• 19 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 5 جون 2020ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 5 جون 2020ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

بدری صحابہؓ حضرت صہیب بن سنانؓ اور حضرت سعدؓ بن ربیع کی سیرت و سوانح۔دونوں صحابہؓ کی عظیم قربانیوں اور اخلاص و وفا کا ایمان افروز تذکرہ

آنحضرت ﷺ کی تعلیم کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آپؐ نے طبقۂ نسواں کے تمام حقوق کی پوری پوری حفاظت فرمائی

حضرت صہیبؓ بیان کرتے ہیں کہ جس معرکے میں رسول اللہ ﷺ شریک ہوئے مَیں اس میں موجود تھا۔ آپؐ نے جو بھی بیعت لی مَیں اس میں موجود تھا آپؐ نے جو بھی سریہ روانہ فرمایا مَیں اس میں شامل تھا اور آپؐ جس غزوے کے لئے بھی روانہ ہوئے مَیں آپؐ کے ساتھ شامل تھا

امریکہ کے موجودہ اندرونی حالات اور پاکستان میں احمدیوں کے کا حالات کا تذکرہ اوراحباب جماعت سے دُعا کی تحریک

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح ا لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےمورخہ 5جون 2020ء کو مسجد مبارک ، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اے پر براہ راست نشر کیا گیا ۔حضور انور نے فرمایا: آج بدری صحابہؓ میں سے جن کا مَیں ذکر کروں گا ان کا نام ہے حضرت صہیب بن سنان ؓ۔ آپؓ کے والد سنان بن مالک اور والدہ کا نام سلمیٰ بن قعید تھا۔ آپؓ کا وطن موصل تھا۔ حضرت صہیبؓ کے والد یا چچاکسریٰ کی طرف سے ’’ابواللہ‘‘ کے عامل تھے۔’’ابواللہ‘‘ دجلہ کے کنارے ایک شہر ہے جو بعد میں بصریٰ کہلایا۔ رومیوں نے اس علاقے پر حملہ کیا اور اُنہوں نے حضرت صہیب ؓ کو قیدی بنا لیا جبکہ وہ ابھی کم عمر تھے۔ ابوالقاسم مغربی کے مطابق حضرت صہیبؓ کا نام عمیرہ تھا، رومیوں نے صہیب نام رکھ دیا۔ حضرت صہیبؓ کا رنگ نہایت سرخ تھا۔ قد نہ لمبا تھا اور نہ ہی چھوٹا اور سر پر گھنے بال تھے۔ حضرت صہیبؓ نے رومیوں میں پرورش پائی۔ ان کی زبان میں لکنت تھی۔ قلب نے انہیں رومیوں سے خرید لیا اور انہیں لے کر مکہ آ گیا۔ پھرعبداللہ بن جدعان نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا۔ حضرت صہیبؓ عبداللہ بن جدعان کی وفات تک اس کے ساتھ مکہ میں رہے یہاں تک کہ نبی ﷺ کی بعثت ہوگئی۔ حضرت مصلح موعود ؓ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ بھی رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے اور آپؐ کے لئے انہوں نے کئی قسم کی تکالیف اُٹھائیں۔

