• 25 اپریل, 2024

ست بچن حضرت مسیح موعودؑ کی معرکۃ الآراءکتاب کی روشنی میں حضرت بابا گرو نانکؒ کےمسلمان ہونے کےناقابل تردید دلائل

انیسویں صدی میں ہندؤوں میں دو بڑی اصلاحی تحریکوں نے جنم لیا۔ یہ برہمو سماج اور آریہ سماج تھیں۔ برہمو سماج تنظیم میں مذہبی کٹرپن نہیں تھا۔

دوسری قوم پرست اور مذہبی طور پر سخت متعصب تحریک آریہ سماج تھی، جسے پنڈت دیانند سرسواتی (1824-1883ء) نے7۔اپریل 1875ء کو بمبئ میں قائم کیا۔ اس نے 1875ء میں ستھیارتھ پرکاش (سچائی کی روشنی) کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب میں میں اسلام، عیسائیت، سکھ ازم، بدھ مت وغیرہ تمام مذاہب پر دل آزار حملے کئے۔ سکھوں کے بانی گرو نانک پر شدید تنقید کی۔ حضرت مسیح موعودؑ نےنومبر 1895ء میں ست بچن (سچا قول) کے نام سے ایک کتاب شائع فرمائی اور پنڈت دیانند کی خرافات کا دندان شکن جواب لکھ کر حضرت بابا گورو نانک پر لگائے گئے ناپاک الزامات کا ردّ فرمایا ۔ حضورؑ فرماتے ہیں

’’اصل غرض اس رسالہ کی ان بے جا الزاموں کا رفع دفع کرنا ہے جو آریوں کے سرکردہ دیانند پنڈت نے بابا نانک صاحب پر اپنی کتاب ستھیارتھ پرکاش میں لگائے ہیں‘‘

حضرت بابا گرو نانکؒ کا اسلامی ممالک کی طرف سفر

حضرت باباگرونانکؒ کا یہ سفر اسلامی ممالک کی طرف تھا۔ اس سفر میں آپ مکہ اور مدینہ میں دو سال تک ٹھہرے۔ حضرت اقدسؑ تحریر فرماتے ہیں۔

’’پس یہ مقام بھی سوچنے کے لائق ہے کیوں ہندؤوں نے باوا نانک صاحب سے اور باوا نانک صاحب نے ہندؤوں سے اُنس نہ کیا اور تمام عمر مسلمانوں سے ہی مانوس رہے اور اسلامی ملکوں کی طرف ہی سفر کرتے رہے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ باوا صاحب ہندؤوں سے قطع تعلق کر چکے تھے۔ کیا ہندؤوں میں ایسی کوئی نظیر مل سکتی ہے کہ کوئی شخص ہندو ہو کر اپنے تمام تعلقات مسلمانوں سے قائم کر لے‘‘

( ست بچن، روحانی خزائن جلد10صفحہ117)

بابا نانک کی مسلمان فقراء اور اہل اللہ کے مزاروں پر حاضری اور چلہ کشی

حضرت بابا گورو نانک ایک عظیم توحید پرست تھے اور اپنی پوری زندگی اس کا پرچار کرتے رہے اور ہندؤوں میں بت پرستی اور مخلوق پرستی کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ اسلام دنیا میں توحید کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ توحید سے اپنی فطری وابستگی کی وجہ سے ہندؤوں سے الگ ہوگئے اور ایک مسلمان صوفی اور بزرگ کا حلیہ اور طرز زندگی اپنا لیا۔ اپنے 25 سالہ دور سیاحت میں آپ نے عظیم مسلمان بزرگوں اور اہل اللہ کے مزارات پر چلے کاٹے اور عبادتیں کیں۔ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ آپ نے کسی ہندو پنڈت کے سامنے سر جھکایا ہوبلکہ پنڈتوں اور برہمنوں نے باوا صاحب کی سخت مخالفت کی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’باوا صاحب بہت زور لگاتے تھے کہ ہندؤوں میں کوئی روحانی حرکت پیدا ہو اور وہ بیہودہ رسموں اور باطل عقیدوں سے دستکش ہو جائیں اور اسی لئے وہ ہمیشہ برہمنوں کے منہ سے سخت باتیں سنتے اور برداشت کرتے تھے مگر افسوس کہ اس سخت دل قوم نے ایک ذرہ سی حرکت بھی نہ کی اور باوا صاحب ہندؤوں کی رفاقت سے اس قدر ناامید ہو گئے کہ ان کو اپنے معمولی سفروں کے لئے بھی دو ایسے ہندو خادم نہ مل سکے کہ ان کے خیالات کے موافق ہوں‘‘

