• 25 اپریل, 2024

شادی کے موقع پرگانے بجانے کی حدود

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نصیحت فرمائی:۔

شادی کے موقع پرگانے بجانے کی حدود

دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک کے رہنے والوں کے بعض رسم و رواج ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک قسم جو رسم و رواج کی ہے وہ ان کی شادی بیاہوں کی ہے چاہے عیسائی ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب کے ماننے والے۔ ہر مذہب کے ماننے والے کا اپنے علاقے، اپنے قبیلے کے لحاظ سے خوشی کی تقریبات اور شادی بیاہ کے موقع پر خوشی کے اظہار کا اپنا اپنا طریقہ ہے۔ اسلام کے علاوہ دوسرے مذہب والوں نے تو ایک طرح ان رسم ورواج کو بھی مذہب کا حصہ بنا لیا ہے۔ جس جگہ جاتے ہیں، عیسائیت میں خاص طور پر، ہر جگہ ہرعلاقے کے لوگوں کے مطابق ان کے جو رسم و رواج ہیں وہ تقریباً حصہ ہی بن چکے ہیں۔ یا بعض ایسے بھی ہیں جو رسم و رواج کی طرف سے آنکھ بند کر لیتے ہیں۔ لیکن اسلام جو کامل اور مکمل مذہب ہے، جو باوجود اس کے کہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ خوشی کے مواقع پر بعض باتیں کر لو۔جیسے مثلاً روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے ایک دفعہ ایک عورت کو دلہن بنا کر ایک انصاری کے گھر بھجوایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ اے عائشہ رخصتانہ کے موقع پر تم نے گانے بجانے کا انتظام کیوں نہیں کیا؟حالانکہ انصاری شادی کے موقع پر اس کو پسند کرتے ہیں۔ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ نکاح کا اچھی طرح اعلان کیا کرو اور اس موقع پر چھاننی بجاؤ۔ یہ دف کی ایک قسم ہے۔ لیکن اس میں بھی آپ نے ہماری رہنمائی فرما دی ہے اور بالکل مادر پدر آزاد نہیں چھوڑ دیا۔ بلکہ اس گانے کی بھی کچھ حدود مقرر فرمائی ہیں کہ شریفانہ حد تک ان پر عمل ہونا چاہئے اور شریفانہ اہتمام ہو، ہلکے پھلکے اور اچھے گانوں کا۔ ایک موقعہ پر آپ نے خود ہی خوشی کے اظہار کے طور پر شادی کے موقع پر بعض الفاظ ترتیب فرمائے کہ اس طرح گایا کرو کہ اَتَینَاکُم اَتَینَا کُم فَحَیَّانَا فَحَیَّاکُم۔ یعنی ہم تمہارے ہاں آئے ہمیں خوش آمدید کہو۔ تو ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہر قسم کی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرو، شادی کا موقعہ ہے کوئی حرج نہیں، ان کی غلط سوچ ہے۔ بعض دفعہ ہمارے ملکوں میں شادی کے موقعوں پر ایسے ننگے اور گندے گانے لگا دیتے ہیں کہ ان کو سن کر شرم آتی ہے۔ ایسے بے ہودہ اور لغو اور گندے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں لوگ سنتے کس طرح ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ احمدی معاشرہ بہت حد تک ان لغویات اور فضول حرکتوں سے محفوظ ہے لیکن جس تیزی سے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہمارے پاکستانی ہندوستانی معاشرہ میں یہ چیزیں راہ پا رہی ہیں۔ دوسرے مذہب والوں کی دیکھا دیکھی جنہوں نے تمام اقدار کو بھلا دیا ہے اور ان کے ہاں تو مذہب کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ شرابیں پی کر خوشی کے موقع پر ناچ گانے ہوتے ہیں، شور شرابے ہوتے ہیں، طوفان بدتمیزی ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اس معاشرے کے زیر اثر احمدیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے بلکہ بعض اِکاّ دُکاّ شکایات مجھے آتی بھی ہیں۔ تو یاد رکھیں کہ احمدی نے ان لغویات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے اور بچنا ہے۔ بعض ایسے بیہودہ گانے گائے جاتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا یہ ہندو اپنے شادی بیاہوں پر تو اس لئے گاتے ہیں کہ وہ دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں۔ مختلف مقاصد کے لئے، مختلف قسم کی مورتیاں انہوں نے بنائی ہوتی ہیں جن کے انہوں نے نام رکھے ہوئے ہیں ان سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ہمارے لوگ بغیر سوچے سمجھے یہ گانے گا رہے ہوتے ہیں یا سن رہے ہوتے ہیں۔ اس خوشی کے موقعہ پر بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو طلب کرنے کے کہ اللہ تعالیٰ یہ شادی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے، آئندہ نسلیں اسلام کی خادم پیدا ہوں، اللہ تعالیٰ کی سچی عباد بننے والی نسلیں ہوں، غیر محسوس طور پر گانے گا کر شرک کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر2005ء) (الفضل انٹرنیشنل 16 تا 22دسمبر 2005ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اگست 2020

اگلا پڑھیں

قارئین کرام سے ضروری درخواست برائے اطلاعات و اعلانات