حضرت عمار بن یاسرؓ کہتے ہیں کہ مَیں صہیب سے دارِ ارقم کے دروازے پر ملا تو رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے۔ مَیں نے پوچھا تمہارا کیا ارادہ ہے۔ صہیب نے مجھ سے کہا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے۔ مَیں نے کہا مَیں یہ چاہتا ہوں کہ محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپؐ کا کلام سنوں۔ حضرت صہیبؓ نے کہا کہ مَیں بھی یہی چاہتا ہوں۔ حضرت عمارؓ کہتے ہیں کہ پھر ہم دونوں آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ہمارے سامنے اسلام پیش کیا جس پر ہم نے اسلام قبول کر لیا۔ ہم سارا دن وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ ہم نے شام کی۔ پھر ہم وہاں سے چھپتے ہوئے نکلے۔ حضرت عمارؓ اور حضرت صہیبؓ نے تیس سے زائد افراد کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام لانے میں سبقت رکھنے والے چار ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں عرب میں سبقت رکھنے والا ہوں۔ صہیب روم میں سبقت رکھنے والا ہے اور سلمان اہل فارس میں سبقت رکھنے والا ہے اور بلال حبش میں سبقت رکھنے والا ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ سب سے پہلے جنہوں نے اپنے اسلام کا اعلان فرمایا وہ سعد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ آپ پر شریعت اُتری تھی اور ابوبکرؓ اور عمارؓ اور ان کی والدہ سمیہؓ اور صہیبؓ اور بلالؓ اور مقدادؓ۔ پھر بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت صہیبؓ ان مؤمنین میں سے تھے جنہیں کمزور سمجھا جاتا تھا اور جنہیں مکہ میں اللہ کی راہ میں اذیّت دی جاتی تھی۔ تکلیفوں سے ان کو بھی بہت زیادہ گزرنا پڑا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمار بن یاسرؓ کو اتنی تکلیف دی جاتی کہ اُنہیں معلوم نہ ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہی حالت حضرت صہیبؓ، حضرت ابوفائد، حضرت عامر بن فہیرہ اور دیگر اصحاب کی تھی۔ ان اصحاب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا فُتِنُوۡا ثُمَّ جٰہَدُوۡا وَ صَبَرُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔ (النحل:111) پھر تیرا رب یقیناً اُن لوگوں کو جنہوں نے ہجرت کی بعد اس کے کہ فتنہ میں مبتلا کئے گئے پھر اُنہوں نے جہاد کیا اور صبر کیا تو یقیناً تیرا رب اس کے بعد بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

ایک روایت کے مطابق مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے جو سب سے آخر پرآئے وہ حضرت علیؓ اور حضرت صہیب بن سنانؓ تھے۔ یہ نصف ربیع الاول کا واقعہ ہے۔ آنحضرت ﷺ قبا میں قیام پذیر تھے ابھی مدینہ کے لئے روانہ نہیں ہوئے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت صہیبؓ مکہ سے ہجرت کر کے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت آپؐ قبا میں تھے۔ آنحضرت ﷺ کے پاس اس وقت حضرت ابوبکر ؓاور عمرؓ بھی تھے۔ ان سب کے سامنے تازہ کھجوریں تھیں جو حضرت کلثوم بن ہدمؓ لائے ،راستے میں حضرت صہیبؓ کو آشوبِ چشم ہو گیا تھا۔ آنکھوں کی تکلیف ہو گئی تھی اور اُنہیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی سفر کی وجہ سے تھکان بھی تھی۔ حضرت صہیبؓ کھجوریں کھانے کے لئے لپکے تو حضرت عمر ؓنے کہا یا رسول اللہﷺ! صہیب کی طرف دیکھیں اسے آشوب ِچشم ہے اور وہ کھجوریں کھا رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ نےفرمایا مذاقاً کہ تم کھجور کھا رہے ہو جبکہ تمہیں آشوب ِچشم ہے ، آنکھیں سوجھی ہوئی ہے بہہ رہی ہیں۔حضرت صہیب ؓنے عرض کیا ۔مَیں اپنی آنکھ کے اُس حصہ سے کھا رہا ہوں جو ٹھیک ہے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ مسکرا دئیے۔ پھر حضرت صہیبؓ نے حضرت ابوبکر ؓسے کہا کہ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہجرت میں مجھے ساتھ لے کر جائیں گے مگر آپ چلے آئے اور مجھے چھوڑ دیا۔ پھر اُنہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپؐ نے مجھے ساتھ لے کر جانے کا وعدہ کیا تھا تاہم آپؐ بھی تشریف لے آئے اور مجھے چھوڑ آئے۔ قریش نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے محبوس کر دیا اور مَیں نے اپنی جان اور اپنے گھر والوں کو اپنے مال کے عرض خریدا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سودا نفع مند ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَاد۔ (البقرہ: 208) اور لوگوں میں سے ایسا بھی ہے جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کے لئے بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں کے حق میں بہت ہی مہربانی کرنے والا ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓ بیان فرماتے ہیں کہ صہیبؓ ایک مالدار آدمی تھے ،یہ تجارت کرتے تھے اور مکہ کے باحیثیت آدمیوں میں سمجھے جاتے تھے مگر باوجود اس کے کہ وہ مالدار بھی تھے اور آزاد بھی ہو چکے تھے اب تو غلام نہیں رہے تھے قریش ان کو مار مار کر بیہوش کر دیتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ کی طرف ہجرت کر کے گئے تو آپؐ کے بعد صہیب ؓنے بھی چاہا کہ وہ بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں مگر مکہ کے لوگوں نے اُن کو روکا اور کہا کہ جو دولت تم نے مکہ میں کمائی ہے تم اُسے مکہ سے باہر کس طرح لے جا سکتے ہو، ہم تمہیں مکہ سے جانے نہیں دیں گے۔ صہیبؓ نے کہا اگر مَیں یہ سب کی سب دولت چھوڑ دوں تو کیا پھر تم مجھے جانے دو گے۔ وہ اس بات پر رضا مند ہو گئے اور آپؓ اپنی ساری دولت مکہ والوں کے سپرد کر کے خالی ہاتھ مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہو ئے۔ آپؐ نے فرمایا :صہیب ! تمہارا یہ سودا سب پہلے سودوں سے نفع مند رہا۔ یعنی پہلے اسباب کے مقابلے میں تم روپیہ حاصل کیا کرتے تھے مگر اب روپے کے مقابلے میں تم نے ایمان حاصل کر لیا۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت صہیب ؓ کے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ان کی اور حضرت حارث بن سمہؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت صہیبؓ غزوہ بدر، احد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔

حضرت صہیبؓ بیان کرتے ہیں کہ جس معرکے میں رسول اللہ ﷺ شریک ہوئے مَیں اس میں موجود تھا۔ آپؐ نے جو بھی بیعت لی مَیں اس میں موجود تھا ۔آپؐ نے جو بھی سریہ روانہ فرمایا مَیں اس میں شامل تھا اور آپؐ جس غزوے کے لئے بھی روانہ ہوئے مَیں آپؐ کے ساتھ شامل تھا۔ مَیں آپؐ کے دائیں طرف ہوتا یا بائیں طرف۔ لوگ جب سامنے سے خطرہ محسوس کرتے تو مَیں لوگوں کے آگے ہوتا، جب لوگ پیچھے سے خطرہ محسوس کرتے تو مَیں ان کے پیچھے ہوتا اور مَیں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو دُشمنوں کے اور اپنے درمیان نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی وفات ہوئی۔حضرت صہیبؓ بڑھاپے میں لوگوں کو جمع کر کے نہایت لطف کے ساتھ اپنے جنگی کارناموں کے دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔ حضرت صہیبؓ کی زبان میں عجمیت تھی یعنی عربوں والی فصاحت نہیں تھی۔حضرت عمر ؓحضرت صہیب ؓسے بہت محبت کرتے تھے اور ان کے بارے میں اعلیٰ گمان رکھتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت عمر ؓ زخمی ہوئے تو آپ ؓنے وصیت کی کہ میری نماز جنازہ صہیب پڑھائیں گے اور تین روز تک مسلمانوں کی امامت کروائیں گے یہاں تک کہ اہل شوریٰ اُس پر متفق ہو جائیں جس نے خلیفہ بننا ہے۔ حضرت صہیبؓ کی وفات ماہ ِشوال 38 ہجری میں ہوئی بعض کے مطابق 39ہجری میں وفات ہوئی۔ وفات کے وقت حضرت صہیبؓ کی عمر 73 برس تھی بعض روایات کے مطابق 70 برس تھی آپ مدینہ میں دفن ہوئے۔

