• 24 اپریل, 2024

دبستانِ حیات (قسط دوازدہم و آخر)

دبستانِ حیات
قسط دوازدہم و آخر

سپین ایک نظر میں

یہ ایک بہت ہی خوبصور ت ملک ہے۔دیکھ کر بہت لطف آیا۔ سوچا آپ سب کے لئے چند بنیادی معلومات رقم کردوں ۔شاید کسی بھائی کوکسی بھی رنگ میں فائدہ ہوجائے۔

آ ب وہوا

اس خطہ کی آب وہوا یورپ کے باقی ممالک کی نسبت گرم ہے۔ دسمبر میں بھی اس کا درجہ حرارت بیس کے قریب ہوتا ہے جبکہ دیگر ممالک میں خاصی سردی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ بھر سے سیاح سن باتھ کی تلاش میں یہاں سرگردان نظر آتے ہیں۔

لوگ

اس ملک کا رقبہ 550،990 مربع میل ہے۔

2018 کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 46،72 ملین ہے۔ یہاں کے لوگ بہت ملنسار اور خوش اخلاق ہیں۔ آپ کسی شخص سےکسی مقام کے بارے میں سوال کریں تو ایسےلگتا ہے۔ اس کا دل چاہتا ہے۔ کہ وہ سائل کو منزل مقصود ت پہنچا کر ہی آئے۔

ایک روز خاکسار ڈیالیسز کے لئے قرطبہ میں ایک ڈیالیسز سنٹر میں گیا۔میری اہلیہ بھی میرے ہمراہ تھی۔وہ میرے ساتھ ڈیالیسز روم میں نہیں جاسکتی تھیں۔اس لئے انہیں انتظار گاہ میں ہی بیٹھنا پڑا۔دیگر مریضوں کےعزیز واقارب بھی اس ہال میں بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے۔کیونکہ کافی دیر تک انہیں یہاں بیٹھنا ہوتا ہے ۔اس لئے سامان خوردونوش بھی ساتھ لے آتے ہیں۔پورے ہال میں میری اہلیہ ہی برقعہ پوش تھیں۔لیکن قریب بیٹھی ہوئی فیملیوں نے ان کے ساتھ بہت ہی مروت کا برتاو کیا۔ کھانے پینے کی دعوت دی بلکہ اس پر اصرار بھی کیا۔ یہ بات اس قوم کے خوبصورت اخلاق کی مظہر ہے۔ ہر کوئی آپ کو مسکرا کر ملتا ہے۔ اور ہمیشہ ہی اولا کہہ کر آپ کو سلام کرتا ہے۔اولا سے مراد، انگریزی میں ہیلو ہوتا ہے۔ دوکاندا ر کسی کو اجنبی جان کر داؤ لگانےنے کی کوشش نہیں کرتے۔بلکہ خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔

زبانیں

کہتے ہیں دنیا بھر میں 6500زبانیں بولی جاتی ہیں۔سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان مندارین چینی ہے۔جسے 1،213،000،000 لوگ بولتے ہیں۔افریقہ میں تو بسا اوقات قریبی دیہاتوں کی زبانیں بھی مختلف ہوتی ہیں ۔جو قومیں زیادہ سفر کرتی ہیں انہیں زیادہ زبانیں بولنی آتی ہیں۔

سپین میں پانچ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جن میں سے قتلان اور سپینش زیادہ بولی جاتی ہیں سپین کی نیشنل زبان سپینش ہے۔یہ زبان اٹالین اور فرنچ وغیرہ کے بہت قریب ہے۔اس میں بعض الفاظ تو گیمبیا کی زبان منڈنگا کے بھی ہیں۔ ممکن جن دنوں پرتگال کی مغربی افریقہ میں حکومت تھی۔جس کی وجہ سے حکمران کی زبان کے بعض کلمات ابھی تک وہاں رائج ہوں۔

