• 19 اپریل, 2024

جماعت احمدیہ اور خدمت قرآن ۔ صادقانہ محبت کے عاشقانہ نظارے

قسط نمبر 1

جماعت احمدیہ اور خدمت قرآن ۔ صادقانہ محبت کے عاشقانہ نظارے
قرآن پڑھنے، پڑھانے اور سیکھنے سکھانے کی سچی لگن کے دلکش واقعات

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے صحابہ ؓمیں عشق قرآن کی جو لو لگائی وہ مسلسل جل رہی ہے اور نسلاً بعد نسلٍ یہ نور منتقل ہو رہا ہے اور ترقی پذیر ہے۔ صحابہؓ کی تربیت یافتہ نسلوں نے عشق قرآن سے لبریز ہو کر پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے کے جو قابل تقلید مناظر پیش کئے ہیں ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

مکرم حافظ قدرت اللہ

مکرم حافظ قدرت اللہ نے اپنی خودنوشت داستان حافظ میں اپنی محبت اور خدمات قرآن کا کئی جگہ ذکر کیا ہے۔ ان سب کو ترتیب کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

مجھے اپنے حفظ قرآن کا زمانہ بھی یاد آرہا ہے جو غالباً 1929ء کا ہو گا۔ جب خاکسار کےوالد محترم چک نمبر 47 شمالی (ضلع سرگودھا) میں کچھ عرصہ کے لئے رہائش پذیر تھے بلکہ آپ ہی نے اس گاؤں کی جماعت کو جلا بخشی تھی۔ وہاں رمضان المبارک کے مہینہ میں یہ عاجز موجود تھا۔ نماز تراویح میں آپ نے سارا قرآن کریم کھول کر سنا تھا اور جہاں غلطی کرتا تھا وہ درست فرمادیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے۔ اسی طرح اس زمانہ میں ایک دفعہ میرے بہنوئی محترم قاضی محمد رشید انصاری جو راولپنڈی جماعت کے صدر تھے انہوں نے رمضان کے مہینہ میں تراویح کے لئے مجھے اپنے پاس بلا لیا۔ پھر دوسری بار جب وہ نوشہرہ میں تھے تو انہوں نے مجھے رمضان المبارک میں تراویح کے لئے بلایا اور وہاں میں نے قرآن کریم سنایا۔

میرے بچپن کا زمانہ تھا قادیان میں اس زمانہ میں کوئی 20 کے قریب مساجد تھیں جہاں رمضان المبارک کے مہینہ میں عشاء کے بعد تراویح کا اہتمام ہوتا اور نہایت باقاعدگی کے ساتھ ان مساجد میں قرآن کریم ختم کیا جاتا۔ ان سب مساجد میں قادیان کی بیت مبارک کو ایک خاص امتیاز حاصل تھا کہ وہاں عشاء کے بعد کی بجائے سحری کے وقت نماز تراویح کا اہتمام ہوتا تھا۔

رمضان المبارک میں لندن کی بیت الفضل میں بھی 1946ء میں اور پھر ہالینڈ کی بیت الذکر میں بھی قرآن ختم کرنے کی توفیق ملتی رہی۔

لندن میں تبلیغ کا ایک ذریعہ ہائیڈ پارک میں تقریر کرنے کا بھی تھا۔ چنانچہ کئی دفعہ ایسے پروگرامز میں بھی حصہ لینے کا موقع ملا۔ ہائیڈ پارک میں انگریزی میں تقریر کرنے کی قابلیت تو اس وقت نہ تھی تاہم حاضرین کو اکٹھا کرنے کے لئے تلاوت کئی دفعہ کی اور جب تلاوت کے نتیجہ میں کچھ لوگ جمع ہو جاتے تو ہم میں سے کوئی دوست تقریر شروع کر دیتے اور پھر تبادلہ خیال کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔

حضرت حافظ روشن علی کا وجود اب تک نظر کے سامنے ہے۔ آخری زمانہ میں ان کی رہائش ہمارے ہی مکان کے چوبارہ پر تھی۔ غالباً 1924ء کا زمانہ تھا۔ رمضان المبارک میں درس کے لئے تشریف لے جاتے۔ تو گھر میں اپنی اہلیہ محترمہ کو ایک دفعہ پہلے سارا سپارہ سنا کر تشریف لے جاتے۔ آپ کی آواز میں ایک مٹھاس تھی۔ اسی طرح حافظ جمال احمد کا مسجد اقصیٰ میں قرآن مجید پڑھنا یاد ہے۔ ہمارے استاد حضرت حافظ سلطان حامد جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ؒکے بھی حافظ کلاس میں استاد رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ کے امام الصلوٰۃ ہوا کرتے تھے۔ ان کے پڑھنے کا رنگ بھی گو تحت اللفظ کے طرز کا تھا۔ مگر بہت پُرلطف تھا۔ یہی کیفیت حضرت حافظ غلام رسول وزیرآبادی کی تھی۔ انہیں قرآن پر بڑا عبور تھا اور قرآن پاک کے لفظ موتیوں کی طرح ان کے منہ سے نکلتے تھے۔ ان کی فیض محبت سے بارہا لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔

(داستان حافظ)

مکرم چوہدری محمد حسین

مکرم محمد شفیق قیصر لکھتے ہیں۔
اباجان محترم چوہدری محمد حسین راجن پور کے قریب ایک گاؤں موضع سو ہیں میں رہتے تھے۔ آپ نے اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت پائی۔ بعد میں آپ کی تحریک پر آپ کے والد یعنی ہمارے دادا جان اور دوسرے خاندان کے افراد احمدیت کی آغوش میں آئے۔ والد چھوٹی عمر میں قادیان دارالامان تشریف لے آئے۔ اباجان قرآن کریم کے عاشق تھے۔ ایک چھوٹے سائز کا قرآن کریم ہر وقت اباجان کے پاس رہتا۔ جب بھی موقع ملتا بجائے کسی اور گپ شپ کے اباجان قرآن مجید کو کھول کر اس کی تلاوت کرتے۔

آپ زمیندار تھے۔ بیلوں کے ذریعہ کاشتکاری کرتے ہل چلاتے ہوئے جب تھک جاتے تو آرام کرنے کے لئے جب بیٹھتے تو قرآن کریم کو کھول کر پڑھنا شروع کر دیتے۔ بعض اوقات جب اکٹھے زمیندار ہل وغیرہ چلاتے تو آرام کے وقت جبکہ دوسرے لوگ حقہ پینے یا پھر دوسری دنیاداری کی باتوں میں مشغول ہوتے تو آپ قرآن کریم کو جیب سے نکال کر اس کی تلاوت میں مشغول ہوتے۔ آپ کو فارغ بیٹھے ہوئے نہ دیکھا یا تو آپ کسی نہ کسی کام میں مشغول ہیں، سو رہے ہیں یا پھر قرآن کریم آپ کے ہاتھوں میں ہوتا اور آپ اس کی تلاوت کر رہے ہوتے۔ اگر وقت ایسا ہوتا یا روشنی کا انتظام نہ ہوتا توبعض مسنون دعائیں جو قرآن کریم میں ہیں ان کو بآواز بلند بڑے سوز سے گھر میں، سفر میں پڑھتے رہتے۔

(الفضل 9 دسمبر 2009ء)

محترم خیرالدین بٹ

محترمہ رشیدہ تسنیم خان اپنے والد خیرالدین بٹ کے ذکر میں لکھتی ہیں۔

اباجی کو صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کا شوق تھا۔ اکثر مسنون عبادات، دعاؤں اور قرآن حکیم کی تلاوت میں منہمک رہتے، آپ کے اکثر رشتہ دار آپ کے بارے میں فکرمندی کا اظہار ان الفاظ میں کرتے۔

’’خیرالدین اچھا بھلا عقلمند آدمی ہے، لیکن بے پیرا ہے، ڈر ہے کہیں عیسائی نہ ہو جائے! آپ کے تقویٰ طہارت کے باعث ملازمت کے دوران جہاں جاتے وہاں امام الصلوٰۃ کے فرائض پر آپ کے سپرد ہوتے۔ نماز میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے اھدناالصراط المستقیم کا تکرار کرتے اور دعاؤں میں رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ … کا درد سے تکرار کرتے۔ اپنے ماحول میں بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کا فریضہ بڑے شوق سے ادا کرتے۔ قرآن کریم کی تلاوت بڑی احتیاط کے ساتھ صحیح مخرج سے کرتے تھے۔

(الفضل 21 مئی 2010ء)

مکرم انشاء اللہ خان

مکرم محمد شفیع خان لکھتے ہیں کہ میں 1965ء میں کراچی سے لاہور سرکاری ملازمت پر آیا تو دلی دروازہ کی مسجد میں احمدی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ مکرم انشاء اللہ خان سے ملاقات ہوئی۔ 50 کے لگ تھے۔ ان سے بے تکلفی ہو گئی۔

