• 24 اپریل, 2024

مغربی معاشرہ میں اسلامی اقدار کا احیاء

یورپ اور امریکہ کی بعض مشرکانہ رسوم

یورپ اور امریکہ میں رہنے والے احمدی حضرات خداتعالیٰ کے فضل سے حضرت خلیفۃ المسیح کی ہدایات کو سن کر ان پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں سوائے اکّا دکّا افراد کے لیکن چونکہ یہاں کا سارا معاشرہ ہی عیسائیت اور غیرمسلموں کے طور و اطوار پر پھیلا ہوا ہے اس لئے یاددہانی کی خاطر بعض چیزیں اور باتیں جو اس معاشرہ کا جزو لا ینفک ہیں پیش کر دیتا ہوں۔ اس معاشرہ کی دیکھا دیکھی اور ان کے زیر اثر ان بدرسومات اور غیراسلامی باتوں کی لوگ پیروی کرنے لگ جاتے ہیں جن میں: برتھ ڈے منانا، ویلنٹائن ڈے منانا، کرسمس منانا، نیو ایئر نائٹ منانا، ہالووین، ایسٹر کے موقع پر انڈوں کی رسم اور سانٹا کی رسوم شامل ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے یکم دسمبر 1928ء کو قادیان میں جبکہ لجنۂ قادیان نے مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم اے مرحوم مبلغ انگلستان کے اعزاز میں چائے کی دعوت دی، کے موقع پر جو خطاب فرمایا اس میں ان سب مندرجہ بالا باتوں کا اصولی جواب آگیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا:

’’میرے نزدیک ہمیں زیادہ توجہ جس طرف دینی چاہئے وہ تعلیم ہے اور وہ بھی مذہبی تعلیم۔ یہی تعلیم ہماری اولاد کے ہوش و حواس قائم رکھ سکتی ہے میں تو نوجوانوں کی موجودہ رَو کو دیکھ کر ایسا بددِل ہوں کہ چاہتا ہوں یورپ کی ہر چیز کو بدل دیا جائے، ہمارے ملک کے لوگ اس طرح دیوانہ وار یورپ کی تقلید کر رہے ہیں کہ اسے دیکھ کر شرم و ندامت سے سرجھک جاتا ہے……غرض یورپ کی تقلید میں لوگ بالکل اندھے ہو رہے ہیں، ہمیں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی بچانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے کہ لوگوں کو محسوس کرائیں ہمارا تمدن ناقص اور کمزور نہیں، نقص یہ ہے کہ استعمال درست طور پر نہیں کیا گیا۔……پس ضرورت ہے نقائص کی اصلاح کی۔ کسی بات کی اندھا دھند تقلید نہ کی جائے۔ اسلام وہ ہے نہ جو شرقی ہے نہ غربی۔ اس لئے مسلمانوں کو نہ ایشیا کی نقل کرنی چاہئے نہ مغرب کی۔ اس لئے کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو نہ یہ کہ ایشیا میں چونکہ پردہ رائج ہے اس لئے جس طرح کا رائج ہے اسے جاری رکھنا چاہئے نہ یہ کہ یورپ چونکہ پردہ نہیں کرتا اس لئے ہمیں بھی نہیں کرنا چاہئے بلکہ افراط و تفریط سے بچ کر صحیح راستہ پر چلنا چاہئے۔‘‘

(الازھار لذواتِ الخمار صفحہ213-214)

برتھ ڈے۔ یومِ پیدائش منانا

یورپ اور امریکہ میں برتھ ڈے منانا بہت اچھا سمجھا جاتا ہے اور اس کے لئے دعوتیں، کیک، پارٹیاں اور تحفے تحائف ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ یہ برتھ ڈے منانا اس معاشرہ نے گویا کہ اپنے اوپر فرض کر رکھا ہے۔ ہمارے بچے بھی ان کے زیر اثر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت ہی اچھی بات ہے اور زندگی کا ایک ضروری حصہ ہے اگر برتھ ڈے نہ منائی گئی تو نہ جانے ہماری زندگی میں کیا کچھ کمی سمجھی جائے گی اور ہمارے ہمسائے، جاننے والے ہمیں کیا کہیں گے، غیرازجماعت افراد تو بہت زیادہ ایسے کرنے لگ گئے ہیں۔

ہم چونکہ مذہبی جماعت ہیں اس لئے ہم نے تووہ کچھ کرنا ہے جو ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آپ نے 63 سالہ زندگی پائی۔ کیا ایک مرتبہ بھی آپ نے اپنی برتھ ڈے منائی۔ پھر آپؐ کے بعد آپ کے چاروں خلفاء نے اپنی برتھ ڈے نہیں منائی اور نہ ہی صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے!

