• 23 اپریل, 2024

نماز میں توجہ قائم رکھنے کے ذرائع کا تجزیہ

نماز میں توجہ پیدا کرنے اور قائم رکھنے کے متعدد مؤثر ذرائع ہیں اور ان مؤثر ذرائع کا تجزیہ اور وضاحت اچھی خاصی دلچسپی کا باعث رہے گی۔ نماز کے ارکان میں توجہ قائم رکھنے کے ذرائع کی مختلف نوعیتیں ہیں۔ جن کی ظاہری شکلیں اپنی مختلف حرکات و سکنات کے ساتھ توجہ کے قیام اور تسلسل میں بہت ممد ثابت ہوتی ہیں۔ نماز کی رکعتوں میں تقسیم، نماز میں توجہ پیدا کرنے کے لئے نمایاں طور پر ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ نماز کی اس تقسیم سے یقیناً اور بھی کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں لیکن ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ نماز میں تصورات اور خیالات مخل نہ ہوں کیونکہ یہ دماغ کا خاصہ ہے کہ ایک خیال دوسرے خیال کو جنم دیتا ہے جو آپس میں اس طرح مربوط ہوتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنا کاردارد ہے۔ یہ امر قدرتی ہے۔ اسی لئے جب ایک حالت سے دوسری حالت میں جاتے ہیں تو خیالات اور تصورات کا یہ کارواں بھی سایے کی طرح ہمارے ساتھ ساتھ حرکت کرتا رہتا ہے جب ہم ایک کام میں مشغول ہوں تو فطری طور پر آئندہ کرنے والے کام کی ایک جھلک موجودہ کام میں بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے موجودہ کام میں آئندہ آنے والے کام کے خیال اور تصور کا کچھ حصہ ضرور آجائے۔ اب ہماری روزمرہ کی زندگی افعال و اشغال کا لامتناہی چکر ہے اسی لئے بعض اوقات کسی کام میں توجہ کو قائم رکھنا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری پنجگانہ نمازیں روزمرہ کی مصروفیتوں اور سرگرمیوں سے الگ نہیں کی جاسکتیں۔

