• 25 اپریل, 2024

شب برأت

فقہ کیا کہتا ہے

شعبان اسلامی کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ ہے ۔ اس ماہ کی 15 تاریخ کی رات عوام میں شب برات اور شب قدر کے نام سے مشہور ہے۔

قرآن کریم میں صرف ایک رات کی غیر معمولی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ یعنی ’’لیلۃ القدر‘‘ وہ رات جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا۔ اس کی اہمیت قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے :۔

إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرo وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِo لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍo تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْر o سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِo

یقیناً ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا ہے۔ اور تجھے کیا سمجھائے کہ قدر کی رات کیا ہے۔ قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ بکثرت نازل ہوتے ہیں اُس میں فرشتے اور روح القدس اپنے ربّ کے حکم سے۔ ہر معاملہ میں۔ سلام ہے۔ یہ (سلسلہ) طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے۔۔

(سورۃ القدر)

احادیث میں لیلۃ القدر کے متعلق آتا ہے کہ یہ ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں آتی ہے اور اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔

لیلۃ القدر کے علاوہ کسی اور رات کی اس قدر فضیلت بیان نہیں کی گئی ۔ شب برات منانے کے قائلین قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں شب برات کا ذکر ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِیْنَ o فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ o

یقیناً ہم نے اسے (یعنی قرآن کو) ایک بڑی مبارک رات میں اتارا ہے۔ ہم بہر صورت اِنذارکرنے والے تھے۔ اس (رات) میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

(الدخان آیت4 ،5)

شب برات کے قائلین ’’لیلہ مبارکہ‘‘ سے شب برات مراد لیتے ہیں۔ انہوں نے ’’لیلہ مبارکہ‘‘ یعنی برکت والی رات کو الگ رات قرار دے کر ’’لیلۃ القدر‘‘ کی تمام فضیلتیں شب برات کے ساتھ منسوب کر دی ہیں جو درست نہیں ہے۔ لیلۃ القدر کو ہی دوسری جگہ لیلہ مبارکہ یعنی خیر وبرکت والی رات کہا گیا ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔ قرآن کریم ماہ رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ۔ کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔ (البقرۃ :186)

لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے ۔ اور اس میں عبادت کرنے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ صحابہ کرام میں قرآن کریم سمجھنے کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔ صحابہ رسول ﷺ میں سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابن عمرؓ اور دیگر مفسرین میں سے حضرت قتادہؓ، حضرت مجاہد ؒ، حضرت حسن بصری ؒکے نزدیک ’’لیلہ مبارکہ‘‘ سے مراد لیلۃ القدر ہی ہے۔ کیونکہ دونوں راتوں میں قرآن کریم کا نزول قدرِ مشترک ہے۔ لہٰذا ’’لیلہ مبارکہ‘‘ سے ’’شب برات‘‘ مراد لینا درست نہیں ہے۔ ’’لیلہ مبارکہ‘‘ اور لیلۃ القدر ایک ہی رات کے دو نام ہیں۔

حضرت امام رازیؒ تفسیر کبیر میں سورۃ الدخان کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ :۔

’’لیلہ مبارکہ کے متعلق مفسرین نے اختلاف کیا ہے۔ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دراصل لیلۃ القدر ہی ہے۔ عکرمہ اور کچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ شب براءت ہے جو پندرہ شعبان کو آتی ہے۔

مفسرین کی اکثریت نے جو لیلہ مبارکہ کو لیلۃ القدر قرار دیتی ہے اپنے قول کی تائید میں درج ذیل دلائل سے استنباط کیا ہے :

اول ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعلق سورۃ القدر میں فرمایا ہے کہ إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْر کہ ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اورسورہ دخان کی اس آیت میں فرمایا إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ کہ ہم نے اس قرآن کو لیلہ مبارکہ میں نازل کیا۔ پس اس سے لازم آتا ہے کہ لیلہ مبارکہ کو ہی لیلۃ القدر کا نام دیا گیا ہے تاکہ دونوں آیات میں تناقض نہ رہے۔