( ست بچن، روحانی خزائن جلد10صفحہ117)

جن مشہور درگاہوں سے حضرت بابا صاحب نے فیض حاصل کیا ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں:
1۔ سرسہ کے مقام پر حضرت شاہ عبد الشکور کی خانقاہ پر چالیس روز تک چلہ کیا۔ مسجد کے قریب ایک خلوت خانہ بنا کر اس میں عبادت میں مصروف رہے۔یہ خلوت خانہ اب بھی چلہ باوا نانک کے نام سے مشہور ہے۔
2۔ اجمیر شریف میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر چالیس دن چلہ کیا۔
3۔ پاک پتن میں حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر کے مزار پر چلہ کیا۔
4۔ ملتان میں حضرت شاہ شمس تبریز کے روضہ مبارک پر چالیس روز تک چلہ کیا۔
5۔ بغداد میں غوث اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مزار پر چلہ کیا۔یہیں پر آپ کو غیب سے وہ چولہ عطا ہوا جس پر کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات تحریر تھیں اور جسے آپ نے پہنا اور بعد از وفات ابھی تک ڈیرہ بابا نانک میں محفوظ ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
6۔ حسن ابدال میں حضرت بابا ولی قندھاری کے پاس ٹھہرے۔ یہ مقام پنجہ صاحب کے نام سے مشہور ہے۔

بیت اللہ کی زیارت اور فریضۂ حج کی ادائیگی

اپنے آخری سفر میں آپ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور قریباً دو سال قیام کیا۔ فریضہ حج ادا کیا اور مدینہ میں روضۂ رسول پر حاضری دی۔ یہاں ایک بہت اہم روایت ہے جس کا ذکر کرنا نہایت ضروری ہے۔ سکھوں میں یہ بات مشہور ہے یا کر دی گئی ہے کہ جب بابا نانک بیت اللہ کی زیارت کو گئے تو آپ اپنی ٹانگیں اور پاؤں خانہ کعبہ کی طرف کر کے بیٹھ گئے۔ لوگوں کے منع کرنے پر جب آپ نے اپنے پاؤں دوسری طرف کئے تو کعبہ بھی اسیُ رخ پر مڑ گیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ست بچن میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’یہ ایک جھوٹا قصہ کہ باوا صاحب جب مکہ میں گئے تو جس طرف پاؤں کرتے تھے مکہ اس طرف آ جاتا تھا۔۔۔ایسا قصہ بجز اس کے کہ مسلمانوں کا دل دکھایا جاوے اور ایک بے ہودہ اور بے ثبوت یاوہ گوئی سے اُن کو ستایا جاوے کوئی اور ماحصل نہیں رکھتا‘‘

(ست بچن،روحانی خزائن جلد10صفحہ134)

’’یہ افترا کہ گویا مکہ بابا صاحب کے پیروں کی طرف پھرتا تھا نہایت مکروہ افترا ہے۔مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیہودہ باتیں اس وقت کتاب میں ملائی گئی ہیں کہ جب بابا نانک صاحب کا حج کرنا بہت مشہور ہو گیا تھا۔‘‘

(ست بچن،روحانی خزائن جلد10صفحہ178)

حج بیت اللہ سے واپسی اور کرتار پور میں قیام

سن 1521 میں حج بیت اللہ سے واپسی پر بابا نانک گھر نہیں گئے بلکہ سیدھا ملتان گئے اور روضہ مبارک شاہ شمس تبریز صاحب پر چالیس روز چلہ میں بیٹھے رہے۔ روضہ کے جنوب کی طرف وہ مکان ہے جو چلہ نانک کہلاتا ہے۔ چلہ کشی سے فارغ ہو کر واپس اپنے گاؤں کرتار پور گئے اور بقیہ زندگی کرتار پور میں گزاری۔کرتار پور میں آپ نے اٹھارہ سال قیام کیا۔یہاں آپ نے ایک مسجد بھی بنوائی اور امام مسجد کا تقرر بھی کیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بابا نانک پر مجذوبی کا رنگ چڑھ گیا اور آپ حالت استغراق میں چلے گئے۔ اس عرصہ میں انہوں نے اپنے بال کٹوانے بند کر دئیے اور نماز روزہ کی پابندی بھی نہ کر سکے اسی وجہ سے سکھ اپنے بال(کیس) نہیں کٹواتے۔