حضور انور نے فرمایا : اگلے صحابی جن کا ذکر ہے وہ حضرت سعدؓ بن ربیع ہیں۔ان کاتعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو حارث سے تھا۔ آپ کے والد ربیع بن عمرو اور والدہ کا نام حزیلہ بنت عنبہ تھا۔حضرت سعدؓ کی دو بیویاں تھیں ایک کا نام عمرہ بنت حزم اور دوسری کا نام حبیبہ بنت زید تھا۔ حضرت سعدؓ بن ربیع کی دو بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹی ام سعد تھیں ایک جگہ انہیں ام سعید بھی لکھا گیا ہے ان کا اصل نام جمیلہ تھا۔ حضرت سعدؓ بن ربیع زمانہ جاہلیت میں بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے جبکہ بہت کم لوگ یہ جانتے تھے۔ حضرت سعدؓ قبیلہ بنو حارث کے نقیب تھے۔ ان کے ساتھ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی اسی قبیلہ کے نقیب تھے۔ حضرت سعد ؓبیعتِ عقبہ اولیٰ اور عقبہ ثانیہ میں شامل تھے۔ ہجرت مدینہ کے وقت آنحضور ﷺ نے حضرت سعد ؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت سعدؓ بن ربیع غزوہ بدر و اُحد میں شامل ہوئے اور غزوہ اُحد میں شہید ہوئے۔ غزوہ اُحد کے روز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس سعد بن ربیع کی خبر کون لائے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ مَیں۔ چنانچہ وہ مقتولین میں جا کر تلاش کرنے لگے۔ حضرت سعدؓ نے اُس شخص کو دیکھ کر کہا تمہارا کیا حال ہے۔ اُس نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے تاکہ میں آپؐ کے پاس تمہاری خبر لے کر جاؤں تو حضرت سعد ؓنے کہا کہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور آپؐ کو یہ خبر دینا کہ مجھے نیزے کے12 زخم آئے ہیں اور میرے سے لڑنے والے دوزخ میں پہنچ گئے ہیں یعنی جس نے بھی میرے سے لڑائی کی اُس کو مَیں نے مار دیا ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جو شخص اُن کے پاس گیا تھا وہ حضرت ابی بن کعبؓ تھے۔ حضرت سعد ؓنے حضرت ابی بن کعبؓ سے کہا اپنی قوم سے کہنا کہ تم سے سعد بن ربیع کہتا ہے کہ اللہ سے ڈور اور جو عہد تم لوگوں نے عقبہ کی رات رسول اللہ ﷺ سے کیا تھا اُس کو یاد کرو۔ اللہ کی قسم اللہ کے حضور تمہارے لئے کوئی عذر نہ ہو گا اگر کفار تمہارے نبی ﷺ کی طرف پہنچ گئے اور تم میں سے کوئی ایک آنکھ حرکت کر رہی ہو یعنی کوئی شخص بھی زندہ باقی رہے ۔ تو یہ کوئی عذر نہیں ہو گا اللہ کے حضور۔ تو حضرت ابی بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں ابھی وہیں تھا یعنی حضرت سعدؓ کے پاس ہی تھے تو حضرت سعدؓ بن ربیع کی وفات ہو گئی۔ زخموں سے چور تھے اس وقت۔ مَیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس آیا حاضر ہوا اور آپؐ کو سب بتا دیا کہ یہ گفتگو ہوئی تھی ،یہ اُن کی حالت ہے اور اس طرح شہید ہو گئے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اُس پر رحم فرمائے ،وہ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کا خیر خواہ رہا۔ حضرت سعد ؓبن ربیع اور حضرت خارجہ بن زیدؓ کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا ۔حضور انور نےحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ اور حضرت مصلح موعودؓ کی تحریر سےحضرت سعدؓ کی شہادت کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا۔

فرمایا : ایک مرتبہ حضرت سعد ؓبن ربیع کی صاحبزادی ام سعد حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئیں تو اُنہوں نے اُس کے لئے اپنا کپڑا بچھا دیا۔ حضرت عمر ؓ آئے تو اُنہوں نے پوچھا یہ کون ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: یہ اُس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا۔ حضرت عمر ؓنے کہا اے خلیفہ رسول ﷺ! وہ کون ہے۔ حضرت ابوبکر ؓنے فرمایاکہ وہ شخص جس کی وفات رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہوئی اور اُس نے جنت میں ٹھکانہ بنا لیا جبکہ میں اور تم باقی رہ گئے۔حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعدؓ بن ربیع کی بیوی اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ آنحضرت ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ دونوں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے اُحد کے دن شہید ہو گئے تھے اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے لیا ہے یعنی حضرت سعدؓ کی جائیداد جو تھی ان کے چچا نے لے لی ہے،انہیں کچھ نہیں ملا اور ان کے لئے مال نہیں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھی نہیں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔ اس پر میراث کے احکام پر مشتمل آیت نازل ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ نے دونوں کے چچا کو بلوایا اور فرمایا کہ سعد کی بیٹیوں کو سعد کے مال کا تیسرا حصہ دو اور ان دونوں کی والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے۔

