• 25 اپریل, 2024

اسلام میں عورت کا مقام

عورت، وفا اور مروت کا پیکر ، صبرو ایثار کی تصویر، مصور کا تخیل، ابتداء سے مردکی رفیق اور ساتھی ، دنیا کی کوئی تہذیب اور معاشرہ عورت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ، قوموں کے عروج وزوال میں مرد کے شانہ بشانہ رہی۔

محبت کے اس پیکر کے حقوق کو دنیا میں ہر دور اور ہر خطہ میں سلب کیا گیا۔ کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ یہ بد نما داغ انسان کی پیشانی سے کبھی دھویا نہیں جا سکے گا کہ زمانہ جاہلیت میں مردنے اسی گودکو بے عظمت و بے قیمت کیا جس گود میں پرورش پا کر آدمی بنا۔ ؎

جن پتھروں کو عطا کی تھیں ہم نے دھڑکنیں
انہیں زبان ملی تو ہم پر ہی برس پڑے

عرب معاشرہ میں بڑے فخر سے شعروں کی صورت میں اس امر کو بیان کیا جا تا تھا کہ ہم ایسے باغیرت اور خود دار ہیں کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹیوں کو زندہ د فن کر دیتے ہیں ۔ ایک عرب شاعر کہتا ہے۔

تَھْوِیْ حَیَاتِیْ وَ اَھْوَی مَوْتَھَا شَفَقَاً
وَالْمَوْتُ اَکْرَمُ نِزَالٍ عَلَی الْحَرَمِ

کہ میری بیٹی تو میری زندگی کی خواہاں ہے اور مجھے زندگی کی دعائیں دیتی ہے۔ مگر میں اس کی موت کا متمنی ہوں کیونکہ حقیقت میں عورت کے لئے موت ہی سب سے زیادہ عزت کا مقام ہے۔

قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں لڑکیوں کی ولادت مرد کے لئے عذاب جان تھی۔ جب کوئی مردسنتا کہ اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے تو اس کا چہر ہ غصے کے مارے سیاہ ہو جاتا ۔ بیٹی کی پیدائش پر افسردہ ہونا جاہلیت کی صفت اور مشرکوں کی عادات میں سے ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یعنی اور جب ان (دور جاہلیت کے اہل عرب میں سے کسی)کولڑ کی کی بشارت دی جائے تو اس کا چہرہ غم سے سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ (اسے) ضبط کرنےکی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس (خبر ) کی تکلیف کی وجہ سے جس کی بشارت اُسے دی گئی ۔ کیا وہ رسوائی کے با وجود (اللہ کے ) اس (احسان) کوروک رکھے یا اسے مٹی میں گاڑ دے ۔ خبردار ! بہت ہی بُرا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔

بیٹی کی پیدائش کی خبر سنتے ہی باپ کا چہرہ سیاہ ہو جا تا گھر میں اداسی ڈیرے ڈال دیتی۔ عورت وراثت کے مال کی طرح کسی مرنے والے کے بیٹوں میں تقسیم تو ہوتی مگر اسے باپ کے ترکہ سے کچھ نہ ملتا ، عورت انسان نہیں ایک چیز تھی اسی لئے اس کی ملکیت تبدیل ہوتی رہتی تھی مگر اس کا نصیب تبدیل نہیں ہوتا تھا۔ دنیا کی ہر تہذیب، معاشرے ، قوم اور مذہب کے ماننے والوں نے عورت کے ساتھ ایسا ہی سلوک روارکھا۔ عورت کی اُس حالت کانقشہ حضرت سید ہ نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا نے کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے۔

رکھ پیش نظر وہ وقت بہن! جب زندہ گاڑی جاتی تھی
گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی
جب باپ کی جُھوٹی غیرت کا خُوں جوش میں آنے لگتا تھا
جس طرح جنا ہے سانپ کوئی یُوں ماں تیری گھبراتی تھی
یہ خون جگر سے پالنے والے تیرا خُون بہاتے تھے
جونفرت تیری ذات سے تھی فطرت پر غالب آتی تھی
کیا تیری قدروقیمت تھی؟ کچھ سوچ! تری کیا عزت تھی؟
تھاموت سے بدتر وُہ جینا قسمت سے اگر بچ جاتی تھی
عورت ہوناتھی سخت خطا، تھے تجھ پر سارے جبر روا
یہ جُرم نہ بخشا جاتا تھا تا مرگ سزائیں پاتی تھی
گویا تُو کنکر پتھرتھی احساس نہ تھا جذبات نہ تھے
توہین وہ اپنی یاد تو کر! ترکہ میں بانٹی جاتی تھی