تو پھر ہمیں کیا جواز ہے کہ ہم اپنی برتھ ڈے منائیں؟

پھر اس زمانے میں جو امام مہدی علیہ السلام آئے ہیں اور آپؑ کے خلفائے کرام، ان میں سے بھی کسی نے اپنی برتھ ڈے نہیں منائی اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔

آجکل اس سوال کا جواب کہ برتھ ڈے منانی چاہئے کہ نہیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد مرتبہ بچوں کی کلاس میں دے دیا ہے کہ جو دن آپ کی پیدائش کا ہو اس دن دو نفل پڑھ کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اتنے سال خوشی سے اور برکت سے گزار دیئے ہیں اور آئندہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت ہمارے شامل حال رہے۔

آپ نے یہ بھی نصیحت فرمائی کہ اس دن صدقہ بھی دے دیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ آئندہ آنےو الی بلاؤں سے محفوظ رکھے۔ اور اگر گھر میں رہنے والے افراد مل کر کھانا کھا لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر اسے اس پیمانہ پر منانا کہ لوگوں کو بلایا جائے، باقاعدہ دعوت ہو، کیک کاٹے جائیں، تحفے تحائف کا سلسلہ ہو ، یہ مناسب نہیں ہے۔

اسی طرح مغرب میں یا ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں نئے سال کی رات ہاہو،شراب نوشی،ہلڑ بازی اور پٹاخے اور پھلجھڑیاں،جسے فائر ورکس کہتے ہیں،سے نئے سال کا آغاز کیا جاتا ہے۔ ہمیں اس سے بچنا ہے بلکہ اس رات کو عبادت میں گزارنا چاہئے اور صدقہ دینا اور اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کے افراد اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اس رات خصوصاً ہر جگہ تہجد باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور نئے سال کی آمد پر دعائیں کی جاتی ہیں۔

کرسمس

ہر سال 25 دسمبر کو دنیا ئے عیسائیت میں یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے طور پر سمجھاجاتا ہے اور منایا جاتا ہے لیکن عیسائیوں کے بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو اسے نہیں مناتے۔ اسے نہ منانے کی کئی وجوہات ہیں۔ میں ایک دفعہ ایک چرچ میں تقریر کرنے گیا تو مجھے بھی ایک عیسائی نے یہی سوال کیا کہ کیا آپ کرسمس مناتے ہیں؟ میں نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک کرسمس کیا ہے اور اس کو منانے کا کیا طریق ہے؟

اس نے جواب دیا کہ یہ دن حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا دن ہے اور ہم خوشی مناتے ہیں یہ ہمارا تہوار ہے کہ دنیا کا نجات دہندہ اس دن پیدا ہوا ہے جس نے انسانیت کے گناہ اپنے اوپر لے کر صلیب پر اُن کے لئے جان دے دی۔

میں نے انہیں بتایا کہ نہیں ہم احمدیوں کا نہ ہی یہ عقیدہ ہے اور نہ ہی بائبل سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ 25 دسمبر کو آپ پیدا ہوئے۔ بلکہ اس کے برعکس تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔ پھر بائبل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ گناہوں کا کفارہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ نے صلیب پر جان دی۔ خاکسار نے اس وقت بائبل سے چند دلائل دیئے۔

دوسرے میں نے بتایا کہ نہ صرف بائبل بلکہ قرآن کریم سے بھی ثابت نہیں کہ یہ 25 دسمبر کا دن حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کا دن ہے اور یہ کہ وہ دنیا کے نجات دہندہ تھے اور نہ ہی یہ ثابت ہے کہ آپ صلیب پر مرے۔

تیسری بات میں نے یہ بتائی کہ کسی کا یوم پیدائش منانا اصل نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ اگر تعلیمات پر عمل نہیں تو آپ ایک سال ہی میں 100 دفعہ برتھ ڈے منا لیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

پھر میں نے بتایا کہ آج کی عیسائی دنیا آپ کی تعلیمات پر عمل نہیں کر رہی مثلاً میں نے بتایا کہ حضرت عیسیٰ کی تعلیم ہے کہ اگر تمہارے دائیں گال پر کوئی تھپڑ مارے تو تم اپنا بایاں گال بھی اس کے آگے کر دو۔ کیا کہیں بھی عیسائی دنیا میں اس پر عمل ہو رہا ہے؟