وفات

حضرت بابا گورو نانک رحمۃ اللہ علیہ 22 ستمبر 1539ء کو کرتارپور میں وفات پا گئے۔ چونکہ بابا نانک اپنی انسان دوستی کی اور تقدس کی وجہ سے مسلمانوں اور ہندؤوں دونوں میں یکساں مقبول تھے اس موقعہ پر مسلمانوں اور ہندؤوں میں سخت تنازع پیدا ہو گیا۔ ہندو ان کے جسد خاکی کو جلانا چاہتے تھے جبکہ مسلمان نماز جنازہ پڑھ کے انہیں دفن کرنا چاہتے تھے۔ ماحول انتہائی کشیدہ ہو گیا۔

اس پر علاقے کے بعض معزز افراد نے مسلمانوں کو خفیہ طور پر تجویز دی کہ وہ رات کو بابا صاحب کی میت کو چوری چھپے دفن کر دیں اور چارپائی پر خالی چادر ڈال دیں۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ باوا صاحب کی میت غائب ہے اور چارپائی پر چادر اور پھول پڑے ہیں۔ اس چادر کو ہندؤوں اور مسلمانوں میں برابر تقسیم کر دیا گیا۔ ہندؤوں نے چادر جلا دی اور مسلمانوں نے دفن کر دی۔ اس طرح یہ سنگین جھگڑا ختم ہوا۔

حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں۔
’’پھر اگر باوا صاحب حقیقت میں اسلام کے دشمن تھے تو کیوں ان کا جنازہ پڑھا گیا اور کیوں انہوں نے بخارا کے مسلمانوں کی طرف اپنی سخت بیماری کے وقت خط لکھا کہ اب میری زندگی کا اعتبار نہیں تم جلد آؤ اور میرے جنازے میں شریک ہو جاؤ۔ کیا کبھی کسی مسلمان نے کسی پادری یا پنڈت کے مرنے کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھی‘‘

(ست بچن،روحانی خزائن جلد10صفحہ176)

چولا بابا نانک۔ حضرت بابا گورو نانک کے مسلمان ہونے کی قطعی آسمانی شہادت

مکہ اور مدینہ میں قیام کے دوران حضرت بابا گورو نانک بغداد بھی تشریف لے گئے اور غوث الاعظم سید عبد القادر جیلانی کے مزار پر چلہ کشی کی۔ اس چلہ کے دوران آپ کو ایک چولہ غیب سے عطا کیا گیا۔جنم ساکھی میں لکھا ہے کہ اس چولہ پر قرآن پاک کے تیس پارے اور خدا تعالی کے اسماء لکھے ہوئے تھے۔ یہ چولہ آپ نے پہن لیا اور ہمیشہ آپ کے پاس رہا۔ آپ کی وفات کے بعد یہ ایک مقدس تبرک کے طور پر باوا صاحب کے جانشین گورؤوں کو ملتا رہا۔بعد ازاں یہ چولہ کابلی مل (جو باوا صاحب کی نسل سے تھا ) کی اولاد کو منتقل ہوا۔ اس کے بے حد عزت و احترام اور تقدس کی وجہ سے اسے محفوظ کر لیا گیا اور یہ ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور میں اب تک محفوظ ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس چولہ پر تحقیقات کا فیصلہ فرمایا اور ابتدا میں اپنے چار دوستوں کو چولہ صاحب دیکھنے کے لئے ڈیرہ نانک بھجوایا ۔ حضور ؑفرماتے ہیں۔

’’ہم نے ان بیانات پر بھروسہ نہ کر کے خود اپنے خاص دوستوں کو اس کی پوری پوری تحقیقات کے لئے موقع پر بھیجا اور اُن کو تاکید سے کہا کہ کسی کے کہنے پر ہر گز اعتبار نہ کریں اور خود توجہ سے اپنے آنکھ سے اس کپڑے کو دیکھیں کہ اس پر کیا لکھا ہوا ہے‘‘