یہ مشق ستم جاری تھی کہ ایک دن جہالت وضلالت میں ڈوبے اسی صحرائے عرب نے نبیوں کے سردار، محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ کی وہ بات سنی جس سے عرب کی یہ مظلوم عورت آشنا نہ تھی عورت کا نجات دہندہ کہہ رہا تھا۔

’’جس شخص کے گھربیٹی ہو اور وہ اسے نہ زندہ در گور کرے، نہ اسے ذلیل کرے اور نہ بیٹے کو اس پر تر جیح دے اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘

(مسند احمد جلد 1 ص 223)

وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے
تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے
ان ظُلموں سے چُھڑواتا ہے

عورت کو پہلی بار یوں لگا کہ وہ بھی ایک انسان ہے ، اس کی خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہ رہا جب محسن انسانیت نے اس کی عزت افزائی فرمائی ۔ وہ یکایک زمین کی پستیوں سے آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگی اور اس کا دل اس محسن کی تقدیس کے ترانے الاپنے لگا تو جبیں خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے لگی۔ عورت کا نجات دہندہ انسان کامل تھا اور ایک کامل تعلیم کے ساتھ آیا تھا۔ وہ سامان تجارت کی طرح بکنے والی کمزورمخلوق کی بابت یوں مخاطب ہوا۔

الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الأمَّهَات۔ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ عورت کے سارے د رد ختم ہوگئے جب ا س محسن انسانیت نے جنت کو ماؤں کے قدموں سے وابستہ کر کے دنیا اور آخرت کی فلاح کی کنجی اسے تھما دی ، اب وہ بھی اشرف المخلوقات تھی۔

دنیا کے تمام مذاہب اور تہذیبوں میں عورت کے ذکر کی تحقیق کر دیکھو ،وہ شان جوحضرت محمد مصطفیٰﷺ نے ایک چھوٹے سے پا کیزہ جملے ‘‘جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔’’میں عورت کو عطا کر دی ہے اس کا لاکھواں کر وڑ واں حصہ بھی مجھے کہیں اور سے لا کر دکھاؤ۔ اتنا خوبصورت فقرہ ہے ، اتنا عظیم عورت کیلئے اظہار تحسین ہے کہ جس کے متعلق فقرہ کہا جائے بلا شبہ اس کو آسمان کی بلند تررفعتیں عطا ہو جاتی ہیں۔ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیﷺ کا نہ ہاتھ تنگ تھا، نہ دل اس نے عورت کو باپ کے ترکہ میں بھی حصہ دار بنا دیا ، شادی بیاہ کے معاملے میں عورت کی مرضی کو اہم قرار دیا ، خاوند کی وفات یا علیحدگی کی صورت میں عورت کو دوسری شادی کا حق عطا کیا الغرض عورت کو لونڈی سے گھر کی مالکہ بنا دیا ۔

عورت کی فطری نزاکت کو سمجھتے ہوئے جہاں اس محسن نے اُسے آبگینہ سے تشبیہ دے کر محتاط رویہ اختیار کرنے کا درس دیا وہیں لاتضربو اما ء اللّٰه فرما کر عورت پر تشدد کی راہ بھی بند کر دی۔ اس محسن اعظم نے اپنی آخری وصیت میں عورت کو یوں یاد رکھا کہ میں تمہیں آخری وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں سے ہمیشہ حسن سلوک کرتے رہنا۔

(دیبا چہ تفسیر القرآن ص 256)

مغرب آج اکیسویں صدی میں بھی عورت کو وہ مقام نہیں دے سکا جو پندرہ سو سال پہلے اسے عرب کے ایک اسی نبی نے دیا تھا۔ ہمارے آقا حضرت محمدﷺ وہ پہلے مرد ہیں جنہوں نے عورتوں کے حقوق کے لئے نہ صرف آواز بلند کی بلکہ ان کے حقوق قائم کر کے دکھائے۔ عورتوں پر آپ کے بے پایاں احسانات ہیں ۔

بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار
پاک محمد مصطفیؐ نبیوں کا سردار