انہوں نے مجھے کہا کہ تم مجھے کچھ ایسے بچے ڈھونڈکر دو جنہیں میں قرآن شریف پڑھا دیا کروں میرے پاس عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت خالی ہے ایسے بچے جو سکول جاتے ہوں اور دن کے پچھلے پہر پڑھنا چاہیں وہ مجھے بتا دیں۔ میں نے ان سے کہا میں ساندہ کلاں میں رہتا ہوں وہاں قریب کی آبادی کرشن نگر میں احمدی رہتے ہیں پتہ کرکے بتاؤں گا میں ابھی لاہور میں نیا ہوں زیادہ واقفیت نہیں مجھے کچھ وقت دیں وہ کہنے لگے ٹھیک ہے مجھے چند یوم میں بتا دیں۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کے گھر سے ساندہ کلاں دو تین میل دور ہے کیا آپ کے پاس گاڑی ہے جس پر آپ اتنی دور آ سکیں گے کہنے لگے گاڑی تو ہے لیکن میں پیدل جایا کروں گا تاکہ میری واک بھی ہو جائے۔ کچھ دن بعد پھر انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ بچے قرآن کریم پڑھانے کے لئے دو میں نے جواب دیا کوشش کر رہاہوں ابھی تک کسی سے رابطہ نہیں ہوا۔ میرا جواب سن کر وہ مجھ سے ناراض ہو گئے کئی روز گزر گئے تو ایک روز ملاقات پر بتایا کہ مجھے بچے مل گئے ہیں وہ بہت خوش تھے۔وہ صبح گھر سے نوافل اور تہجد ادا کرکے نکلتے اور پیدل چاہے کتنی بھی دور بچوں کے گھر ہوں وہاں جاتے پہلے نماز فجر وہاں ادا کرتے پھر بچوں کو قرآن کریم پڑھا کر پیدل ہی واپس گھر تک آتے وہ دفتری اوقات کے بعد پیدل نکلتے اور قرآن کریم پڑھا کر مغرب تک واپس آ جاتے انہوں نے یسرنا القرآن خود مرکز سے منگوا کر رکھے تھے ۔ جو وہ خود بلامعاوضہ بچوں کو دیتے مجھے ایک دن کہنے لگے تم نے کیا حضور پُر نور کا یہ قول سنا ہے کہ جو لوگ قرآن کریم کو دنیا میں عزت دیں گے وہ آسمان پر قیامت کے روز عزت پائیں گے۔

مولانا ظہور حسین

حضرت مولانا ظہور حسین بخارا کو جاسوسی کے الزام میں روس کی جیلوں میں غیرانسانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے وہاں بھی عبادت کا جھنڈا سر بلند رکھا۔ وہ اپنی آپ بیتی میں تحریر فرماتے ہیں۔

میں دن رات بس اللہ تعالیٰ سے ہی دعائیں مانگتا اور حسب عادت رات کو تہجد کے لئے اٹھتا۔ صبح کے وقت نماز کے بعد قرآن شریف کی تلاوت کرتا اور سورج طلوع ہونے کے بعد دو نفل ادا کرتا اور اللہ کریم سے اپنی حفاظت اور بچاؤ کی دعا مانگتا۔

اشک آباد جیل خانہ میں بہت سے ترک قیدی تھے۔ وہ مجھے روزانہ نماز پڑھتے اور قرآن شریف کی تلاوت کرتے دیکھتے تھے اور ان میں سے بہتوں کو مجھ سے شدید محبت ہوگئی۔

تاشقند جیل میں بہت سے مسلمان قیدی تھے انہوں نے مجھے اپنا امام منتخب کرلیا اور سب میری اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے۔

(مولوی ظہور حسین مجاہد اول روس و بخارا 56,47,44)

چوہدری محمد حسین

چوہدری محمد حسین والد محترم ڈاکٹر عبدالسلام کے متعلق ان کے بیٹے چوہدری عبدالرشید لکھتے ہیں۔

قرآن پاک اور کتب حضرت مسیح موعودؑ ہر وقت پڑھنے کی عادت تھی۔ ہمیشہ قرآن پاک کا درس گھر میں خود دیتے تھے اور ہم سب بھائی بہنوں کو زیادہ سے زیادہ قرآن پاک یاد کرنے کی تلقین کرتے تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد21 ص451)

