ سارے مبلغین سے پوچھا کریں کہ ان کا کیا ٹارگٹ ہے اور کتنا achieve کیا ہے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شمشاد ناصر صاحب سے دریافت فرمایا کہ آپ نے اپنے لیے بیعتوں کا کیا ٹارگٹ رکھا ہے؟

• اس پر مبلغ صاحب نے عرض کیا کہ ٹارگٹ تو ابھی نہیں رکھا۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بہتر سال کے ہو گئے ہیں، اب نہیں کرنا تو کب کرنا ہے۔

• اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر مربی سلسلہ فراست احمد صاحب نے عرض کیا کہ ان کے سپرد دو جماعتیں ہیں۔ ایک جماعت کی تجنید 235 اور دوسری کی 212 ہے۔

• بعد ازاں ظہیر باجوہ صاحب نے عرض کیا کہ ان کے سپرد ڈیلس اور فورٹ ورتھ کی جماعت تھی لیکن اب وہ ہیو سٹن جا رہے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر موصوف نے عرض کیا کہ ڈیلس میں جماعت کی تجنید پانچ سو تھی اور فورٹ ورتھ میں تقریباً تین سو تجنید تھی۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر موصوف نے عرض کیا کہ ڈیلس میں تو تمام افراد سے رابطہ تھا تاہم فورٹ ورتھ میں پچاس فیصد لوگوں تک رابطہ تھا۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ کتنا رابطہ تھا؟ صرف السلام علیکم وعلیکم السلام کی حد تک یا ان کو کچھ نمازوں وغیرہ کے لیے بھی کہتے تھے، ان کو تربیت کے لیے بھی کہتے تھے، قرآن شریف پڑھنے کے لیے کہتے تھے، خطبات سننے کے لیے کہتے تھے۔ اس کا کیا result تھا۔ آپ نے کوئی تبلیغ پلان دیا تھا؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایا: جہاں جہاں مربیان ہیں، ان کی داعیان الی للہ کی کوئی ٹیم بنی ہوئی ہے ؟ ہاتھ کھڑے کریں۔ بتائیں کہ کہاں کہاں داعی الی للہ کی باقاعدہ ٹیم بنی ہوئی ہے اور کام کر رہی ہے۔

اس پر بعض مبلغین نے ہاتھ کھڑے کئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ تقریباً آدھی جگہوں پر ٹیمیں ہیں۔ باقی جگہوں میں بھی داعی الی للہ بنانے چاہئیں۔ آپ خود کتنا کام کر سکتے ہیں، لوگوں کو motivate کرنا ہو گا کہ وہ بھی اس کام میں آگے آئیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغ انچارج سے فرمایا کہ آپ کو ایک ہزار بیعتوں کا ٹارگٹ دیا ہے۔ کیا آپ نے مربیان میں تقسیم کر دیا ہے۔ مربیان کو بتا دیا ہے کہ آپ کی جماعت کا یہ ٹارگٹ ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر مبلغ انچارج نے عرض کیا کہ گزشتہ سال کے دوران ان کی 65 بیعتیں تھیں۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میرا تو خیال تھا کہ 165بیعتیں تھیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ جو بیعتیں ہوتی ہیں وہ کس ذریعہ سے ہوتی ہیں؟ داعیان کے ذریعہ سے ہوتی ہیں یا ویسے کسی Personal contact سے ہوتی ہیں۔ شادی کروانے کے لئے ہوتی ہیں یا مربیان کے ذریعہ سے ہوتی ہیں؟

