• 20 اپریل, 2024

جنیوا میں انٹر نیشنل ریفیوجی فورم کا اجلاس

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے UNHCR یونائیٹڈ نیشن ہائی کمیشن برائے مہاجرین کا مرکزی دفتر جنیوا سویٹزرلینڈ میں ہے۔ ان کا اصل کام خانہ جنگی،سیاسی و مذہبی حالات کی خرابی کے نتیجہ میں نقل مکانی پر مجبور عوام کی آباد کاری میں اُن کی مدد کرنا ہے۔ اس وقت دنیا میں نقل مکانی پر مجبور عوام کی تعداد 70 ملین سے زائد ہے۔ ان میں کم و بیش 30 ملین وہ ہیں جو مختلف ممالک کی سرحدوں پر خیمہ جات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اُن کی دیکھ بھال اور ضروریات کو مہیا کرنا UNHCR کی ذمہ داری ہے۔ 40 سال قبل افغانستان میں خانہ جنگی کے بعد متاثرین ملک بدر ہونے شروع ہوئے اور اب تک لوگ وہاں سے نکل کر سیاسی پناہ گاہ کے متلاشی ہیں۔ 4.6 ملین افغانیوں نے نئے گھر کی تلاش میں اپنا وطن چھوڑا۔ ان میں 2.7 ملین اقوام متحدہ کے سسٹم میں رجسٹرڈہیں۔ سال ہا سال خیمہ بستیوں میں رہنے کے بعد ان کی اکثریت ایران اور پاکستان میں مستقل بنیادوں پر آباد ہو گئی ہے۔ UNHCR ان کو واپس افغانستان بھجوانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن جب تک وہاں امن نہ ہو اقوام متحدہ کی کوششوں کا کامیابی سے ہمکنار ہونا ممکن نہیں۔ شام۔ لیبیا اورعراق میں ہونے والی خانہ جنگی کے متاثرین کی ایک تعداد یورپ آنے میں کامیاب ہوگئی لیکن ایک بڑی تعداد اب بھی لبنان اور ترکی میں UNHCR کے خیمہ جات میں زندگی بسر کررہی ہے۔ جس کا کوئی مستقل حل بظاہر سامنے نہیں آرہا۔ جن ممالک میں یہ مہاجرین کیمپس میں زندگی گزار رہے ہیں اُن ممالک کی حکومتوں پر پڑنے والا بوجھ اُن کی استطاعت سے بڑھ چکا ہے۔ سنٹرل امریکہ کے شمالی ممالک EL-SALVADOR-HONDURAS-GUATEMALA-NICARAGUA میں بڑھتے ہوئے کرائم ۔ ڈرگ مافیا کے خوف کی وجہ سے 8 لاکھ افراد نئی جگہ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ 4لاکھ ستر ہزار بارڈر کراس کرکے ہمسایہ ملکوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں جبکہ تین لاکھ بیس ہزار اپنے ہی ملکوں میں نئی پناہ کی تلاش میں ہیں۔ کولمبیا میں 16 لاکھ Venezuela کے شہری خراب اقتصادی حالات کی وجہ سے آئے بیٹھے ہیں۔ یوگنڈا میں افریقن مہاجرین کی تعداد 13 لاکھ بتائی جاتی ہے جن میں 60 فیصد بچے ہیں۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جن کو UNHCR کی نگرانی میں نگہداشت مہیاہے۔ کشتیوں کے ذریعہ اٹلی کے ساحلوں پر پناہ گزینوں کا اترنا اب روز کا معمول ہے جن کو یورپین ممالک بالآخر اپنے ہاں پناہ دے ہی دیتے ہیں۔

دو سال قبل سات افریقن ممالک Djibouti، ایتھوپیا، کینیا، صومالیہ، سوڈان، یوگنڈا اور جنوبی سوڈان نے ایک معاہدہ کرکے IGAD کے نام سے ادارہ قائم کیا تھا۔ انٹر گورنمنٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے ایک اسکین ترتیب دی جس کی پابندی ساتوں ملکوں کی حکومتوں نے کرکے آباد کاری کے کام کو سہل بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 2018ء کے اجلاس میں UNHCR نے ممبر ممالک سے یہ اپیل کی کہ کیمپوں میں پڑے مہاجرین کی نسلیں انہی کیمپوں میں جوان ہو رہی ہیں۔ نہ تو ان کو تعلیم مل رہی ہے جو اُن کا حق ہے۔ صحت کے مسائل اپنی جگہ۔ نامناسب خوراک ۔ پابندیوں میں زندگی ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ حالات کے ہاتھوں تنگ ہو کر نقل مکانی اب ایک مستقل موضوع ہے۔ جس کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا مستقل حل آباد کاری کی صورت میں نکالنا ضروری ہے۔ چنانچہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ UNHCR اس حوالے سے ایک انٹر نیشنل کانفرنس منعقد کرے گا اور خیموں میں زندگی بسر کرنے والوں کی آباد کاری کا کوئی مستقل حل تلاش کیا جائے گا۔