شادی بیاہ

جن دنوں میں پیڈروآباد نامی گاؤں میں رہائش پزیر تھا۔مجھے ہفتہ میں تین بار ڈیالیسز کے لئے قریبی مرکزی شہر قرطبہ جانا ہوتا تھا۔ڈیالیسز کے شعبہ کی طرف سے میرے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام تھا۔قواعد کے مطابق ہر مریض کے لئے علاج کی خاطر ٹرانسپورٹ کا انتظام مفت کیا جاتا ہے۔میرے لئے ایک ٹیکسی کا انتظام کیا گیا۔ڈرائیور ایک خاتون تھیں۔ اس کے ساتھ اس کا ایک دوست بھی جایا کرتاتھا۔۔لیکن ان کی شادی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ان کا شادی کا کوئی پرگرام تھا۔خاتون نے بتایا کہ وہ گیارہ بہن بھائی ہیں لیکن اب ان بہن بھائیوں میں سے اکثر نے شادی نہیں کی۔اور نہ ان کا کوئی ایسا پروگرام ہے۔اس سے قاری کرام اندازہ کرسکتے ہیں ۔ دور حاضرمیں ان کے ہاںشادی کی کیا اہمیت ہے۔کہتے ہیں کہ آج کل نوجوان نسل شادی کے بندھن سے آزاد ہی زندگی بسر کرنا چاہتی ہے۔اسے ایک قیدتصور کرتی ہے۔

سفری سہولیات

ملک بھر میں نے تیز ٹرینیں چلتی ہیں۔لیکن صرف بڑے شہروں تک سہولت محدود ہے۔بسیں ہر جگہ پہنچتی ہیں۔بسیں خاصی آرام دہ ہیں۔انٹر نیشنل مسافروں کے لئے ہر بڑے شہرمیں ائر پورٹ موجود ہیں۔

مذھب

یہاں مقامی لوگ مذھبا عیسائی ہیں۔لیکن حقیقت یہ کہ بس نام کے عیسائی ہیں۔ عملا لا مذھب ہوچکے ہیں۔ ممکن ہے کبھی سیاسی مفاد کی خاطر دین کا چولہ پہن لیں ۔حقیقت میں ان کا مذھب سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔

یہاں مسلمانوں کی تعداد خاصی محدود ہے۔ جسے آٹے میں نمک کے برابر کہہ سکتے ہیں۔ مسلمان بے چارے یہاں سخت بے چارگی کی حالت میں ہیں ۔جن کی اکثریت افریقن ممالک یا مراکو سے ہے۔ کچھ پاکستانی بھائی بھی ہیں۔جو محنت مزدوری کرکے پیٹ پالتے ہیں۔ ان میں سے خاصی تعداد غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہے۔جو ہر وقت پکڑے جانے کے خوف کا شکار ہیں۔

خوراک

یہاں چاول،مچھلی، دالیں ، سبزیاں بہت ملتی ہیں۔علاوہ ازیں ہر قسم کا گوشت استعمال ہوتا ہے۔ زیتون کا تیل بکثرت استعمال ہوتا ہے۔کھانوں میں نمک بہت کم استعمال کرتے ہیں۔ممکن ہے اگر ان کے علاقہ میں بھی کوئی کھیوڑہ کا پہاڑی سلسلہ مل جاتا تو یہاں کے لوگ بھی نمک کا زیادہ استعمال کرتے۔ مرچ ،تیل اور مصالحوں کا استعمال بہت کم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں ان کے کھانے مزیدار نہیں لگتے جبکہ یہ لوگ اسے بڑی خوشی سے کھاتے ہیں۔یہی وجہ کہ ان کے ہاں بہت کم لوگ فربہ ہوتے ہیں۔

سڑکیں

اس ملک کی سڑکیں بہت زبردست ہیں۔اکثر نئی ہیں ۔ پہلے تو اس ملک کی معاشی حالت خاصی کمزور تھی۔ اس لئے اس غربت کا اثر تو ان کی ہر چیز پر تھا۔لیکن جب سے ان کا الحاق یورپین یونین سے ہوا ۔ان کے حالات خاصے بہتر نظرآرہے ہیں۔مجھے بعض خاصے لمبے سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔اس سفر میں تکلیف یا تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوا ، پہلی بات تو یہ ہے۔ یہاں سڑکوں پر ٹریفک بہت کم ہے، دوسرے سڑکیں بہت عمدہ ہیں ،تیسرے سڑک کی اطراف میں سرسبز دلکش کھیتوں کے پُرفریب نظارے آپ کا ساتھ دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے آپ کو اپنے سفر کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔

صحت

یہاں کے لوگ باقی یورپین اقوام ی طرح سرخ وسفید رنگت کے ہی ہیں۔اکثر لوگ لمبی عمر پاتے ہیں۔ کہتے ہیں ۔اس کا ایک راز تو زیتون کے تیل کا باقاعدگی سے استعمال ہے۔ہاں ایک اور بات بھی میں نے مشاہدہ کی ہے کہ لوگ بہت تیز چلتے ہیں۔اس ملک میں اکثر علاقے نشیب وفراز ہیں اس لئے عام سفر میں بھی کبھی آپ اونچائی کی طرف جاتے ہیں پھر تھوڑی دیر میں اترائی شروع ہوجاتی ہے۔جس کی وجہ سے عام آدمی کو تھکاوٹ کا احساس ہوجاتا ہے۔لیکن مقامی لوگ چونکہ بچپن سے اس کے عادی ہیں اس لئے ان کے جسم قوی اورمضبوط ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان کی نئی نسل غیر صحت مند نظرآتی ہے۔ نوجوان ڈھیلے ڈھالے دکھائی دیتے ہیں ۔ ناک اورکان میں بالیاں وغیرہ ڈالے نظر آتے ہیں۔چہروں پر نشہ آور اشیاء کے اثرات نظر آتے ہیں۔

سمندر

اللہ تعالی نے اس سرزمین کو زرخیز زمینی نعمت کے علاوہ سینکڑوں میل نیلگوں گہرے سمندر سے بھی نواز رکھا ہے۔جس کے ساحل بہت خوبصورت ہیں۔ گرم موسم کی وجہ سے دنیا بھر سے لاکھوں سیاح گرم پانی اور دھوپ کی تلاش میں ادھر کا رخ کرلیتے ہیں۔یہاں ساحل بہت زیادہ خوبصورت ہیں۔جن کے قریب عالیشان مکانات تعمیر ہیں ۔جس سے معلوم ہوتا دنیا بھر سے امیر طبقہ کے لوگوں نے یہاں لطف اندوز ہونے کے لئے آرام دہ مکان تعمیر کر رکھے ہیں۔

معیشت

عام شہری کی آمدایک ہزار یورو سے کم ہے۔ پاکستانی، ہندوستانی اور دیگر اقوام کے لوگ محنت مزدوری کرکے پیٹ پالتے ہیں۔ عام طو پر یہ لوگ بلڈنگ کا کام کرتے ہیں۔پھل توڑتے ہیں یا دیگرمزدوری کے کام کرتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی معاشی تنگدستی کا گلہ کرتا نظر آتا ہے۔ مکان اور ان میں سامان واجبی سا نظر آتا ہے۔جو ان کی حالت زار بیان کردیتا ہے۔

رہائش

کرائے پر مکان کافی سستے ہیں عام سا مکان دوسو یورو سے لے کر چار سو تک مل جاتا ہے۔

اگر آپ مکان خریدنا چاہتے ہیں سستا مکان تیس ہزار یورو تک بھی مل جاتا ہے۔ لیکن مہنگا مکان جتنا گُڑ ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہوگا۔

تاریخی مقامات
قرطبہ کی جامع مسجد

کسی دور میں دنیا کی سب سے بڑی مسجد تھی۔ظالم وقت اور حکمرانوں کی نفرت کی بھینٹ چڑھ کر چرچ میں تبدیل کردی گئی ہے۔اب اس سے اللہ اکبر کی صدا کی بجائے گھنٹوں کی آواز گونجتی ہے۔

الحمراء

یہ ایک بہت ہی خوبصورت محل ہے۔ جو غرناطہ میں ہے۔ یادرہے۔ یہ شہر مسلمانوں کا آخری دارالحکومت تھا۔ اس کی خستہ حالی دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ کھنڈر بتاتے ہیں کہ عمارت حسین تھی۔تاہم اس کے بنانے والوں کے انجام پر بھی افسوس ہوتا ہے۔

مدینۃ الزہراء

یہ بھی گذشتہ ادوار کی ایک نشانی ہے۔جسے ایک بادشاہ عبدالرحمان الثالث نے تاج محل کی طرح اپنی ملکہ زھراء کی یاد میں تعمیر کی تھی۔جس کی تکمیل پر 25 سال لگے۔ ہزارہا سیاح ہر روز اس کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے آتے ہیں۔

قلعے

ملک میں بے شمار قلعے پہاڑیوں پر تعمیر نظر آتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ اپنی عظمت کا اظہار اور حملہ آوروں کے خوف سے بنائے گئے تھے۔لیکن مع الاسف یہ قلعے بھی ان کے کام نہ آسکے۔

لاسر گارد ا فامیلا

بارسلونا میں ایک معروف چرچ ہے۔ چرچ۔ 150 سال سے زیر تعمیر ہے۔کہتے ہیں یہ بھی دنیا کے عجوبات میں شمار ہوتا ہے۔ابھی بھی اس میں کام جاری ہے۔