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جس طرح بھی ہوتی ہیں ان کو آخر کار سنبھالنا مربیان نے ہی ہے۔ اگر کسی دور کے علاقہ سے ہیں اور مربی ہر جگہ نہیں پہنچ سکتا تو مربیان کے پاس ایک ٹیم ایسی ہونی چاہئے جو نو مبائعین سے رابطہ کریں۔ پھر سیکرٹری تربیت برائے نو مبائعین کو بھی اور صدر جماعت کو بھی تھوڑا push کریں اور پھر نو مبائعین سے رابطہ رکھیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مربیان کا جو یہ خیال ہے کہ یہ انتظامی معاملہ ہے، اس لیے صدر جماعت اور سیکرٹری تربیت برائے نو مبائعین خود ہی کام کرے گا اور ہم نے کچھ نہیں کرنا، یہ غلط ہے۔ آپ نے ہی تربیت کے لیے بھی اور تبلیغ کے لیے بھی نگرانی کرنی ہے۔ آپ نے ہی ان کو guideکرنا ہے، آپ نے ہی ان کی راہنمائی کرنی ہے۔ جہاں تبلیغ اور تربیت کا معاملہ ہے اس میں تو بہر حال آپ کو تھوڑی سی دخل اندازی کرنی ہے۔ مال کے معاملہ میں ٹھیک ہے، دخل اندازی نہیں کرنی، امور عامہ کے معاملہ میں دخل اندازی نہیں کرنی۔ یا دوسرے بعض شعبے ہیں وہاں تک تو ٹھیک ہے۔ ہاں اگر کوئی مشورہ مانگے تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں۔ لیکن تبلیغ اور تربیت میں تو بہر حال آپ کو پوچھنا چاہیے۔ اسی کام کے لیے مربیان مقرر کیے گئے ہیں۔ آپ نے تربیت اور تبلیغ کو ضرور دیکھنا ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق اپنا پلان بنائیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر آپ خودactive ہو جائیں گے تو صدر جماعت کو خود پتا لگ جائے گا کہ مربی کو اپنے کام کا پتا ہے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغین کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: جب آپ اپنے سینٹر میں ہیں تو پانچ وقت نمازوں کے لیے اپناسینٹر کھولیں۔ اگر مسجد ہے تو مسجد کھولیں۔ لوگوں کو پتہ ہو کہ مربی صاحب available ہیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دوسری چیز یہ ہے کہ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں۔ دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ تہجد کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ نوافل کی طرف توجہ دیں۔ قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دیں، مسیح موعود علیہ ا لسلام کا لٹریچر پڑھنے، کتب پڑھنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر سارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر ہی غور سے پڑھ لیں تو اس سے ہی علم میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس سے آپ کی graspہو جائے گی اور چیزوں کی اچھی طرح سمجھ آجائے گی۔ پھر باقی کتابیں بھی تفصیل سے پڑھیں۔ اپنے علم کو بڑھائیں، اپنی روحانیت کو بڑھائیں اور اسی کا اثر جماعتوں کی انتظامیہ پر بھی ہو جائے گا اور جب ان پر یہ اثر ہو جائے گا تو آپ کے بہت سارے شکوے خودبخود دور ہو جائیں گے۔ ان کو پتہ ہو گا کہ ہمارے مربی کا اللہ تعالیٰ سے بھی تعلق ہے اور ہمارے ساتھ بھی ہمدردی کا تعلق ہے اور لوگوں کا بھی مربی صاحب کے ساتھ تعلق ہے۔ جب لوگوں کا آپ کے ساتھ تعلق ہو جائے گا تو انتظامیہ خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہے۔ باقی چھوٹے موٹے سوالوں کے پیچھے پڑنے کی بجائے کہ صدر نے ہمیں یہ کہہ دیا، جنرل سیکرٹری نے ہمیں یہ کہہ دیا، ہمیں فلاں کام سے روک دیا۔ آپ نے اپنا کام کرنا ہے اور کرتے چلے جانا ہے۔ آپ کو کوئی نہیں روک سکتا، خود راستے نکالنے ہوں گے۔ باقی بہانے ہوتے ہیں کہ فلاں نے روک دیا۔ جنہوں نے کام کرنا ہوتا ہے وہ ساری روکوں کے باوجود کرتے ہیں اور بڑا اچھا کام کرتے ہیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بعض انتظامی معاملات ہوتے ہیں۔ آپ کا کام ہے کہ اپنا کام کئے جائیں۔ یہ بہانے بالکل غلط ہیں کہ انتظامیہ ہمیں کچھ کرنے نہیں دیتی۔ آپ کے کام سے انتظامیہ کا کوئی تعلق نہیں۔ انتظامیہ آپ کو پانچ نمازیں پڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ انتظامیہ آپ کو اپنے نوافل پڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ انتظامیہ آپ کو قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ انتظامیہ آپ کو اپنی روحانی حالت میں بڑھنے سے نہیں روک سکتی انتظامیہ آپ لوگوں کو personal Contact کرنے سے نہیں روک سکتی۔ انتظامیہ آپ کو تبلیغ کرنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ چیزیں جب ظاہر ہوجائیں گی۔ کھل کر سامنے آرہی ہوںگی تو اگر انتظامیہ میں کوئی ایسی بات ہے بھی تو خود بخود ٹھیک ہوجائے گی اور پھر انتظامیہ میں ہی ایسے لوگ ہوں گے جو آپ کا ساتھ دینے والے ہوں گے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جب آپ کی یہ حالت ہو جائے گی تو خود بخود صدر جماعت یا جنرل سیکریٹری بعض جگہ مسائل پیدا کرنے والے جو بھی ہیں ان کو خود بخود کان ہو جائیں گے کہ ہم نے تعاون کرنا ہے۔ اس لئے پہلا initiative آپ کو لینا ہوگا۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مربی سلسلہ فراست صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ فیلڈ میں جارہے ہیں۔ آپ نے جذباتی نہیں ہونا کہ فلاں نے یہ کہہ دیا فلاں نے یہ کہہ دیا۔ جذباتی ہونا مربی کا کام نہیں ہے۔ جب وقف کردیا تو پھر ہر ایک چیز کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ اپنی عزت کو بھی قربان کرنا پڑتا ہے۔ وہ پنجابی کا شعر ہے کہ
؎جھوٹیاں عزتاں لبھدا جیہڑا، عاشق نہیں سودائی اے