دوسری دلیل یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ۔ کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔ (البقرۃ :186) یہاں خداتعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ قرآن کا نزول رمضان کے مہینہ میں ہوا اورسورۃ دخان کی اس آیت میں فرمایا کہ إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃ کہ ہم نے قرآن کو لیلہ مبارکہ میں نازل کیا ۔ پس اس سے لازم آیا کہ یہ رات رمضان کے مہینوں میں سے ایک رات ہے (نہ کہ شعبان کی رات)۔ اور جس کسی نے لیلہ مبارکہ کو رمضان کے مہینہ میں تسلیم کیا ہے اس نے اسے لیلۃ القدر ہی قرار دیا ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ یہ لیلۃ القدر ہی ہے ۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کی صفت میں بیان فرمایا ہے تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْر سَلَامٌ ہِیَ کہ اس رات میں فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے حکم سے نازل ہوتے ہیں اور یہاں لیلہ مبارکہ کی صفت میں فرمایا فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ کہ اس میں ہر حکمت والے امر کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اور یہ خداتعالیٰ کے اس قول سے مناسبت رکھتا ہے کہ تنزل الملائکۃ والروح فیھا کہ اس رات میں فرشتے اور روح القدس نازل ہوتے ہیں۔

لیلہ مبارکہ کی صفت میں فرمایا اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا۔ اور لیلۃ القدر کی صفت میں فرمایا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْر۔ یہاں فرمایا: رَحْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّکَ اور سورہ القدر میں فرمایا سَلَامٌ ھِیَ۔ پس جب اس قدر اوصاف مشترک ہیں تو ثابت ہوا کہ دونوں راتیں دراصل ایک ہی رات کے دو نام ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں تک اس گروہ کا تعلق ہے جو شعبان کی پندرھویں رات کو لیلہ مبارکہ قرار دیتا ہے تو میں نے ان کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں پائی جس پر اعتماد کیا جاسکے۔ انہوں نے عام افراد سے نقل کرنے پر ہی قناعت کی ہے ۔

(تفسیر کبیر امام رازی زیر آیت الدخان :9-1)

شب برأت کو عربی میں ’’لیلۃ البراءۃ‘‘ یعنی بریت کی رات کہتے ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس طرح ٹیکس collector جب کسی سے ٹیکس لے لیتا ہے تو اس کے حق میں بریت لکھ دیتا ہے ۔ اسی طرح خدا تعالیٰ اس رات میں اپنے بندوں کے لیے جہنم سے بریت لکھتا ہے ۔

(تفسیر کشاف للعلامہ زمخشری زیر آیت الدخان :8-1)

علامہ زمخشریؒ تفسیر کشاف میں لیلہ مبارکہ والی آیت کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ :۔

لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے ۔ البتہ بعض لوگ اس سے نصف شعبان کی رات مراد لیتے ہیں جس کے چار نام بیان کیے جاتے ہیں ۔ ۱۔ لیلہ مبارکہ ۔ ۲۔ لیلۃ البراءۃ ۳۔ لیلۃ الصک (دستاویز والی رات) ۔ ۴۔ لیلۃ الرحمت۔ کہا جاتا ہے کہ اس رات اور لیلۃ القدر کے درمیان چالیس راتیں ہیں ۔ لیلۃ البراءۃ یعنی شب برات اور لیلۃ الصک کی وجہ تسمیہ میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جس طرح ٹیکس collector جب کسی سے ٹیکس لے لیتا ہے تو اس کے حق میں بریت والی دستاویز لکھ دیتا ہے ۔ اسی طرح خدا تعالیٰ اس رات میں اپنے بندوں کے لیے جہنم سے بریت لکھتا ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ اس رات کی پانچ خصوصیات ہیں :(1) اس میں ہر حکمت والے امر کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اس رات عبادت کی بہت فضیلت ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اس رات 100 رکعات ادا کیں اللہ تعالیٰ اس کی طرف 100 فرشتے بھیجے گا جن میں سے 30 فرشتے اسے جنت کی بشارت دیں گے، 30 فرشتے اسے آگ کے عذاب سے امن میں رکھیں گے ، 30 فرشتے اس سے دنیا کی آفات دور کریں گے اور 10 فرشتے اس سے شیطان کی تدبیروں کو دور کریں گے ۔ (2) اس رات رحمت کا نزول ہوتا ہے ۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں : اس رات اللہ تعالیٰ میری امت پر بنو کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کے برابر رحم کرے گا۔ (3) اس رات حصول مغفرت ہوتی ہے ۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس رات سب مسلمانوں کو بخش دیتا ہے سوائے کاہن ، جادوگر ،کینہ پرور ، شراب کا عادی ، والدین کا نافرمان اور زنا پر اصرار کرنے والے کے۔ (4)