اہم شہر

سپین کے شہروں،دیہاتو ں اور قصبوں کے ناموں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام عربی ہیں۔ چند معروف شہروں کے نام کچھ یوں ہیں:۔

میڈرڈ، ارسلونا، ویلینسیا، قرطبہ، غرناطہ، ملاگا، المیریا، المرسیہ، ساویہ اور ابیا مشہور شہر ہیں۔

زراعت

اگر چہ یہاں کی زمین زیادہ تر پتھریلی ہے۔لیکن اس کے باوجود بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ اس میں پھلدار درختوں نے رونق لگادی ہے۔

ویلینسا کے علاقہ میں مالٹے کی حکومت ہے۔ایسے معلوم ہوتا کہ ہم سپین کی بجائے سرگودھا کے علاقہ میں ہین۔ میل ہا میل تک مالٹوں کے باغات ہیں۔

قرطبہ وغیرہ کے علاقہ میں زیتون کی بہار ہے۔اسی طرح مرسیہ وغیرہ کی جانب انگور اور انار کی دلکشی نظر آتی ہے۔ الغرض یہ ملک زرعی اعتبار سےامتیازی مقام کا حامل ہے۔اس کی سبزیاں اور پھل دیگر ممالک کے میزوں پر سجتے ہیں۔

آپ کی خدمت میں خاکسار نے حسب توفیق اور حسب ذوق کچھ معلومات رقم کردی ہیں۔امید ہے ۔آپ کو کسی حد تک تو سپین کے بارے میں علم ہو گیا ہوگا۔

قرطبہ۔ ایک گمشدہ فخر

آج ارض سپین کے بہت ہی تاریخی شہر قرطبہ کو دیکھنے کے لئے رخت سفر باندھے تیار بیٹھے ہیں۔اس شہر کےنام نامی کے بارے میں ،اس کرہ ارض پر بسنے والے بیشتر لوگ کسی نہ کسی رنگ میں اس نام سےآشنا اور مانوس ہیں۔ایک مسلمان جب اس شہر کی جانب رخ کرتا ہے تو فطرتی طور پر اس کے قدم بوجھل ہوجاتے ہیَں اور اس کے چہرے پر دکھ درداوریاسیت کے بادل چھا جاتے ہیں۔اورساتھ ہی آنکھوں کے سامنے ایک فلم سی چل پڑتی ہے۔جس میں کئی ادوار پر مشتمل مناظر پردہ سکرین پر نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

آپ کو جبل طارق سے، طارق بن زیاد کی وہ تاریخی تقریر کے االفاظ فضا میں گونجتے محسوس ہوتے ہیں۔کہیں آپ کو گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور تلواروں کی چھنچھناہٹ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

میرے تخیل میں قرطبہ کی جامع مسجد جسے کسی دور میں دنیا بھر کی بڑی مسجد ہونے کا اعزاز تھا۔ اس میں اذان کی صدا گونج رہی ہےاور لوگ عربی لباس میں زیب تن ہیں ۔جن کے قدم جلدی جلدی پکارنے والے کی آواز حی علی الصلوۃ کے جواب کےلئے بے اختیار مسجد کی جانب اٹھ رہے ہیں۔تھوڑی ہی دیر میں اقامت کے بعد امام اللہ اکبر کہتا ہے تو پھر ہر جانب صفوں میں اپنے خالق ومالک کےحضور دستہ بستہ رازونیاز میں لگ جاتے ہیں۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نوازلیکن بدقسمتی سے اب یہ ایک چرچ میں تبدیل ہوچکی ہے۔مسلمانوں کی اس خطہ میں آمد سے اس قوم کی قسمت کاستارہ کچھ یوں چمکا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں سے سر بلند ہونے واال شعاؤں سے دنیا بھر کی مشعلیں روشن ہونا شروع ہوگئیں۔

علم وعرفان کے سمندر
الفضل ما شھدت بہ الاعداء
حقیقی شرف وہ ہوتا ہے کہ جس کا اظہاراغیار کریں

علم دوست، مسلمان حکمرانوں کے سایہ عاطفت میں ایسے گوہر نایاب پیدا ہوئے کہ جن کی فکری،علمی ،تحقیقی اور قلمی کاوشیں اب امر ہوچکی ہیں۔

اپنے تو کیا ،اغیار بھی اس بات کے معترف ہیں ،کہ مسلمان حکمرانوں کے اس سنہری دور میں جو خدمت بنی نوع انسان کی بھلائی اور فلاح و بہبود کی خاطر منصہ شہود پر ظاہر ہوئی ۔وہ بس اپنی مثال آپ ہے۔