بس عاشق بننا ہے تو پھر ان ساری چیزوں کو چھوڑنا ہوگا۔ اس لیے جذباتی نہیں ہونا۔ اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ لوگ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ دعا بھی کرو۔ پیار سے سمجھاتے بھی رہو انتظامیہ میں بعض لوگوں کورعب ڈالنے کی یا بلاوجہ دخل اندازی کرنے کی یا یہ اظہار کرنے کی کے ہم تم سے زیادہ جانتے ہیں کہ عادت ہوتی ہے۔ یا یہ بتانے کے لئے آپ لوگ تو ابھی young ہیں، ہم تو بڑے تجربہ کار ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے ساتھ حکمت سے کام کرنا ہے لوگ کہہ دیں کہ یہ diplomacy ہے، سیاست ہے۔ یہ سیاست نہیں حکمت عملی ہے۔ حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھنا ہے اور اپنے لئے جو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آپ خود اپنا maximum potential دیکھ کر اپنے لئے ٹارگٹ مقرر کریں۔ لیکن تھکے ہوئے ٹارگٹ نہ ہوں۔ اپنے لیے زور دار اور بڑے ٹارگٹ رکھیں اور پھر ان کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک دو سینئر مبلغین سے دریافت فرمایا کہ ان کو انتظامیہ کی طرف سے کیا مسائل دیکھنے پڑے ہیں۔ اس پر ان مبلغین نے عرض کیا کہ ان کو کبھی مسائل نہیں ہوئے۔ اگر کبھی کوئی مسئلہ ہوا بھی ہے تو پیار محبت سے حل ہو جاتا ہے۔

• اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جو نوجوان مبلغین ہیں ان میں بعض دفعہ جوش آ جاتا ہے۔ لیکن آپ نے اپنے جوش کو دبانا ہے۔ آپ نے وقف کیا ہوا ہے اور جو باقی عہدے داران ہیں وہ واقفین زندگی نہیں ہیں۔ اس لیے واقف زندگی کی حیثیت سے بہرحال قربانی دینی پڑتی ہے اور برداشت بھی کرنا پڑتا ہے۔ آپ کی برداشت کا threshold باقیوں کی نسبت زیادہ ہونا چاہیے۔

• بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں نے جو باتیں کرنی تھیں کرلیں ہیں۔ اس کے بعد اگر کسی نے کچھ پوچھنا ہے تو پوچھ لیں۔ ویسے تو اب انتظامی معاملات کے حوالہ سے کوئی سوال نہیں ہونا چاہیے، لیکن اگر کوئی سوال ہے تو پوچھ لیں۔

