• 25 اپریل, 2024

اچھے اخلاق سے پیش آؤ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
فرمایا کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے ہوئے سلام کو رواج دو۔ سلام کے رواج دینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ ہر ایک سے محبت سے پیار سے پیش آؤ تبھی سلام کرنے کا بھی حق ادا ہوتا ہے۔ پھر یہ ہے کہ ایک تو ضرورتمندوں کو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔ دوسرے جب تمہارے پاس جب کوئی مہمان آئے تو مہمان نوازی کے اصول کے تحت اس کی کوئی خاطر تواضع کرو۔ بعض دفعہ بعض دُورپار کے رشتہ دار یا کسی حوالے سے واقف لوگ آ جاتے ہیں یہ سمجھ کر کہ فلاں میرے عزیز کا کوئی واقف کار ہے اس سے مل لیں۔ جب ایسے لوگ آئیں تو ان سے بھی اچھے طریقے سے ملنا چاہئے، یہ نہ ہو کہ بیچارے خرچ کرکے جب آپ کے پاس پہنچیں تو بے رخی سے کہہ دو نہ تو میں آپ کو جانتا ہوں، نہ اس واقف کار کو جانتا ہوں اور السلام علیکم کیا اور گھر کا دروازہ بند کر دیا۔ اگر کوئی دھوکے باز ہو اس کا تو چہرے سے پتہ چل جاتا ہے۔ احمدی کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے شکل پہچانی جاتی ہے کہ یہ احمدی ہے۔ اس لئے اس کا بھی خیال رکھیں اور پھر اپنے غریب رشتہ داروں سے خاص طور پر صلہ رحمی کا سلوک کرنا چاہئے۔ فرمایا کہ عبادت کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرو کیونکہ یہ تو ہر مومن سے توقع کی جاتی ہے۔ فرض نمازوں کی طرف تو توجہ دو گے ہی، اس کی ادائیگی تو تم کر ہی رہے ہو گے مہمان نوازی کے دنوں میں یہ نہ ہو کہ نمازوں کو بھی بھول جاؤ۔ پھر یہ کہ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ ان حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد اب نیکی کے معیار اتنے بلند ہو گئے ہیں اور نمازوں کی ضرورت نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ فرمایا کہ نہیں، حقوق العباد کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور عبادت کے اعلیٰ معیار بھی اس وقت قائم ہوں گے جب بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہو گے۔ اس لئے دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ ایک کا دوسرے پر انحصار ہے۔ تب ہی اعلیٰ معیار قائم ہو سکتے ہیں جو ایک مومن کے لئے چاہئیں اور اگر یہ معیار قائم ہو جائیں تو فرمایا کہ تم بے فکر ہو جاؤ کیونکہ یہ معیار قائم کرکے تم بڑے امن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ گے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے صحابہ رضوان اللہ علیھم کی مہمان نوازی صرف مہمانوں تک محدود نہ تھی بلکہ دشمن بھی اس سے محروم نہ تھے۔ یہاں تک کہ جنگ کے قیدیوں سے بھی یہی سلوک تھا۔ چنانچہ ایک شخص ابو عزیز بن عُمیر جو جنگ بدر میں قید ہوئے تھے بیان کرتے ہیں کہ انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور خود کھجوریں وغیرہ کھا کر گزارا کر لیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ اگر ان کے پاس روٹی کا چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہوتا تو وہ مجھے دے دیتے اور خود نہ کھاتے تھے اور اگر میں تامّل کرتا یعنی تھوڑا سا انکار کرتا تو اصرار کے ساتھ کھلاتے تھے۔

(السیرۃالنبویۃ لابن ہشام حصہ اول حالات غزوۂ بدر صفحہ ۷۰۳)

