• 20 اپریل, 2024

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 18)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 18

اس عنوان کے تحت درج ذىل تىن عناوىن پر حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہىں۔

1۔ اللہ تعالىٰ کے حضور ہمارے کىا فرائض ہىں؟
2۔ نفس کے ہم پر کىا حقوق ہىں؟
3۔ بنى نوع کے ہم پر کىا کىا حقوق ہىں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

غرض انسان جب تک عملى طور پر ثابت نہ کر دىوے کہ وہ حقىقت مىں خدا پر سچّا اور پکّا اىمان رکھتا ہے تب تک وہ فىوض اور برکات حاصل نہىں ہو سکتے جو مقربوں کو مِلا کرتے ہىں۔ وہ فىوض جو مقربانِ الٰہى اور اہل اللہ پر ہوتے ہىں وہ صرف اسى واسطے ہوتے ہىں کہ ان کى اىمانى اور عملى حالتىں نہاىت اعلىٰ درجہ کى ہوتى ہىں اور انہوں نے خدا تعالےٰ کو ہر اىک چىز پر مقدم کىا ہوا ہوتا ہے۔

سمجھنا چاہىئے کہ اسلام صرف اتنى بات کا ہى نام نہىں ہے کہ انسان زبانى طور پر ورد وظائف اور ذکر اذکار کرتا رہے بلکہ عملى طور پر اپنے آپ کو اس حد تک پہنچانا چاہىئے کہ خدا تعالےٰ کى طرف سے تائىد اور نُصرت شامل حال ہونے لگے اور انعام و اکرام وارد ہوں۔ جس قدر انبىاء اولىاء گزرے ہىں ان کى عملى حالتىں نہاىت پاک صاف تھىں اور ان کى راستبازى اور دىانتدارى اعلىٰ پاىہ کى تھى اور ىہى نہىں کہ جىسے ىہ لوگ احکام الٰہى بجا لاتے ہىں اور روزے رکھتے اور زکوٰتىں ادا کرتے ہىں۔ اور نمازوں مىں رکوع سجود کرتے اور سورہ فاتحہ پڑھتے ہىں وہ بھى پڑھتے تھے اور احکام الٰہى بجا لاتے تھے بلکہ ان کى نظر مىں تو سب کچھ مُردہ معلوم ہوتا تھا اور ان کے وجودوں پر اىک قسم کى موت طارى ہو گئى تھى۔ ان کى آنکھوں کے سامنے تو اىک خدا کا وجود ہى رہ گىا تھا۔ اسى کو وہ اپنا کارساز اور حقىقى ربّ ىقىن کرتے تھے۔ اسى سے ان کا حقىقى تعلق تھا اور اسى کے عشق مىں وہ ہر وقت محو اور گداز رہتے تھے۔

جب اىسى حالت ہو تو قدىم سے ىہ سنّت اللہ ہے کہ اىسے شخص کى خدا تعالےٰ تائىد اور نصرت کرتا ہے اور غىبى طور پر اسے مدد دىتا ہے اور ہر اىک مىدان مىں اُسے فتح نصىب کرتا ہے۔ دىکھو مذہب اسلام مىں ہزاروں اولىاء گزرے ہىں۔ ہر اىک ملک مىں اىسے چار پانچ لوگ تو ضرور ہى ہوتے ہىں جن کو اس وقت تک لوگ بڑى عزّت سے ىاد کرتے ہىں اور ان کے مجاہدات اور کرامات کا عجىب عجىب طرح سے تذکرہ کرتے ہىں اور دہلى کا تو اىک بڑا مىدان اسى قسم کے بزرگوں سے بھرا پڑا ہے۔

غرض سوچنا چاہىئے کہ اگر انسان اىک ڈاکو اور چور سے دلى محبت رکھے تو اگر وہ چور زىادہ احسان نہ کرے گا تو اتنا تو ضرور کرے گا کہ اس کى چورى نہ کرے گا۔ تو اب سمجھنا چاہىئے کہ جب محبت کرنے سے چوروں اور ڈاکوؤں سے بھى فائدہ پہنچ سکتا ہے تو کىا خدا سے فائدہ نہىں ہوتا؟ ہوتا ہے اور ضرور ہوتا ہے کىونکہ خدا تو بڑا رحىم کرىم اور بڑے فضلوں اور احسانوں والا ہے۔ جو لوگ کرموں اواگون اور جُونوں کى راہ لئے بىٹھے ہىں مىرا ىقىن ہے کہ ان کو اس راہ کا خىال تک بھى نہىں۔