رسول اللہ ﷺ کو اس رات مکمل شفاعت کا حق دیا گیاہے ۔ وہ اس طرح کہ آپ نے شعبان کی تیرھویں رات اپنی امت کے بارے میں یہ حق مانگا تو آپ کو تیسرے حصے کی شفاعت کا حق دیا گیا پھر چودھویں رات کو یہ حق مانگا تو آپ کو امت کے دو تہائی حصے کے بارہ میں شفاعت کا حق دیا گیا پھر آپ نے پندرھویں شعبان کو یہ حق مانگا تو آپ کو ساری امت کی شفاعت کا حق دے دیا گیا سوائے ایسے شخص کے جو اللہ کی اطاعت سے ایسے بدک کر نکل جائے جیسے اونٹ اپنے مالک کے سامنے بدک کر بھاگ جاتا ہے ۔ (5) اس رات اللہ تعالیٰ زمزم کے پانی کو ظاہری طور پر زیادہ کر دیتا ہے ۔

تاہم اکثریت لیلہ مبارکہ سے لیلۃ القدر ہی مراد لیتی ہے۔ کیونکہ لیلۃ القدر اور لیلۃ البراءۃ کے متعلق خداتعالیٰ کے اقوال باہم مطابقت رکھتے ہیں جیسے فرمایا: إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر۔ پھر فرمایا: فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ یہ قول تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْر والے قول کے مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ۔ مطابقت رکھتا ہے اس سے کہ لیلۃ القدر ماہ رمضان میں آتی ہے۔

(تفسیر کشاف للعلامہ زمخشری زیر آیت الدخان :1-8)

علامہ عینیؒ شرح بخاری میں لکھتے ہیں کہ :۔

’’نصف شعبان میں عبادت کرنے والی احادیث کی بابت ابو الخطاب کہتے ہیں کہ یہ سب وضعی ہیں ۔ ان میں سے ایک حدیث جو ترمذی میں ہے اس کی سند مقطوع ہے ۔ وہ حدیث یہ ہے کہ: عروۃؓ حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ: اپنی باری میں ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہ پایا چنانچہ میں تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ ’’بقیع‘‘ میں ہیں ۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہیں خوف تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے سمجھا کہ شاید آپ کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔

امام ترمذی یہ حدیث درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ہم حدیث عائشہ کو حجاج کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور امام محمد بن اسماعیل البخاری نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں یحییٰ بن کثیر نے عروہ سے اور حجاج نے یحییٰ بن کثیر سے کوئی حدیث نہیں سنی۔ سنن ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کو مذکورہ سند سے ہی نقل کیا ہے ۔ اور ابو الخطاب کا قول کہ اس کی سند مقطوع ہے کا مطلب ہے کہ اس کی سند دو جگہ سے منقطع ہے ۔ ایک حجاج اور یحییٰ کی طرف سے اور ایک یحییٰ اور عروہ کی طرف سے ۔ یعنی ان دونوں کی آپس میں ملاقات ثابت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔

سنن ابن ماجہ میں روایت ہے کہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات کو عبادت کرو اور آئندہ دن روزہ رکھو اس لئے کہ اس میں غروبِ شمس سے فجر طلوع ہونے تک آسمانِ دنیا میں اللہ تعالیٰ نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا کوئی مغفرت کا طلبگارہے کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی رزق کا طلبگار ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کیا کوئی بیماری میں مبتلا ہے کہ میں اسے شفا دوں؟ کوئی ایسا ہے کوئی ویسا ہے؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔

اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے۔ ابن ابی سبرہ جس کا اصل نام ابو بکر بن عبداللہ بن محمد بن سبرۃ ہے یہ راوی بھی ضعیف ہیں اور ابراہیم بن محمد جو ابن ابی یحییٰ کے نام سے جانے جاتے ہیں اسے بھی جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔

حضرت علی بن ابی طالب کی سند سے ایک اور حدیث مروی ہے کہ:

میں نے رسول اللہ ﷺ کو پندرہویں شعبان کی رات کو دیکھا کہ آپ نے 14 رکعات ادا کیں پھر آپ بیٹھ گئے 14 مرتبہ آپ نے سورۃ فاتحہ پڑھی۔

اس حدیث کے آخر میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے گویا بیس حج مبرور کیے اور بیس سال کے مقبول روزے رکھے ۔ پھر اگر وہ اگلے دن روزہ رکھتا ہے تو اس نے گویا گزشتہ 60 سالوں اور آئندہ 60 سالوں کے روزے رکھ لیے۔ اس روایت کو ابن جوزی ؒ نے اپنی کتاب موضوعات میں درج کیا ہے اور اسے وضعی قرار دیا ہے اور اس کی سند کو تاریک و سیاہ کہا ہے ۔

حضرت علیؓ کے واسطہ سے ایک اور روایت بھی ہے اسے بھی امام جوزیؒ نے موضوعات میں شمار کیا ہے ۔

وہ روایت یہ ہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا :

جس نے پندرہ شعبان کی رات کو 100 رکعات ادا کیں اور ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورۃ فاتحہ اور دس مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھی تو جو شخص ایسی نماز پڑھے گا تو خدا اس کی ہر دعا جو اس نے اس رات کی ہو گی قبول فرما لے گا۔ امام جوزیؒ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ روایت موضوع ہے۔

نصف شعبان کی رات کو چراغاں کرنے کی رسم کے متعلق علامہ ابن دحیہ کا خیال ہے کہ سب سے پہلے یہ رسم یحییٰ بن خالد برمکی کے زمانہ سے شروع ہوئی کہ جب مجوسی اسلام لائے تو انہوں نے عام لوگوں میں ملمع سازی کی باتوں کے ذریعہ یہ رسم پھیلا دی۔ علامہ ابن دحیہ نے اس رسم کا ذکر ملک کامل سے کیا تو انہوں نے تمام شہروں سے اس مجوسی بدعت کا قلع قمع کیا ۔

(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری کتاب الصوم باب صوم شعبان)

حضرت ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں کہ :۔

’’سب سے پہلے چراغاں اور آتش بازی کا مظاہرہ کرنے والے برامکہ تھے جو آتش پرست تھے۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے ملمع سازی کر کے ان رسوم کو دین میں داخل کر دیا ۔ ان کا اصل مقصد آتش پرستی تھا ۔ اس طرح وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر آگ کی طرف رکوع اور سجود کرتے تھے ۔‘‘

(کتاب الصلاۃ باب قیام شہر رمضان فصل الثانی)

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ شرح بخاری میں ’’شب برات‘‘ کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ :۔

’’نصف شعبان کی رات کو چراغاں کرنے کے بارے میں بھی بعض روایات ہیں جو عندالتحقیق وضعی ثابت ہوئی ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ اِس بدعت کا پس منظر ایران کے آتش پرست مجوسیوں کی رسم تھی جو وہ پندرہویں شعبان کو منایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔

اہل عراق کا زردشتیوں کے رسم و رواج سے متاثر ہونا یا اُسے اختیار کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ خود ہمارے ملک میں دیوالی وغیرہ ہندوانہ رسوم اور پیدائش، شادی و غمی وغیرہ کی رسوم سے مسلمان جس قدر متاثر ہیں وہ محتاج بیان نہیں۔ انگریزوں کی حکومت کے زمانہ میں اُن کی تقلید کی جاتی تھی۔‘‘

(شرح بخاری جلد سوم صفحہ 646 زیر عنوان کتاب الصوم باب صوم شعبان)

شب برات کے متعلق ہمیں قرآن کریم اور مستند احادیث سے کوئی ثبوت نہیں مل سکاکہ آنحضرت ﷺ اس دن خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھتے ہوں۔ اس سلسلہ میں جتنی بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں ان کی اسناد ضعیف ہیں۔ اس رات کے ساتھ منسلک کام (حلوہ پکانا، آتش بازی کرنا وغیرہ) جو بڑی دھوم دھام سے کیے جاتے ہیں ان کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے نہیں ملتا۔

ماہ شعبان کے بارہ میں مستند احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اس مہینہ میں کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھا کرتے تھے لیکن آپ نے اپنی امت کو اس مہینہ میں بکثرت نفلی روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ ماہ رمضان کے روزے پوری مستعدی کے ساتھ رکھ سکیں اور ایسا نہ ہو کہ ماہ شعبان میں بکثرت نفلی روزے رکھنے کے نتیجہ میں ماہ رمضان کے فرض روزوں کے سلسلے میں انہیں دشواری ہو۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نصف شعبان کی نسبت فرمایا کہ :۔

’’یہ رسوم حلوا وغیرہ سب بدعات ہیں ۔‘‘

(بدر 26 ستمبر 1907ء صفحہ 7 ،ملفوظات جلد پنجم صفحہ 297)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ جو دن نصف شعبان کاہے جس میں حلوہ سیویاں کھائی جاتی ہیںاور آتش بازی چلائی جاتی ہے آیا کہ اور دنوں سے فضیلت والا ہے یا نہیں؟ حضورؓ نے فرمایا :۔

’’یہ سب باتیں لغو ہیں۔ شریعت میں اس کا کوئی اصل نہیں۔ احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں۔‘‘

(بدر نمبر49,48جلد9،13اکتوبر1910ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ:۔

’’شبرات کی عید ۔گیارہویں۔ بارہ وفات محرم کے معاملاتِ موجود، شرع اسلام میں ثابت نہیں۔‘‘

(بدر نمبر 12جلد9،13جنوری1910ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ کیا شب برات کے روز حلوہ مانڈہ وغیرہ تیار کرنا احمدیوں کے لئے جائز ہے؟ آپ نے فرمایا : ’’نہیں بدعت ہے‘‘

(الفضل30۔اپریل 1954ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ بعض لوگ شب برأت بڑے زوروشور سے مناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس رات اللہ میاں رزق تقسیم کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ حضور ؓ نے فرمایا :۔

’’غلط ہے۔ رزق تو روزانہ تقسیم ہورہا ہے۔ یہ وہم ہیں لوگوں کے ۔غیر احمدی لوگوں کو پاگل بنا رہے ہوتے ہیں یعنی غیر احمدی مولوی ۔اللہ تعالیٰ تو ہر وقت رزق دیتا ہے۔ زمین و آسمان کا رازق ہے۔ سمندر کی تہہ میں کوئی کیڑا نہیں جس کو خدا رزق نہ دے رہا ہو۔ اس کا رزق تو بے انتہا ہے کیا وہ صرف شب برأت پر دیتا ہے۔ باقی راتیں بھوکے مر جاتے ہیں سب، باقی دنوں میں؟ غلط باتیں بنائی ہوئی ہیں لوگوں نے۔‘‘

(لجنہ سے ملاقات۔ الفضل 7جولائی 2000ء ریکارڈنگ 16جنوری 2000ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