پس اگر آپ دنیا میں امن چاہتے ہیں تو اس تعلیم پر عمل کریں۔

تو جس بات کی بنیادی ہی غلط ہے اس کو منانے کا کیا فائدہ۔ اسلام بتاتا ہے کہ ہمیں بے فائدہ کام نہیں کرنے چاہئیں۔ وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المؤمنون: 4) اور وہ جو لغو سے اِعراض کرنے والے ہیں۔

ہالووین (Halloween) کی رسم

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ جمعہ فرمودہ 29۔اکتوبر 2010ء کو بڑی تفصیل اور شرح و بسط کے ساتھ اس مشرکانہ اور غلط رسم کے بارے میں جماعت سمجھایا۔ آپ نے فرمایا:

ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض بدعات جب رائج ہو جائیں تو اصل تعلیم سے دور لے جاتی ہیں۔…… اور یہ بدعات پھر بعض دفعہ، بعض دفعہ کیا اکثر دین کو بگاڑتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ پر کھڑا کر دیتی ہیں۔ (قبر پرستی اور مُردوں سے دعائیں مانگنے وغیرہ کا ذکر تھا)…… مسلمانوں میں راہ پا گئی ہیں اورجو غلط طریقے جو ہیں ان کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ہمارا طریق بعینہٖ وہی ہے جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کا تھا۔ آج کل فقراء نے کئی بدعتیں نکال لی ہیں۔ یہ چلّے اور وِرد وظائف جو انہوں نے رائج کر لئے ہیں ہمیں نا پسند ہیں۔ اصل طریقِ اسلام قرآنِ مجید کو تدبر سے پڑھنا اور جو کچھ اس میں ہے اس پرعمل کرنا اور نماز توجہ کے ساتھ پڑھنا اور دعائیں توجہ اور انابتِ الی اللہ سے کرتے رہنا۔ بس نماز ہی ایسی چیز ہے جو معراج کے مراتب تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ ہے تو سب کچھ ہے‘‘۔ ( یعنی نماز ہے تو سب کچھ ہے)۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ432)

حضور انور مزید فرماتے ہیں:
’’جیساکہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ جدید ترقیات نے بعض برائیوں کو بھی پھیلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اور بغیر سوچے سمجھے بعض لوگ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی ان باتوں میں ڈال دیتے ہیں جن کا علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی روح کیا ہے؟ بس دیکھا دیکھی معاشرے کے پیچھے چل کر وہ کام کرنے شروع کر دیتے ہیں۔ اگر اُس دعا کی طرف توجہ ہو جو آنحضرت ﷺ نے ہمیں سکھائی ہے کہ بعض باتیں جو لا علمی میں ہو جاتی ہیں ان کے کرنے پر بھی اے اللہ !ہمیں تیری بخشش چاہئے تو جب دعا نیک نیتی سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش ہوتی ہے تو پھر آئندہ انسان بعض برائیوں سے محفوظ بھی ہو جاتا ہے۔

بہر حال اس برائی کا جو آج کل مغرب میں ان دنوں میں بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے ……یہ halloween کی ایک رسم ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ احمدی بھی بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں، حالانکہ اگر اس کو گہرائی میں جا کر دیکھیں تو یہ عیسائیت میں آئی ہوئی ایک ایسی بدعت ہے جو شرک کے قریب کر دیتی ہے۔ چڑیلیں اور جِنّ اور شیطانی عمل،ان کو تو بائبل نے بھی روکا ہوا ہے۔ لیکن عیسائیت میں یہ راہ پا گئی ہیں کیونکہ عمل نہیں رہا۔ عموماً اس کو fun سمجھا جاتا ہے کہ بس جی بچوں کا شوق ہے پورا کر لیا۔ تو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر وہ کام چاہے وہ fun ہی سمجھا جائے جس کی بنیاد شرک یا کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں ہو اس سے احمدیوں کو بچنا چاہئے۔ مجھے اس بات پر توجہ پیدا ہوئی جب ہماری ریسرچ ٹیم کی ایک انچارج نے بتایا کہ ان کی بیٹی نے ان سے کہا کہ halloween پر وہ اور توکچھ نہیں کرے گی لیکن اتنی اجازت دے دیں کہ وہ لباس وغیرہ پہن کر، خاص costume پہن کے ذرا پِھر لے۔ چھوٹی بچی ہے۔ انہوں نے اسے منع کر دیا۔ اور پھرجب ریسرچ کی اوراس کے بارہ میں مزید تحقیق کی تو بعض عجیب قسم کے حقائق سامنے آئے۔ تو مَیں نے انہیں کہا کہ مجھے بھی کچھ(حوالے) دے دیں۔ چنانچہ جو مَیں نے دیکھے اس کا خلاصہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ کیونکہ اکثر بچے بچیاں مجھے سوال کرتے رہتے ہیں۔ خطوط میں پوچھتے رہتے ہیں کہ halloween میں شامل ہونے کا کیا نقصان ہے؟ ہمارے ماں باپ ہمیں شامل نہیں ہونے دیتے۔ جبکہ بعض دوسرے احمدی خاندانوں کے بچے اپنے والدین کی اجازت سے اس میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو بہر حال ان کو جو کچھ میرے علم میں تھا اس کے مطابق مَیں جواب تو یہی دیتا رہتا تھا کہ یہ ایک غلط اور مکروہ قسم کا کام ہے اور مَیں انہیں روک دیتا تھا۔ لیکن اب جو اس کی تاریخ سامنے آئی ہے تو ضروری ہے کہ احمدی بچے اس سے بچیں۔

