• 25 اپریل, 2024

ظاہری نماز اور روزہ

ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا۔ جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سُکھا دیتے ہیں۔ اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں۔ لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے۔ بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے۔ وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے۔اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا اسی لیے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتا ہے۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیازمندی اور عبودیت پیدا نہیں ہو سکتی جو اصل مقصد ہے۔ اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں۔روح اور جسم کا باہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے …

غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں۔ روح میں جب عاجزی پیدا ہوجاتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں۔اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ420-421 ایڈیشن 1984ء)

پچھلا پڑھیں

گھر سے باہر جانے کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جولائی 2022