اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے تو بخش دوں۔ خاوند کہتا رہا کہ مىرے پاس حسنات بہت کم ہىں بلکہ بالکل ہى نہىں ہىں۔ اب وہ عورت مر گئى ہے خاوند کىا کرے؟ حضرت اقدس نے فرماىا کہ:۔
’’اسے چاہىئے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دىدے۔ اگر اس کى اولاد ہے تو وہ بھى وارثوں سے ہے۔ شرعى حصہ لے سکتى ہے اور علىٰ ہٰذا القىاس خاوند بھى لے سکتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ235، 236 اىڈىشن 1988ء)
’’اىک شخص مثلاََ زىد نام لاولد فوت ہو گىا ہے۔ زىد کى اىک ہمشىرہ تھى جو زىد کى حىن حىات مىں بىاہى گئى تھى۔بہ سبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئى، اپنے بھائى کے گھر مىں رہتى تھى اور وہىں رہى ىہاں تک کہ زىد مر گىا۔زىد کے مرنے کے بعد اس عورت نے بغىر اس کے کہ پہلے خاوند سے باقاعدہ طلاق حاصل کرتى اىک اور شخص سے نکاح کر لىا جوکہ ناجائز ہے۔ زىد کے ترکہ مىں جو لوگ حقدار ہىں کىا ان کے درمىان انکى ہمشىرہ بھى شامل ہے ىا اس کو حصہ نہىں ملنا چاہىے؟
حضرت نے فرماىا کہ: اس کو حصہ شرعى ملنا چاہىے کىونکہ بھائى کى زندگى مىں وہ اس کے پاس رہى اور فاسق ہوجانے سے اس کا حق وراثت باطل نہىں ہو سکتا۔ شرعى حصہ اس کو برابر ملنا چاہىے۔ باقى معاملہ اس کا خداتعالىٰ کے ساتھ ہے ۔۔۔۔۔ اس کے شرعى حق مىں کوئى فرق نہىں آسکتا۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ294 اىڈىشن 1988ء)