جب محبت کے ثمرات اسى دنىا مىں پائے جاتے ہىں اور جب اىک شخص کو دوسرے سے سچى اور خالص محبت ہوتى ہے تو وہ اس سے کوئى فرق نہىں کرتا۔ تو کىا خدا ہى اىسا ہے کہ جس کى دوستى کسى کام نہىں آتى؟ وہ لوگ قابل الزام ہىں جو خدا کو شرمناک الزاموں سے ىاد کرتے ہىں۔ مثلاً ہندوؤں اور آرىوں مىں دائمى مکتى نہىں۔ وہ کہتے ہىں کہ مکتى خانہ مىں داخل کرتے وقت اىک گناہ پرمىشر باقى رکھ لىتا ہے اور پھر اىک وقت کے بعد اس اىک گناہ کے عوض مىں ان رِشىوں مُنىوں اور مکتى ىافتوں کو گدھوں، بندروں اور سُؤروں وغىرہ کى جُونوں مىں بھىجتا ہے مگر اس پر سوال ىہ پىدا ہوتا ہے کہ اگر پرمىشر ان مقدسوں پر ناراض تھا اور جان بُوجھ کر اُن کو مکتى خانہ سے نکالنا چاہتا تھا۔ تو پھر پہلے ہى ان کو مکتى خانہ مىں کىوں داخل کىا؟

(ملفوظات جلد10 صفحہ38۔40 اىڈىشن 1984ء)

تم قال اللّٰہ اور قال الرسُول پر عمل کرو اور اىسى باتىں زبان پر نہ لاؤ جن کا تمہىں عِلم نہىں۔ خدا تعالےٰ فرماتا ہے وَ لَا تَقۡفُ مَا لَىۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ (بنى اسرائىل: 37) تم نىکى کى طرف پورے زور سے مشغول ہو جاؤ۔ اور اعمال صالحہ بجا لاؤ۔ اگر تمہارى حالت اس لائق ہو گئى اور تم نے پُورے طور پر اپنا تزکىہ نفس کر لىا تو پھر خدا تعالىٰ کے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بھى حاصل ہو سکتا ہے۔ اکثر لوگ آجکل ہلاک ہو رہے ہىں۔ ان کى ىہى وجہ ہے کہ وہ اپنى حالت کا مطالعہ نہىں کرتے اور اس تعلق کو نہىں دىکھتے جو وہ خدا تعالىٰ سے رکھتے ہىں اور نہىں سوچتے کہ کس زور سے خدا تعالےٰ کى طرف جا رہے ہىں اور کىسے کىسے مصائب آنے پر ثابت قدم نِکلے ہىں اور اِبتلاؤں مىں پُورے اُترے ہىں۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ14 اىڈىشن 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

الہام۔ کشف ىا رؤىا تىن قسم کے ہوتے ہىں۔

 اوّل وہ جو خدا کى طرف سے ہوتے ہىں اور وہ اىسے شخصوں پر نازل ہوتے ہىں جن کا تزکىہ نفس کامل طور پر ہوچکا ہوتا ہے اور وہ بہت سى موتوں اور محوىت نفس کے بعد حاصل ہوا کرتا ہے اور اىسا شخص جذبات نفسانىہ سے بکلى الگ ہوتا ہے اور اس پر اىک اىسى موت وارد ہو جاتى ہے جو اس کى تمام اندرُونى آلائشوں کو جلا دىتى ہے جس کے ذرىعہ سے وہ خدا تعالىٰ سے قرىب اور شىطان سے دُور ہو جاتا ہے۔ کىونکہ جو شخص جس کے نزدىک ہوتا ہے اسى کى آواز سُنتا ہے۔

 دوسرے حدىث النفس ہوتا ہے جس مىں انسان کى اپنى تمنّا ہوتى ہے اور انسان کے اپنے خىالات اور آرزوؤں کا اس مىں بہت دخل ہوتا ہے اور جىسے مثل مشہور ہے بلّى کو چھىچھڑوں کى خوابىں وہى باتىں دکھائى دىتى ہىں جن کا انسان اپنے دل مىں پہلے ہى سے خىال رکھتا ہے اور جىسے بچّے جو دن کو کتابىں پڑھتے ہىں تو رات کو بعض اوقات وہى کلمات ان کى زبان پر جارى ہو جاتے ہىں ىہى حال حدىث النفس کا ہے۔