حضور انور نےفرمایا :اس بارے میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیین میں اس طرح لکھا ہے کہ حضرت سعدؓ ایک متموّل آدمی تھے، اچھے کھاتے پیتے تھے ،اپنے قبیلہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اُن کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف دو لڑکیاں تھیں اوربیوی تھی۔ چونکہ ابھی تک آنحضرت ﷺ پر ورثہ کے متعلق کوئی جدید احکام نازل نہیں ہوئے تھے اورصحابہؓ میں قدیم دستور عرب کے مطابق ورثہ تقسیم ہوتا تھا۔ متوفی یعنی فوت ہونے والے کی نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کے جدی اقرباء جو تھے جائیداد پر قابض ہوجاتے تھے اور بیوہ اور لڑکیاں یونہی خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں۔ اس لئے سعدؓ بن ربیع کی شہادت پر اُن کے بھائی نے سارے ترکہ پرقبضہ کرلیا اوراُن کی بیوہ اور لڑکیاں بالکل بے سہارا رہ گئیں۔ اس تکلیف سے پریشان ہوکرسعد ؓ کی بیوہ اپنی دونوں لڑکیوں کو ساتھ لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ساری سرگزشت سنا کر اپنی پریشانی کاذکر کیا۔ آنحضرت ﷺ کی فطرت صحیحہ کواس دَرد کے قصّہ نے ایک ٹھیس لگائی مگر چونکہ ابھی تک اس معاملہ میں خدا کی طرف سے آپؐ پرکوئی احکام نازل نہیں ہوئے تھے آپؐ نے فرمایا تم انتظار کرو پھر جو احکام خدا کی طرف سے نازل ہوں گے اُن کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس بارہ میں توجہ فرمائی اورابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ آپؐ پرورثہ کے معاملہ میں بعض وہ آیات نازل ہوئیں جو قرآن شریف کی سور ۃ النساء میں بیان ہوئی ہیں۔ اس پر آپؐ نے سعد کے بھائی کو بُلایا اور اُس سے فرمایا کہ سعدکے ترکہ میں سے دو ثلث اُن کی لڑکیوں اورایک ثمن اپنی بھاوجہ کے سپرد کردو اورجو باقی بچے وہ خود لے لو۔ اس وقت سے تقسیم ورثہ کے متعلق جدید احکام کی ابتدا قائم ہو گئی جس کی رُو سے بیوی اپنے صاحب اولادخاوند کے ترکہ میں آٹھویں حصہ کی اور بے اولاد خاوند کے ترکہ میں چہارم حصہ کی اور لڑکیاں اپنے باپ کے ترکہ میں اپنے بھائی کے حصہ کی نسبت نصف حصہ کی اوراگر بھائی نہ ہوتو سارے ترکہ میں سے حالات کے اختلاف کے ساتھ دو ثلث یانصف کی، تین چوتھائی یا نصف کی ، دو تہائی یا نصف کی اورماں اپنے صاحب اولاد لڑکے کے ترکہ میں چھٹے حصہ کی اور بے اولاد لڑکے کے ترکہ میں تیسرے حصہ کی حق دار قرار دی گئی اوراسی طرح دوسرے ورثاء کے حصے مقرر ہوگئے اورعورت کا وہ فطری حق جو اس سے چھینا جاچکا تھا اُسے واپس مل گیا۔حضرت مرزا بشیر احمد ؓ لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؐ نے طبقۂ نسواں کے تمام جائز اورواجبی حقوق کی پوری پوری حفاظت فرمائی ہے۔

حضور انور نے فرمایا : آج کی دُنیا عورت کے حقوق کی بات کرتی ہے اور چند سطحی باتوں کو اُٹھا کر جن کا آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلام نے جو پابندیاں لگائی ہیں وہ بھی عورت کی عزت قائم کرنے اور گھروں کے سکون اور اگلی نسل کی تربیت کے لئے رکھے ہیں ان پر اعتراض کرتے ہیں اسلام پر اعتراض کرنے والے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت کی آزادی اور حقوق دلوانے کی حقیقی تعلیم اسلام کی ہی ہے۔

حضور انور نے فرمایا: موجودہ حالات کے لئے بھی دُعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں ۔دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جہاں کورونا کی وباء اور آفات سے دُنیا کو پاک کرے وہاں انسانوں کو یہ عقل اور سمجھ بھی دے کہ اُن کی بقاء اور بچت ایک خدا کی طرف جھکنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں ہے، دُنیا سے فتنہ و فساد ختم کرنے میں ہے ۔ حکومتوں کو اللہ تعالیٰ عقل دے کہ انصاف پر مبنی نظام چلائیں۔ حضور انور نے امریکہ کے موجودہ اندرونی حالات اور پاکستان میں احمدیوں کےموجودہ حالات کا ذکر کر کےاحباب جماعت کو دُعا کی تحریک فرمائی۔

پچھلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 07 جون 2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 08 جون 2020ء