• 25 اپریل, 2024

الفضل کی اہمیت وبرکات۔ دواجنبی احمدیوں کو ملادیا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا اور خواہش کو پورا فرماتے ہوئے ایسے بزرگ مبلغین اپنے فضل سے عطا فرمائے ہیں جن کی قناعت قابل رشک تھی۔ ہمارے ایک مبلغ تھے حضرت سید شاہ محمد صاحب۔ انہوں نے اپنا واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ میں متواتر اٹھارہ سال انڈونیشیا میں کام کرتا رہا اور اللہ کے فضل سے میں نے کبھی کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ اپنا پورا وقار رکھا بہت معمولی الاؤنس (allowance) پر گزارہ ہو تا تھا۔ مشکل سے شاید دو وقت کی روٹی ملتی تھی۔ اپنی ہر حاجت کے لیے اپنے ربّ کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا اور وہ میری حاجت روائی کرتا رہا۔ کہتے ہیں جب اٹھارہ سال بعد میری واپسی ہوئی تو میں بڑا خوش تھا۔ بحری جہاز کے ذریعے سے پاکستان روانہ ہوا اور کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک پرانی اچکن تھی اور دو ایک شلوار قمیص کے دھلے ہوئے جوڑے تھے۔ اور کچھ نہیں تھا۔ کہتے ہیں میں بحری جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ ہوائی جہاز کا تو اس وقت تصور ہی نہ تھا۔ راستے میں مجھے خیال آیا کہ میں اتنے عرصے بعد ملک واپس جارہا ہوں اور میرے پاس نئے کپڑے بھی نہیں ہیں۔ جنہیں پہن کہ میں ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر اتروں گا۔ اس وقت مبلغین کراچی آیا کرتے تھے پھر وہاں سے ٹرین پر ربوہ پہنچتے تھے۔ تو کہتے ہیں میں اپنی خیالات میں تھا اور دعاؤں میں لگا ہوا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے دل میں بھی اس قسم کی خواہش نہیں کرنی چاہئے تھی۔

یہ وقف کی روح کے خلاف ہے۔ کہتے ہیں میں نے اس پر بڑی توبہ استغفار کی۔ اور پھر چند دن بعد جہاز سنگاپور میں پورٹ پر رُکا کہتے ہیں میں جہاز کے عرشے پہ کھڑا، ڈیک پہ کھڑا نظارہ کر رہا تھا کہ میں نے ایک شخص کو ایک گٹھڑی اٹھائے ہوئے جہاز پر چڑھتے دیکھا وہ سیدھا جہاز کے کپتان کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھنے لگا۔ کپتان نے اسے میرے پاس بھیج دیا۔ وہ مجھ سے گلے ملا۔ بغل گیر ہو گیا اور کہا کہ وہ احمدی ہے اور درزی کا کام کرتا ہے اُس نے بتایا کہ جب الفضل میں مَیں نے پڑھا کہ آپ آرہے ہیں اور رستے میں سنگاپور رکیں گے تو مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں آپ کے لیے کوئی تحفہ پیش کروں اور آپ کی تصویریں مَیں نے دیکھی ہوئی تھیں۔ قدکاٹھ کا اندازہ تھا مَیں نے آپ کے لئے کپڑوں کے دو جوڑے سیے ہیں اور ایک اچکن اور ایک پگڑی تیار کی ہے۔ درزی ہوں اور یہی کچھ پیش کر سکتا ہوں آپ اسے قبول کریں۔ تو حضرت شاہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ سُن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ کس طرح میرے خدا نے میری خواہش کو پورا کر نے کے لئے ایک احمدی کے دل میں تحریک کی جسے مَیں نہیں جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا۔ وہ مبلغین کو اور مربیان کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر مبلغ صرف آستانہ الٰہی پرجھکا رہے کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کرے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کے لئے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ واقفین زندگی سے، صرف مبلغین نہیں، ہر واقف زندگی سے یہ سلوک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میدان عمل میں آج بھی یہ نظارے دِکھتے ہیں‘‘

(خطبہ جمعہ 22 اکتوبر 2010 ء)

پچھلا پڑھیں

ٹیلیویژن۔ ایجاد سے LCD اور LED تک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جنوری 2020