پس نماز کے اصل حصے کو دوسرے افعال کے خیالات و تصورات سے محفوظ رکھنا ازحد ضروری ہے۔ اسی واسطے نماز کے حصوں کو اہمیت کے لحاظ سے اس طرح تقسیم کیا گیا کہ زیادہ اہم حصے کو فرائض قرار دیا گیا اور کم اہم کو سنن۔ سنتیں اگرچہ ضروری ہیں لیکن ان کی اہمیت اپنے وقت اور ماحول کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ ایسی نمازیں جن میں فرائض سنن کے درمیان واقع ہیں ان سنتوں سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ قبل از نماز اور مابعد کے دنیاوی اور غیر ضروری کاموں کے خیالات کی یورش سے انسانی دماغ فرض نماز میں محفوظ رہتا ہے۔ فرض نماز سے قبل سنتیں ان پراگندہ خیالات کو بڑی حد تک دور کردیتی ہیں جو نماز سے پہلے کے کاموں سے متعلق ہوتے ہیں جن سے چھٹکارا حاصل کرکے انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ اور نماز کے بعد کی سنتیں ان خیالات کو فرض نماز کی ادائیگی کے وقت دور رکھتی ہیں جو انسان کو نماز کے بعد کرنے ہوتے ہیں۔ اس طرح سے سنن کے فرض نماز سے پہلے یا بعد میں آنے کی حکمت واضح ہو جاتی ہے۔ سنن کا بعض نمازوں سے الحاق بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے اور جیسا کہ ان کی ترتیب سے ظاہر ہے کہ ان کو حضور قلب کے حصول کے لئے ممدو معاون کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔ مثلاً فجر کی نماز نیند کے بعد ادا کی جاتی ہے جس کے بعد عام طور سے جلد ہی دنیوی اشغال کے شروع ہونے کی توقع نہیں کی جاتی اس لئے فرض نماز کے بعد کسی قسم کی سنتوں کو نہیں رکھا گیا لیکن فرائض سے پہلے دو سنتوں کے ادا کرنے کا حکم دیا گیاہے۔ کیونکہ انسان جب سونے کے بعد بستر استراحت سے اٹھتا ہے تو نیند کے غلبے کی وجہ سے کچھ سستی اور کاہلی کے اثرات ضرور موجود رہتے ہیں۔ فرائض سے قبل ان سنتوں کو ادا کرنے سے یہ سستی اور کاہلی دور ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نمازی فرائض کو زیادہ توجہ سے ادا کرسکتا ہے۔ ظہر کی نماز عموماً نصف دن یعنی اوقات کار کے درمیان ادا کی جاتی ہے اور چونکہ نمازی نے نماز کے بعد بھی اتنے ضروری کام کرنے ہوتے ہیں جیسا کہ وہ نماز سے قبل بھی اہم دنیوی کاموں میں مشغول ہوتا ہے اس لئے سنن کو نماز سے قبل اور بعد میں رکھ دیا گیا ہے۔ عصر کی فرض نماز سے قبل سنتوں کا ادا کرنا ضروری نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عموماً اس وقت انسان اپنے دنیاوی کام ختم کرچکتا ہے اور ذہن انسانی سے منتشر و پراگندہ خیالات دور ہوچکے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عصر کی نماز میں سنتوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اس نماز کے بعد عموماً کوئی کام باقی نہیں رہتا۔ اسی طرح مغرب کی نماز سے قبل بھی کوئی سنتیں نہیں ادا کی جاتیں۔ اس کا سبب یہی ہے کہ عصر کی نماز کے بعد ایسا کوئی کام نہیں کیا جاتا جس کے گہرے نقوش دماغ کو پراگندہ کردیں۔ اور چونکہ غروب آفتاب اور رات کے طاری ہونے کے درمیان بہت کم وقفہ ہوتا ہے اس لئے پہلے سنن مقرر نہیں کی گئیں۔ البتہ مغرب کی نماز کے بعد سنن مقرر کی گئی ہیں جس کی وجہ یہی ہے کہ مغرب کی نماز کے بعد عموماً کھانا کھایا جاتا ہے اور انسانی دماغ کھانے اور اس کے متعلقات کی طرف متوجہ ہونے لگتا ہے اس لئے فرض نماز کو اس ذہنی کشمکش سے محفوظ رکھنے کے لئے دوسنتوں کی زیادتی کردی گئی۔ عشاء کی نماز سے قبل سنتوں کا پڑھنا لازمی قرار نہیں دیا گیا۔ کیونکہ مغرب اور عشاء کے درمیانی وقفے میں عموماً کوئی ایسا واقعہ ظہور پذیر نہیں ہوتا جس کے اثرات خیالات کو پراگندہ اور منتشر کردیں۔ البتہ نوافل کی اجازت ضرور دی گئی ہے۔ جیسا کہ عصر کی نماز سے قبل بھی ادا کئے جاسکتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ اگر نمازی چاہے تو اپنی توجہ کو قائم اور مضبوط کرنے کے لئے نوافل پڑھ لے۔ اس طرح یکسوئی حاصل ہو جائے گی۔ فرائض کے بعد دو سنتوں اور تین وتروں کو ادا کرنے کا حکم ہے۔ تاکہ وہ خیالات جو بستر استراحت پر لیٹے ہوئے آتے ہیں اور ذہنی اور قلبی یکسوئی کومجروح کرتے ہیں ان کا تدارک کیا جاسکے۔ مومنین تین وتروں کو عموماً آدھی رات یا رات کے پچھلے حصہ میں ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ اس سے نیند کے دوران میں بھی نیک خیالات انسانی دماغ کو مصروف و مشغول رکھتے ہیں۔ اس طرح انسان اپنی نیند کا غلام نہیں بلکہ مالک و مختار ہوجاتا ہے۔ یعنی جب چاہے اس سے فائدہ اٹھائے اور جب چاہے اس کو اپنے کاموں میں اثرانداز نہ ہونے دے۔