اس سنہری دور میں دنیا سے بے خبر علماء کہیں فضا کو مسخر کرنے کے لئے سر جوڑ ےمحو فکر ہیں ،کوئی وقت پر قابو پانے کے لئے گھڑیاں ایجاد کرنے میں مصروف عمل ہے الغرض ہر جانب یہ لوگ مختلف علم ودانش کےخوابوں کو حقیقت کی تعبیر دینے میں شب وروز اپنی اپنی الگ الگ دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں واقعی اس قوم نے اپنا نام پوری دنیا میں نمایاں اور درخشندہ بنالیا۔ لیکن الہی قانون کے مطابق جب ہم ان شرائط پر پورے نہیں اترتے تو پھر پھر تلک الایام نداولھا بین الناس کا الہی ارشاد بھی تو سچا ہے۔ جس سے مفر نہیں۔ کیونکہ تھور کی کاشت سے گلاب کی خوشبوئیں تو فضا کو معطر کرکے داد تحسین نہیں پا سکتی ہیں۔ وہی ہواجو ہونا چاہیے تھا۔اس افق پر ایک اداس سور ج طلوع ہوتا ہے۔اس کے بعد نظارہ بدل جاتا ہے۔مسلمان ارباب اقتدار میں دینی غیرت کا فقدان، محلات کی زیب و زینت میں سامان حرب کی بجائے عیش وعشرت کے سازو سامان، طاؤس ورباب جگہ بنا لیتے ہیں۔ سیف ذوالفقار کی جگہ پازیب کی جھنکار فضا میں گونجنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔حصول اقتدار کے لئے اندرون خانہ منافقت کی گھناؤنی سازشیں درودیوار کا جزو بن جاتی ہیں۔ پھر نتیجہ ظاہر ہے، کہ ایسے کرتوت قوم کو ترقیات کے زینہ سے زوال اور ذلت کی اتھا ہ گہرائیوں میں لے جاتی ہیں۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر بلکہ یقین تھا۔

ناقابل یقین حقیقت

صلیبی طاقتوں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خؒلاف نفرت کینہ اور تعصب کی جو چنگاری صدیوں سےدبی ہوئی سلگ رہی تھی۔ہوا لگنے سے، دیکھتے ہی دیکھتے شعلے کی صورت اختیار کرجاتی ہے صدیوں کی عرق ریزی اور جانفشانی سے سینچا ہوا ،سرسبز وشاداب گلستان پل بھر میں جل کر خاکستر ہوجاتا ہے۔مسلمانوں پر حملے کئے۔ خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی ، شہروں کے درودیوار انسانی خون سے سرخ ہوگئے۔ ان گنت مسلمانوں کو تہہ تیغ کر کے وحشی فطرت نام نہاد انسانوں نے خون کی پیاس بجھائی ہوگی۔

آج کے علم دوست اور علمی میدان میں ترقی کے دعویداروں نے دنیا کی بہترین علمی درس گاہوں کا پامال کرکے رکھ دیا،کتب کے بیش قیمت خزانے جل کر ابدی نیند سوگئے۔چند حروف سپرد قرطاس کردئے تاکہ قاری کو کسی حد تک اس گمشدہ فخر کا ادراک ہوسکے۔ باقی صحیح تصویر تو لیس الخبر کالمعاینۃ کے مصداق ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اپنی آنکھ ہی صحیح تصویر دکھا سکتی ہے۔

ہے دیکھنے کی چیز۔بارسلونا سپین

گذشتہ دنوں ،سپین کے معروف شہر بارسلونا کودیکھنے کا موقع ملا۔اس دوران ملنے والی معلومات احباب کرام کے استفادہ کے لئے پیش خدمت ہیں،شاید کسی کے کام آسکیں۔

اس سفر میں جن احباب کرام کی جانب سےمحبت ،پیار اور تعاون ملا۔ان کے لئے ممنون احسان ہوں۔ ا ورن کے اسماء گرامی اوائل میں ہی رقم کرتاہوں تاکہ وہ آپ کی دعا سے محروم نہ رہیں۔مکرم تنویر بٹ صاحب، مکرم حمید احمد نزیر صاحب،مکرم قیصر احمد صاحب اور مکرم عطاء اللہ صاحب چٹھہ اور ان کے اہل خانہ کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے کمال الفت سے میری میزبانی فرمائی۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء

تعارف شہر

بارسلونا سپین کا ایک معروف شہر ہے۔جو آبادی کے لحاظ سے ملک کا دوسرا بڑاشہر ہے۔ یہ ایک عظیم شہر ہے۔ جودنیا جہان کی نعمتوں سے مالا مال ہے۔ سیر وسیاحت کے بہت سامان ہیں۔مجھے ایک دفعہ ایک دوست نے کہا تھا کہ ساری عمر پنجاب بھی گزاری لیکن بمشکل پیٹ بھر کر روٹی کھائی۔لیکن جب سے کراچی آیا ہوں۔یہاں روٹی کمانا مشکل نہیں ہے۔اس لئے کراچی ایک غریب انسان کے لئے مادر مہربان ہے۔
یہی حال اس شہر کاہے کیونکہ بڑا شہر ہونے کی وجہ سے اس شہر میں سامان روز گار بھی دیہاتی علاقوں کی نسبت قدرے زیادہ ہے۔جس کی وجہ سے لوگ تلاش معاش میں ادھر آکر ڈیرے لگا رہے ہیں۔

ہر چیز جو خوبیوں کا مرقع ہوتی ہے وہاں اس میں کچھ کمی و بیشی بھی ہوتی ہے۔بہر حال کثرت کو کمیت پر ہی فوقیت ہوتی ہی۔اس لئے اگر کسی لحاظ سے بھی کسی منفی پہلو کا ذکر آئے تو اس کے لئے اس شہر کے چاہنے والوں سے معذرت ہے۔اگر ذکر نہ کیا جائے تو پھر بھی نووارد کے لئےمطلوبہ معلومات نہ ملنے پر ان سے کچھ زیادتی ہو جاتی ہے۔

اس شہر کی آبادی1.7ملین ہے۔

یہ قتلان قوم کا اہم مرکز ہے۔جہاں قتلان قوم کے لوگ آئے روز آزادی کے لئے سپینش لوگوں کے ساتھ دست و گریبان رہتے ہیں۔ماضی میں اس شہر کی سر زمین نے ان اقوام کی باہمی قتل وغارت کے نتیجہ میں ہزارہا انسانوں کے خون کو چکھا۔ابھی تک ا س نفرت وعناد کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں جو کسی بھی وقت ایک آتش فشاں کا روپ دھار سکتی ہیں۔

اس شہر کا موسم بہت خوبصورت ہے۔ سردی اور گرمی قابل برداشت ہیں۔لیکن بسا اوقات موسم تھوڑی ہی دیر میں اپنا موڈ بدل لیتا ہے۔اس لئے مناسب کپڑ وں کا اہتمام بہت ضروری ہے۔کہتے ہیں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے اوقات میں فضا خنک آلود ہوتی ہے۔ساحل سمندر پر ہونے کے باعث فضا میں نمی بھی پائی جاتی ہے۔

شہر کا ایک حصہ تو قدیمی تاریخ کا غماز ہے۔بہت سی تعمیرات عربی طرز تعمیر کی منہ بولتی تصاویر ہیں۔باوجود اس کے ان عالیشان عمارات کی آنکھوں کے سامنے بہت سی نسلوں نے جنم لیا اور اوراپنی اگلی منزل کو سدھار گئیں ،مگر یہ عمارات طوالت عمر کے باوجود رعنائیوں سے بھر پور ہیں۔ جو ہر آنے والے کے لئے دیدہ عبرت کے علاوہ دلچسپی کا سامان پیدا کرتی ہیں۔ان میں سے کئی عمارات تو 1500 سو سال تک قدیم ہیں۔جو اس دور کے شہنشاہوں کے ذوق جمیل اور فکر ودانش کی قسمیں کھارہی ہیں۔

چند معروف مقامات
رملہ

ایک معروف سیر گاہ رملہ کہلاتی ہے۔عربی زبان میں رمل ریت کو کہتے ہیں۔اس لئے لگتا ہے کہ یہ نام عرب بادشاہان کی دین ہے۔ جہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاحوں کا ایک جم غفیرہوتا ہے۔· افریقن اقوام سے تلاش معاش میں آئے ہوئے لوگ سڑکوں کے کنارے زمین پر کپڑے بچھا کر چھوٹی چھوٹی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔پاکستانی اور سکھ پنجابی بھائی سائیکل رکشا چلا کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔دیگر اس علاقہ میں بے شمار لوگ ساحل سمند ر کے نظارہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