ایک مبلغ نے عرض کیا کہ وہ ایک جماعت میں پہلے مربی کے طور پر جا رہے ہیں وہاں گزشتہ تین سال سے کوئی مربی نہیں تھا وہ جماعت بھی کافی سست ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس کا مطلب ہے کہ آپ وہاںpioneer مربی بن جائیں گے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ چست ہو جائیں گے تو جماعت خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ ایک چیز دماغ میں رکھیں کہ جماعتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ خاص طور پر جب لمبا عرصہ ان کو دیکھنے والا نہ ہو، ان کو پوچھنے والا نہ ہو تو جماعتیں ایسی ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ایسی جماعتوں میں وقت لگتا ہے۔ اس لئے یہ کہہ دینا کہ میں نے ایک دفعہ کہہ دیا تھا اس نے میری بات نہیں مانی تو میں نے اب دوبارہ نہیں کہنا درست نہیں ہے۔ بار بار نصیحت کریں۔ قرآن کریم نے بھی ہمیں یہی تعلیم دی ہے اور نصیحت کے لئے ہی کہا ہے۔ فذکر کا ہی حکم ہے۔ تو ہمارا کام کہتے چلے جانا ہے اور تھکنا نہیں ہے۔ جہاں تھک گئے وہاں کام خراب ہو جاتا ہے۔ مستقل مزاجی سے کہتے چلے جانا ہے۔ یہ سوچ رکھنی ہے کہ چاہے جتنی بھی سست جماعت ہے میں نے اس کو چست بنانا ہے۔ اس میں چاہے مجھے ایک سال لگے، دو سال لگیں، یا تین سال لگیں یا جتنا عرصہ بھی یہاں ہوں میں نے پوری کوشش کرنی ہے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: خاص طور پر نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملائیں اگر نوجوان active ہو جائیں گے اور ان کو برائیوں سے بچا لیں گے تو پھر بوڑھوں کو بھی تھوڑا سا احساس پیدا ہوگا کہ مربی صاحب کام کر رہے ہیں۔ اس لیے وہاں جاکر پہلے نوجوانوں کو خاص طور پر دیکھیں۔ پہلے جائزہ لیں کہ کتنی جماعت ہے کہاں کہاں ان کی توجہ ہے، تعداد کے لحاظ سے کہاں کہاں زیادہ احمدی ہیں، آپ نے کہاں دورے کرنے ہیں۔ جماعت کے اندر مختلف حلقے ہوں گے۔ ہر حلقہ کا دیکھ لیں کہ اس کی کتنی تعداد ہے اور پھر ان کو وقت دیں۔ پھر وہاں کے نوجوانوں کو دیکھیں۔ پہلے ان کے مسائل کا جائزہ لیں، ان کے ساتھ مل کر بیٹھیں تو پتہ لگے گا کہ ان کو دین کے بارے میں کیا کیا اعتراضات ہیں، کیا reservation ہیں۔ یا بعضوں کو انتظامیہ سے یا اپنے بڑوں سے شکوے ہوتے ہیں۔ یا آپس میں ہی ایک دوسرے سے شکوے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جماعت سے پیچھے ہٹ رہے ہوتے ہیں۔ ان سارے مسائل کا جائزہ لے کر پہلے ایک سوال نامہ (questionaire) بنا لیں کہ کس طرح ان مسائل کو ایڈریس کرنا ہے اور کس طرح ان کا جواب دینا ہے اور کس طرح اس کے لیے مزید لائحہ عمل بنانا ہے۔ یہ ساری چیزیں دیکھ لیں۔

• مبلغ نے عرض کیا کہ ان دونوں جماعتوں میں ایک تو رفیوجیز ہیں جو نئے آئے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو تیس سال سے وہاں رہ رہے ہیں۔ دونوں کے آپس میں بہت سے اختلافات ہیں۔

• اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جو یہاں لمبے عرصے سے رہ رہے ہیں وہ اپنے آپ کو تھوڑا superior سمجھتے ہوں گے۔ جو نئے آئے ہیں یہاں وہ immigrants ریفیوجیز یا اسائلم سیکرز ہوں گے۔ آپ نے ان کے پاس بھی جانا ہے اور ان کو بھی سمجھانا ہے۔ ابھی کل ہی میں نے خطبہ میں یہی بتایا ہے کہ ہم ایک ہیں اور ایک بن کر رہنا پڑے گا۔ یہی باتیں میں نے بتائی ہیں اور یہی مسائل ہیں۔ ان کو یہی بتانا ہے کہ ہم چاہے مختلف باپوں سے ہیں لیکن ہمارا روحانی باپ ایک ہی ہے۔ میرا خیال ہے کل میں نے جو باتیں خطبہ میں بتائی ہیں وہ آپ کو میدان عمل میں کافی کام آئیں گی۔

• اس کے بعد ایک مبلغ نے عرض کیا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق امسال جنوری سے رسالہ ’’دی مسلم سن رائز‘‘ کو سہ ماہی کی بجائے ماہانہ کر دیا گیا ہے۔

• اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس کے content بھی اچھے ہونے چاہئیں کیونکہ جب یہ رسالہ شروع ہوا تھا تو اس کا مقصد تبلیغ تھا۔ اس لیے اس کا content تبلیغ ہونا چاہیے تھا۔