کسی کام کے کرنے سے قبل اور مابعد کے کاموں کے خیالات کا یہ ارتباط بغیر کسی ارادی اور تجرباتی کوشش کے محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا تجزیہ کرنا بھی نہایت آسان ہے۔ مثلاً جو صورت نماز میں میں نے پیش کی ہے اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کو دو حصوں میں اس طرح تقسیم کرنا کہ کچھ لابدی قرار دیا جائے اور کچھ حصے پر اتنا ضروری نہ ہو محض اس لئے ہے کہ انسان کی توجہ اس حصہ پر جو نہایت ضروری ہے پوری طرح مرتکز رہے۔ اس قسم کا تجرباتی تجزیہ دو طرح سے مفید نتائج کا حامل ثابت ہوگا اولاً اس عجیب و غریب طریقہ عبادت یعنی نماز کے دلچسپ اجزا پر روشنی پڑے گی۔ ثانیاً انسانی ذہن سے توجہ کے متعلق کی کیفیت صبح سے دوپہر تک۔ دوپہر سے سہ پہر تک سہ پہر سے شام تک اور شام سے بستر پر دراز ہونے تک اور اس پر پڑنے والے اثرات کی وضاحت ہو جائے گی اس قسم کے تجربے اور تجزیے مذہبی اور نفسیاتی دونوں لحاظ سے نہایت اہم ہوں گے۔

نماز میں توجہ کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ نماز کی اس تقسیم رکعات کے علاوہ کئی اور بھی ایسے امور ہیں جو حضور قلب کے لئے انسان کے ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ طریق عبادت میں کئی ایسی شرائط اور قیود لگادی گئی ہیں جو توجہ کو برقرار رکھنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ نہایت اختصار کے ساتھ ان پر بھی روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ان قواعد و ضوابط کا مفصل تجزیہ، تجربات و مشاہدات کی روشنی میں پھر کبھی کیا جائے گا۔ سردست چند ایک کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

ان امدادی ذرائع میں سب سے اہم بات نماز کو خاص ضبط و نظم کے ساتھ باجماعت ادا کرنا ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ حضرت بانی اسلام ﷺ نے اور اس وقت سے لے کر اب تک کے علماء و فضلاء نے بیوت الذکر میں نماز باجماعت ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے مستند ائمہ اس خیال کے موید ہیں کہ نماز صرف اسی وقت نماز کہلا سکتی ہے۔ جب اسے بیوت الذکر میں جماعت کے ساتھ ادا کیا جائے۔ یہ بھی عام مسلمہ بات ہے کہ نماز باجماعت کی ہیئت و ساخت دوسری اجتماعی عبادات سے بہت مختلف ہے۔ …کی باجماعت نماز چند نمازیوں یا عبادت گزاروں کا کوئی معمولی مجمع نہیں بلکہ ایک ایسا منظم اجتماع ہے جس کی قیادت امام الصلوٰۃ کرتا ہے۔ امام الصلوٰۃ کی حیثیت کے متعلق اتنا جاننا ضروری ہے کہ اس کی حرکات و سکنات کا مکمل تتبع مقتدیوں پر واجب ہے یہاں تک کہ اگر امام سے غیر ارادی طور پر کوئی فروگزاشت بھی ہو جائے تب بھی مقتدیوں کو حکم ہے کہ امام کی اطاعت کریں۔ ایسے اجتماع کا وجود حضور قلب کے حصول اور توجہ کے قیام میں کس قدر معاونت کرتا ہے۔ امام کی حرکات و سکنات بھی مقتدیوں کی توجہ کو انتشار سے بچاتی ہیں۔ مقتدی جونہی خیالات و تصورات کے پیچھے بھٹکنے لگتے ہیں جو کسی کام کے مسلسل کرنے کی وجہ سے قدرتی طور پر پیدا ہوجاتے ہیں۔ تو امام کا بلند آواز سے تبدیلی حرکات کا اعلان ان کی توجہ پھر نماز کی طرف منعطف کرا دیتا ہے۔ یہاں ہم ضرورت تبدیلی حرکات کے نکتے کی حقیقت سے بھی آگاہ ہو جاتے ہیں۔ نماز کی سنجیدہ، متین ادائیگی میں مختلف حرکات و سکنات اور ان پر امام کی بلند آواز تکبیروں سے نمازیوں کو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ ایک حالت کے اکتا دینے والے تسلسل سے جو نماز کی لذت کا ستیا ناس کرسکتا ہے محفوظ ہوجاتے ہیں۔