حضرت مولوی محمد الیاس

حضرت مولوی محمد الیاس نے جب احمدیت قبول کی تو لوگ عورتوں کو ان کی اہلیہ اشرف بی بی کے پاس بھیجتے کہ محمد الیاس قادیانی کافر ہو گیا ہے۔ اب تمہارا نکاح محمد الیاس سے ٹوٹ گیا ہے۔ تم اپنی والدہ کے گھر چلی جاؤ۔ (والد پہلے ہی فوت ہوگئے تھے) ہم تمہارا دوسرا نکاح کسی اور شخص سے کرادیں گے۔

وہ ان عورتوں سے کہتی! یہ کیسا کافر ہے؟ جو نمازیں پڑھتا ہے، تہجد کی نماز میں روتا ہے اور قرآن پاک ہر وقت پڑھتا رہتا ہے۔ اگر یہ کافر ہے تو میں بھی کافرہ ہوں، مجھے ایسا ہی کافر خاوند چاہئے۔ جو مجھ سے بہترین سلوک کرتا ہو۔ بہت نیک پرہیزگار اور نمازی ہو۔

(حیات الیاس ص30)

مکرم حافظ محمد عبداللہ

مکرم مبشر احمد عابد مربی سلسلہ محترم مولانا دوست محمد شاہد کے والد محترم حافظ محمد عبداللہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ

آپ صبح کی نماز کے بعد بچے اور بچیوں کو تین چار گھنٹے قرآن پڑھاتے اور نماز سادہ اور باترجمہ سکھاتے اور ہر ایک سے خود سبق سنتے، آپ کی اس محنت شاقہ کا نتیجہ ہے کہ ہمارے گاؤں کے آپ کے وقت کے لوگوں کی اکثریت قرآن کریم اور نماز باترجمہ جانتی ہے جو لوگ قرآن پڑھ لیتے ان کو سورۃ بقرہ کی پہلی سترہ آیات زبانی یاد کراتے پھر اس سے آگے قرآن پاک کا ترجمہ شروع کرا دیتے آپ کے پاس رہنے کے لئے صرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا اور اس کے آگے ایک سرس یعنی شریں کا درخت تھا جس کے سایہ میں چارپائی ڈال کر بیٹھ جاتے اور سارا دن بچوں بچیوں اور بڑے لوگوں کواپنے دینی علوم سے فیض یاب کرتے۔

(الفضل 10 فروری 2011ء)

سید رفیق احمد شاہ

محترمہ وحیدہ حنیف اپنے سسر مکرم سید رفیق احمد شاہ کے متعلق لکھتی ہیں:

بڑی بچی نے قرآن حفظ کیا تو رمضان میں بیت المبارک میں تراویح پڑھنے لے جاتے کہ قرآن سن کر بھی دوھرائی ہو جائے گی۔ قرآن کریم کی تلاوت کے لئے بچیوں کو کہتے کہ میرے پاس بیٹھ کر کرو ۔

وفات سے 8 دن قبل Coma میں چلے گئے روزانہ 4 گھنٹے میری وہاں رکنے کی روٹین تھی۔ اس دوران روزانہ میں ایک بار سورۃ یٰسین اور پھر دعائیہ آیات کی بآواز تلاوت کرتی تھی۔ وفات سے ایک روز قبل میں نے تلاوت شروع کی تو آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔ میں نے السلام علیکم کہا۔ سر ہلا کر جواب دیا میں نے پوچھا پڑھوں؟ سر کے اشارے سے ہی جواب دیا کہ ہاں۔ میں پڑھتی رہی میری طرف آنکھیں کھول کر دیکھتے رہے۔

(الفضل 19۔اگست 2011ء)

حاجی تاج محمود

چنیوٹ کے حاجی تاج محمودنے 1902ء میں تحریری بیعت کی۔ 1939ء میں رمضان شریف کے مہینہ میں ان کی اہلیہ کی وفات ہوئی۔ حاجی مع چند اور احمدیوں کے تراویح کی نما زپڑھ رہے تھے۔ ان کا ایک نواسہ جو حافظ قرآن تھا، قرآن مجید سنا رہا تھا کہ ساتھ والے مکان سے رونے کی آوازیں آئیں اور ایک لڑکے نے آکر بتلایا کہ حاجی کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس وقت چار تراویح پڑھی جاچکی تھیں۔ اس حادثہ کی اطلاع پاکر حاجی نے انا للّٰہ پڑھا اور اپنے نواسے کو ہدایت کی کہ بقیہ چار تراویح میں حسب معمول قرآن مجید سنائے۔ پوری نماز ختم کرنے کے بعد وہ اور دیگر اقربا میت والے مکان میں گئے۔