• مبلغ نے عرض کیا کہ اس کے content میں بھی بہتری پیدا کی گئی ہے۔ اب یہ رسالہ نیشنل سیکرٹری تبلیغ کی وساطت سے تمام جماعتوں کے سیکریٹریان کو بھجوایا جاتا ہے۔ اسی طرح تمام فیلڈ کے مشنریز کو بھی یہ رسالہ بھیجا جاتا ہے۔ تاہم ابھی تک تبلیغ کے میدان میں اس کا کوئی اثر نظر نہیں آ رہا۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: صرف بھیج دینے سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ اس کا content کیا ہے۔ اس میں ایسے مضامین ہوں جو لوگوں کے intrest کے ہوں۔ لوگوں کے ذاتی تجربات ہوتے ہیں اور اسی طرح اور عناوین ہوتے ہیں۔ آپ کو explore کرنا ہو گا۔ اب ریویو آف ریلیجن کو دیکھ لیں کہ آج سے دس سال قبل یہ رسالہ دو ہزار کی تعداد میں بھی نہیں چھپتا تھا۔ اب یہ آن لائن ہی لاکھوں لوگوں تک پہنچتا ہے اور تیس ہزار کی تعداد میں چھپ بھی رہا ہے اور لوگ پڑھتے بھی ہیں۔ نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی پڑھتے ہیں اور پڑھ کر اپنے تبصرے بھیجتے ہیں۔ بڑی بڑی پبلشنگ کمپنیوں کے ایڈیٹر اور مالکوں نے یہ comments بھیجے ہیں کہ ہم یہ رسالہ پڑھ رہے ہیں اور اس سے ہمیں اسلام کے بارے میں بہت کچھ پتہ لگ رہا ہے۔ اس لیے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مضامین دلچسپ ہیں یا نہیں۔ صرف خشک اور فلسفیانہ مضامین نہیں ہونے چاہیے۔ ہر طبقہ کے مطابق اس میں مضامین آئیں۔ ایک عام آدمی کو تبلیغ کرنے کے لئے کس قسم کا مواد ہونا چاہیے، ایک درمیانہ آدمی کے لئے کس قسم کا مواد ہونا چاہیے اور ایک پڑھے لکھے کے لیے کیا مواد ہونا چاہیے، ایک مذہبی آدمی جو مذہبی بحث کر سکتا ہے اس کے لیے کیا مواد ہونا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ میں نے بعض کتب میں اگر مشکل اردو یا مشکل الفاظ استعمال کیے ہیں یا فلسفیانہ ہیں تو وہ اس وجہ سے ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ بحث تھی یا مقابلہ تھا ان کا خیال تھا کہ مجھے کچھ آتا نہیں ہے۔ اس لئے ان کو بتانے کے لئے تھیں اور ساتھ تبلیغ بھی ہو رہی تھی۔ اور جو عام لوگ ہیں، افراد جماعت ہیں ان کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آسان اور عام فہم زبان میں بھی تحریر فرمایا۔ اس لئے ہمارے سامنے ہر طرح کا مواد ہونا چاہیے۔ قرآن کریم ہی دیکھ لیں ایک جگہ تو بہت فلسفیانہ اور سائنس اور علمی باتیں آرہی ہیں اور دوسری جگہ عام احکامات آرہے ہیں۔ بس اسی نہج پر آپ نے اپنے رسالہ کو چلانے کی کوشش کرنی ہے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر یہ رسالہ مربیان کے پاس جاتا ہے تو مشنری انچارج صاحب سے کہیں کہ اپنی رپورٹ میں یہ بھی شامل کر لیا کریں کہ کیا مربیان نے یہ رسالہ پڑھا ہے اوراگر پڑھا ہے تو ان کے خیال میں کیا کمیاں ہیں۔ کیا یہ رسالہ اتنا اچھا نہیں ہے کہ کسی کو دیا جاسکے یا اس میں کیا بہتری پیدا کی جا سکتی ہے۔ پھر مشنریز صرف اعتراض نہ کریں بلکہ اس میںcontribute کریں۔ اپنے تجربات لکھیں۔ اپنے آرٹیکل لکھیں۔ ان کا علم بھی بڑھے گا اور اگر یہ عام فہم ذاتی تجربات ہیں تو اور لوگوں کا علم بھی بڑھے گا۔ جب تک فیڈبیک نہیں آئے گا اور فیڈ بیک کے لیے سب سے پہلی لائن تو مشنریز کی ہے۔ یہی آپ کو فیڈ بیک دیں گے اس طرح ہونا چاہیے۔ پھر سکریٹری اشاعت، سیکرٹریان تبلیغ اور سیکرٹریان تربیت سے پوچھیں کہ ان کے نزدیک اس کو کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے۔ وہاں لوگوں میں تبلیغ کے لیے کس قسم کا مواد چاہیے۔ اس لیے اپنی سوچ کے مطابق نہ لکھتے رہیں۔۔ آج کل کی سوچیں بدل گئی ہیں نوجوانوں کی سوچ اور ہے۔ جو immigrants آئے ہیں ان کی سوچ اور ہوگی۔ اس لئے کچھ مواد ان کے مطابق دینا پڑے گا۔ اور جو لوگ پڑھے لکھے ہیں یا اپنے آپ کو اسکالرز سمجھتے ہیں ان کے لیے کوئی اور قسم کا مواد دینا پڑے گا۔ اس لئے فیڈبیک کا انتظام ہونا چاہیے۔ کوئی بھی کام کرنا ہو اگر اس کا فیڈ بیک نہیں ہے تو اس کا کوئی رزلٹ نکل ہی نہیں سکتا۔ صرف اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم نے چھاپ دیا ہے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسی طرح اگر رسالہ آن لائن ہے تو اس کا فیڈ بیک تو ویسے ہی پتہ لگ سکتا ہے کہ کتنے لوگوں نے اس کو پڑھا، کتنے لوگوں نے اس کو کھولا، کتنے لوگوں نے سارارسالہ دیکھا اور کتنے لوگوں نے صرف چند پیجز پڑھے۔ یہ ساری انفارمیشن آپ کو مل جائے گی۔ اسی سے آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ لوگوں کے کیا intrest ہیں۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے۔