عیسائیت میں یا کہہ لیں مغرب میں، یہ رسم یا یہ بدعت ایک آئرش اِزم کی وجہ سے آئی ہے۔ پرانے زمانے کے جو pagan تھے ان میں پرانی بد مذہبی کے زمانے کی رائج ہے۔اس کی بنیاد شیطانی اور چڑیلوں کے نظریات پر ہے۔ اور مذہب اور گھروں کے تقدس کو یہ سارا نظریہ جو ہے یہ پامال کرتا ہے۔ چاہے جتنا بھی کہیں کہ یہ Fun ہے لیکن بنیاد اس کی غلط ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اس میں شرک بھی شامل ہے۔ کیونکہ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ زندوں اور مردوں کے درمیان جو حدود ہیں وہ 31۔اکتوبر کو ختم ہو جاتی ہیں۔ اور مردے زندوں کے لئے اس دن باہر نکل کے خطرناک ہو جاتے ہیں۔ اور زندوں کے لئے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں۔ بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اسی طرح کی اوٹ پٹانگ باتیں مشہور ہیں۔ اور پھر اس سے بچنے کے لئے جو ان کے نام نہاد جادوگر ہوتے ہیں ان جادوگروں کو بلایا جاتاہے جو جانوروں اور فصلوں کی ان سے لے کر ایک خاص طریقے سے قربانی کرتے ہیں۔ bonfire بھی اسی نظریہ میں شامل ہے تا کہ ان مُردہ روحوں کو ان حرکتوں سے باز رکھا جائے۔ ان مُردوں کوخوفزدہ کر کے یا بعض قربانیاں دے کران کو خوش کر کے باز رکھا جائے۔ اور پھر یہ ہے کہ پھراگر ڈرانا ہے تو اس کے لئے costume اور خاص قسم کے لباس وغیرہ بنائے گئے ہیں، ماسک وغیرہ پہنے جاتے ہیں۔ بہر حال بعد میں جیسا کہ مَیں نے کہا، جب عیسائیت پھیلی تو انہوں نے بھی اس رسم کو اپنا لیا۔ اور یہ بھی ان کے تہوار کے طور پر اس میں شامل کر لی گئی۔ کیتھولکس خاص طور پر(یہ رسم) زیادہ کرتے ہیں۔