 تىسرے شىطانى الہام ہوتے ہىں۔ ان مىں شىطان عجىب عجىب طرح کے دھوکے دىتا ہے۔ کبھى سنہرى تخت دکھاتا ہے اور کبھى عجىب و غرىب نظارے دکھا کر طرح طرح کے خوش کُن وعدے دىتا ہے۔ اىک دفعہ سىّد عبدالقادر رحمۃ اللہ علىہ کو شىطان اپنے زرّىن تخت پر دکھائى دىا اور کہا کہ مىں تىرا خدا ہوں۔ مىں نے تىرى عبادت قبول کى۔ اب تجھے عبادت کى ضرورت نہىں رہى۔ جو چىزىں اب اوروں کے لئے حرام ہىں۔ وہ سب تىرے لئے حلال کر دى گئى ہىں۔ سىّد عبد القادر رحمۃ اللہ علىہ نے جواب دىا کہ دُور ہو اے شىطان جو چىزىں آنحضرت صلے اللہ علىہ وسلم پر حلال نہ ہوئىں وہ مجھ پر کىسے حلال ہو گئىں؟ پھر شىطان نے کہا کہ اے عبد القادر تُو مىرے ہاتھ سے علم کے زور سے بچ گىا ورنہ اس مقام پر کم لوگ بچتے ہىں۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ11۔12 اىڈىشن 1984ء)

ہمارى جماعت کے مولوى عبد اللہ صاحب تىماپورى اپنے خطوط کے ذرىعہ سے بہت کچھ الہامات اور کشوف لکھا کرتے تھے۔ آخر نتىجہ ىہ ہوا کہ چند دنوں کے بعد ان کو جنون ہوگىا۔ تھوڑے دن گزرے ہىں کہ قادىان مىں آکر اىسے الہامات سے انہوں نے توبہ کى اور نىز مىرى بىعت کى۔ مىں مانتا ہوں کہ مکالمات الٰہىہ حق ہىں اور خدا تعالىٰ کے اولىاء مخاطبات اللہ سے شرف پاتے ہىں۔ لىکن ىہ مقام بغىر تزکىہ نفس کے کسى کو حاصل نہىں ہوسکتا۔ اور بغىر تزکىہ نفس کے شىطان ان سے ىارى کرتا ہے۔ علاوہ اس کے سچے الہام کے لئے ہم پر تىن گواہ ہوئے ہىں۔ (1) اپنى پاک حالت (2) خدا تعالىٰ کے نشانوں کے ساتھ گواہى (3) الہام کى کلام الٰہى سے مطابقت۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ13 اىڈىشن 1984ء)

بنى نوع کے ہم پر حقوق

حضرت اقدس نے آرىوں کى بدزبانى کو دىکھ کر پہلے ہى اىک مضمون مىں فرماىا تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ ہمارى صُلح کس طرح ہو سکتى ہے چنانچہ وہ الفاظ کتاب ’’قادىان کے آرىہ اور ہم‘‘ مىں اس طرح چھپے تھے:
’’ہمارى شرىعت صُلح کا پىغام ان کو (آرىوں کو) دىتى ہے اور ان کے ناپاک اعتقاد جنگ کى تحرىک کر کے ہمارى طرف تىر چلا رہے ہىں۔ ہم کہتے ہىں کہ ہندوؤں کے بزرگوں کو مکّار اور جُھوٹا مت کہو۔ مگر ىہ کہو کہ ہزارہا برسوں کے گزرنے کے بعد ىہ لوگ اصل مذہب کو بُھول گئے۔ مگر بمقابل ہمارے ىہ ناپاک طبع لوگ ہمارے برگزىدہ نبىوں کو گندى گالىاں دىتے ہىں اور ان کو مفترى اور جُھوٹا سمجھتے ہىں۔ کىا کوئى توقع کرسکتا ہے کہ اىسے بندوں سے صُلح ہو سکے؟ ان لوگوں سے بہتر سناتن دھرم کے اکثر نىک اخلاق لوگ ہىں جو ہر اىک نبى کو عزّت کى نگاہ سے دىکھتے اور فروتنى سے سر جُھکاتے ہىں۔ مىرى دانست مىں اگر جنگلوں کے درندے اور بھىڑىئے ہم سے صُلح کر لىں اور شرارت چھوڑ دىں تو ىہ ممکن ہے مگر ىہ خىال کرنا کہ اىسے اعتقاد کے لوگ کبھى دل کى صفائى سے اہلِ اسلام سے صلح کرىں گے سراسر باطل ہے۔ بلکہ ان کا ان عقىدوں کے ساتھ مسلمانوں سے سچى صلح کرنا ہزاروں محالوں سے بڑھ کر محال ہے۔ کىا کوئى سچا مسلمان برداشت کرسکتا ہے جو اپنے پاک اور بزرگ نبىوں کى نسبت ان گالىوں کو سُنے اور پھر صلح کرے۔ ہرگز نہىں۔ پس ان لوگوں کے ساتھ صلح کرنا اىسا ہى مُضر ہے جىسا کہ کاٹنے والے زہرىلے سانپ کو اپنى آستىن مىں رکھ لىنا۔ ىہ قوم سخت سىاہ دل قوم ہے جو تمام پىغمبروں کو جو دنىا مىں بڑى بڑى اصلاحىں کر گئے مفترى اور کذّاب سمجھتے ہىں۔ نہ حضرت موسىٰؑ ان کى زبان سے بچ سکے نہ حضرت عىسىٰؑ اور نہ ہمارے سىّد و مولا جناب خاتم الانبىاء صلے اللہ علىہ وسلم جنہوں نے سب سے زىادہ دنىا مىں اصلاح کى۔ جن کے زندہ کئے ہوئے مُردے ابتک زندہ ہىں۔‘‘

