• 18 اپریل, 2024

مرحوم کی طرف سے صدقہ دینا

فقہ کیا کہتا ہے؟

میت کی طرف سے اسے ثواب پہنچانے کی خاطر اگر صدقہ کیا جائے تو یہ جائز ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں:۔
ایک شخص نے رسول کریمﷺ کی خدمت میں عرض کیاکہ میری ماں کی جان اچانک نکل گئی ہے اورمجھے یقین ہے کہ اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی ۔اب اگر میں اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کا ثواب اسے ملے گا ؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا:ہاں۔

(بخاری کتاب الجنائز باب موت الفجاۃ البغتۃ)

حضرت حنش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔
حضرت علیؓ عید الاضحیہ کے موقع پر دو دنبے قربان کیا کرتے تھے۔ ایک آنحضرتﷺ کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے۔ ان سے اس بارہ میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے مجھے ایسا کرنے کی تاکید فرمائی تھی اس لیے میں اس کام کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔

(سنن الترمذی کتاب الاضاحی باب فی الاضحیۃ بکشین ،ابو داؤد کتاب الضحایا باب الاضحیہ عن المیت)

ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ وفات یافتہ بزرگوں کی طرف سے صدقہ یا قربانی کرنے کا ثواب اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے۔ جو شخص ایصالِ ثواب کی غرض سے مرحومین کی طرف سے صدقہ یا قربانی کرتا ہے تو خداتعالیٰ اس کو قبول فرماتے ہوئے اس کا ثواب ان کو پہنچادے گابغیر اس کے کہ صدقہ کرنے والے کے اجر میں سے کچھ کم ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال ہوا کہ دیہات میں دستور ہے شادی غمی کے موقعہ پر ایک قسم کا خرچ کرتے ہیں۔کوئی چوہدری مر جاوے تو تمام مسجدوں، دواروں و دیگر کمینوں کو بحصہ رسدی کچھ دیتے ہیں اس کی نسبت حضور کا کیا ارشاد ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ
’’طعام جو کھلایا جاوے۔ اس کا مردہ کو ثواب پہنچ جاتا ہے۔ گو ایسا مفید نہیں جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں خود کرجاتا۔‘‘
عرض کیا گیا۔حضور وہ خرچ وغیرہ کمینوں میں بطور حق الخدمت تقسیم ہوتا ہے۔
فرمایا: ’’تو پھرکچھ حرج نہیں۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے۔ کسی کی خدمت کا حق تو دے دینا چاہئے۔‘‘
عرض کیا گیا: ’’اس میں فخر و ریاء تو ضرور ہوتا ہے۔ یعنی دینے والے کے دل میں یہ ہوتا ہے کہ مجھے کوئی بڑا آدمی کہے۔‘‘
فرمایا: ’’بہ نیت ایصال ثواب تو پہلے ہی وہ خرچ نہیں، حق الخدمت ہے۔ بعض ریاء شرعاً بھی جائز ہیں۔ مثلاً چندہ وغیرہ نماز باجماعت ادا کرنے کا جو حکم ہے تو اسی لئے کہ دوسروں کو ترغیب ہو۔ غرض اظہار و اخفاء کے لئے موقع ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ شریعت سب رسوم کو منع نہیں کرتی۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر ریل پر چڑھنا تار و ڈاک کے ذریعہ خبر منگوانا سب بدعت ہو جاتے۔‘‘

(بدر17جنوری1907ء صفحہ4)

ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ محرم کے دنوں میں امامین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا:۔
’’عام طور پر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میّت کو پہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ شرک کی رسومات نہیں چاہئیں۔ رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا جائزنہیں۔’’

(الحکم17 مئی 1901ء صفحہ12)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ کیا میّت کو صدقہ خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچ سکتاہے؟
جواباً فرمایا: ’’میّت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جائے پہنچ جاتا ہے لیکن قرآن شریف پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے ثابت نہیں ہے۔ اس کی بجائے دعا کی جائے جو میّت کے حق میں کرنی چاہئے۔ میّت کے حق میں صدقہ خیرات اور دعا کا کرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگا دیتاہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ1)

حضور علیہ السلام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ میّت کے ساتھ جو لوگ روٹیاں پکا کر یا اور کوئی شے لے کر باہر قبرستان میں لے جاتے ہیں اور میّت کو دفن کرنے کے بعد مساکین میں تقسیم کرتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
فرمایا:۔ ’’ سب باتیں نیت پر موقوف ہیں۔ اگر یہ نیت ہو کہ اس جگہ مساکین جمع ہو جایا کرتے ہیں اور مردے کو صدقہ پہنچ سکتا ہے۔ اِدھر وہ دفن ہو اُدھر مساکین کو صدقہ دے دیا جاوے تا کہ اس کے حق میں مفید ہو اور وہ بخشا جاوے تو یہ ایک عمدہ بات ہے۔ لیکن اگر صرف رسم کے طور پر یہ کام کیا جاوے تو یہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا ثواب نہ مردے کے لئے اور نہ دینے والوں کے واسطے اس میں کچھ فائدے کی بات ہے۔’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ6، بدر16 فروری 1906ء صفحہ2)

حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مردہ کو کوئی ثواب وغیرہ نہیں پہنچتا۔ وہ جھوٹے ہیں۔ ان کو غلطی لگی ہے۔ میرے نزدیک دعا ’استغفار’ صدقہ’ خیرات بلکہ حج، زکٰوۃ، روزے، یہ سب کچھ پہنچتا ہے۔ میرا یہی عقیدہ ہے اور بڑا مضبوط عقیدہ ہے۔
ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری ماں کی جان اچانک نکل گئی ہے۔ اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی۔ اب اگر میں صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب ملے گا؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں۔ تو اس نے ایک باغ جو اس کے پاس تھا’ صدقہ کر دی۔‘‘

(الفضل 3 دسمبر 1913ء صفحہ 15)

پچھلا پڑھیں

اعلانات واطلاعات

اگلا پڑھیں

نیکی کی جزا