1941ء میں چنیوٹ میں جب بیت الذکر تعمیر ہوئی تو اس دن سے آخری ایام تک وہ بیت الذکر ان کا ملجا و ماویٰ بنی رہی۔ ہر وقت قرآن مجید کی تلاوت اور وعظ و نصیحت میں مصروف رہتے تھے۔

(متبعین احمد جلد10 ص50,49)

محترم عبدالرحمٰن دہلوی

محترم عبدالرحمان دہلوی کے متعلق ان کے بیٹے فضل الرحمان عامر لکھتے ہیں۔

جب آپ کینیڈا آئے تو چند دن بعد مجھے کہنے لگے کہ پاکستان میں تم نماز اور قرآن روزانہ پڑھنے کی پابندی کرتے تھے لیکن اب دین کا خانہ بالکل خالی ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ تم پاکستان میں رہتے لیکن دین تمہارے پاس رہتا۔ میں نے ان سے معافی مانگی اور کہا کہ آئندہ کبھی انہیں شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔

چنانچہ ستائیس سال پہلے کی گئی اس نصیحت کے بعد نہ صرف میں نے نماز اور قرآن کی تلاوت میں باقاعدگی اختیار کی بلکہ روزانہ نصف گھنٹہ کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب بھی آپ کو سنایا کرتا اور اس طرح کم ازکم تین بار ساری کتب بھی پڑھ ڈالیں۔ دیگر رسائل و جرائد بھی سنایا کرتا۔

کینیڈا میں دوبار آنکھوں کا آپریشن ہوا جس کی وجہ سے صحیح طور پر تلاوت قرآن یا حضرت مسیح موعودؑ کی کتب نہ پڑھ سکتے اور اس کا آپ کو بہت صدمہ تھا۔

(احمدیہ گزٹ کینیڈا۔ اپریل 2009ء)

شیخ محمد یعقوب

محترم شیخ محمد یعقوب چنیوٹی نے درویشی کا عرصہ اس طرح گزارا کہ ایک قابل صد رشک جینا جیا۔ یہ وہ شخص تھا جسے دیکھ کر ذکر الٰہی کا مفہوم پوری طرح ذہن میں سما جاتا تھا۔ بلکہ یوں جی چاہتا تھا کہ اس کا نام بدل کر شیخ محمد یعقوب کی بجائے “ذکر الہٰی” رکھ دیا جائے۔ تہجد کے اولین لمحات میں وہ شخص چارپائی کو چھوڑ کر بیت مبارک میں پہنچ جاتا تھا۔ اور صبح کی نماز سے فارغ ہو کر اسی چارپائی پر آکر بیٹھ جاتا تھا۔ ایک لے اور ترتیل اور سوز کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت اس طرح کرتا تھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پپوٹوں نے آنسوؤں کا ایک سیلاب روک رکھا ہے۔ اس کے چہرے پر رقت کا تصرف ہوتا تھا اور نوک مژگان پر نم کی جھلک نمایاں ہوتی تھی۔ معصومیت اور فرشتگی کا ایک ہالہ سا اس کے بشرے کو گھیرے رہتا تھا۔

(وہ پھول جو مرجھا گئے حصہ اول ص56)

چوہدری محمد عبداللہ

مکرم چوہدری محمد عبداللہ درویش قادیان قرآن کریم کی تلاوت بڑی خوش الحانی سے کرتے تھے اور تلفظ پر بڑا عبور حاصل تھا۔ کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے۔ رمضان المبارک میں 3 دن میں دور مکمل کر لیا کرتے تھے۔ ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ

پیارے ابا جان دور بیٹھے بغیر قرآن کریم دیکھے ہماری قراءت میں غلطیوں کی تصحیح کروا دیا کرتے تھے۔جسے دیکھ کر ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی۔ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد نے آپ کی وفات پر آپ کے کتبے کی عبارت پر لکھوایا ’’تلاوت قرآن پاک میں خاص شغف رکھتے تھے۔‘‘

(الفضل 28۔اکتوبر 2011ء)

مولوی محمد شریف

محترم مولوی محمد شریف کو حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے مکہ مکرمہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کو ایک معاند احمدیت کی رپورٹ پر اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ حرم میں مقام ابراہیم کے پاس بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے۔ وہ جنوری 74ء سے مئی 74ء تک جیل میں رہے۔ انہوں نے جیل کے کمرہ میں داخل ہوتے ہی قرآن کریم طلب کیا اور اکثر وقت اس کی تلاوت میں گزارتے تھے اور نہایت خشوع و خضوع سے نمازیں ادا کرتے۔

(عالمگیر برکات مامور زمانہ ص255، 257)