انٹونی گائو ڈی

یہ ایک معروف آرکیٹیکٹ ہے۔ جس نے چند ایک ایسی یادگیر اور عالیشان عمارت تعمیر کی ہیں۔ جو اس شہر کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ کسی بھی سیاح کا سفرانہیں دیکھے بغیر ادھورا ہ رہ جاتا ہے۔ بالفاظ دگر اس کا نام نامی تاریخ سپین میں امر ہوچکا ہے۔

سر گادگادھا فامیلیا۔ (ترجمہ: مقدس خاندان)

یہ ایک چرچ ہےجو گائوڈی کے ہاتھوں ڈیزائن ہوا ہے۔ جو 150 سال سے زیر تعمیر ہے۔کہتے ہیں یہ دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے۔ اس میں داخلہ کی فیس 27 یورو ہے۔ بقول راو ی یہ چرچ 2032 میں پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔

کاسا میلا

اس چرچ کے قرب جوار میں اسی عظیم آرچیٹیکٹ کی فکرو دانش سے تیار شدہ شاہکار کاسا میلا نامی عمارت ہے۔اس کا لطف دید سے ہے،شنید سے ممکن نہیں۔

قتلان

یہ بارسلونا شہر کا ایک معروف میٹرو اسٹیشن ہے۔جوشہر کا دل کہلاتا ہے اس علاقہ میں ایک معروف پارک ہے جو دیکھنے کے قابل ہے۔جس کے سایہ عاطفت میں خورد وکلاں کے لئے چڑیا گھر،پارلیمنٹ اور میوزیم جیسی تفریح گاہیں اور دیگردلچسپی کے سامان ہیں۔· اس کی ایک جانب ایک خوبصورت قوی ھیکل گیٹ بھی ہے۔ کہتے یہ وہی خونی جگہ ہے جہاں پر ہزارہا انسانی جانیں قومی اور نسلی عفریت کی نفرت کا بھینٹ چڑھ گئیں ۔ یہ بلند وبالا گیٹ انہی کی یاد میں نوحہ خوانی کرتا نظر آتا ے۔لیکن کوئی بھی کسی کے لئے دیدہ عبرت نہ بن پایا۔وہ عفریت آج بھی قوم و نسل،مذھب اور لسانی بہانے تراش کرکےاپنی خونی پیاس کی سیرابی کا انتظام و اہتمام کرتا نظر آتا ہے۔

کہتے ہیں دوسروں کے عبرتناک انجام سے سبق سیکھو ،قبل اس کے کہ لوگ تمہارے انجام سے سبق سیکھیں۔

سیر وسیاحت کے لئے سفری سہولیات

یہاں کی ایک خوبصورت اور سستی سفری سہولت سائیکل رکشا کی سواری ہے ۔ڈیڈھ گھنٹے کے چالیس یورو میں آپ کافی اہم اور تاریخی مقامات دیکھ سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے چلانے والے اکثر و بیشتر پا کستانی اور ہندوستانی ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ ترجمانی کے علاوہ فوٹو گرافی میں بھی ہم جیسے پردیسیوں کے لئےممد و معاون بن سکتے ہیں۔

میٹرو

اس شہر کےباسیوں کے لئے حکومت نے شہر بھر کے پیٹ میں آنتوں کی طرح ٹرین کی پٹڑیوں کا جال بچھا رکھا ہے۔ جو آپ کو کہیں بھی مطلوبہ منزل مقصود تک تھوڑے ہی وقت میں پہنچادیتی ہے۔ ایک سٹیشن سے اگلے سٹیشن تک پہنچنے کے لئے صرف ایک منٹ درکار ہوتاہے۔ اور ہر دو سے تین منٹ تک اگلی گاڑی آپ کو دعوت سفر دے رہی ہوتی ہے۔لیکن بسا اوقات ٹرین میں اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ آپ منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں اوپر کی جانب مونہ کرکے سانس لے سکتے ہیں ۔اس دوران آپ کے سازوسامان کی دیکھ بھال آپ کے قریب ترین موجود جیب تراش کررہے ہوتے ہیں۔اس لئے اس شہر کے بارے میں ہر خاص وعام کی ہدایت یہی ہوتی کہ اپنے سامان کی حفاظت خود کریں۔

کارمالکان کی بے بسی

اس شہر میں کار پارک کا بہت زیادہ فقدان ہے۔اکثر احباب اپنے گھر سے کہیں دور اپنی کار کو پارک کرکے خود بے کار ہوجاتے ہیں ۔ ہفتہ بھر کے بعد وہاں جاکر اپنی کار کی موجودگی کا پتہ کرلیتے ہیں اگر حسن اتفا ق سے گاڑی صحیح و سالم موجود ہو تو کار سے گردو غبار صاف کرکے ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر واپس گھر آجاتے ہیں۔