تو یہ ہیں قربانی کے اعلیٰ معیار کہ جنگی قیدیوں سے بھی اتنا حسن سلوک ہو رہا ہے کہ اپنی خوراک کی قربانی دے کر قیدیوں کو کھلایا جا رہا ہے۔ تو جب غیروں کے ساتھ یہ سلوک ہو تواپنوں سے کس قدر حسن سلوک ہونا چاہئے اور پھر وہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں اس بات کے کس قدر حق دار ہیں کہ ان کی مہمان نوازی میں کوئی بھی کمی نہ آئے۔ اب کچھ روایات حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی ہیں۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں 1901ء میں ہجرت کرکے قادیان آیا اور اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ لایا اس وقت میرے دو بچے جن کی عمر پانچ سال اور ایک سال تھی، ساتھ تھے۔ پہلے تو حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے وہ کمر ہ رہنے کے واسطے دیا جو حضورؑ کے اوپر والے مکان میں حضورؑ کے رہائشی صحن اور کوچہ بندی کے اوپر والے صحن کے درمیان تھا۔ اس میں صرف دو چھوٹی چھوٹی چارپائیاں بچھ سکتی تھیں۔ چند ماہ ہم وہاں رہے اور چونکہ ساتھ ہی کے برآمدے اور صحن میں حضرت مسیح موعودؑ مع اہل بیت رہتے تھے۔ اس واسطے حضرت مسیح موعودؑ کے بولنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ایک شب کا ذکر ہے کہ کچھ مہمان آئے جن کے واسطے جگہ کے انتظام کے لئے حضرت ام المومنین حیران ہو رہی تھیں (یعنی ان کو بڑی گھبراہٹ تھی) کہ سارا مکان تو پہلے ہی کشتی کی طرح پُر ہے۔ (بہت بھرا ہوا ہے) اب ان کو کہاں ٹھہرایا جائے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اکرام ضیف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بیوی صاحبہ کو پرندوں کا ایک قصہ سنایا۔ کہتے ہیں کہ کیونکہ میں ساتھ کے کمرے میں تھا اس واسطے مجھے ساری کہانی سنائی دے رہی تھی اور وہ قصہ یہ تھا کہ ایک دفعہ ایک جنگل میں ایک مسافر کو شام ہو گئی رات اندھیری تھی، قریب کوئی بستی نہیں تھی وہ بیچارا ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے لئے لیٹ گیا۔ اس درخت کے اوپر پرندوں کا گھونسلہ تھا۔ ان پرندوں نے فیصلہ کیا کہ آج رات یہ ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں۔ تو مادہ نے نر کی اس بات کا اقرار کیا۔ پھر ان دونوں نے مشورہ کیا کہ رات ٹھنڈی ہے ہمارے مہمان کو آگ سینکنے کی ضرورت پڑے گی۔ آگ تاپنے کی ضرورت پڑے گی تو ہمارے پاس کچھ اور تو ہے نہیں چلو اپنا گھونسلہ اور اپنا آشیانہ توڑ کر نیچے پھینک دیتے ہیں۔ ان لکڑیوں کو جلا کے وہ آگ سینک لے گا۔ انہوں نے تنکا تنکا کرکے اس گھونسلے کو نیچے پھینک دیا تو مسافرنے اس کو جلایا اور اس کو غنیمت جانا اور آگ لگا کے ٹھنڈ سے بچنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد پرندوں نے مشورہ کیا کہ مہمان کو یہ آرام تو پہنچ گیا اس کے لئے کھانے کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہئے۔ اَور تو ہمارے پاس کچھ ہے نہیں ہم خود ہی اس آگ میں جا گرتے ہیں۔ جب بُھن جائیں گے تو مسافر کھا لے گا۔

(ذکر حبیب صفحہ 85تا 87مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ)

تو اس طرح انہوں نے مہمان نوازی کا حق ادا کیا۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت اماں جان کو یہ کہانی سنائی کہ اس طرح مہمانوں کی خدمت کرنی چاہئے۔ آپؑ یہ نمونہ اپنے لوگوں میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے مہمان نوازی کے لئے ہمیشہ یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ قربانی کرنی پڑتی ہے اور چاہے جتنی مرضی سہولتیں ہوں کچھ نہ کچھ ماحول کے مطابق قربانی کرنی ہی پڑتی ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ مہمان کا آنا رحمت کا باعث ہوتا ہے۔ کیونکہ مہمان کے لئے بہرحال قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ یہ مہمان نوازی کے طریقے اور سلیقے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں سکھانا چاہتے ہیں اور ہم سے توقع رکھتے ہیں اس کا آ ج کل اظہار ہونا چاہئے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار یا معزز آدمی آئے تو اس کی عزت و تکریم کرو۔