الفضل کا تذکرہ

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: الفضل والے بھی ہر مہینے مجھے رپورٹ بھیجتے رہتے ہیں کہ کس قسم کا فیڈبیک ہے۔ کتنے لوگوں نے دیکھا، کتنوں نے پڑھا، کتنوں نے کون سے مضامین پسند کیے۔ ریویو والے بھی بھیجتے ہیں۔ الحکم والے بھی بھیجتے ہیں۔ آپ لوگ بھی اس طرح کر سکتے ہیں۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر ایک اور مبلغ نے عرض کیا کہ ان کی پوسٹنگ ہارس برگ (Harrisburg) جماعت میں ہے۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ تو اپنے ہی گاؤں میں ہیں۔ لیکن یہ نہ سمجھیں کہ اب میں اپنی اماں ابا کے پاس ہی رہوں گا اور اپنے رشتہ داروں کے علاقے میں ہی رہوں گا۔ آپ کی تبدیلی بھی ہوسکتی ہے اور باقی سارے مبلغین بھی یہ دماغ میں رکھیں کہ آپ ساروں کا تبادلہ افریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ امریکہ میں تقرری ہو گئی ہے تو اب امریکہ ہی امریکہ ہے۔ اب میں ایک pool بنانے لگا ہوں۔ جس میں دنیا کے مختلف مربیان کی دوسرے ممالک میں تبادلے ہوا کریں گے۔ بہرحال امریکہ کا یہ خیال تو رکھنا پڑے گا کہ یہاں انگریزی بولنے والے زیادہ ہوں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغ انچارج سے دریافت فرمایا کہ آپ کے خیال میں ان ٹرانسفرز سے آپ کو فائدہ ہوگا؟ اس پر مبلغ انچارج نے عرض کیا کہ دوسری جگہوں پر جانے سے تجربہ کے لحاظ سے فائدہ ہوتا ہے۔

• بعد ازاں مختلف مشنریز نے اپنا تعارف کروایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک مبلغ کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی اردو کافی کمزور ہے اس کو بہتر کریں۔

نیز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ مربیان جو مجھے خط لکھتے ہیں وہ اردو میں لکھنا ہے انگلش میں نہیں لکھنا۔ چاہے ذاتی خط ہی ہو۔

• ایک مبلغ نے عرض کیا کہ بعض اوقات احمدی سوشل میڈیا پر ایسی چیزیں ڈالتے ہیں جو جماعتی روایات کے منافی ہوتی ہیں۔

• اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ سارے احمدی برابر تو نہیں ہوتے۔ اگر کوئی کسی احمدی کی کمزوری لے کر اس کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتا ہے کہ احمدی کہتے یہ ہیں اور کرتے یہ ہیں۔ احمدی اچھے بھی ہوتے ہیں، برے بھی ہوتے ہیں۔ یہ کس نے کہا ہے کہ سو فیصد احمدی تقوی پر چلنے والے ہیں۔ آپ کے سو فیصد احمدی تو پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھتے۔ پہلے تو وہ پڑھائیں۔ اگر بنیادی چیز نہیں ہےتو پھر اس بات پر گھبرا جانا کہ بعض احمدیوں پر اعتراض کرتے ہیں ٹھیک ہے۔ ہاں اگر وہ احمدی آپ کے علاقہ میں رہنے والا ہے تو اس کے پاس جا کر اس کو سمجھائیں کہ دیکھو! اس وجہ سے جماعت پر اعتراض ہوا ہے تم اپنی اصلاح کرو۔ اگر وہ صحیح اعتراض ہے، ورنہ اگر وہ بولتے ہیں تو بولنے دیں۔ اگر کسی کو کوئی اور اعتراض نہیں ہوتا تو وہ گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ابھی کل ہی مجھے ایک فیملی ملنے آئی تھی۔ ان کے دادا کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پیغام پہنچا تھا اور جس احمدی نے پیغام پہنچایا تھا اسی نے غصہ میں آ کر ان کا سر پھاڑ دیا تھا۔ اس پر انہوں نے اپنے کسی مولوی کو لکھا کہ ایک احمدی نے میرے ساتھ ایسے کیا ہے۔ اس پر اس مولوی نے ان کو اپنی گالیوں سے بھری ہوئی کتابیں بھیج دیں۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میں نے تو تم سے دلیل مانگی اور تم نے گالیاں بھیج دی ہیں۔ یہ تو کوئی بات نہیں اسی بات پر وہ احمدی ہوگئے۔ تو یہ جو سوشل میڈیا والے اعتراض کرتے ہیں اور لوگوں کی کمزوریاں تلاش کرکے اعتراض کرتے ہیں تو ہم نے کب کہا کہ سو فیصد احمدی تقوی کے اعلی معیار پر پہنچے ہوئے ہیں۔ اتنے اعلیٰ معیار قائم ہوتے تو مجھے خطبوں میں یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی کہ اپنی اصلاح کرو۔ اپنے آپ کو ٹھیک کرو۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی نے جو بار بار تلقین کی ہے کہ مومن بنو، مومن بنو، مومن بنو، وہ کس لئے ہے۔ اسی لئے کہ ایمان کی مضبوطی کے لئے ہر وقت یاد دہانی ضروری ہے۔ یہ آپ لوگوں کا کام ہے وہ کرواتے رہیں۔ باقی گھبرانے کی ضرورت نہیں کہ سوشل میڈیا پر آ گیا تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھول جائیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دشمن کا تو کام ہے کہ اس نے حملہ کرنا ہے۔ آپ کا کام ہے کہ اس حملہ سے نہ صرف اپنے آپ کو بچانا ہے بلکہ اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہر وقت defensive نہیں رہنا۔ اگر کوئی ایسی بات ہے جس سے مجموعی طور پر جماعت پر اثر پڑتا ہے تو اس کا جواب دے دیں ورنہ تو معمول کی بات ہے کہ لوگ بکواس کرتے رہتے ہیں۔ اس کا تو ہم جواب نہیں دے سکتے۔ گالیوں کا جواب تو ہم واقعی نہیں دے سکتے ہم ان سے ہار مان گئے۔ لیکن اگر کوئی عقل کی بات ہے ضرور کرنی چاہیے۔ اس کا جواب دیں۔ آپ لوگ فیلڈ میں ہیں آپ لوگوں کو تجربات ہوتے ہیں۔ اپنے علم کو بڑھائیں اور ایسے اعتراضات کے جوابات تلاش کریں۔ ہاں اگر کسی میں کوئی کمزوری ہے یا اگر کوئی کہتا ہے کہ فلاں عہدے دار میں کمزوری ہے یا فلاں عہدے دار کے بچے کی شادی ہوئی ہے اور وہاں ڈانس ہو رہا تھا یا فلاں شادی میں میوزک بج رہا تھا تو پہلے اس عہدیدار کو سمجھائیں اور پھر اس کی رپورٹ کریں۔ اس قسم کے واقعات کی جو رپورٹس مجھے آتی ہیں تو میں عام طور پر ایسے عہدیداران کو ہٹا دیا کرتا ہوں۔ اس کا مرکز کو علم تو ہونا چاہیے۔ اس لیے امیر صاحب کو رپورٹ دیں۔ پھر امیر صاحب کے ذریعہ رپورٹ مرکز میں آجائے گی۔ تو اگر کسی میں یہ کمزوریاں خامیاں ہیں اور کہنے کے باوجود اصلاح نہیں ہوتی اور اگر کوئی غلط کاموں میں ملوث ہے تو اگر اس میں کوئی عہدیدار شامل ہے تو جیسے باقیوں کو سزا ملتی ہے تو عہدیدار کو بھی سزا ملے گی۔ ابھی کینیڈا میں میں نے دو مربیان کو suspend کیا ہے جو ایک ایسی مجلس میں تھے جہاں گانا وغیرہ ہو رہا تھا اور وہ وہیں بیٹھے رہے اور وہاں سے اٹھ کر نہیں گئے۔ تو مربیان میں سے بھی بعض ایسے ہوتے ہیں، باقیوں کی کیا باتیں کریں۔

