• 24 اپریل, 2024

تمباکو کے نقصانات اور جماعت کو اس کے ترک کی تحریک

برائیوں کی اقسام

جس طرح نیکیوں کی بہت سی اقسام ہیں۔ اس طرح بدیوں کی بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ بعض بدیاں اپنی ذات میں بہت ہی اہم اور خطرناک ہوتی ہیں مگر وہ عموماً بدی کے ارتکاب کرنے والے کی ذات تک محدود رہتی ہیں اور دوسروں تک ان کا اثر جلدی نہیں پہونچتا لیکن اس کے مقابل پر بعض بدیاں ایسی ہوتی ہیں کہ گووہ اپنی ذات میں زیادہ اہم اور خطرناک نہ ہوں لیکن ان کے متعدی ہونے کا پہلو بہت غالب ہوتا ہے اور وہ ایک تیز آگ کی طرح اپنے ماحول میں پھیلتی جاتی ہیں۔

تمباکو اور زردہ

ان موخر الذکر خرابیوں میں سے تمباکو اور زردہ کا استعمال نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور آج کل تو اس مرض نے ایسی عالمگیر وسعت حاصل کرلی ہے کہ شائد دنیا کی کوئی اور خرابی اس کی وسعت کو نہیں پہونچتی۔ مرد، عورت، بچے، بوڑھے، امیر، غریب سب اس مرض کا شکار نظر آتے ہیں۔ اور چونکہ انسانی فطرت میں تنوع کی محبت بھی داخل ہے اس لئے تمباکو کے استعمال کو اس کی وسعت کے مناسب حال تنوع بھی غیرمعمولی طور پر نصیب ہواہے۔ چنانچہ حقہ، سگریٹ، سگار اور بیڑی مع اپنی گوناگوں اقسام کے اور پھر زردہ اور نسوار وغیرہ تمباکو کے استعمال کی ایسی معروف صورتیں ہیں کہ اس اضافہ کا بچہ بچہ ان سے واقف ہے اور یہ عادت مشرق ومغرب کی حدود سے آزاد ہوکر دنیا کے کونے کونے میں راسخ ہوچکی ہے اور دیہات وشہروں ہر دو میں ایک سی حکومت جمائے ہوئے ہے۔

خفیف قسم کا نشہ یا خمار

میں چونکہ خدا کے فضل سے اس مذموم عادت کی کسی نوع میں بھی کبھی مبتلا نہیں ہوا اور بچپن سے اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا آیا ہوں۔ اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ تمباکو میں وہ کونسی کشش ہے جس نے دنیا کے کثیر حصہ کو اس کا گرویدہ بنا رکھا ہے لیکن سننے سنانے سے جو کچھ معلوم ہوا ہے نیز جو کچھ اس عادت میں مبتلا لوگوں کے دیکھنے سے اندازہ لگایا جاسکا ہے اس کا خلاصہ یہی ہے کہ اس عادت کی وسعت محض اس خفیف قسم کے نشہ یا خمار کی بناء پر ہے جو تمباکو کا استعمال پیدا کرتا ہے اور لوگ اپنے فارغ اوقات کاٹنے یا اپنے فکروں کو غرق کرنے یا یونہی ایک گونہ حالت سکر وخمار پیدا کرنے کی غرض سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور چونکہ دوسری طرف کسی مذہب نے بھی تمباکو کے استعمال کو حرام قرار نہیں دیا۔ اس لئے بڑی جرأت اور دلیری سے ہر شخص اس عادت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ مرض روز بروز سرعت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے لیکن غور کیا جائے تو تمباکو کا استعمال اپنے اندر بہت سے دینی اور اخلاقی اور جسمانی اور اقتصادی نقصانات کا حامل ہے۔ جن کی طرف سے کوئی عقلمند اور ترقی کرنے والی قوم آنکھیں بند نہیں کرسکتی۔

مختصر طور پر تمباکو کے نقصانات مندرجہ ذیل صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔

دینی واخلاقی لحاظ سے نقصان

اول: دینی اور اخلاقی لحاظ سے

(الف) تمباکو کے استعمال میں ایک خفیف قسم کے خمار یا سکر کی آمیزش ہے۔ اس لئے خواہ تھوڑے پیمانہ پر ہی سہی مگر بہرحال وہ اپنی اصل کے لحاظ سے ان نقصانات سے حصہ پاتا ہے جو شراب کے تعلق میں اسلام نے بیان کئے ہیں۔ اسی واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر تمباکو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو میں یقین کرتا ہوں کہ آپ اس کے استعمال سے منع فرماتے۔

(ب) تمباکو کے استعمال سے خواہ وہ حقہ اور سگریٹ کی صورت میں ہو یا زردہ اور نسوار کی صورت میں، انسان کو بسااوقات ایسی مجالس یا صحبت یا سوسائٹی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے جو دینی یا اخلاقی لحاظ سے اچھی نہیں ہوتی۔ بے شک اس نقصان کا دروازہ سب صورتوں میں کھلا نہیں ہوتا لیکن بہت سی صورتوں میں اس کا احتمال ضرور ہوتا ہے اور چونکہ حکم کثرت کی بناء پر لگتا ہے اس لئے اس جہت سے بھی اس عادت سے پرہیز لازم ہے۔

(ج) تمباکو کے استعمال سے اوقات کو بے کار طور پر گزار نے اور وقت ضائع کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ افسوس ہے کہ اس زمانہ میں اس نقص کو اکثر لوگ محسوس نہیں کرتے مگر قومی ترقی کے لئے یہ نقص ایک گونہ گھن کا حکم رکھتا ہے۔ اور احمدیوں کو تو خاص طور پر اس نقص کی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہیئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام ہے کہ اَنْتَ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَایُضَاعُ وَقْتُہ، یعنی تو خدا کا مسیح ہے جس کا کوئی وقت ضائع نہیں جائے گا۔

(د) حقہ اور سگریٹ کے استعمال سے مونہہ میں ایک طرح کی بو پیدا ہوتی ہے اور گو بُو خود ایک جسمانی نقص ہے مگر اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے پتہ لگتا ہے کہ بو خدا کی رحمت کے فرشتوں کو بہت ہی ناپسند ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بو کی حالت میں مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تمباکو کی مذمت میں فرمایا ہے کہ حقہ اور سگریٹ نوش اعلیٰ الہام سے محروم رہتا ہے۔ اسی طرح یہ نقص ایک اہم دینی اور اخلاقی نقص بن جاتا ہے۔

(ھ) تمباکو کے استعمال سے طبی اصول کے ماتحت قوت ارادی کمزور ہوجاتی ہے جو اخلاقی اور دینی لحاظ سے سخت نقصان دہ ہے کیونکہ ایسا شخص نیکیوں کے اختیار کرنے اور بدیوں کا مقابلہ کرنے میں عموماً کم ہمتی دکھاتا ہے۔

جسمانی لحاظ سے نقصانات

دوم:- جسمانی لحاظ سے تمباکو کے مندرجہ ذیل نقص سمجھے جاسکتے ہیں۔

(الف) ایک تو وہی مندرجہ بالا نقص یعنی مونہہ میں بو پیدا ہونا جو ہر طبقہ اور ہر سوسائٹی میں ناپسندیدہ سمجھی گئی ہے اور یقینا صحت پر بھی بُرا اثر پیدا کرتی ہوگی۔

(ب) تمباکو کے استعمال سے گوعارضی طور پر اس چیز کے عادی شخص کو کِسی قدر ہوشیاری اور ہمت محسوس ہوتی ہے لیکن اس کا مستقل اور دائمی اثر یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ قوت ارادی کم ہوتی جاتی اور اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں اور یقینا اگر دوسرے حالات برابر ہوں تو ایک تمباکو کی عادت رکھنے والی قوم کی صحت فی الجملہ اس قوم سے ادنیٰ ہوگی جو اس عادت سے محفوظ ہے ۔

(ج) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ حقہ یا سگریٹ وغیرہ سے جو دھواں انسان کے جسم کے اندر جاتا ہے وہ انسانی صحت کے لئے مضر ہوتا ہے۔

(د) زردہ اور نسوار کے استعمال سے مسوڑھوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