(ست بچن،روحانی خزائن جلد10صفحہ144)

جو دوست ڈیرہ نانک گئے ان کے نام یہ ہیں۔
1۔ مرزا یعقوب بیگ صاحب 2۔ منشی تاج دین صاحب
3۔ خواجہ کمال الدین صاحب اور 4۔ میاں عبد الرحمن صاحب

اس وفد نے چولہ صاحب دیکھنے کے بعد واپس آ کر تمام احوال حضرت اقدسؑ کے گوش گزار کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ڈیرہ نانک کا سفر

حضور تحریر فرماتے ہیں۔
’’لیکن ہم نے ان کے بیان پر بھی اکتفا نہ کیا اور سوچا کہ باوانانک کی اسلام کے لئے یہ ایک عظیم الشان گواہی ہے اور ممکن ہے کہ دوسروں کی روایتوں پر تحقیق پسند لوگوں کو اعتماد نہ ہو اور یا آئندہ آنیوالی نسلیں اُس سے تسلی نہ پکڑ سکیں اس لئے یہ قرین مصلحت معلوم ہوا کہ آپ جانا چاہئے تا صرف شنید پر حصر نہ رہے اور اپنی ذاتی روایت ہو جائے۔ چنانچہ ہم بعد استخارہ مسنونہ 30 ستمبر 1895ء کو پیر کے دن ڈیرہ نانک کی طرف روانہ ہوئے۔‘‘

(ست بچن، روحانی خزائن جلد10صفحہ153)

حضورؑ کے ساتھ جو 10 صحابہؓ اس سفر میں شامل تھے ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ حضرت مولانا نورالدین 2۔ حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی
3۔ مولوی محمد احسن امروہوی 4۔ شیخ رحمت اللہ صاحب
5۔ منشی غلام قادر فصیح سیالکوٹی 6۔ مرزا ایوب بیگ صاحب
7۔ شیخ عبد الرحیم صاحب 8۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب
9۔ سید محمد اسمعیل دھلوی 10۔ شیخ حامد علی صاحب

ایک خطیر رقم (اس وقت کے 14 روپے) ڈیرہ نانک کے خدمت گزار بیدی کو دی گئی اور اُس نے بے شمار قیمتی چادروں اور رومالوں کے نیچے چھپا ہوا چولہ حضرت اقدسؑ اور دوسرے احباب کو دکھایا۔ اس چولہ پر کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰہِ کے علاوہ سورۃفاتحہ، سورت اخلاص، آیت الکرسی اور بہت سی قرآنی دعاؤں کے علاوہ اللہ تعالی کے اسماء درج تھے۔ اس چولے پر کسی اور زبان کا کوئی ایک حرف تک موجود نہیں تھا۔

حضورؑ تحریر فرماتے ہیں۔
’’بعض مفتری لوگوں نے یہ کیسا جھوٹ بنا لیا کہ چولے پر سنسکرت اور شاستری لفظ اور زبور کی آیتیں بھی لکھی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بالکل جھوٹ اور سخت مکروہ افترا پردازی ہے اور کسی شریر انسان کا کام ہے نہ بھلے مانس کا۔ہم نے بار بار کھول کے دیکھ لیا تمام چولہ پر قرآن شریف اور کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت لکھا ہوا ہے اور بعض جگہ آیات کو صرف ہندسوں لکھا ہوا ہے مگر زبور اور سنسکرت کا نام و نشان نہیں‘‘

(ست بچن، روحانی خزائن جلد10صفحہ156)

انعامی چیلنج

حضور ؑفرماتے ہیں۔
’’چولا موجود ہے جو شخص چاہے جا کر دیکھ لے اور ہم تین ہزار روپیہ نقد بطور انعام دینے کے لئے طیار ہیں اگر چولہ میں کہیں وید یا اُس کی شرتی ذکر بھی ہو یا بجز اسلام کے کسی اور دین کی بھی تعریف ہو یا بجز قرآن شریف کے کسی اور کتاب کی بھی آیتیں لکھی ہوں‘‘

(ست بچن، روحانی خزائن جلد10صفحہ156)