• اس کے بعد ایک مبلغ نے سوال کیا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تبلیغ کے حوالہ سے توجہ دلائی ہے۔ تبلیغ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی ہو سکتا ہے لیکن اس میں کنفیوژن ہے کہ سوشل میڈیا کے حوالہ سے کیا حدود ہیں۔

• اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جو سنجیدہ قسم کا سوشل میڈیا ہے اور اگر آپ نے صرف تبلیغ کی حد تک جانا ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ اسی طرح آپ اپنی کوئی ویب سائٹ بھی بنا سکتے ہیں جس میں تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اگر اس کا تعارف ہو جائے تو لوگ اس کو دیکھنے لگ جاتے ہیں اور بعض لوگ سوشل میڈیا پر جواب بھی دیتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات personal اکاؤنٹس بنا کر اس میں غلط جوابات دینا شروع کر دیتے ہیں اس کو میں نے اس لیے منع کیا تھا اور پھر اس پر وہ اپنی مرضی کی بحث شروع کر دیتے ہیں۔ پھر مربیان کی کی آپس میں بحثیں شروع ہو جاتی ہیں کہ تم نے یہ غلط کہا ہے، اس کا جواب یوں ہونا چاہئے۔ جب آپ لوگ آپس میں ہی بحثیں شروع کردیں گے تو سوشل میڈیا والوں پر کیا اثر ڈالیں گے۔ وہ چیزیں غلط ہیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: organised effort کے ساتھ ایک پلان بنائیں۔ اس کی منظوری لیں۔ اس کے بعد اس پر عمل کریں۔ یہ جو افراتفری کے کام ہوتے ہیں،ایک کا منہ ادھر جارہا ہے دوسرے کا اُدھر جا رہا ہے۔ پتہ ہی نہیں کیا کرنا ہے۔ ہر ایک اپنی علمیت ظاہر کرنے لگ جاتا ہے۔ تو وہ چیز غلط ہے۔ میں نے اس سے روکا تھا۔ پانچ چھ مہینے پہلے میں نے کینیڈا کی ایک ویب سائٹ بند کروائی تھی، وہ اسی لئے کروائی تھی۔ بس یہ چیزیں غلط ہیں۔ ویسے تو تبلیغ کے لیے نئے نئے راستے exploreکرنے چاہئیں اور جو سوشل میڈیا ہے اس کو استعمال کرنا چاہئے۔ ہم بھی کرتے ہیں۔ بعض ذیلی تنظیموں کو بھی یہ استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ اس لیے یہ اجازت مربیان کو بھی مل سکتی ہے لیکن اگر ان کا ایک organisedسسٹم ہو۔

• اس کے بعد مبلغین نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کی سعادت حاصل کی۔

• مبلغین کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ میٹنگ دو بجے تک جاری رہی۔

• بعد از اں دو بج کر بیس منٹ پر حضور نے مسجد بیت الرحمن تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائی۔

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ بَارِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِہٖ وَ اَمْرِہٖ

(کمپوزڈ بائی: عائشہ چوہدری۔ جرمنی)

(رپورٹ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

مونٹے نیگرو کی پہلی عاملہ کی پہلی میٹنگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 دسمبر 2022