مؤثر نظارہ

1913ء میں ایک غیراحمدی صحافی محمد اسلم قادیان آئے اور چند دن قیام کر کے واپس گئے۔ انہوں نے واپسی پر اپنے تاثرات تفصیل سے شائع کرائے جن میں لکھا:

صبح کی نماز منہ اندھیرے چھوٹی مسجد میں پڑھنے کے بعد جو میں نے گشت کی تو تمام احمدیوں کو میں نے بلاتمیز بوڑھے و بچے اور نوجوان کے لیمپ کے آگے قرآن مجید پڑھتے دیکھا۔ دونوں احمدی مساجد میں دو بڑے گروہوں اور سکول کے بورڈنگ میں سینکڑوں لڑکوں کو قرآن خوانی کا مؤثر نظارہ مجھے عمر بھر یاد رہے گا۔

(تاریخ احمدیت جلد3 ص441)

خان بہادر سعداللہ خان

خان بہادر سعداللہ خان خٹک پشاور کے رہنے والے تھے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر 1911ء میں بیعت کی اور بیعت کے بعد وہ تبدیلی اختیار کی کہ آپ ولی اللہ بن گئے۔ ایک دفعہ مالاکنڈ کے قدیمی دوست قاضی محمد احمد جان جو احمدیت کے مخالف تھے اور قابل عبرت سزا پاچکے تھے چند اور افسر ساتھ لے کر خان بہادر موصوف کے پاس بطور جرگہ آئے اور کہا کہ خان ہم کو یہ سن کر کہ آپ احمدی ہوئے ہیں سخت صدمہ اور افسوس ہوا ہے۔ کیا اچھا ہوگا اگر آپ پھر توبہ کرلیں۔ خان بہادر نے جواب دیا کہ جب میں آپ کی طرح مسلمان تھا تو آپ کو معلوم ہے کہ آپ ان کی مہربانی سے نہ نماز پڑھتا نہ تہجد نہ قرآن کریم سے کوئی واقفیت یا تعلق تھا سارا دن تاش اور شطرنج میں گزرتا اور لڑکے آکر ناچتے۔ خدا بھلا کرے ہمارے مولوی مظفر احمد کا جن کے نیک نصائح اور پاک صحبت نے اس گندی زندگی سے بیزار کرا کر پابند نماز و تہجد کیا اور درس قرآن کا شوق دلایا۔ اگر دین یہ نہیں جو احمدیت کے ذریعہ حاصل ہوا اور دین دراصل وہ تھا جو میں آپ لوگوں کی رفاقت میں اختیار کرچکا تھا۔ تو مجھے یہ کفر اس دین سے پسندیدہ ہے اس پر وہ لوگ شرمندہ ہوئے اور اٹھ کر چلے گئے۔

(تاریخ احمدیت جلد17ص406)(الفضل 7 مئی 2004ء)

مکرم میاں ثناء اللہ راجوری

آپ جماعت احمدیہ بڈہانوں کے عرصہ سے پریذیڈنٹ رہے۔ جماعت کی تعلیم و تربیت میں بہت کوشاں رہتے۔

نظام سلسلہ کی پابندی کرانے میں پوری کوشش کرتے۔ درس و تدریس کا سلسلہ باقاعدہ جاری رکھتے۔

مردوں اور عورتوں کو یسرناالقرآن، قرآن کریم ناظرہ اور مترجم حسب مراتب باقاعدہ پڑھانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ بہت سے مرد اور عورتیں جو کہ بڑی عمر تک پہنچ چکے تھے مگر قرآن کریم پڑھنا نہ جانتے تھے۔

آپ کی کوششوں کے نتیجہ میں قرآن کریم ناظرہ و مترجم اور دیگر دینی کتب پڑھیں۔

(چار کوٹ کے درویش ص21 از مبارک احمد راجوری)