اقتصادی لحاظ سے نقصان

سوم:- اقتصادی لحاظ سے تمباکو کے استعمال کے یہ نقصانات ہیں:

(الف) ایک بالکل بے فائدہ اور بے خیر چیز میں مختلف اقوام کا بے شمار روپیہ ضائع چلا جاتا ہے۔ یقینا اگر اندازہ کیا جائے تو دُنیا میں ہر سال اربوں روپے کا تمباکو خرچ ہوتا ہوگا اور اغلب یہ ہے کہ اس میں سے کروڑوں روپیہ مسلمان خرچ کرتے ہیں۔ اب دیکھو کہ ایک غریب قوم کے لئے یہ کس قدر بھاری نقصان ہے۔ احمدیوں میں بھی اگر ان کی پنجاب کی آبادی ایک لاکھ سمجھی جائے اور ان میں سے سارے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بیس ہزار اشخاص تمباکو اور زردہ وغیرہ کے عادی قرار دیئے جائیں اور فی کس تمباکو کا سالانہ خرچ دوسے لے کر تین روپے تک سمجھا جائے (حالانکہ غالباً اصل خرچ اس سے زیادہ ہوگا) تو صرف پنجاب کے احمدیوں میں تمباکو اور زردہ کی وجہ سے چالیس سے لے کر ساٹھ ہزار روپے تک سالانہ خرچ ہورہا ہے۔ جو ایک بہت بھاری قومی نقصان ہے۔

اسی طرح تمباکو نوشی افراد کے مالی نقصان کا بھی باعث ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ غریب غریب لوگ جنہیں پیٹ بھر کرکھانا بھی نصیب نہیں ہوتا ۔ عادت کی وجہ سے تمباکو پر ضرور خرچ کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ان کی اقتصادی حالت روزبروزبد سے بدتر ہوتی جاتی ہے مگر وہ اس نقصان کو محسوس نہیں کرتے۔

(ب) چونکہ حقہ سگریٹ وغیرہ کی وجہ سے وقت بہت ضائع ہوتا ہے۔ اس لئے پیشہ ورلوگ اس کی وجہ سے مالی نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ جو کام ایک تارکِ تمباکو چارگھنٹہ میں کرتا ہے۔ اسے ایک حقہ نوش عموماً ساڑھے چارگھنٹے میں کرتا ہے اور حساب کرکے دیکھا جائے۔ تو یہ نقصان بھی ایک بھاری قومی نقصان ہے۔

(ج) تمباکو کی وجہ سے قوتِ ارادی کے کمزور ہوجانے کے نتیجہ میں نسبتی لحاظ سے انسان کے کمانے کی طاقت پر بھی اثر پڑتا ہے۔

(د) حقہ اور سگریٹ کی وجہ سے آتشزدگی کے حادثات کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔

نقصان سے بچنے کے طریق

الغرض تمباکو کا استعمال ہر جہت سے ضرررسان اور نقصان دِہ ہے اور جس طرح حقہ اور سگریٹ وغیرہ کی صورت میں تمباکو ایک ظاہری دھواں پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح تمباکو اور زردہ کا استعمال افراد و اقوام کے دین اور اخلاق اور صحت اور اموال کو بھی گویا دھواں بنا کر اڑاتا جارہا ہے۔ مگر کوئی اس دھوئیں کو دیکھتا نہیں۔ لیکن اب وقت ہے کہ کم از کم احمدی جماعت کے احباب اس نقص کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں جو مندرجہ ذیل صورتوں میں ہوسکتی ہے۔

(١) جو لوگ حقہ یا سگریٹ یا زردہ یا نسوار وغیرہ کی عادت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ان میں سے جو جو لوگ اس مذموم عادت کو ترک کرسکتے ہوں (اور میں نہیں سمجھتا کہ حقیقتاً کوئی ایک فردِ واحد بھی اَیسا ہو جو اسے ترک نہ کرسکتا ہو) وہ اپنے دلوں میں خدا سے ایک پختہ عہد باندھ کر اس عادت کو یکدم یا آہستہ آہستہ جس طرح بھی توفیق ملے ترک کردیں مگر بہتر ہے کہ یکدم ترک کریں کیونکہ آہستہ آہستہ ترک کرنے کے طریق میں سستی کا احتمال ہوتا ہے۔