اسی پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔

حرف آخر

حیاتِ رفتہ ،نشیب وفراز کا ایک دلفریب مجموعہ ہے۔اس گلدستہ میں سے کچھ واقعات و مشاہدات ،عاجز نےصفحہ قرطاس کی زینت بنانے کی ایک سعی لاحاصل کی ہے۔شاید کسی کو زندگی کے کسی موڑ پر ان سے کوئی سبق مل جائے۔انسانی زندگی ایک بڑا حادثہ ہے ،جس کے نتیجہ میں روزانہ ان گنت دیگر حادثات جنم لیتے ہیں۔جن میں سےبیشتر جلد ہی آنکھ اوجھل پہاڑاوجھل کے مصداق پس پردہ چلے جاتے ہیں،لیکن کچھ واقعات و حادثات ایسے بھی ہوتے ہیں جو دل ودماغ میں ایسی جگہ بنالیتے ہیں کہ جتنا بھولنے کی سعی کریں اتنے ہی ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

ایک دفعہ میرے ایک دوست، اپنے ایک سابقہ پروفیسر صاحب کو کہیں ملے۔سلام عرض کی۔پروفیسر صاحب نے تعارف پوچھا۔طالبعلم نے کہا سر آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔میں توآپ کا شاگرد ہوں۔فلاں سال میں آپ کی کلاس میں تھا۔

پروفیسر صاحب نے فرمایا۔تم یہ بتاؤ ،کیا تم کبھی کلاس میں اوّل دوم آئے ہو۔ طالبعلم نے جواب دیا ،نہیں سر۔پروفیسر صاحب نے پھر پوچھا، کیا کبھی کھیلوں کے میدان میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس نے کہا نہیں سر،پھر کہنے لگے،کیا شرارتوں میں نمایاں تھے۔ طالبعلم نے جواب دیا۔ نہیں جناب۔ اس پر پروفیسر صاحب نے کہا۔ دیکھو برخوردار۔ سٹیج پر کام کرنے والوں کوتوسب جانتے ہیں ،لیکن سٹیج پر کام کرنے والے مخاطبین میں سے سوائے چندنمایاں افراد کے کسی کو نہیں جانتے۔ یہی کیفیت ہماری زندگی کے نشیب وفراز میں پیش آنے والے واقعات پر صادر آتی ہے۔اس طرح ایسے واقعات ہمارے دماغوں میں زندہ رہ جاتے ہیں جن کی ہمارے نزدیک کوئی خاص اہمیت ہوتی ہے۔

ایک دفعہ خاکسار سینیگال میں ایک معلم صاحب کے ہمراہ ایک دور افتادہ چند گھرانوں پر مشتمل گاؤں میں گیا۔وہاں ان کے بزرگ جو گاؤں کے امام بھی تھی۔ ان کا رہن سہن بہت ہی سادہ تھا ۔۔ ان سے ملاقات ہوئی۔علیک سلیک کے بعد کچھ بات چیت ہوئی ۔بہت خوش ہوئے۔کہنے لگے میں نے توآپ کی فوٹو لے لی ہے۔اب میں توآپ کو نہیں بھولوں گا۔میں ان کی بات پر بڑا حیران ہوا۔انہوں نے فوٹو کب اور کیسے لی ہے۔ کہنے لگے اللہ تعالی نے جو کیمرہ میری آنکھوں میں نصب کیا ہوا ہے۔اس کے زریعہ سےمیں نے فوٹو لے کر اپنے دماغ میں محفوظ کرلی ہے۔ میں آج تک اس بہت ہی سادہ لوح انسان کی سوچ پر حیران ہوں۔ کس قدر سچی اور گہری بات کی۔بظاہر یہ ایک سادہ سا واقعہ ہے لیکن آج تک میرے د ل و دماغ پر نقش ہے۔

اللہ کرے میری یہ کاوش کسی کے کام آسکے۔ آمین

زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

اے میرے قادرو تواناخدا،میری یہ کاوش قبول فرما۔میرے گناہوں ،کمزوریوں اور خطاؤں سےصرف نظر فرما۔اپنی ستاری فرما،مغفرت کی چادر میں لپیٹ اور انجام بخیر فرما۔ آمین اللھم آمین

(منور احمد خورشید ۔واقفِ زندگی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اپریل 2021