• 25 اپریل, 2024

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے اعلیٰ معیار

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے کیا اعلیٰ معیار تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی نماز تہجد کی کیفیت بیان فرماتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ مگر وہ اتنی پیاری اور لمبی اور حسین نماز ہوا کرتی تھی کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے بارے میں مت پوچھو۔

(صحیح البخاری کتاب التہجد باب قیام النبیﷺ باللیل فی رمضان وغیرہ حدیث1147)

الفاظ وہ کیفیت بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے ایک صحابی نے آپ کو دیکھا۔ یعنی علیحدگی میں جب آپ نفل پڑھ رہے تھے۔ تو وہ کہتے ہیں کہ اس وقت شدت گریہ و زاری کے باعث آپ کے سینے سے ایسی آوازیں آ رہی تھیں کہ جیسے چکّی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب البکاء فی الصلوٰۃ حدیث 904)

یا ایک روایت میں یہ ہے کہ جس طرح ہنڈیا میں پانی اُبلنے کی آواز ہوتی ہے۔

(سنن النسائی کتاب السھو باب البکاء فی الصلوٰۃ حدیث 1215)

روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ بعض دفعہ نماز میں کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے اور متورّم ہو کر پھٹ جاتے تھے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! آپ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام قصور معاف فرما دئیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَفَلَا اُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا کہ کیا میں یہ نہ چاہوں کہ مَیں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ بنوں۔

(صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک … حدیث4837)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے ان معیاروں نے صحابہ میں کیا انقلاب پیدا کیا، یہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ خواہ کیسا ہی پکّا دشمن ہو اور خواہ وہ عیسائی ہو یا آریہ جب وہ ان حالات کو دیکھے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب کے تھے اور پھر اس تبدیلی پر نظر کرے گا جو آپ کی تعلیم اور تاثیر سے پیدا ہوئی تو اسے بے اختیار آپ کی حقّانیت کی شہادت دینی پڑے گی۔ موٹی سی بات ہے کہ قرآن مجیدنے ان کی پہلی حالت کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے۔‘‘ (آپ کے ماننے والے جو عرب کے لوگ تھے ان کی پہلی حالت کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے کہ) ’’یَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْاَنْعَامُ (محمد: 13)‘‘ (یعنی اس طرح کھاتے ہیں جس طرح جانور کھاتے ہیں۔ جانوروں والی حالت ہے۔) ’’یہ تو ان کی کفر کی حالت تھی۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات نے ان میں تبدیلی پیدا کی تو ان کی یہ حالت ہوگئی یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّقِیَامًا (الفرقان: 65) یعنی وہ اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے راتیں کاٹ دیتے ہیں‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’جو تبدیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے وحشیوں میں کی اور جس گڑھے سے نکال کر جس بلندی اور مقام تک انہیں پہنچایا اس ساری حالت کے نقشے کو دیکھنے سے بے اختیار ہو کر انسان رو پڑتا ہے کہ کیا عظیم الشان انقلاب ہے جو آپ نے کیا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’دنیا کی کسی تاریخ اور کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ یہ نری کہانی نہیں۔ یہ واقعات ہیں جن کی سچائی کا ایک زمانہ کو اعتراف کرنا پڑا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ144-145 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس پہلوں سے ملنے والی آخرین کی اِس جماعت کے افراد کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس اُسوہ کی پیروی کرتے ہوئے جیسے صحابہ نے عبادتوں کے معیار بلند کئے ہم بھی اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں اور صرف دنیا داری میں ہی نہ ڈوبے رہیں۔

(خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2017)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