• 24 اپریل, 2024

خط و کتابت۔ پرانی یادیں

ہمارے بچپن کی بعض ایسی باتیں جو اب آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں ان میں سے ایک خطوں کا باہم تبادلہ بھی تھا۔ رشتہ داروں اور قریبیوں میں ایک دوسرے کو اپنی خیریت کی اطلاع دینا اور ان کی خیریت معلوم کرنے کا عام طریق تھا اوراگر اس معاملہ میں کوئی سستی سے کام لیتا تو اس سے شکوہ بھی کیا جاتا تھا ۔ خط و کتابت کے لئے عام ذریعہ پوسٹ کارڈاور لفافہ ہوتا تھا۔ہم نے تین پیسے کا کارڈ اور چھ پیسے کا لفافہ دیکھا ہؤا ہے بلکہ اسے استعمال بھی کیا ہؤا ہے۔ لفافے اور کارڈ کے ذکر کے سا تھ قلم دوات کا ذکر بھی لازمی ہے ۔ کارڈیا خط لکھنے کے لئے قلم اور دوات استعمال ہوتی تھی۔ بزرگوں کی تحریریں تو قلم اور دوات سے ہی لکھی ہوتی تھیں بلکہ بعض بزرگ جو تیزی سے اور زیادہ لکھتے تھے ان کے متعلق تو یہ بھی مشہور تھا کہ انہوں نے ایک سے زیادہ دوات (سیاہی کی شیشی یا برتن) رکھی ہوتی تھی۔ قلم آہستہ آہستہ ہولڈر کی شکل اختیار کر گئی یعنی قلم میں لوہے کا نِب استعمال ہونے لگا مگر پرانے بزرگ یہی کہتے رہے کہ لکھنے کا مزہ اور خوبصورتی قلم کے ساتھ ہی تھی۔ ہولڈر کی لکھائی میں وہ خوبصورتی اور بات کہاں ۔ ہولڈر کے بعد فونٹین پی سیاہی کے لئے الگ دوات کی ضرورت نہ رہی بلکہ ہولڈر میں ہی سیاہی بھر لی جاتی تھی ۔ اس پین نے بھی ترقی کی کئی منزلیں دیکھیں ۔ شروع میں اس میں سیاہی کے لئے ایک ٹیوب ہوتی تھی جس میں سیاہی بھرنے کے لئے ایک لیور سا لگا ہوتا تھا ۔ بعد میں ٹیوب کے بغیر پین بھی دستیاب ہو گئے۔ تاہم ابتدائی طور پر یہی مشہور تھا کہ ہولڈر سے لکھائی بہتر ہوتی ہے اور پین میں وہ بات نہیں بنتی ۔ مجھے یاد ہے ہمارے ایک بزرگ محترم کرنل محمد رمضان صاحب کہا کرتے تھے کہ میں بال پوائنٹ استعمال ہی نہیں کرتا ۔اس سے لکھائی صاف نہیں ہوتی۔ اس بات سے ایک اور پرانی بات بھی یاد آگئی ۔ ہمارے محلہ میں ایک ضعیفہ رہتی تھیں وہ معمر اور نابینا تھیں۔ میں ان کے خط لکھا کرتا تھا اور اس مقصد کے لئے کاغذ، ہولڈر وغیرہ ساتھ لیکر ان کے ہاں جایا کرتا تھا ۔ یہ زمانہ میری چھٹی ،ساتویں کلاس کا ہو گا۔ میں ہمیشہ ہی یہ سوچتا ہوں کہ اس زمانہ میں میری تحریر کیسی ہو گی اور یہ بھی کہ میرے لکھے ہوئے خطوط مکتوب الیہ تک پہنچ بھی جاتے ہونگے تو وہ پڑھے بھی جا سکتے ہوں گے یا نہیں! وہ معمر خاتون میری اس بری بھلی خدمت کے لئے مجھے بہت دعائیں دیا کرتی تھیں ۔ اس خاندان کے کئی افراد کے نام مجھے یاد ہیں۔ اس خاتون کا ایک پوتا جرمنی میں مجھے ملا بھی تھا تاہم میں عمداََ ان کے نام نہیں لکھ رہا۔

پرانی یادوں کے سلسلے میں یہ لکھنا بھی بے محل اور غیر مناسب نہ ہو گا کہ بعد میں مجھے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب اورحضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب کے خطوط اور مضامین لکھنے کا بھی اتفاق ہؤا ۔ ان مواقع کو یہ خاکسار اپنی خوش قسمتی اور سعادت سمجھتا ہے اور ان بزرگوں سے بہت سی باتیں سیکھنے کو ملتی تھیں۔