(سنن ابن ماجہ ابواب الادب باب اذا أتاکم کریم قوم فاکرموہ)

ایک اور واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مہمان نوازی کا ہے کہ ایک ہندو حضرت اقدسؑ کے حضور حاضر ہوا۔ کیونکہ ہندوؤں کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے اور کھانے پینے کا بھی اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لنگر جاری تھا لوگ آتے تھے، کھاتے تھے۔ لیکن ہندو مہمان کے لئے خاص انتظام کرنا پڑا اور وہ انتظام چونکہ دوسروں کے ہاں کرانا ہوتا تھا اس لئے ظاہر میں اس کی مشکلات بھی ہوتی تھیں۔ تو اس موقعے پہ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مہمان نوازی کا پورا اہتمام فرماتے تھے۔ جب وہ آیا اور آپ سے ملاقات کی تو آپؑ نے فرمایا یہ ہمارا مہمان ہے، اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کر دینا چاہئے۔ ایک شخص کو خاص طور پر حکم دیا کہ ایک ہندو کے گھر اس کے لئے بندوست کیا جاوے۔

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرتبہ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ جلد اول صفحہ 142)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو یہ ہے کہ ایسے غیر جو آتے ہیں ان کے لئے انتظام علیحدہ ہوتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ جتنا بہترین انتظام ہو سکے، کیا جائے۔ ان رش کے دنوں میں لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ڈیوٹی والے بھی اور عام لوگ بھی ایسے لوگوں کے آنے جانے کے وقت میں بھی کوئی ایسا واقعہ نہ ہو جو کسی قسم کی تکلیف کا باعث بنے۔ اس لئے ایک تو کوئی نہ کوئی معاون انتظامیہ کو ان لوگوں کے ساتھ ہمیشہ رکھنا چاہئے تاکہ چیکنگ وغیرہ کے وقت میں کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہو۔ بعض دفعہ اس کے علاوہ بھی بعض احمدی اپنے ساتھ کسی غیر کو جلسہ دکھانے کے لئے لے آتے ہیں تو ان کا بھی انتظامیہ کو خیال رکھنا چاہئے۔ ایک تو اس لئے بھی کہ اس شخص کے بارے میں تسلی ہو جائے اس کے لئے بھی ضروری ہے اور دوسرے مہمان نوازی کے تقاضے کے لئے بھی۔ تسلی کے لئے اس لئے ضرورت پڑتی ہے کہ بعض دفعہ بہت تھوڑے عرصے کی واقفیت ہوتی ہے اور دعوت الی اللہ کے شوق میں لوگ بعض دفعہ بعض غلط لوگوں کو بھی لے آتے ہیں اس لحاظ سے احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہرحال غیر محسوس طریقے پر یہ نہ ہو کہ اتنی چیکنگ شروع ہو جائے کہ اگلے کو احساس ہو جائے، اگر کوئی صحیح بھی ہے تو اس کو برا لگنے لگ جائے، دونوں صورتوں کے لئے ہر وقت ایک خاص انتظام رہنا چاہئے۔

ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مغرب کی نماز کے بعد مجلس میں بیٹھے تو میرصاحب نے عبدالصمد صا حب آمدہ از کشمیر کو آگے بلا کر حضور کے قدموں میں جگہ دی اور حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ ان کو یہاں ایک تکلیف ہے کہ یہ چاولوں کے عادی ہیں اور یہاں روٹی ملتی ہے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْن۔ ہمارے مہمانوں میں سے جو تکلف کرتا ہے اسے تکلیف ہوتی ہے اس لئے جو ضرورت ہو کہہ دیا کرو۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ ان کے لئے چاول پکوا دیا کرو۔

(ملفوظات جلد 2صفحہ 482 البدر ۱۴ نومبر ۱۹۰۲ء)

(خطبہ جمعہ 23؍ جولائی 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مارچ 2021