• 19 اپریل, 2024

دوا اپنے وزن کے مطابق استعمال سے ہی فائدہ دیتی ہے !

خاکسار کا ایک آ رٹیکل بعنوان ’’اے خواجہ! درد نیست وگرنہ طبیب ہست‘‘ یعنی اے صاحب! درد ہی نہیں وگرنہ طبیب تو موجود ہے کمپوز ہو کر بغرض اشاعت ادارہ الفضل آن لائن کو بھجوایا ہی تھا کہ میری نظروں سے مطالعہ کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد گزرا کہ طبیب کے لکھے گئے نسخہ کے مطابق دوا استعمال کی جائے تو اثر رکھتی ہے۔ اگر تحریر شدہ نسخہ سے کم dose لی جائے تو دوا اثر نہیں رکھتی اور زیادہ کھا لی جائے تو دوا الٹا اثر کرتی ہے۔ یہی کیفیت عبادات، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں هے اور ان میں بھی میانہ روی اور اعتدال پسندی ضروری ہے۔

ان دونوں عناوین یعنی درد هی نهیں ورنه طبیب توموجود هے اور اس اداریہ بعنوان ’’طبیب کے لکھے گئے نسخہ کے مطابق دوا کا استعمال اثر کرتا ہے‘‘ میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اول الذکر میں طبیب یعنی خدا تعالیٰ سے علاج کے لئے انسان کو تکلیف اور مشقت میں ڈالنا ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عبادت کے لئے دُکھ اٹھانے سے ہمیشہ یہ مراد لی جاتی ہے کہ انسان ان کاموں سے رُکے جو عبادت کی لذت کو دور کرنے والے ہیں۔ (ملفوظات جلد4 ص80) اور ثانی الذکر عنوان کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

ادویات ، طبیب کے نسخہ کے مطابق استعمال کرنے سے اثر کرتی ہے ۔

عبادات اور حقوق العباد میں میانہ روی اختیار کرنا۔

مادی طبیب کے نسخہ کے مطابق ادویات کے استعمال کی بات کریں تو سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کا یہ ارشاد سامنے رہنا ضروری ہے۔ آپ فر ماتے ہیں :۔
’’یہ خیال نہ کرو کہ توبہ کرنا،مرنا ہوتا ہے۔ خدا قلیل شے سے خوش نہیں ہوتا اور نہ وہ دھوکہ کھاتا ہے۔ دیکھو! اگر تم بھوک کو دور کرنے کے لئے ایک قطرہ پانی کا پیو تو ہر گز تمہاری مقصد براری نہ ہوگی۔ ایک مرض کے دفع کرنے کے واسطے ایک طبیب جو نسخہ تجویز کرتا ہے جب تک اس کے مطابق پورا پورا عمل نہ کیا جائے تب تک اس کے فائدہ کی امید امر موہوم ہے اور پھر طبیب پر بھی الزام۔ غلطی اپنی ہی ہے۔ اس طرح توبہ کے واسطے مقدار ہے اور اس کے بھی پرہیز ہیں، بد پرہیز بیمار، صحت یاب نہیں ہو سکتا۔‘‘

( ملفوظات جلد4 ص297)

البدر نے الفاظ یوں نوٹ کئے ہیں۔ ’’یہی سنت اللہ ہے کہ جب تک کوئی چیز اپنے مقرر وزن تک استعمال نہ کیا جاوے تب تک بے فائدہ ہے۔‘‘

( ملفوظات جلد 4ص297)

زندگی میں ہر چیز وزن کے مطابق کی جائے اور ہر امر میں میانہ روی اختیار کی جائے تو زندگی معتدل اور صحت مند رہتی ہے۔ آج کل مہذب دنیا میں دوائیاں بنانے والی کمپنیاں دوائی کی ڈبیہ پر ہی Doses لکھ دیتی ہیں یا ڈاکٹرز کی رائے لینے کو کہتی ہیں۔ حتیٰ کی ڈبیہ پر یہ بھی لکھا ہوتا ہے ۔Dont exceed more then (such a number) in one day پھر ڈاکٹر یا G P ورزش یا سیر میں تھکاوٹ نہ ہونے پائے