محترم چوہدری نذیر احمد اور مریم صدیقہ

مکرم مجید احمد بشیر اپنے والدین کے متعلق لکھتے ہیں۔

والد کو قرآن مجید سے عشق تھا محترمہ والدہ صاحبہ خود بھی تلاوت کی عادی تھیں اور اپنی اولاد کو بھی سختی سے پابند ی کرواتی تھیں۔ نمازفجر کے بعد پورے گھر سے تلاوت کی آواز آتی۔ تمام بہن بھائی اپنے اپنے انداز میں اونچی آواز سے تلاوت کرتے۔ محترم والد ملازمت کے سلسلہ میں مختلف شہروں میں مقیم رہے لیکن ماہ رمضان ربوہ میں ہی گزارتے تھے۔ رمضان المبارک میں قرآن کریم کے دو دو تین تین دَور کرتے اور ہمیں بھی تلقین کرتے۔ پورے گھر میں ایک مقابلہ کی روح رہتی۔ آپ اس بات کو یقینی بناتے کہ آخری روزہ کے دن چاند نظر آنے سے قبل کم از کم ایک دفعہ گھر کا ہر فرد قرآن مجید ختم کرے۔ قرآن کریم صحت سے پڑھنے کی طرف ہر وقت توجہ دلاتے بلکہ جب ہم تلاوت کرتے تو اگر زیر زبر کی غلطی ہو جاتی تو فوراً درست کرواتے۔ گو حافظ قرآن تونہ تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عربی کے قواعد کی کسی حد تک سدھ بدھ رکھتے تھے۔ رمضان المبارک میں بیت مبارک میں درس قرآن سے استفادہ کرتے اور ہمیں بھی نہ صرف تلقین کرتے بلکہ نگرانی بھی فرماتے تھے۔ تمام بہن بھائیوں نے چھوٹی عمر میں قرآن کریم کا پہلا دور مکمل کر لیا تھا۔ اس سلسلہ کو اولاد دَر اولاد بھی قائم رکھا۔ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں نے ہمارے والدین کی خصوصی دعاؤں اور کوششوں سے قرآن کریم کا پہلا دور چھوٹی عمروں میں ہی مکمل کر لیا اور اس طرح بچپن سے ہی ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت بٹھادی۔

محترم والد فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کو سکول میں داخل کروانے سے قبل بچوں کو قرآن مجید ناظرہ ضرور ختم کر لینا چاہیے۔ چنانچہ خاکسار کی بڑی بیٹی عزیزہ ڈاکٹر نزہت صبا بشیر (حال امریکہ) نے بعمر 4 سال 10 ماہ، عزیزم سعید احمد نذیر نے بعمر سوا چار سال، چھوٹے بیٹے عزیزم نوید احمد ظفرنے بعمر 4 سال 9 ماہ میں قرآن مجید ختم کر لیا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس نور سے منور کرے اور پاکیزہ زندگی عطا فرمائے۔

محترم والد نے خاکسار کے بیٹے عزیزم سعید احمد نذیر سلمہ اللہ کے ختم قرآن کے موقع پر ایک خط روزنامہ الفضل کو بھجوایا۔ جوقارئین کے استفادہ کے لئے پیش خدمت ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔

گزشتہ دنوں الفضل کے ایک شمارہ میں قاعدہ یسرناالقرآن کی افادیت پر ایک دوست کا نوٹ نظر سے گزرا۔

واقعی قرآن کریم ناظرہ جاننے، سیکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک نہایت ہی آسان راہ عطا کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے بھی اس کی تعریف فرمائی ہے بالخصوص بچوں کے لئے تویہ قاعدہ بہت ہی عمدہ پایا گیا ہے اور اگر بچے کو چھوٹی عمر میں ہی سکول بھیجنے سے پہلے پہلے یہ قاعدہ پڑھا دیا جاوے تو وہ بڑی آسانی سے قرآن کریم ختم کرلیتاہے۔ میری طرح اور دوستوں کو بھی اس کا تجربہ ہے کہ بچوں کو با لعموم جب وہ صاف صاف باتیں کرنے لگ جاتے ہیں ۔یعنی تین چار سال کی درمیانی عمر میں تو کھیل کھیل میں ہی اس قاعدہ پر وہ عبور حاصل کر لیتے ہیں اور قرآن کریم کا پاک تاج اپنے سر پر سجانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حال ہی میں میں اپنے ایک پوتے عزیزی سعید احمد نذیر کے بارے میں اپنا تجربہ جان سے پیارے آقا کے ارشاد کے ہمراہ بیان کرنا چاہتا ہوں جوکہ بہت سے دوستوں کے لئے راہنمائی کا موجب بن سکتا ہے ۔اُمید ہے یہ شائع فرماکر ممنون فرماویں گے۔

میں نے اپنے اس عزیزکو ساڑھے تین سال کی عمر میں یا اس سے کچھ پہلے جب وہ اس قابل ہوا کہ ہر قسم کی باتیں کرنے لگ گیا تو میں نے اس کو اس قاعدہ کی طرف لگایا لیکن جب وہ جزم پر پہنچا تو بالکل اٹک گیا اورمیں ہر طریق سے اس کو آگے گزارنے پر کامیاب نہ ہواتو میں نے اس کی والدہ سے کہا کہ وہ صورت حال بیان کرکے اپنے جان سے پیارے آقا سے نہ صرف دعاکے لئے عرض کرے بلکہ راہنمائی بھی طلب کرے تو اس کے جواب میں حضور پُر نور نے ڈھیروں دعائیں اور پیار دیتے ہوئے فرمایا۔