ایک بات جس کا خط و کتابت سے تو بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے لیکن میں نے ہمیشہ اس سے ن کا زمانہ آ گیا۔ ہولڈر کا قد چھوٹا ہو گیا اور فائدہ اٹھایا اور شاید کسی پڑھنے والے کے لئے مفید ہو یہاں تحریر کر رہا ہوں۔ استاد مکرم مولناابو العطاء صاحب نے یاد فرمایا اور کہنے لگے میرے پاس بہت سے خطوط اور سوالات جمع ہو گئے ہیں اگر آپ فلاں وقت آ جائیں تو میں جلدی جلدی ان کے جواب لکھوا سکوں گا ۔ خاکسار وقت مقررہ پر حاضر ہو گیا ۔ کئی خطوط کے جواب لکھے ۔ حضرت مولانا صاحب کوئی کتاب دیکھ رہے تھے، سامنے ان کی شیروانی لٹک رہی تھی۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ اس میں سے رومال پکڑا دیں۔ میں نے دائیں جیب یا بائیں جیب کا خیال کئے بغیر باہر سے دونوں جیبیں ٹٹول کر دیکھیں ۔حضرت مولانا صاحب نے مجھے ایسے کرتے ہوئے دیکھ لیا ، فرمانے لگے:

’’رومال بائیں جیب میں ہوتا ہے‘‘

یہ ایک سرسری سی بات تھی لیکن میں نے ہمیشہ اس بات سے فائدہ اٹھایا کہ دائیں طرف کیا ہونا چاہئے اور بائیں طرف کیا!

خط و کتابت کا ذکر ہو رہا تھا ۔ خطوط صرف خیریت کی خبر ہی نہیں پہنچاتے تھے بلکہ اس زمانہ میں تمام ضروری باتیں بھی خطوں کے ذریعہ ہی ہوتی تھیں؎

چند تصویر بُتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ ساماں نکلا

سے بھی خطوط کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔ کسی عزیز کا خط ملتا تو اسے تکیہ کے نیچے رکھا جاتا۔ بار بار پڑھا جاتا اور لطف لیا جاتا یا اس کے بر عکس بھی ہوتا تھا ۔ ہمارے ایک بزرگ کا یہ لطیفہ بھی بہت دُہرایا جاتا تھا کہ میں مرکز سے آنے والی ڈاک رات کے وقت نہیں کھولتا۔ رات آرام سے سو کر صبح ڈاک پڑھتا ہوں۔ خاکسار جب ملک سے باہر ہوتا تھا تو یہ اہتمام کرتا تھا کہ ‘اماں جی’ کو ہفتہ میں ایک خط ضرور لکھ دوں تا وہ میری خیریت سے با خبر رہیں اور میری سستی یا تاخیر کی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔

خاکسار کو بخوبی یاد ہے کہ ’پردیس‘ میں رہنے والے نوجوانوں کو باقاعدہ خط لکھنے کی طرف توجہ دلایا کرتا تھا بلکہ ان سے یہ بھی پوچھا کرتا تھا کہ انہوں نے گھر خط لکھ دیا ہے یا کب لکھا تھا۔

اوپر پین کا ذکر ہو چکا ہے اس کے بعد تو بال پوائنٹ کا زمانہ آیا اور سیاہی پرانے زمانے کی بات ہو گئی اور اب تو تحریر میں ٹائپ رائٹر کا زمانہ بھی چلا گیا اور کمپوزنگ کی نت نئی شکلیں اور آسانیاں سامنے آ گئی ہیں جن سے سہولت تو بہر حال زیادہ ہو گئی ہے مگر خطوں کا اپنا ہی مزہ تھا ۔

’غالب کے خطوط‘ کو بہت شہرت حاصل ہوئی اور کئی ادیبوں کے خطوط انکی ادبی خدمات میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اور تو اور ’’ایک عزیز کے نام خط‘‘ حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کی ایک بہت اہم کتاب ہے۔ یعنی خط کتاب کی شکل اختیار کر گیا اور اس میں مذہب کی ضرورت و اہمیت کا مضمون بہت عمدہ پیرایہ میں بیان ہو گیا۔

’’واذالصحف نشرت‘‘ کا یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔ کون جانے مستقبل میں کیا کیا ظاہر ہونے والا ہے ۔

٭…٭…٭

(عبدالباسط شاہد۔ یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 8 جولائی 2020ء