تقدیر خاص اور مشیت ایزدی

حضرت اقدسؑ تحریر فرماتے ہیں۔
’’اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ اس پر نہ ہوتا تو ان انقلابوں کے وقت کب کا نابود ہو جاتا۔ مقدر تھا کہ وہ ہمارے زمانہ تک رہے اور ہم اس کے ذریعہ سے باوا صاحب کی عزت کو بےجا الزاموں سے پاک کریں اور ان کا اصل مذہب لوگوں پر ظاہر کریں۔سو یہ دیکھنا ہم سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ اس وقت تک چولہ باقی رہنے کی یہی حکمت تھی کہ وہ ہمارے وجود کا منتظر تھا‘‘ سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم

( ست بچن، روحانی خزائن جلد10صفحہ156)

چولہ بابا نانک کے ظہور کی حقیقت

بھائی بالا کی جنم ساکھی کے مطابق چولہ غیب سے ظاہر ہوا۔ اس پر جو بھی لکھا ہے وہ خدا کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ باوا صاحب کو یہ سب کچھ الہام یا کشف میں بتایا گیا ہو اور پھر آپ نے اس کے مطابق یہ چولہ تیار کروا لیا ہو۔ ان ہر دو صورتوں کے بارہ میں حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں۔

’’ہم باوا صاحب کی کرامت کو اس جگہ مانتے ہیں اور قبول کرتے ہیں کہ وہ چولہ اُن کو غیب سے ملا اور قدرت کے ہاتھ نے اس پر قرآن شریف لکھ دیا‘‘

(ست بچن،روحانی خزائن جلد10صفحہ192)

پھر فرمایا
’’یہ ممکن ہے کشفی ہو یہ ماجرا دکھایا گیا ہو بحکم خدا پھر اس طرز پر یہ بنایا گیا بحکم خدا پھر لکھایا گیا مگر یہ بھی ممکن ہے اے پختہ کارکہ خود غیب سے ہو یہ سب کاروبار

کہ پردے میں قادر کے اسرار ہیں
کہ عقلیں وہاں ہیچ و بیکار ہیں‘‘

(درثمین)

حضرت بابا گورو نانکؒ کے بارہ میں حضرت اقدسؑ مزید فرماتے ہیں۔
’’بابا نانک صاحب درحقیقت خدا تعالیٰ کے مقبول بندوں میں سے تھے اور اُن میں سے تھے جن پر الہٰی برکتیں نازل ہوتی ہیں اور جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے صاف کئے جاتے ہیں‘‘

’’باوا صاحب ایک سیدھے سادے اور صاف دل آدمی تھے اور ایک سچے مسلمان کی طرح ان کے عقائد تھے‘‘

’’ان کا خاتمہ ایک ایسے صراط مستقیم پر ہوا جس کی رُو سے ہر یک مومن متقی پر فرض ہے کہ اُن کو عزت کی نگاہ سے دیکھے اور پاک جماعت کے رشتہ میں ان کو داخل سمجھے‘‘

’’درحقیقت ان کا وجود خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا ایک عظیم الشان نمونہ تھا جس کی تمام مسلمانوں کو قدر کرنی چاہئے‘‘

’’ہماری کامل تحقیقات نے یہی فیصلہ دیا ہے کہ باوا صاحب رحمتہ اللہ سچے مسلمان اور ایسے صادق تھے کہ اسلام کے انوار حاصل کرنے کے لئے ساری زندگی بسر کر دی‘‘

’’اب ہم کھول کر لکھتے ہیں کہ ہماری رائے باوا نانک صاحب کی نسبت یہ ہے کہ بلاشبہ وہ سچے مسلمان تھے اور یقیناً وہ وید سے بیزار ہو کر اور کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰہِ سے مشرف ہو کر اُس نئی زندگی کو پا چکے تھے جو بغیر خدا تعالیٰ کے پاک رسول کی پیروی کے کسی کو نہیں مل سکتی- وہ ہندؤوں کی آنکھ سے پوشیدہ رہے اور پوشیدہ ہی چلے گئے‘‘

(ست بچن،روحانی خزائن جلد10صفحہ156)

(ڈاکٹر فضل الرحمٰن بشیر)

پچھلا پڑھیں

جماعت سُرینام کی مذہب کے عالمی دن کے پروگرام میں شرکت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 فروری 2020