(٢) جو لوگ اپنے خیال میں کسی وجہ سے اس عادت کو ترک نہ کرسکتے ہوں۔ مثلاً بوڑھے لوگ جن کو پُرانی عادت ہوچکی ہے یا دمہ وغیرہ کے بیمار جنہیں اس کے ترک کرنے سے بیماری کی تکلیف کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو وہ مندرجہ ذیل دو تجویزیں اختیار کریں:-

(الف) جہاں تک ممکن ہو اس عادت کو کم کرنے کی کوشش کریں اور بہرحال اس کی کثرت سے پرہیز کریں۔

(ب) جب تک اس عادت کے ترک کی توفیق نہیں ملتی کم از کم یہ عہد کریں کہ اپنے بچوں اور دیگر کم عمر عزیزوں کے سامنے تمباکو کے استعمال سے پرہیز کریں گے تاکہ بچوں کو اس کی عادت نہ پڑے نیز ایسے بڑی عمر کے لوگوں کے سامنے بھی تمباکو استعمال نہ کریں جو اس کے عادی نہ ہوں۔

(٣) بچے اور نوجوان جو اس عادت میں مبتلا ہوں۔ وہ اس عادت کو یکدم اور کلی طور پر ترک کردیں کیونکہ انہیں خدا نے طاقت دی ہے اور اس طاقت کا بہترین شکرانہ یہی ہے کہ اس سے نیکی کے رستہ میں فائدہ اٹھایا جائے۔

میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست جن کو ہر معاملہ میں دوسروں کے لئے نمونہ بننا چاہیئے اور جن کے لئے ضروری ہے کہ ہر جہت سے اپنی زندگیوں کو اعلیٰ بنائیں وہ اس سراسر نقصان رسان عادت کے استیصال کی طرف فوری توجہ دے کر عنداللہ ماجور ہوں گے۔ اور اگر ایسے دوست جو اس تحریک کے نتیجہ میں تمباکو ترک کریں مجھے بھی اپنے ارادہ سے اطلاع دیں تو میں ان شاء اللہ ان کے اسماء حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی تحریک کے لئے پیش کروں گا۔ بالآخر ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کی تحریروں سے چند حوالہ جات درج کئے جاتے ہیں جن میں تمباکو کے استعمال کو نقصان دہ قرار دے کر اس سے منع کیا گیا ہے۔

ارشاداتِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

(١) مورخہ ٢٩ مئی ١٨٩٨ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار شائع کیا جس کا ملخص یہ ہے کہ :-
’’میں نے چندایسے آدمیوں کی شکایت سُنی تھی کہ وہ پنجوقت نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ ان کی مجلسوں میں ٹھٹھے اور ہنسی اور حقہ نوشی اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا اور بعض کی نسبت شک کیا گیا تھا کہ وہ پرہیزگاری کے پاک اصُول پر قائم نہیں ہیں۔ اس لئے میں نے بلاتوقف ان سب کو یہاں سے نکال دیا ہے کہ تا دوسروں کے لئے ٹھوکر کھانے کا موجب نہ ہوں۔ حقہ کا ترک اچھا ہے مونہہ سے بو آتی ہے ہمارے والد صاحب مرحوم اس کے متعلق ایک بنایا ہوا شعر پڑھا کرتے تھے جس سے اس کی بُرائی ظاہر ہوتی ہے۔‘‘

(فتاویٰ احمدیہ۔ حصہ دوم صفحہ59 اشتہار 29مئی 1898ء)

(٢) حقہ نوشی کے متعلق ذکر تھا فرمایا:-
’’اس کا ترک اچھا ہے یہ ایک بدعت ہے اس کے پینے سے مونہہ سے بو آتی ہے‘‘

(ماخوز۔ الحکم 3ستمبر 1901ء صفحہ9)

