• 19 اپریل, 2024

لجنہ اماءاللہ کا رکن ہونے کا کيا مطلب ہے؟

لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع 2022ء پر خطاب ميں حضور انور نے لجنہ اماء اللہ کي ذمہ داريوں کا ذکرکرتے ہوئے فرماياکہ:
’’لجنہ اماء اللہ کي ممبرات کو ہميشہ اپني ذيلي تنظيم کے مقاصد پر غور و فکر کرنا چاہيےاور يہ کہ لجنہ اماءاللہ کا رکن ہونے کا کيا مطلب ہے۔جب حضرت مصلح موعودؓ نے لجنہ اماء اللہ کو قائم فرمايا تو آپ نے بڑے غور و فکر کے بعد اس کا نام رکھا۔ لجنہ اماءاللہ کے لفظي معني خدا تعاليٰ کي جماعت کي خادمات ہيں چنانچہ جب آپ اللہ تعاليٰ کي خادمات کي جماعت ميں داخل ہيں اور دين کي خادمات ہونے کا عہد کيا ہے تو آپ کيلئے اپني ذمہ داريوں سے آگاہ ہونا ضروري ہے۔سب سے پہلي اور بنيادي بات يہ ہے کہ سب ممبرات کو اپنے دين کي حفاظت کي طرف پوري توجہ ديني چاہيے۔انہيں کوشش کرني چاہيے کہ اُس روحاني سطح اور بلندي تک پہنچيں جس کي ايک حقيقي مومنہ سے توقع کي جاتي ہے۔قرآن کريم ميں اللہ تعاليٰ اس وقت کے عرب،ان پڑھ،باديہ نشينوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے کہ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا۔ يعني تُو کہہ دے کہ تم ايمان نہيں لائے ليکن صرف اتنا کہا کرو کہ ہم مسلمان ہو چکے ہيں۔ يہاں اللہ تعاليٰ حکم ديتا ہے کہ ان ديہاتي لوگوں کو يہ کہنا چاہيئے کہ انہوں نے اسلام قبول کيا ہے اور مسلمان بن گئے ہيں تاہم ان کو يہ دعويٰ نہيں کرنا چاہيے کہ وہ ايمان لے آئے ہيں يا ان کو حقيقي ايمان حاصل ہو گيا ہے۔ اس لئے کہ ايمان کا وہ معيار جس کا مخلص مؤمن سے تقاضا کيا جاتا ہے محض قبول اسلام سے کہيں زيادہ ہے۔ہر کلمہ گو يہ کہہ سکتا ہے کہ وہ مسلمان ہےتا ہم ہر ايک يہ نہيں کہہ سکتا ہے کہ وہ مومن بھي ہے يا اس نے حقيقي ايمان پا ليا۔اس بات کا دعويٰ کہ اللہ تعاليٰ واحد اور قادر خدا ہے۔محمد صلي اللہ عليہ وسلم اس کے پيغمبر اور اسلام دينِ کامل ہے،يہ تو صرف ايمان کا سب سے بنيادي درجہ ہے۔کامل ايمان اختيار کرنا انتہائي اعليٰ ايمان اور فہم و ادراک کا تقاضا کرتي ہے۔انسان اس درجہ تک نہيں پہنچ سکتا جب تک وہ اللہ تعاليٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنے والا نہ بنے۔اس ليے سب سے پہلي بات جو ہر احمدي کو ياد رکھني چاہيے يہ ہے کہ انہيں پوري کوشش کرني چاہيے کہ وہ اپنے ايمان وايقان ميں کامل بنيں۔موجودہ معاشرہ اخلاقيات سے بے بہرا اور روحاني طور پر پست ہے کيونکہ مين سٹريم ميڈيا اور سوشل ميڈيا کے منفي اثرات لوگوں کو مذہب اور خدا تعاليٰ پر ايمان رکھنے سے دور لے جا رہےہيں يہاں تک کہ بہت ہي چھوٹے بچوں کو سکولز ميں غير مناسب اور غير اخلاقي باتيں سکھائي جا رہي ہيں جسے وہ ابھي سمجھنے کے قابل نہيں۔اس کے نتيجہ ميں بچوں کو بہت چھوٹي عمر ميں سکولز اور معاشرے کي طرف سے دنياوي سوچ کے ساتھ ڈھالا جا رہا ہے جو روحاني اقدار اور تعليمات سے دور لے جانے والي ہيں۔ايسي صورت حال ميں والدين پر بہت بڑي ذمہ داري عائد ہوتي ہے کہ وہ اپنے بچوں کي اخلاقي تربيت کريں اور اسے يقيني بنائيں۔آج کل تو بچوں کے کارٹونز يا کمپيوٹر گيمز ميں بھي بعض ايسي کہانياں يا کريکٹرز ہوتے ہيں جو بالکل غير مناسب ہوتے ہيں اور جو بچوں کي معصوميت چھين ليتے ہيں۔بچوں کو خود بھي محتاط ہوناچاہيے کہ وہ کون سے کارٹونز ديکھ رہے ہيں اور والدين کو تو بہر حال بچوں کي نگراني کرني چاہيے جب وہ کارٹونز ديکھ رہے ہوں۔ايسي چيزوں کو ديکھنے کے دير پا نتائج بہت ہي خطرناک ہيں اور يہ ہماري اگلي نسلوں کو مذہب اور اخلاقي اقدار سے با آساني بہت دور لے کر جا سکتے ہيں۔پس والدين کو چاہيے کہ اس بات پر نظر رکھيں کہ ان کے بچے کون کون سي نئي چيزوں سے متعارف ہو رہے ہيں اور بيروني اثرات سے متاثر نہ ہونے کے لئے احمدي والدين کو اپنے گھروں ميں ايک خالص اسلامي ماحول قائم کرنا چاہئےجس ميں اللہ کے احکامات پر عمل ہو رہا ہو اور جس ميں اعليٰ اخلاقي نمونوں کا مظاہرہ ہو رہا ہو۔‘‘

(روزنامہ الفضل آن لائن 6؍دسمبر 2022ء)

پچھلا پڑھیں

محترمہ قانتہ دردکی وفات اور ان کے اوصاف

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جنوری 2023