اس کے بعد جبکہ اخباروں مىں بہت شور مچا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمىان صلح ہونى چاہىئے تب حضرت صاحب نے لىکچر لاہور مىں صلح کى اىک تجوىز پىش کى جس کے الفاظ ىہ تھے:
’’ہم اس بات کا اعلان کرنا اور اپنے اس اقرار کو تمام دنىا مىں شائع کرنا اپنى اىک سعادت سمجھتے ہىں کہ حضرت موسىٰ علىہ السّلام اور حضرت عىسىٰ علىہ السّلام اور دُوسرے نبى سب کے سب پاک اور بزرگ اور خدا کے برگزىدہ تھے۔ اىسا ہى خدا نے جن بزرگوں کے ذرىعہ سے پاک ہداىتىں آرىہ ورت مىں نازل کىں اور نىز بعد مىں آنے والے جو آرىوں کے مقدس بزرگ تھے جىسا کہ راجا رامچندر اور کرشن۔ ىہ سب کے سب مقدس لوگ تھے اور ان مىں سے تھے جن پر خدا کا فضل ہوتا ہے۔

دىکھو ىہ کىسى پىارى تعلىم ہے جو دنىا مىں صلح کى بنىاد ڈالتى ہے اور تمام قوموں کو اىک قوم کى طرح بنانا چاہتى ہے ىعنى ىہ کہ دوسرى قوموں کے بزرگوں کو عزت سے ىاد کرو۔ اور اس بات کو کون نہىں جانتا کہ سخت دشمنى کى جڑ ان نبىوں اور رسولوں کى تحقىر ہے جن کو ہر اىک قوم کے کروڑہا انسانوں نے قبول کر لىا۔ اىک شخص جو کسى کے باپ کو گندى گالىاں دىتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس کا بىٹا اس سے خوش ہو۔ ىہ کىونکر ہو سکتا ہے؟

غرض ہم اس اصول کو ہاتھ مىں لے کر آپ کى خدمت مىں حاضر ہوئے ہىں کہ آپ گواہ رہىں جو ہم نے مذکورہ بالا طرىق کے ساتھ آپ کے بزرگوں کو مان لىا ہے کہ وہ خدا کى طرف سے تھے اور آپ کى صلح پسند طبىعت سے ہم امىدوار ہىں کہ آپ بھى اىسا ہى مان لىں ىعنى صرف ىہ اقرار کر لىں کہ آنحضرت صلے اللہ علىہ و سلم خدا تعالےٰ کے سچے رسُول اور صادق ہىں۔

جس دلىل کو ہم نے آپ کى خدمت مىں پىش کىا ہے وہ نہاىت روشن اور کُھلى دلىل ہے۔ اور اگر اس طرىق سے صُلح نہ ہو تو آپ ىاد رکھىں کہ کبھى صُلح نہ ہو گى بلکہ روز بروز کینے بڑھتے جاوىں گے۔‘‘

(بدر جلد6 نمبر52 صفحہ4-5 مؤرخہ 26 دسمبر 1907ء)

(ترتىب و کمپوزڈ: عنبرىن نعىم)

پچھلا پڑھیں

آیئے! ہمارے دروازے آپ کےلیے کھلے ہیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 نومبر 2021