(٣) حدیث میں آیا ہے کہ وہ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکَہُ مَالَا یَعْنِیْہِ (جامع الترمذی ابواب الذھد۔ باب من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ۔11) یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جوچیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑدی جائے اس طرح پر یہ پان حقہ زردہ تمباکو، افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں بڑی سادگی یہ ہے کہ انسان ان چیزوں سے پرہیز کرے کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان ان کا بفرضِ محال نہ ہو تو بھی اس سے ابتلا آجاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے مثلا قید ہوجائے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور منشی اشیاء نہیں دی جائیں گی۔ یا اگر قید نہ ہو مگر کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائمقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہوجاتے ہیں عمدہ صحت کو کِسی بےہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہیئے۔ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضرِ صحت چیزوں کو مفسد ایمان قراردیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے۔

(الحکم 10جولائی 1902ء صفحہ3)

ایک شخص نے امریکہ سے تمباکو نوشی کے متعلق اس کے بہت سے مجرب نقصان ظاہر کرتے ہوئے اشتہار دیا اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سنا اور فرمایا اصل میں ہم اس لئے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نوعمر لڑکے اور نوجوان تعلیم یافتہ بطور فیشن ہی کے اس بلا میں گرفتار یا مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تاوہ ان باتوں کو سن کر اس مضر چیز کے نقصانات سے بچیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرمایا
’’اصل میں تمباکو ایک دھواں ہوتا ہے جو اندرونی اعضاء کے واسطے مضر ہے۔ اسلام لغو کاموں سے منع کرتا ہے اور اس میں نقصان ہی ہوتا ہے۔ لہذا اس سے پرہیز ہی اچھا ہے۔‘‘

(الحکم 28فروری 1903ء)

’’تمباکو کو ہم مسکرات میں داخل کرتے ہیں لیکن یہ ایک لغو فعل ہے اور مومن کی شان ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المومنوں:۴) اگر کسی کو کوئی طبیب بطور علاج بتائے توہم منع نہیں کرتے ورنہ یہ لغو اور اسراف کا فعل ہے۔ اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوتا تو آپؐ صحابہ کے لئے کبھی پسند نہ فرماتے۔‘‘

(الحکم 24مارچ 1903ء)

تمباکو کی نسبت فرمایا کہ:-
’’یہ شراب کی طرح تو نہیں ہے کہ اس سے انسان کو فسق وفجور کی طرف رغبت ہو مگر تاہم تقویٰ یہی ہے کہ اس سے نفرت اور پرہیز کرے۔ مونہہ میں اس سے بدبو آتی ہے اور یہ منحوس صورت ہے کہ انسان دھواں اندر داخل کرے اور پھر باہر نکالے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہ ہوتا تو آپ اجازت نہ دیتے کہ اسے استعمال کیا جاوے۔ ایک لغو اور بے ہودہ حرکت ہے۔ ہاں مسکرات میں اسے شامل نہیں کرسکتے اگر علاج کے طور پر ضرورت ہو تو منع نہیں ہے ورنہ یونہی مال کو بے جا صرف کرنا ہے عمدہ تندرست وہ آدمی ہے جو کسی شے کے سہارے زندگی بسر نہیں کرتا‘‘

(البدر 3اپریل 1903ء صفحہ82)

(٧) ایک شخص نے سوال کیا کہ سنا گیا ہے کہ آپ نے حقہ نوشی کو حرام فرمایا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا کہ تمباکو پینا مانند سؤر اور شراب کے حرام ہے۔ ہاں ایک لغو امر ہے۔ اس سے مومن کو پرہیز چاہیئے۔ البتہ جو لوگ کسی بیماری کے سبب مجبور ہیں وہ بطور دوا وعلاج کے استعمال کریںتو کوئی حرج نہیں۔

(البدر 23جولائی 1903ء۔ فتاویٰ احمدیہ صفحہ67)

(٨) آپ نے فرمایا:-
’’تمباکو کے بارہ میں اگرچہ شریعت نے (صراحتاً) کچھ نہیں بتلایا لیکن ہم اسے اس لئے مکروہ خیال کرتے ہیں کہ اگر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو آپ اس کے استعمال کو منع فرماتے۔‘‘

(البدر 24جولائی 1903ء صفحہ1)