ایک سال کی تیاری کے بعد مہاجرین کی آباد کاری کےلئے پہلا گلوبل فورم 16 تا 18 دسمبر جنیوا میں اقوام متحدہ کی بلڈنگ میں ہوا جس کے انعقاد میں سوئٹزرلینڈکی حکومت نے بھرپور تعاون کیا۔ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین کی کوشش تھی کہ اس کانفرنس کو بہت ہائی لیول پر منعقد کیا جائے اور سربراہان حکومت اس میں شامل ہوں۔ گلوبل فورم میں 400 ڈیلی گیشن شامل ہوئے لیکن سربراہان حکومت میں سے COSTA RICA کے صدر، پاکستان کے وزیر اعظم اور ایتھوپیا کے ذپٹی پرائم منسٹر شامل ہوئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور ہائی کمشنر برائے مہاجرین بھی گلوبل فورم میں ہمہ وقت موجود رہے ۔ باقی دنیا کے ممالک سے وزیر، ڈپٹی وزیر۔ اور اکثر کے سفراء نے اپنے ممالک کی نمائندگی کی۔ جرمن وزیر خارجہ ایک بڑے وفد کے ساتھ کانفرنس کا حصہ تھے۔ خواتین میں ترکی کی خاتون اول اور ابو ظہبی کی شہزادی نے بھی شرکت کی۔
16 دسمبر کو غیر سرکاری دن تھا جس میں NGO’s نے اپنے اپنے اجلاس رکھے ہوئے تھے۔ کام کی تفصیلات کے علاوہ راہ میں حائل مشکلات اور حکومتوں سے تعاون و عدم تعاون دونوں کا ذکر تھا۔ اس رو ز کےلئے فرانس کی حکومت۔ فرانس کی ریلوے ۔ یو این ریفیوجی ایجینسی۔ UNHCR نے پیرس سے ایک اسپیشل ٹرین چلائی تھی۔ جو بیلجیم سے ہوتی ہوئی اور جگہ جگہ سے پناہ گزینوں کو لیتی ہوئی 16 دسمبر کی صبح جنیوا کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے ٹرین کے مسافروں کا بھر پور استقبال کیا۔ ریلوے اسٹیشن کو بھی خوب آراستہ کیا گیا تھا۔پہلے روز کے اختتام پر ٹرین میں ساتھ آنے والے فٹ بال کھلاڑیوں جو کہ پناہ گزین بن کر فرانس اور بیلجیئم آنے اور اب وہاں کے مشہور فٹ بال کلبوں میں کھیل رہے ہیں اُن کا نمائش میچ سوئٹز ر لینڈ کی ٹیم کے ساتھ ہوا۔

17 نومبر کو صبح 10 بجے گلوبل فورم کا افتتاحی اجلاس ہوا۔ جس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پوری دنیا سے اپیل کی کہ کیمپوں میں زندگی بسر کرنے والوں کو ایک آزاد شہری کی لائف گزارنے کے قابل بنانے کےلئے حکومتیں نیشنل پلاننگ میں مہاجرین کی آبادکاری کو شامل کریں۔ مہاجرین کےلئے تمام نیشنل سروسز کے دروازے کھولے جائیں تا وہ ملازمتیں اختیار کرکے زندگی گزار سکیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اُردن میں ایک لاکھ 60 ہزار ملک شام کے مہاجرین کو ورک پرمٹ جاری کئے ہیں۔ ایک لاکھ 40 ہزار شامی بچے اردن کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ ایک ایسا اسکول بھی چلا رہی ہے جس میں 60 قومیتوں کے 7 ہزار 500 بچے زیر تعلیم ہیں۔ ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے افتتاحی اجلاس میں بتایا کہ مسلمان ممالک رمضان کے دوران ایک بلین ڈالر زکوۃ دیتے ہیں۔ وہ زکوۃ UNHCR کو دی جائے تو وہ صرف مسلمان پناہ گزینوں پر خرچ کی جائے گی۔ ہم نے زکوۃ فنڈ قائم کیا ہے جس کو شر یعت کے مطابق چلا یا جا رہا ہے۔ اس فنڈ میں 40 ملین ڈالر آئے تھے وہ یمن۔ لبنان۔ عراق۔ مصر۔ اُردن اور بنگلہ دیش پر خرچ کئے گئے ۔ ترکی میں 3.7 ملین ملک شام کے پناہ گزین ہیں۔ ان میں 1.8 ملین اسکول جانے کی عمر کے بچے ہیں۔ 6 لاکھ 80 ہزار کو اسکولوں میں داخلہ دلوایا گیا۔ اگر یہ کام اقوام متحدہ کے اداروں کی بجائے ملکوں کی نیشنل پالیسی کاحصہ ہو تو مہاجرین اپنے پاوْں پر جلد کھڑے ہوجائیں۔ جرمن وزیر خارجہ کی تقریر کو بے حد پذیرائی ملی۔ اُنہوں نے صاف صاف الفاظ میں کہا کہ یہ مسئلہ حل نہ ہوگا کیونکہ انٹرنیشنل کمیونیٹی نے متحد ہو کر ایک مرکزی نقطہ کے حل کے لئے آج تک حل تلاش نہیں کیا۔ شام،افغانستان اور صومالیہ میں انسانوں پر جو گزری ہم اسکے حل کے لئے اجتمائی سوچ نہیں رکھتے۔ مستقبل میں موسمی تغیرات کے نتیجہ میں مجبوری کے باعث انسانوں کی ایک بڑی نقل مکانی کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ لیکن ہم نے مسئلہ کو جاننے کے باوجود اس کے سد باب پر سوچنا شروع نہیں کیا۔