اب یہ رسم عیسائیت کی وجہ سے اور پھر میڈیا کی وجہ سے، آپس کے تعلقات کی وجہ سے تقریباً تمام دنیا میں خاص طورپر مغرب میں، امریکہ میں، کینیڈا میں، یہاں UK میں، جاپان میں، نیوزی لینڈ میں، آسٹریلیا وغیرہ میں، یورپ کے بعض ملکوں میں پھیل چکی ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ چھُپی ہوئی برائی ہے۔ جسے مغرب میں رہنے والے مسلمان بھی اختیار کر رہے ہیں۔ بچے مختلف لباس پہن کر گھر گھر جاتے ہیں۔ گھر والوں سے کچھ وصول کیا جاتا ہے تا کہ روحوں کو سکون پہنچایا جائے۔ گھر والے اگر ان مختلف قسم کے لباس پہنے ہوئے بچوں کو کچھ دے دیں تو مطلب یہ ہے کہ اب مردے اس گھر کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ یہ ایک شرک ہے۔ بے شک آپ یہی کہیں کہ fun ہے، ایک تفریح ہے لیکن جو پیچھے نظریات ہیں وہ مشرکانہ ہیں۔ اور پھر یہ کہ ویسے بھی یہ ایک احمدی بچے کے وقار کے خلاف بات ہے کہ عجیب و غریب قسم کا حلیہ بنایا جائے۔ اور پھر گھروں میں فقیروں کی طرح مانگتے پھریں۔ چاہے وہ یہی کہیں کہ ہم مانگنے جا رہے تھے یا چاکلیٹ لینے جا رہے تھے لیکن یہ مانگنا بھی غلط ہے۔ احمدی کا ایک وقار ہونا چاہئے اور اس وقار کو ہمیں بچپن سے ہی ذہنوں میں قائم کرنا چاہئے۔ اور پھر یہ چیزیں جو ہیں مذہب سے بھی دور لے جاتی ہیں۔ بہر حال جب یہ منایا جاتا ہے تو پیغام اس میں یہ ہے کہ چڑیلوں کا وجود، بدروحوں کا وجود ، شیطان کی پوجا، مافوق الفطرت چیزوں پر عارضی طور پر جو یقین ہے وہ fun کے لئے کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ انتہائی غلط نظریہ ہے۔ پس یہ سب شیطانی چیزیں ہیں۔ اس سے ہمارے بچوں کو نہ صرف پرہیز کرنا چاہئے بلکہ سختی سے بچنا چاہئے۔ ماضی قریب تک دیہاتوں کے رہنے والے جو لوگ تھے وہ بچوں کو جو اس طرح ان کے دروازے پر مانگنے جایا کرتے تھے اس خیال سے بھی کچھ دے دیتے تھے کہ مُردہ روحیں ہمیں نقصان نہ پہنچائیں۔

بہر حال چونکہ بچے اور ان کے بعض بڑے بھی بچوں کی طرف سے پوچھتے رہتے ہیں۔ اس لئے مَیں بتا رہا ہوں کہ یہ ایک بد رسم ہے اور ایسی رسم ہے جو شرک کی طرف لے جانے والی ہے۔ پھر اس کی وجہ سے بچوں میں fun کے نام پر، تفریح کے نام پر غلط حرکتیں کرنے کی جرأت پیدا ہوتی ہے۔ ماں باپ ہمسایوں سے بداخلاقی سے پیش آتے ہیں۔ ماں باپ سے بھی اور ہمسایوں سے بھی اور اپنے ماحول سے بھی، اپنے بڑوں سے بھی بداخلاقی سے پیش آنے کا رجحان بھی اس وجہ سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک سروے ہے۔ حتی کہ دوسرے جرائم بھی اس لئے بڑھ رہے ہیں۔ اس قسم کی حرکتوں سے ان میں جرأت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ مغرب میں ہر برائی کو بچوں کے حقوق اور funکے نام پر تحفظات مل جاتے ہیں، اجازت مل جاتی ہے اور مل رہی ہے لیکن اب خود ہی یہ لوگ اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھانے لگ گئے ہیں۔ کیونکہ اس سے اخلاق برباد ہو رہے ہیں۔

پھر halloween کے خلاف کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے بچوں میں تفریح کے نام پر دوسروں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی برائی جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ بڑھ رہی ہے اور جرائم بھی اس وجہ سے بڑھ رہے ہیں۔ ایک تو فلموں نے غلط تربیت کی ہے۔ پھر اگر عملی طور پر ایسی حرکتیں کرنے لگ جائیں اور ان کو تفریح کے نام پر بڑے encourage کرنا شروع کر دیں تو پورے معاشرے میں پھربگاڑ ہی پیدا ہو گا اور کیا ہو سکتا ہے؟ اور پھر ہمارے لئے سب سے بڑی بات جیسا کہ مَیں نے کہا مُردوں کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر کے ان کے کسی بھی غلط عمل سے محفوظ کرنے کا شیطانی طریق اختیار کیا گیا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل پر کھڑا کر کے ایک شرک قائم کیا جا رہا ہے یا بچوں کوتحفے تحائف دے کے ان کی روحوں کو خوش کیا جا رہا ہے۔ یا جادوگروں کے ذریعہ سے جادوکر کے ڈرایا جا رہا ہے۔ بہر حال یہ نہایت لغو اور بیہودہ تصور ہے۔

٭…٭…٭

(سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 8 جولائی 2020ء