(٩)فرمایا ’’انسان عادت کو چھوڑ سکتا ہے بشرطیکہ اس میں ایمان ہو اور بہت سے ایسے آدمی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی پرانی عادات کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جو ہمیشہ سے شراب پیتے چلے آئے ہیں بڑھاپے میں آکر جبکہ عادت کا چھوڑنا خود بیمار پڑنا ہوتا ہے بلا کسی خیال کے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور تھوڑی سی بیماری کے بعد اچھے بھی ہوجاتے ہیں۔ میں حقہ کو منع کہتا اور ناجائز قرار دیتا ہوں مگر ان صورتوں میں کہ انسان کو کوئی مجبوری ہو۔ یہ ایک لغو چیز ہے اور اس سے انسان کو پرہیز کرنا چاہیئے۔‘‘

(البدر 28فروری 1907ء صفحہ10)

ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ

(١٠) ’’تمباکو پینا فضول خرچی میں داخل ہے۔ کم از کم آٹھ آنے ماہوار کا تمباکو جو شخص پیئے۔ سال میں چھ روپے اور سولہ سترہ سال میں ایک صد روپے ضائع کرتا ہے۔ ابتداء تمباکو نوشی کی عموماً بُری مجلس سے ہوتی ہے۔‘‘

(بدر 16مئی 1912ء صفحہ3)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ

(١) بدبودار چیزیں مثلاً پیاز وغیرہ کھانا یا کھانا کھانے کے بعد مونہہ صاف نہ کرنا اور کھانے کے ریزوں کا مونہہ میں سڑجانا اس قسم کی غلاظتوں میں ملوث ہونے والوں کے ساتھ بھی فرشتے تعلق نہیں رکھتے۔ اس ذیل میں حقہ پینے والے بھی آگئے۔ حقہ پینے والے کو بھی صحیح الہام ہونا ناممکن ہے۔

(منہاج الطالبین۔ انوارالعلوم جلد9 صفحہ164)

(١٢) ایک شخص نے دریافت کیا کہ اگر کسی کے لئے طبیب حقہ بطور دوا تجویز کرے تو کیا کیا جائے۔ حضور نے جواب دیا کہ اگر ایک دو دفعہ پینے کے لئے کہے توکوئی حرج نہیں اور اگر وہ مستقل طور پر بتلاتا ہے تو یہ کوئی علاج نہیں۔ جو طبیب خود حقہ پیتے ہیں وہی اس قسم کا علاج دوسروں کو بتلایا کرتے ہیں۔ کوئی ایسی بات جس کی انسان کو عادت پڑجائے وہ میرے نزدیک بہت مضر اور بعض دفعہ تقویٰ اور دین کو نقصان دیتی ہے۔

(الفضل17 تا 20اپریل 1922ء صفحہ11)

(١٣) اس کے بعد میں ایک اور نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حقہ بہت بری چیز ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ چھوڑ دینا چاہیئے۔

(منہاج الطالبین۔ انوارالعلوم جلد9 صفحہ163)

(١٤) ہر قسم کا نشہ بھی بدی ہے۔ اس میں شراب ،افیون، بھنگ ،نسوارچائے حقہ سب چیزیں شامل ہیں۔

(منہاج الطالبین۔ انوارالعلوم جلد9 صفحہ219)

(١٥) طلباء کو چاہیئے کہ اپنے اندر دین کی روح پیدا کریں ۔میں نے پہلے ایک بار توجہ دلائی تھی تو اس کا بہت اثر ہوا تھا۔ بعض طلباء جو داڑھیاں منڈاتے تھے انہوں نے رکھ لیں۔ بعض سگریٹ پیتے تھے انہوں نے چھوڑ دیئے۔ اب معلوم ہوا ہے پھر یہ وبائیں پیدا ہورہی ہیں۔ پس میں پھر انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح آپ کریں۔

(الفضل17جنوری 1930ء)

(مطبوعہ الفضل ٢٤فروری ١٩٣٨ء)

(تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب)

پچھلا پڑھیں

بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے

اگلا پڑھیں

خلافت جوبلی کا بابرکت سال مَیں نے کیسے گزارا