جونہی تھکاوٹ محسوس ہوتو ورزش کرنی ترک کر دیں حتی ٰکہ آ پریشن با لخصوص دل کے آ پریشن کے بعد اسی طرح کی ہدایت مریض کو دی جاتی ہے۔ ورزش کی بات ہوئی ہے تو یہاں اپنے بزرگوں کی اس با برکت ادا کو لکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اگر طبیب کوئی ورزش میں تعداد بتائے تو اسے طاق میں کرنا چائیے کیونکہ خدا کو طاق کا عدد پسند ہے۔

بچوں کی تر بیت کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ نہ زیادہ پیار کریں اور نہ زیادہ سختی ۔ میانہ روی رکھیں جو تر بیت کے اصول کے عین مطابق ہے ۔ کہتے ہیں نہ اتنا جھکو کہ روندھ دئے جاؤ اور نہ اتنا اکڑو کہ توڑ دئے جاؤ۔

پھر اپنی اولاد میں برابری کی بھی تعلیم ملتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :۔
اِعْدِ لُوْا ھُوَ اَقْرَ بُ لِلتَّقْوٰی ( المائدہ:) کہ عدل کرنا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے ۔

اب اس مضمون کے دوسرے حصہ یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد میں میانہ روی اختیار کرنے کی اسلامی تعلیم کی طرف آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو عبادات کی تعداد بیان فر مائی ہے۔ خواہ فرض نمازوں میں رکعات کی تعداد ہوں یا نوافل کی تعداد۔ اس میں بھی میانہ روی اختیار کرنے کی تعلیم ہے۔ آنحضورﷺ کے دور میں ایک صحابیہ رات کو اپنے سر کی چوٹی کو چھت سے رسّی کے ساتھ باندھ کر عبادت کرنے لگی کہ جب نیند آ ئے تو جھٹکے سے آنکھ کھل جائے ۔ آ نحضورﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو حضورؐ نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :۔ اِنَّا لِنفسِکَ عَلَیکَ حقَّا۔ کہ تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے۔ بروقت سونا اور نیند پوری کرنا ضروری ہے۔ باجماعت نماز میں امام الصلاۃ کو هدایت هے که نماز میں مقتدیوں کا خیال رکھتے ہوئے اعتدال سے کام لے۔

آ نحضور ﷺ نے بھی اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ پہلا حصہ عوام کے لئے، دوسرا حصہ اہل خانہ کے لئے ،تیسرا اور آخری حصه اللہ کے لئے۔ اور اس میں بھی 10 رکعات ادا فر ماتے اور ایک رکعت (وتر) کے ساتھ ان تمام کو وتر کرتے۔ یوں رات کی نماز کی رکعات وتر ہو جاتیں جبکہ دن کی نمازوں کی رکعات مغرب کی رکعت سے وتر ہوتی ہیں۔

اب بعض لوگ تهجد کی 20،20 رکعات ادا کرتے ہیں جس کا سنت نبوی میں ذکر نہیں۔ اگر سنت رسولؐ کی پیروی کرنی ہے تو وہ اپنائیں جس طرح رسول خداﷺ کیا کرتے تھے۔

نماز جمعہ کے بعد تجارت کرنے کا حکم بھی قرآن میں موجود ہے ۔ رمضان میں قرآن کریم کے دَور کے دورختم کرنا بھی سنت رسول کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآ ن کریم کو 7 منازل میں تقسیم کر رکھا ہے ۔ اور ہر روز ایک منزل کی تلاوت کرنا سنت رسولؐ ہے یوں سات دنوں میں قرآن کریم کا دَور مکمل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جو لوگ ایک منزل روزانہ تلاوت نہ کر سکتے ہوں تو روزانہ چند رکوع اور رمضان میں ایک پارہ روزانہ تلاوت کر کے میانہ روی اختیار کر سکتے ہیں۔

اسلام نے تو وضو کرتے وقت بھی میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم وضوکرتے وقت تمام اعضاء کو ان طریقوں کے مطابق دھوئیں جو سنت رسولؐ ہے لیکن شک، وہم کی بناء پراعضاء کو بار بار دھوتے جانا مناسب نہیں ۔

الغرض اسلام ہر کام کو حد اعتدال میں رہ کر کرنے کا حکم دیتا ہے ہمیں اپنی مادی اور روحانی زندگی میں اسے ہر حال مد نظر رکھناچا ہئے۔ اللہ تعالیٰ همیں اس کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مئی 2021