جن ممالک نے بے گھر افراد کا بوجھ اُٹھایا ہوا ہے اُن کی مدد کےلئے بھی ہماری سوچ میں فرق پایا جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم عالمی طور پر ہمدردی کرنے کے کرائسز سے گزر رہے ہیں۔ جن دس ممالک نے مہاجرین کی مدد کا بوجھ برسوں سے اُٹھایا ہوا ہے اُن میں سے 9 ممالک کم آمدنی والے ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ صرف ایک جرمنی صنعتی ملک ہے۔ اقوام متحدہ کے 193 ممالک میں سے 20 فیصد نے 70 ملین مہاجرین کا بوجھ اٹھا یا ہوا ہے۔ جنیوا میں ہونے والا یہ پہلا انٹر نیشنل ریفیوجی فورم سب ممالک کو متوجہ کرنے کےلئے ہے۔ کیونکہ ہم سب سے جنیوا کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اس فورم سے دنیا کی حکومتوں کو یہ پیغام جانا چاہیئے کہ ہم سب کو در بدر ہونے والے انسانوں سے ایک جیسی ہمدردی ہونی چاہیئے۔ ہم سب کو پناہ دینے والوں کے ساتھ ایک جیسا تعاون کرنا چاہیئے۔ ہمیں فوکس کرنا ہے کہ انسانوں کو در پیش اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کیا نئی تبدیلیاں بروے کار لائی جائیں ۔ جرمنی دوسرا بڑا امداد دینے والا ملک ہونے کے ناطے تجویز کردہ حل کا خیر مقدم کرے گا اور اپنی ذمہ داری نبھائے گا۔ ہمیں پاکستان۔ ایتھوپیا، COSTA RICA، ترکی،افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے اُن ممالک جنہوں نے مہاجرین کی مدد کی صرف تکریم ہی نہیں کرنی بلکہ اُن کی ضروریات پوری کرنے میں عملی مدد کرنا ہے۔ جس طرح یورپی یونین نے ترکی کو 6 بلین یورو کی مدد کی ہے۔ اسی طرح ریجنل بلا ک بناکر مدد فراہم کی جائے۔ وہ مہاجرین جن کے اپنے گھروں کو واپس جانے کے امکانات محدود ہو چکے ہیں اُنکو اپنے ہاں آباد کرنے کی حامی صرف 25 ممالک نے بھری ہے۔ جرمنی 2020 ء میں 5500 آباد کاری کے سینٹر بنانے کا پروگرام شروع کرے گا۔ اس کے علاوہ 6 سال میں جرمنی نے UNHCR کو 1.6 بلین یورو کی مدد دی ہے۔ دو روز میں بیس سے زیادہ ورکنگ گروپس میں مسائل اور اُن کے حل پر گفت و شنید جاری رہی۔ جن نئے کاموں کے کرنے کی حامی بھری گئی اُن میں کینیڈا نے امیگریشن کے نئے راستے کھولنے اور بچوں کے تعلیمی اخراجات ادا کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ 35 ممالک کے 5 لاکھ خاندانوں کو آباد کروانے کےلئے ورلڈ بنک اور 13 این جی اوز پلان بنائیں گے۔ فورم میں اُن 80 نوجوانوں کو خصوصی طور پر مدعو کرکے مکالمہ کروایا گیا جنہوں نے یورپ میں سیاسی پناہ لی اور اب کامیاب بزنس مین ہیں۔ حاضرین کو UNHCR کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا کہ ایک میمورنڈم تیار کیا گیا ہے جس پر دنیا کے بڑے شہروں کے مئیر صاحبان دستخط کریں گے۔ اس میمورنڈم کا مقصد اُن کے شہر میں موجود پناہ گزینوں سے ہمدردی اور پیار کے سلوک کی یقین دہانی اور یاددہانی کروانا ہے۔ اب تک 236 میئر صاحبان اس پر دستخط کرچکے ہیں۔ گلوبل فورم کے انعقاد کا مقصد مستقل بنیادوں پر پلاننگ کرنا تھا۔ جس کی کمی محسوس کی جارہی تھی۔

(عرفان احمد خان۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

نیکی کی جزا

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