نماز میں توجہ قائم رکھنے کا ایک اور اہم ذریعہ وہ حکم ہے جس کی رو سے نمازیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عبادت کے دوران میں اپنی آنکھیں خوابیدہ کرنے کی بجائے اس مقام پر مرکوز کریں جسے سجدہ ریز ہونے کی حالت میں ان کے ماتھے چھوئیں گے۔ اکثر لوگ عموماً اور اہل مغرب خصوصاً اس حکم پر اعتراض کرتے ہیں لیکن اگر ہم غور سے جائزہ لیں تو توجہ قائم رکھنے کے سلسلہ میں اس کی ضرورت بھی واضح ہو جاتی ہے اگر بصارت کی حس مصروف عمل نہ ہو جیسا کہ آنکھ بند کرلینے کی صورت میں ہوتا ہے تو نمازی کا ذہن سننے، چھونے اور سونگھنے، غرض ہر قسم کے بیرونی اثرات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔

نمازی کے ذہن کو اس قسم کے اشتعال انگیز خارجی اثرات سے بچانے کے لئے بہترین صورت یہی ہوسکتی تھی کہ حواس خمسہ میں سے کوئی ایک حس پوری قوت کے ساتھ مصروف عمل رہے۔ ایک حس کے پوری شدت سے مصروف عمل ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ باقی حواس بیرونی اثرات کو قبول کرنے کی عام صلاحیت سے وقتی طور پر بے بہرہ ہو جائیں گے۔ اب ایسی آسان اور کارآمد حس صرف بصارت کی حس ہوسکتی ہے۔ آنکھوں کو بروئے کار لانے سے نمازی نیند کے حملہ سے بچ جاتا ہے اور ساتھ ساتھ دوسرے حواس بھی شدت عمل کو چھوڑ دیتے ہیں، قوت باصرہ کے انتشار کو روکنے کے لئے سادہ اور عام درجہ کی صفوں اور چٹائیوں پر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ رنگا رنگ اور بو قلموں قالین، غالیچے اور چٹائیاں نماز کے لئے مستحسن نہیں سمجھی گئیں۔

اس کے علاوہ وضو کارکن بھی نماز میں توجہ قائم رکھنے کے لئے ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ حضور قلب کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہونے والے ارکان کی بالتفصیل وضاحت کا موقعہ نہیں ہے۔ تاہم نماز کی بناوٹ اور ساخت اور اس میں دوسرے ضروری ارکان اس قابل ہیں کہ ان کا تجرباتی تجزیہ کیا جائے۔ تو ایسا تجربہ خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ اگر ان تمام اجزاء کا مطالعہ کیا جائے۔ ان کی اصل حقیقت تلاش کی جائے تو یہ اقدام اسلام اور علم النفس دونوں کے لئے بہت مفید ثابت ہو گا۔

(ماہنامہ خالد، جنوری 1961ء)

(پروفیسر قاضی محمد اسلم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