’’آپ نے جو اپنے بچہ کے متعلق تحریرکیا ہے آپ گھبرائیں نہیں بعض بچے بعض خاص جگہ اٹکتے ہیں صرف سمجھا کر آگے گزر جانا چاہئے ۔عمر کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ خود ہی سمجھ آجائے گی۔‘‘

چنانچہ جب حضور کے اس ارشاد پر عمل کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا اور عزیز موصوف نے نہ صرف قاعدہ خود پڑھ لیا بلکہ سوا چار سال کی چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید ختم کر لیا۔

(روزنامہ الفضل 20 فروری 1991ء)

محترم والدین قرآن مجید سے بہت پیار کرتے تھے اور حتی الوسع قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ تفسیر صغیر اکثر زیر مطالعہ رہتی۔ محترمہ والدہ صا حبہ صبح تلاوت کے بعد اونچی آواز میں ترجمہ بھی پڑھتیں۔ میرے خیال میں وہ اس لئے بھی ایسا کرتی تھیں کہ سارے بچے بھی قرآن مجید کی تعلیم کو سنیں۔ ہمیں بھی اکثر ترجمہ پڑھنے کی تلقین کرتے تھے۔ خاکسار کو یاد ہے کہ محترم والداکسار کو قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کی نصیحت کرتے۔ ایف ایس سی میں یہ ہدایت تھی کہ ہر اتوار کو خط لکھیں اور جو ترجمہ انگریزی میں پڑھا ہے اس کا خلاصہ اُردو میں کر کے ان کو بذریعہ خط بھجوائیں۔ یہ والد کی نگرانی کا ہی نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف قرآن مجید سے شغف بڑھا بلکہ انگریزی سمجھنے اور بولنے میں بہتری آتی گئی۔

(الفضل 8 مارچ 2012ء)

محترم میر غلام احمد نسیم

آپ تحریر فرماتے ہیں۔

بچپن میں اپنے والد محترم میاں صلاح محمد کو ’’سورۃالحشر‘‘ کی آیات 19 تا 25 کی تلاوت پُرسوز آواز میں کرتے ہوئے سنا کرتا تھااور اسی و قت دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی ان آیات کی تلاوت کروں۔

گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی کے ابتدائی سالوں کی بات ہے کہ مولوی محمد سعد معلم اصلاح و ارشاد ہمارے گاؤں دھوڑیاں پونچھ جموں و کشمیر اپنے فرائض منصبی کے سلسلہ میں تشریف لائے اور نماز کی امامت کراتے ہوئے ’’سورۃ بنی اسرائیل‘‘ کی آیات 79 تا 85 کی نہایت ہی خوش الحانی سے تلاوت کیں۔ ان کی اس تلاوت کا مجھ پہ اتنا اثر ہوا کہ باوجود کم عمری کے ان آیات کا حوالہ حاصل کرکے سارا رکوع حفظ کر لیا اور جب بھی نماز باجماعت پڑھانے کا موقعہ میسر آیا اس رکوع کی تلاوت کی۔

طالب علمی کے ابتدائی دور کی بات ہے کہ جماعت احمدیہ چار کوٹ راجوری کے سیکرٹری مال نے نماز جمعہ کے بعد حاضرین کو مالی قربانی کرنے کی طرف توجہ دلانے سے قبل ’’سورہ الصف‘‘ کی آیات 11 ،12 اور 13 کی تلاوت کی۔ ان آیات اور ان کا ترجمہ سننے سے اس حد تک متاثر ہوا کہ عمر بھر مالی قربانی کی حسب توفیق رغبت رہی۔ ان آیات کو حفظ بھی کیا اور موقع پیش آنے پر تلقین کے لئے تلاوت بھی کرتا رہا۔

اسی طرح ایک طالب علم جو ہمارے ساتھ آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا بعض اوقات چلتے پھرتے ’’سورۃ الدھر‘‘ کی آیات 2، 3 اور 4 کی تلاوت پُر سوز آواز اور کسی حد تک تجوید کے ساتھ کرتا کہ مجھے بھی ان آیات کو زبانی یاد کرنے کی رغبت ہوئی۔

(الفضل 24۔اگست 2011ء)

(عبدالسمیع خان۔غانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