عربوں کے دستور کے مطابق جاہلیت کے زمانہ میں بیوہ عورت خود شو ہر کی وراثت میں تقسیم ہوتی تھی ۔ مرد کے قریبی رشتہ دار (مثلاً بڑا سوتیلا بیٹا) عورت کے سب سے زیادہ حق دار سمجھے جاتے تھے ۔ اگر وہ چاہتے تو خود اس عورت سے شادی کر لیتے۔ خود نہ کر نا چا ہتے تو ان کی مرضی کے مطابق ہی دوسری جگہ شادی ہوسکتی ۔ عورت کا اپنا کوئی حق نہ تھا۔

(بخاری کتاب التفسير سورة النساء باب الايحل لكم أن ترثوا النساء)

خاوند کی وفات کے بعد عرب میں عورت کا حال بہت رسوا کن اور بدتر ہوتا تھا۔ اسے بدترین لباس پہنا کر گھر سے الگ تھلگ ویران حصہ میں ایک سال تک عدت گزارنے کے لئے رکھا جاتا۔ سال کے بعد عربوں کے دستور کے مطابق کسی گزرنے والے کتے پر بکری کی میگنی پھینک کر اس قید خانہ سے باہر آتی تھی۔

(بخاری کتاب الطلاق باب الكحل للحادة:4916)

نبی کریم ؐنے بیوہ عورت کو نکاح کا حق دیا اور فرمایا کہ وہ اپنی ذات کے بارہ میں فیصلہ کے متعلق ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔

(بخاری کتاب النكاح باب الايم احق بنكاحها)

اسلام سے پہلے عورت کی ناقدری اور ذلت کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ اپنی مخصوص ایام میں اسے سب گھر والوں سے جدا رہنا پڑتا تھا۔ خاوند کے ساتھ بیٹھنا تو درکنار اہل خانہ بھی اس سے میل جول نہ رکھتے تھے۔

(صحیح مسلم کتاب الحیض باب جواز غسل الحائض رأس زوجهاو ترجيلہ)

آنحضرت ﷺنے اس معاشرتی بُرائی کو دور کیا اور آپؐ کی شریعت میں یہ حکم اُترا کہ یہ ایک تکلیف دہ عارضہ ہے ان ایام میں صرف ازدواجی تعلقات کی ممانعت ہے عام معاشرت ہر گز منع نہیں۔ (سورة البقرہ:223) چنانچہ آنحضورﷺ بیویوں کے مخصوص ایام میں ان کا اور زیادہ لحاظ فر ماتے ۔ ان کے ساتھ مل بیٹھتے۔ بستر میں ان کے ساتھ آرام فرماتے اور ملاطفت میں کوئی کمی نہ آنے دیتے۔

(ابو داؤد کتاب الطهاره باب في مواكلۃ الحائض)

اس دور جاہلیت میں عورتوں کی ناگفتہ بہ حالت اور عورت کے ساتھ نفرت اور حقارت کے جذبات زائل کرنے کے لئے ہمارے آقا و مولا نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے تمہاری دنیا کی جو چیزیں سب سے زیادہ عزیز ہیں ان میں اول نمبر پر عورتیں ہیں ۔ پھر اچھی خوشبو مجھے محبوب ہے مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز اور محبت الٰہی میں ہی ہے ۔

(نسائی کتاب عشرة النساء باب حب النساء)

بلاشبہ رسول کریم ﷺکا ہی حوصلہ تھا کہ اس صنف نازک کے حق میں آپؐ نے اس وقت نعرہ بلند کیا جب سارا معاشرہ اس کا مخالف تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد ہو کر عورتوں کے حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہونے کی منفرد مثال صرف اور صرف ہمارے نبیﷺ کی ہے۔

آنخضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطاب فرمایا وہ ایک نہایت ہی جامع اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں آپؐ نے عورتوں کے حقوق کے متعلق خاص طور پر تاکید کی اور فرمایا کہ دیکھو میں تمہیں عورتوں کے حقوق کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ بیچاریاں تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہی تو ہوتی ہیں ۔تمہیں ان پرسخت روی کا صرف اسی صورت میں اختیار ہے کہ اگر وہ کسی بے حیائی کی مرتکب ہوں تو تم اپنے بستروں میں ان سے جدائی اختیارکر سکتے ہو یا اس سے اگلے قدم کے طور پر انہیں کچھ سرزنش کرتے ہوئے سزا بھی دے سکتے ہو مگر سزا بھی ایسی جس کا جسم کے اوپر کوئی نشان یا اثر نہ پیدا ہو۔ اگر وہ اطاعت کر لیں تو پھر ان کیلئے کوئی اور طریق اختیار کرنا مناسب نہیں۔ یاد رکھو جس طرح تمہارے عورتوں کے اوپر کچھ حقوق ہیں ۔ اسی طرح عورتوں کےبھی کچھ حق ہیں جوتم پر عائد ہوتے ہیں۔ تمہاراحق عورتوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے لئے اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والی ہوں اور تمہاری مرضی کے سوا کسی کو تمہارے گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں ۔ اور ان کاحق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ لباس میں ، پوشاک میں اور کھانے پینے میں احسان کا سلوک کرنے والے ہو اور جس حد تک تو فیق اور استطاعت ہے ، ان سے حسن سلوک کرو۔

(سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ماجاء فی حق المرأة على زوجها۔ 1083)

اسلام نے عورتوں پر جو احسانات کئے اس کی نظیر ہمیں دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا جو اس سے قبل کسی مذہب نے نہیں دیا تھا۔ اسلام عورت کے لئے زندگی کا پیغام لے کر آیا۔

وہ زیب میخانہ تھی۔اسلام نے اُسے زینت کا نشانہ بنا دیا ۔ وہ پامال تھی اسلام نے اُسے با کمال بنادیا ۔ وہ بر باد تھی ، ناشاد تھی ۔ اسلام نے اُسے شا د کیا ، آ با د کیا۔ اگر اسلام عورت کو یہ مقام نہ دیتا تو کوئی باپ بیٹی کی پیدائش پر سراٹھا کر نہ چل سکتا۔ اگر اسلام عورت کو مقام نہ دیتا تو وہ ہمیشہ کی طرح بتوں اور دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھتی رہتی۔ اگر اسلام عورت کو عزت نہ دیتا تو بیٹی کی تربیت جنت کی ضمانت نہ ہوتی ۔ ماں کی خدمت جنت کا پروانہ نہ ہوتی ۔

اسلام نے عورت کو ذلت وپستی کی گہرائیوں سے اٹھایا اور اسے عظمت و رفعت کے بلند مقام پر فائز کر دیا۔ تعجب ہے ان پر جو اسلام کو عورتوں کے حقوق کا غاصب قرار دیتے ہیں ۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اسلام کے علا وہ کون سا دوسرامذہب ہے جس نے اچھی بیوی کو نصف ایمان قرار دیا ہو؟ جس نے بیواؤں کو عزت کی مسند پر بٹھایا ہو؟ جس نے عورت کے حسن و جمال کو نہیں اس کے عورت ہونے کو قابل احترام ٹھہرایا ہو؟ عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے جو عظمت اور مقام اسلام نے دیا ہے وہ دنیا کے کسی مذہب یا تہذیب نے نہیں دیا۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جہاں اپنی عائلی زندگی میں اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک فر ما یا وہاں اپنی امت کو بھی عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید فرمائی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔
رسول الله ﷺ ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں ۔ آپؐ کی زندگی میں دیکھو کہ آپؐ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے۔ میرے نزدیک وہ محض بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ کی پاک زندگی کا مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپؐ ایسے خلیق تھے۔ باوجود یکہ کہ آپؐ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیف عورت بھی آپؐ کو کھڑا کرتی تھی تو آپؐ اس وقت تک کھڑے رہتے تھے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے۔

(ملفوظات جلد نمبر4 صفحہ نمبر44)

آنحضرتﷺ نے عورتوں پر جو احسانات کئے اس کی نظیر ہمیں دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی ۔قرآنی احکام کے مطابق رسول کریم ﷺ نے جنگی قواعد میں یہ بات بھی شامل فرمائی تھی کہ کسی بچے کو نہیں مارنا چاہئے اور نہ کسی عورت کو ‘‘

پی ایئرکر یبائٹس لکھتے ہیں :۔

Muhammad, thirteen hundred years ago, assured to the mothers, wives and daughters of Islam a rankand diginity not yet generally assured to women by the laws of the West.

’’محمدﷺنے تیرہ سوسال قبل اسلام میں ماؤں اور بیٹیوں کے لئے وہ مقام اور وقار یقینی بنادیا جو ابھی تک مغرب کے قوانین میں عورت کو نہیں مل سکا۔‘‘

(Muhammad and Teaching of Quran by John Davenport p.126)

ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے

(حافظ عبدالمجید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 ستمبر 2020