• 19 اپریل, 2024

اگر خداتعالیٰ کا خوف ہو تو ممکن نہیں کہ گناہ سرزد ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اصل تقویٰ کی حقیقت کو مزید بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں کہ اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لئے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اُٹھ گیا ہے۔ کوئی ہو گا جو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس:10) کا مصداق ہو گا۔ پاکیزگی اور طہارت عمدہ شئے ہے۔ انسان پاک اور مطہّر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔ لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذات کی ہر ایک شئے حلال ذرائع سے ان کو ملے۔ (اگر لوگوں میں تقویٰ کی قدر ہو تو جو بھی دنیاوی لذات ہیں آپؑ نے فرمایا کہ وہ بھی تمہیں حلال ذریعے سے ملیں نہ کہ حرام ذریعہ سے، ناجائز ذریعہ سے)۔ فرمایا کہ چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر وہ صبر کرے تو خداتعالیٰ اسے اور راہ سے مالدار کر دے۔ اسی طرح زانی زنا کرتا ہے اگر صبر کرے تو خدا تعالیٰ اس کی خواہش کو اور راہ سے پوری کر دے جس میں اس کی رضا حاصل ہو۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔ (جب ایمان کی حالت ختم ہو جاتی ہے تو پھر ہی ایسے فعل سرزد ہوتے ہیں) آپؑ فرماتے ہیں کہ جیسے بکری کے سر پر شیر کھڑا ہو تو وہ گھاس بھی نہیں کھاسکتی تو بکری جتنا ایمان بھی لوگوں کا نہیں ہے۔کیونکہ مجلس میں ذکر ہو رہا تھا اس لئے اسی بات کا اخبار میں ایک دوسری جگہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ حدیث میں آیا ہے کہ چور چوری نہیں کرتا جبکہ مومن ہو۔ یہ بالکل سچی بات ہے۔ بکری کے سر پر اگر شیر ہو تو اس کو حلال کھانا بھی بھول جاتا ہے چہ جائیکہ وہ کسی دوسرے کے کھیت میں جائے۔ اسی طرح پر اگر خداتعالیٰ کا خوف ہو تو ممکن نہیں کہ گناہ کرے۔

فرماتے ہیں کہ اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے۔ جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پا سکتا ہے۔ بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے۔ (بڑے گناہوں سے، چھوٹے گناہوں سے بچ سکے)۔ فرمایا کہ انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچا سکتے۔ حکام ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے۔ (لوگوں کو ان کا خوف رہے) انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کر کے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا اُس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے۔ (جب اکیلا سمجھتا ہے تو ظاہر ہے وہ سمجھتا ہے کہ خدا مجھے نہیں دیکھ رہا تو مطلب یہ ہے کہ ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا) اور یہ خیال نہیں کرتا کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھے دیکھتا ہے۔ ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا تو کبھی گناہ نہ کرتا۔ فرماتے ہیں تقویٰ سے سب شئے ہے۔ (ہر چیز تقویٰ پہ ہی منحصر ہے) قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے۔ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ سے مراد بھی تقویٰ ہے کہ انسان اگرچہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرات نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ انسان کہتا ہے۔ تیری عبادت کرتے ہیں۔ انسان خود عبادت کر رہا ہے، عمل کر رہا ہے لیکن اس کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا کہ باوجود اس کے کہ وہ عمل کر رہا ہے اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کہہ دیتا ہے کہ یہ عبادت جو ہے یہ بھی تیری مدد کی وجہ سے ہی ہو رہی ہے۔ تُو توفیق دے رہا ہے تو عبادت ہو رہی ہے ورنہ یہ عبادت نہیں ہوسکتی اور پھر آئندہ کے لئے بھی مدد طلب کرتا ہے کہ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ عبادت کی توفیق ملتی رہے۔ پس یہ ہے تقویٰ کا معیار۔

پھر فرمایا کہ دوسری سورۃ بھی ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ سے شروع ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ نماز روزہ زکوٰۃ وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو۔ (پس تقویٰ ہو گا تو یہ چیزیں قبول ہوں گی۔ اگر تقویٰ نہیں تو یہ چیزیں بھی قابل قبول نہیں) آپ فرماتے ہیں کہ اس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اٹھا دیتا ہے۔ (یعنی انسان کو گناہ کی ترغیب دینے والی جو بھی چیزیں ہیں اگر تقویٰ کامل ہو تو گناہ کی ترغیب دینے والی، گناہ کی طرف لے جانے والی، گناہ کی طرف بلانے والی ان سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ پھر ختم کر دیتا ہے۔) فرماتے ہیں کہ بیوی کی ضرورت ہو تو بیوی دیتا ہے۔ دوا کی ضرورت ہو تو دوا دیتا ہے۔ جس شئے کی حاجت ہو وہ دیتا ہے اور ایسے مقام سے روزی دیتا ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی۔‘‘

(خطبہ جمعہ 2جون 2017ء)

پچھلا پڑھیں

جماعت سُرینام کی مذہب کے عالمی دن کے پروگرام میں شرکت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 فروری 2020